حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
زمانِ ظہور میں امام عصر علیہ السلام کے قاضیوں کے فیصلے

زمانِ ظہور میں امام عصر  علیہ السلام کے قاضیوں کے فیصلے

دنیا میں عدالت کا رواج اور ظلم وستم کا خاتمہ صرف اس صورت میں ہوسکتا ہے کہ جب ظہور کے پر نور زمانے میں قاضیوں کی قضاوت بھی حقیقت اور واقعیت کی بناء پر ہو نہ کہ ظاہر کی بناء پر ۔یہ اس صورت میں ہوسکتا ہے کہ جب حقیقت و واقعیت کو درک کرنے کے لئے قاضیوں کے پاس دلیل و گواہ کے علاوہ اور راستہ بھی ہو۔

روایات سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت بقیة اللہ الاعظم(عج)   کی حکومت میں نہ صرف امام زمانہ علیہ السلام کو گواہوں اور دلائل کی ضرورت نہیں ہوگی بلکہ ان کی طرف سے بنائے گئے اور معین قاضیوں کو بھی غیبی امداد حاصل ہوگی۔وہ بھی دلیل و گواہ سے بڑھ کر دوسرے امور سے سرشار ہوںگے۔جو کبھی بھی جھوٹی قسم اور جھوٹے گواہوں  کی چال بازیوں اور مکاریوںمیں گرفتار نہیں ہوں گے۔کیونکہ وہ پوری دنیا میں عدل و انصاف کے قیام  اور ظلم و جور کا قلع قمع کرنے پر مأمور ہوں گے۔

روایات میں اس حقیقت کی تصریح ہوئی ہے کہ ظہور کے درخشاں زمانے میں قاضیوںکی کیفیت قضاوت کیا ہوگی؟اس بارے میں امام صادق  علیہ السلام  فرماتے ہیں:
 إذا قام القائم بعث في أقاليم الأرض في كلّ إقليم رجلاً ، يقول : عهدك في كفّك ، فإذا ورد عليك أمر لاتفهمه ولاتعرف القضاء فيه، فانظر إلى كفّك ، واعمل بما فيها .
 قال : ويبعث جنداً إلى القسطنطينيّة ، فإذا بلغوا الخليج كتبوا على أقدامهم شيئاً ومشوا على الماء ، فإذا نظر إليهم الرّوم يمشون على الماء ، قالوا : هؤلاء أصحابه يمشون على الماء ، فكيف هو؟
 فعند ذلك يفتحون لهم أبواب المدينة ، فيدخلونها ، فيحكمون فيها ما يشاؤون .(1)

 جس زمانے میں قائم قیام کریں گے تو زمین کے ہر خطے میں ایک مرد بھیجیں گے اور اس سے فرمائیں گے کہ تمہارا عہد و پیمان  (یعنی جو تمہارا وظیفہ ہے اسے انجام دو)تمہارے ہاتھ کی ہتھیلیوں میں ہے۔پس جب بھی کوئی ایسا واقعہ پیش آئے کہ جسے تم نہ سمجھ سکو کہ اس کے بارے میں کس طرح قضاوت و فیصلہ کرو تو اپنے ہاتھ کی ہتھیلی کو دیکھو اور جو کچھ اس میں موجود ہو،اس کی بناء پر فیصلہ کرو۔

امام صادق  علیہ السلام فرماتے ہیں:

وہ اپنی فوج کے ایک لشکر کو قسطنطینیہ کی طرف بھیجیں گے ۔جب وہ خلیج میں پہنچے گے تو ان کے پائوں پر کچھ لکھا جائے گا ۔جس کی وجہ سے وہ پانی پر چلتے ہوئے دیکھیں گے تو کہیں گے۔یہ پانی پر چلنے والے اس کے یاور و انصار ہیں تو پھر وہ کس طرح ہوگا؟

پھر ان کے لئے شہر کے دروازے کھول دیئے جائیں گے اور شہر میں داخل ہوجائیں گے اور وہاں وہ جس چیز کا چاہیں ،حکم کریں گے۔

