حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
اہلبیت علیھم السلام کی معرفت

اہلبیت علیھم السلام کی معرفت

اعتقادات اور معارف کی بحثوں میں سے ایک اہم بحث امام علیہ السلام کے مقام و منزلت کی معرفت ہے  جوہم سب پر لازم و واجب ہے ۔جہاںتک ہو سکے ہمیں اپنی توانائی کے مطابق آئمہ اطہار علیھم السلام کے مقام اور امام کی معرفت حاصل کرنی چاہئے۔یہ سب کی ایک عمومی ذمہ داری ہے ۔اس کا لزوم مسلّم و ثابت ہے ۔

حضرت امام صادق علیہ السلام نے زید نامی شخص سے فرمایا:

''اَتَدْرِ بِمٰا اُمِرُوا؟اُمِرُوا بِمَعْرِفَتِنٰا  وَ الرَّدَّ اِلَیْنٰا وَ التَّسْلِیْمِ لَنٰا''([1])

کیا تم جانتے ہو کہ لوگوں کو کس چیز کا حکم دیاگیا ہے ؟انہیں حکم دیا گیا ہے کہ ہمیں پہچانیں اور اپنے عقائد کوہماری طرف منسوب کریں اور ہمارے سامنے تسلیم ہو جائیں۔

اس بناء پر معارف کے باب میں ایک اہم مسئلہ ا نسان کاآئمہ اطہار علیھم السلام کے مقام کی معرفت حاصل کرنا اور ان کے احکامات کے سامنے سر تسلیم خم کرنا ہے ۔معصومین علیھم السلام کے فرامین اور ارشادات میں غور و فکر کریں تا کہ ان ہستیوں کی عظمت کو سمجھ سکیں ۔

آئمہ اطہار علیھم السلام کے مقام کی معرفت میں اضافہ کے لئے ابو بصیر کی ایک بہترین روایت بیان کرتے ہیں جو انہوں نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

قٰالَ :دَخَلْتُ فِ الْمَسْجِدَ مَعَ اِبِ جَعْفَرٍ علیہ السلام وَ النّٰاسُ یَدْخُلُوْنَ  وَ یَخْرُجُوْنَ فَقٰالَ لِی:سَلِ النّٰاسَ ھَلْ یَرَوْنَنِ؟فَکُلُّ مَنْ لَقَیْتُہُ قُلْتُ لَہُ :أَرَأَیْتَ أَبٰا جَعْفَرٍ علیہ السلام؟فَیَقُوْلُ :لاٰ وَ ھُوَ وٰاقِف حَتّٰی دَخَلَ اَبُوْ ھٰارُوْنِ الْمَکْفُوْفُ ،قٰالَ:سَلْ ھٰذٰا فَقُلْتُ:ھَلْ رَأَیْت اَبَا جَعْفَرٍ؟فَقٰالَ أَلَیْسَ ھُوَ قٰائِماً ،قٰالَ:وَمٰا عِلْمُکَ؟قٰالَ :وَ کَیْفَ لاٰ أَعْلَمُ وَھُوَ نُوْر سٰاطِع

قٰالَ:وَ سَمِعْتُہُ یَقُوْلُ لِرَجُلٍ مِنْ أَھْلِ الْاَفْرِیْقِیَّةِ:مٰا حٰالُ رٰاشِدٍ؟

قٰالَ:خَلَّفْتُہُ حَیًّا صٰالِحًا یُقْرِؤُکَ السَّلاٰمُ قٰالَ:رَحِمَہُ اللّٰہُ   

قٰالَ:مٰاتَ؟قٰالَ:نَعَمْ،قٰالَ:وَ مَتٰی؟قَالَ بَعْدَ خُرُوْجِکَ بِیَوْمَیْنِ :

قٰالَ وَاللّٰہِ مٰا مَرَضٍ وَ لاٰ کٰانَ بِہِ عِلَّة قٰالَ:اِنَّمٰا یَمُوْتُ مَنْ یَمُوْتُ مِنْ مَرَضٍ اَوْ عِلَّةٍ۔قُلْتُ مَنِ الرَّجُلُ؟قٰالَ:رَجُل کٰانَ لَنٰا مُوٰالِیًا وَ لَنٰا مُحِبًّا۔

ثُمَّ قٰالَ:لَئِنْ تَرَوْنَ اَنَّہُ لَیْسَ لَنٰا مَعَکُمْ اَعْیُن نٰاظِرَة اَوْاَسْمٰاع سٰامِعَة، لَبِئْسَ مٰا رَأَیْتُمْ ،وَاللّٰہِ لاٰ یَخْفٰی عَلَیْنٰا شَیْئ مِنْ أَعْمٰالِکُمْ ،فَاحْضِرُوْنٰا جَمِیْعًا وَ عَوِّدُوا اَنْفُسَکُمْ الْخَیْرَ ، وَ کُوْنُوْا مِنْ اَھْلِہِ تُعْرَفُوْا فَاِنِّ بِھٰذٰا اٰمُرُ وُلْدِ وَ شِیْعَتِ''([2])

ابو بصیر کہتے ہیں :میں امام محمد باقر علیہ السلام کے ساتھ مسجد میں داخل ہوا جب کہ وہاں پر لوگوں کی رفت و آمد تھی۔

