حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
زمانۂ ظہور میں برکت

 زمانۂ ظہور میں برکت

ظہور  کے زمانے میں ایمان و تقویٰ کی وجہ سے ان پر زمین و آسمان سے خدا کی برکات برسیں گی۔خدا کسی بھی درخت سے جس پھل کا بھی ارادہ کرے وہ اسی درخت سے پیدا ہوگا۔اسی طرح کوئی بھی پھل کسی خاص موسم سے مختص نہیں ہوگا۔ گرمیوں میں درخت سردیوں کے پھلوں اور سردیوں میں گرمیوں کے پھلوں سے لدے ہوں گے۔
برکت کا مسئلہ ایک ایسی بڑی حقیقت ہے کہ جس کی وجہ سے ظہور کے بابرکت زمانے میں دنیا کا چہرہ ہی بدل جائے گا اور زمانِ ظہور میں برکتوں کے نزول کی وجہ سے لوگ غیبت کے زمانے کے سخت مصائب بھول جائیں گے۔
جیساکہ ہم نے کہا کہ اس وقت دنیا کا نیا روپ سامنے آئے گا۔پوری روئے زمین قدرت،طاقت،ثروت اور نعمتوں سے بھری ہوگی۔فقر و تنگدستی کا نام و نشان باقی نہیں رہے گا۔
اس منوّر زمانے میں ضعف،ناتوانی اور شکستگی کو شکست ہوجائے گی ان کی جگہ قدرت،توانائی اور خوشیاں آجائیں گی۔
اس پُر مسرّت زمانے میں لبوں پر مسکراہٹیں اور دل شادی اور شادمانی سے  لبریز ہوں گے۔
ملائکہ کے توسط سے برکت وجود میں آئے گی ۔مادّی لحاط سے گندم کی پیداوار کے لئے اسے زمین میں بونے اور پھر اسے ہوا و پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔لیکن جو غیر محسوس امور سے آشنائی رکھتے ہوں ان کے لئے اشیاء کوایجاد کرنا فقط عادی وطبیعی وسائل میں منحصرنہیں ہے۔ بلکہ وہ غیرطبیعی طریقوں سے بھی طبیعی محصول کوایجاد کرسکتے ہیں۔
یہ درست ہے کہ خداوندمتعال نے مختلف کاموںکووسائل واسباب کی بنا پرقرار دیا ہے ۔ لیکن اس وجہ سے ہمیں وسائل واسباب میں اتنا مشغول نہیں ہوناچاہیئے کہ ہم مسبب الاسباب کوہی فراموش کردیں اوریہ گمان کریں کہ خداوندکریم نے ایجاد امور کے لئے جواسباب قرار دیئے ہیں، وہ صرف مادّی یا ایسے امور میں منحصر ہیں کہ جن سے ہم آگاہ ہیں ۔
ظہور کے زمانہ میں لوگ گمراہی وضلالت سے نکل کرہدایت پالیں گے۔ یہ حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کی عالمی حکومت اوراسلام کے عالمی دین ہونےکی دلیل ہے۔
دورِحاضرکےبرخلاف عصرِظہور میں دنیاکےسب لوگ رسول ِاکرمۖکے دستورات اوراسلامک ے آئین پرایمان لائیں گے اورتقویٰ اختیارکریں گے۔
یہ بدیہی وواضح ہےکہ رسول اکرمۖکےدستورات،مکتب ِاہلبیت علیھم السلام اورقرآن کی پیروی کےعلاوہ کوئی دوسری چیزنہیں ہے اور آنحضرتۖکا اجرِ رسالت فقط مودّت ذویالقربی ٰہے۔
قرآن مجید میں ارشادخداوندی ہے۔
 »قُلْ لا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِى الْقُرْبى« .(1)
آپ کہہ دیجیئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا ،علاوہ اس کے کہ میرے اقربا سے محبت کرو۔

دنیا کے تمام لوگوں کے عقلی تکامل کی وجہ سے زمانِ نجات میں سب لوگ رسولِ اکرمۖکے فرامین کو قبول کریں گے اور خاندانِ وحی علیھم السلام     کی مودّت کو ادا کریں گے۔مودّت اہلبیت علیھم السلام  سے ایسی محبت مراد ہے کہ جو ان کے نزدیک انسان کے تقرّب کا باعث بنے۔.
''المودة، قرابة مستفادة '' (2)
مودّت سے قرب و نزدیکی حاصل ہوتی ہے۔

اس روایت کی بناء پر معاشرے میں ایمان و تقویٰ آسمانی دروازوں کے کھلنے اور برکاتِ الہٰی کے نزول کا سبب ہے۔پس اگر آغاز بعثت سے لوگ پیغمبراکرم ۖکے احکامات کو قبول کرے اور خاندانِ عصمت و طہارت  علیھم السلام کی ولایت سے ہاتھ نہ اٹھاتے تو آج دنیا گرانی و ضلالت اور تباہی و بربادی کا منظر پیش نہ کررہی ہوتی اور خداوند کریم آسمانی برکات اور عطائے نعمت سے دریغ نہ کرتا۔
لیکن افسوس کہ جہالت و گمراہی کی آستین سے ستمگروں کے ہاتھ باہر نکلے اور سقیفہ میں خلافت کا ایسا بیج بویا کہ جو بعد میں تن آور درخت کی صورت اختیار کرگیا۔جس کے نتیجہ میں ظلم و ستم اور اختلافات کی آگ بھڑک اٹھی کہ جس کے شعلے آج بھی بلند ہورہے ہیںاور جب تک آستینِ عدالت سے امام عصر کا ظہور نہ ہوجائے،تب تک یہ آگ روشن رہے گی ۔ امام مہدی علیہ السلام اپنے عدل اور رحمت سے اس آگ کو بجھائیں گے۔
----------------------------  پاورقی  ----------------------------
1) سوره شورى , آيه 23
2) بحار الأنوار : 165/74


منبع: ویب سائٹ مهدویت                    
امام  مہدی  عجل الله تعالی فرجه الشریف  کی  آفاقی  حکومت:94

 

ملاحظہ کریں : 2643
آج کے وزٹر : 32492
کل کے وزٹر : 89459
تمام وزٹر کی تعداد : 131351408
تمام وزٹر کی تعداد : 91081990