اگر چہ بعض مؤلفین اس روایت میں ایک دوسرے معنی کا بھی احتمال دیتے ہیں کہ جو ظاہر روایت کے خلاف ہے۔کیونکہ ظاہر ِ روایت یہ ہے کہ حضرت بقیة اللہ الاعظم(عج)جس شخص کو دنیا کے کسی خطے میں قضاوت کے لئے بھیجیں گے ،اسے غیبی امداد بھی حاصل ہوگی۔اس کے علاوہ امام زمانہعلیہ السلام     کی فوج میں شامل ہر سپاہی میںبھی ایسی خصوصیات ہوں گی۔ جیسا کہ روایت کے آخر میں اس کی وضاحت ہوئی ہے کہ وہ کسی ظاہری وسیلہ کے بغیر پائوں پر کچھ لکھنے سے پانی پر چلیں گے۔

اس بیان کے رو سے ہم کیوں غیبی امداد کی موبائل جیسی چیز سے توجیہ کریں۔

قابلِ توجہ امر یہ ہے کہ روایت  میںبیان ہوا  ہے کہ ظہور کے درخشاں زمانے میں قاضیوں کو غیبی امداد حاصل ہوگی ۔اسی طرح وہ اپنے علم و فہم کے ذریعہ  دوسروں کے فہم و بصیرت سے بھی فائدہ حا صل کریں گے۔

امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:
 ... ثمّ يرجع إلى الكوفة فيبعث الثلاث مائة والبضعة عشر رجلاً إلى الآفاق كلّها فيمسح بين أكتافهم وعلى صدورهم ، فلايتعايون في قضاء...(2)
پھر کوفہ لوٹ جائیں گے اور تین سو تیرہ افراد کو آفاق کی طرف بھیج دیں گے۔وہ ان کے کندھوں  اور سینوں پر ہاتھ پھیریں گے کہ جس کی وجہ سے وہ فیصلہ کرنے میں غلطیاں نہیں کریںگے۔

اس روایت سے کچھ نکات حاصل ہوتے   ہیں:

١۔امام عصر علیہ السلام کے تین سو تیرہ افراد دنیا کے حاکم ہوں گے اور دنیا کے تمام خطے حضرت امام مہدی  علیہ السلام   کے یا ور و انصار کے ہاتھ میں ہوں گے۔

٢۔حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) (جو ید اللہ ہیں)ان کے سینوں اور کندھوں پر ہاتھ پھیریں گے ۔ جس  کی وجہ سے انہیں غیبی امداد حاصل ہوگی اور وہ کبھی بھی قضاوت اور حق کا حکم صادر کرنے میں عاجز وکمزور نہیں ہوں گے۔

٣۔دنیا کے مختلف خطوں میں بھیجے جانے والے تین سو تیرہ افراد مرد ہوں گے۔جیسا کہ اس روایت میں بھی اس کی وضاحت ہوئی ہے  ۔(3)

-------------------------------  پاورقی  ------------------------------
1) الغيبة مرحوم نعمانى : 319 .
2) بحار الأنوار : 345/52 .
3)بعض کا نظریہ یہ ہے کہ اما م  کے اصحاب و انصار میں مرد اور خواتین کی مجموعی تعداد تین سو تیرہ ہوگی۔لیکن یہ نطریہ صحیح نہیں ہے۔کیونکہ اصحاب ِ و یاورانِ امام مہدیمیں چند عورتیں بھی ہوں گی لیکن وہ ان تین سو تیرہ افراد میں سے نہیں ہوںگی کہ جو دنیا میں عدلِ الہٰی کی حکومت کو قائم کرنے کے لئے دنیا کے مختلف حصوں میں بھیجے جائیں گے۔ اس نظریہ کی وجہ یہ ہے کہ تین سو تیرہ افراد کے بارے میں وارد ہونے والی اکثر روایات لفظ''رجلاً'' سے تعبیر نہیں ہوئیں۔لیکن دوسری روایات پر توجہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تین سو تیرہ افراد سب مرد ہوں گے۔اگرچہ معنوی شان و مرتبت کے لحاظ سے کچھ خواتین بھی ان تین سو تیرہ افرادکی طرح ہوں گی۔

 

منبع: ویب سائٹ مهدویت                   
امام  مہدی  عجل الله تعالی فرجه الشریف  کی  آفاقی  حکومت:73   

 

ملاحظہ کریں : 2852
آج کے وزٹر : 40936
کل کے وزٹر : 68799
تمام وزٹر کی تعداد : 130112300
تمام وزٹر کی تعداد : 90236357