امام علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا:لوگوں سے پوچھو کہ کیا انہوں نے مجھے دیکھا ہے؟

میں ہر ایک سے ملا اور ان سے پوچھا کہ کیا انہوں نے امام باقر علیہ السلام کو دیکھا ہے؟انہوں نے کہا نہیں۔یہاںتک کہ وہاں ابو ہارون نامی ایک نابینا شخص آیا ۔

ابو بصیر نے کہا:تم اس حقیقت سے کیسے آگاہ ہوئے ؟

ابو ہارون:مجھے اس حقیقت کا کیسے پتہ نہ چلے،حالانکہ امام علیہ السلام ایک واضح و آشکار نور ہیں۔

یار پیشت حاضر و تو  از خودی ، غایب از او

با خودا ، آخر کہ گم کردی چہ می جوئی بگو؟!

پھر ابو بصیر نے کہا:میں نے سنا ہے کہ امام باقر علیہ السلام نے اہل افریقہ کے ایک شخص سے فرمایا:

راشد کا کیا حال ہے؟اس نے کہا:جب میں افریقہ سے آیا تھا تو وہ صحیح و سالم تھااور اس نے آپ کو سلام کہا تھا۔

امام باقر علیہ السلام نے فرمایا:خداوند اس پر رحمت کرے ۔

افریقی شخص نے کہا:کیاوہ مر گیا ہے؟!

امام علیہ السلام نے فرمایا:ہاں

اس نے پوچھا:اس کا انتقال کب ہوا؟

امام علیہ السلام نے فرمایا:جب تم افریقہ سے نکلے تو اس کے دو دن کے بعد۔

افریقی شخص نے کہا:خدا کی قسم راشد نہ بیمار تھا اور نہ ہی اسے کوئی درد تھا۔

امام علیہ السلام نے فرمایا:کیا جو کوئی بھی مرتا ہے ،وہ کسی بیماری یا درد کی وجہ سے مرتا ہے؟!

ابو بصیر کہتے ہیں:میں نے امام علیہ السلام سے پوچھا:یہ افریقی شخص کون تھا؟

امام علیہ السلام نے فرمایا:وہ شخص ہمارے خاندان کے محبوں میں سے ہے۔

پھر امام علیہ السلام نے فرمایا:کیا تم یہ یقین رکھتے ہو کہ ہم تمہارے لئے بینا آنکھیں اور سننے والے  کان نہیں رکھتے۔کتنے برے جو اس پر عقیدہ رکھتے ہیں!خدا کی قسم ہم پر تمہارے اعمال میں سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہے۔

پس تم سب ہمیں اپنے نزدیک حاضر سمجھو اور اپنے نفس کو اچھے کاموں کی عادت ڈالو اور نیک کام انجام دینے والے بنو تا کہ اس حقیقت کو پہچان سکو(پھر امام علیہ السلام نے فرمایا)میں نے جو کچھ کہا، میں اپنے بیٹوں اور اپنے شیعوں کو اس کا حکم دیتاہوں۔

یہ روایت بہترین روایات میں سے ہے ۔جس سے علوم و معارف کے انوار ساطع ہورہے ہیں۔

جو خود کو خدا اور اپنے امام  کے حضور میں حاضر سمجھتا ہو اور جو نیک اعمال کا عادی ہو وہ کس طرح ناشائستہ کاموں کی طرف ہاتھ بڑھا سکتا ہے؟

اس روایت میں قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ امام علیہ السلام فرماتے ہیں:ہمیں حاضر سمجھواور اپنے نفس کو اچھے کام انجام دینے کی عادت ڈالوکیونکہ یہ خدا اور امام علیہ السلام کے محضر میں حاضر ہونے کا لازمہ ہے۔

امام محمد باقر علیہ السلام جس چیز کو حضور امام کے اعتقاد کے لئے ضروری سمجھتے ہیں ،وہ نفس کا نیک اعمال اور آداب کا عادی ہونا ہے۔اس صورت میں انسان معرفت اور غیبی امور کو درک کرنے  کے مقام تک پہنچ جاتا ہے۔اگرچہ انسان ابو ہارون کی طرححواس خمسہ میں سے بعض سے محروم ہی کیوں نہ ہو ۔ 

اس بناء پر نفس کے نیک اور صالح اعمال امور کے عادی ہو جانے سے انسان حضور کی حالت کے لئے آمادہ ہو جاتا ہے اور ابو ہارون کی طرح اس کی باطنی آنکھیں حضور امام علیہ السلام کی معرفت کے لئے کھل جاتی ہیں۔یہ وہ مقام ہوتا ہے کہ جہاں کبھی نابینا افراد بینا ہو جاتے ہیں جیسے ابو ہارون نابینا ، بینا تھے۔

 


[1]۔ بحار الانوار:ج ٢ص۲۰۴

[2]۔ بحار الانوار:٤٦،خرائج:ج۲ص۵۹۵ح ٧

 

 

 

    ملاحظہ کریں : 2172
    آج کے وزٹر : 113889
    کل کے وزٹر : 164982
    تمام وزٹر کی تعداد : 142203105
    تمام وزٹر کی تعداد : 98085468