امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
(۱) معاويه اور جناب ابوذر

(۱)

معاويه اور جناب ابوذر

مسلمان جناب ابوذر کو بزرگى اور عظمت کی نگاہ سے دیکھتے اور آپ کی باتوں کو اہمیت دیتے تھے اور آپ ہمیشہ امر بالمعروف اور نہی از منکر میں کوشاں رہتے تھے جس کی وجہ سے بادشاہوں پر آپ کا وجود گراں گذرتا تھا۔

حبيب بن مسلمه فہرى نے معاويه سے کہا: ابوذر تمہارے لئے شام کو بگاڑ دے گا اور اگر تم شام کو چاہتے ہو تو جلد ہی اس کا کوئی راہ حل نکالو!(53)۔

اسی جملہ سے مسلمانوں کے درمیان جناب ابوذر کی باتوں کی اہمیت و عظمت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اور معاویہ انہیں مال کا لالچ دے کر بھی راضی نہ کر سکا جس سے ان کی قوت ایمانی معلوم ہوتی ہے، نیز وہ آپ کو راستہ سے ہٹا بھی نہ سکا جس سے آپ کا مقام واضح ہو جاتا ہے اور یہ کہ عثمان نے آپ کو مصر یا عراق جانے کی اجازت نہیں تھی چونکہ وہ آپ سے خوفزدہ تھا، اس بات سے اس عظیم اور جلیل القدر صحابی کے مواعظ کی اہمیت اور اثرات کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

ابن ابى الحديد نے جاحط کی كتاب «سفيانيّه» سے نقل کیا ہے: جلام بن جندل غفارى‏ کہتے ہیں: میں عثمان کی خلافت کے زمانے میں «قنصرين اور عواصم» پر معاویہ کی طرف سے مأمور تھا اور ایک دن میں کسی کام سے معاویہ کے پاس گیا تو میں نے معاویہ کے گھر سے کسی کے چیخنے کی  آواز آ رہی تھی جو کہہ رہے تھے: اس شخص کی طرف آگ بڑھ رہی ہے اور خدایا! جو  لوگ امر بالمعروف کرتے ہیں اور ان پر خود عمل نہیں کرتے اور جو لوگ نہی از منکرکرتے ہیں لیکن خود اسے انجام دیتے ہیں، ان لوگوں  پر لعنت کر۔

پس معاويه کے چہرے کا رنگ متغیر ہو گیااور اس نے کہا: اے جلام! جو شخص یہ کہہ رہا ہے کیا تم اسے جانتے ہو؟

میں نے کہا: نہیں.

اس نے کہا:کون جند بن جناده کے ہاتھوں میری فریاد کو پہنچے گا! وہ ہر دن آتا ہے اور میرے محل کے دروازے پر چیختے ہوئے یہی کہتا ہے.

پھر اس نے کہا: اسے بلا کر لاؤ۔

پس انہیں کھینچتے ہوئے لایا گیا اور  وہ معاویہ کے پاس کھڑے ہو گئے.

معاويه نے کہا: اے خدا اور پیغمبر کے دشمن! تم ہر دن یہاں آتے ہو اور یہی کام انجام دیتے ہو۔ اگر میں امیر المؤمنین!! کی اجازت کے بغیر اصحاب پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم میں سے کسی کو قتل کروں تو یقیناً میں تمہیں ہی قتل کروں گا لیکن میں اس سے اجازت لوں گا۔

جلام نے کہا: چونکہ ابوذر ہمارے طائفہ سے تھے اور میں انہیں دیکھنا پسند کرتا تھا، ان کی ہلکی ڈاڑھی تھی اور کمر خم ہو چکی تھی.

ابوذر نے معاويہ سے کہا: میں خدا اور پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم کا دشمن نہیں ہوں بلکہ تم اور تمہارا باپ  دونوں خدا  اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دشمن ہو۔ تم لوگوں نے ظاہری طور پر اسلام قبول کیا ہے لیکن باطن میں  کافر ہو. پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم نے تم پر لعنت کی ہے اور کئی بار تم پر نفرین کی ہے کہ خدا تمہارے پیٹ کو نہ بھرے۔ میں نے پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم سے سنا کہ آپ نے فرمایا:

جب ایک ایسا شخص مسلمانوں کا حاکم بن جائے جس کی آنکھیں بڑی اور پیٹ موٹا ہو اور وہ جس قدر بھی کھائے لیکن اس کے باوجود اس کا پیٹ نہ بھرے تو امت اس سے انتہائی تحفظ اختیارکرے۔

معاويه نے کہا: وہ میں نہیں ہوں۔

جناب ابوذر نے کہا:تم وہی ہو! پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم نے مجھے خبر دی ہے کہ اور میں نے آنحضرت کو تمہارے حق میں نفرین کرتے ہوئے سنا ہے کہ آُ نے فرمایا:

خداوندا! خدا اس پر لعنت کر؛ اسے خاک کے علاوہ اسے سیر نہ فرما۔

اور میں نے سنا کہ آنحضرت نے فرمایا:

معاویہ کا ٹھکانہ آتش(جہنم) ہے۔

معاويہ ہنسا اور حکم دیا کہ اسے قیدخانہ میں ڈال دیا جائے اور اس نے یہ سارا واقعہ عثمان کو لکھا۔

عثمان نے حکم دیا: جندب کو سخت ترین سواری پر سوار کرکے مدینہ کی طرف روانہ کرو دو۔ پس معاویہ نے انہیں اپنے مأمورین کے ساتھ بغیر پالان اونٹ پر سوار کیا اور حکم دن کے دن اور رات میں مسلسل سفر کرو اور اسے آرام نہ کرنے دو اور جب آپ مدینہ پہنچے تو آپ کی دونوں ران سے گوشت چھل کر گر چکا تھا (54)۔

معاویہ اور عثمان کی حکومت جناب ابوذر کے ہاتھوں سخت پریشان تھی جس کی وجہ سے انہوں نے آپ کے ساتھ یہ سلوک کیا اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جناب ابوذر وہ واحد شخصیت ہیں؛ جن کے حق میں پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا:

آسمان نے ابوذر سے زیادہ کسی سچے شخص پر سایہ نہیں کیا.(55)

حقیقت میں جناب ابوذر کے پاس یہ ایک محکم اسلحہ تھا اور کوئی صحابی بلکہ کوئی مسلمان بھی آپ کو جھٹلا نہیں سکتا اور آپ کی تکذیب نہیں کر سکتا کیونکہ وہ پيغمبر اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کے اس فرمان سے مطلع تھے۔ لیکن کیا وہ نہیں جاتے تھے کہ اميرالمؤمنين ‏علی عليه السلام نے فرمایا:

وہ سچ کہہ رہے ہیں،اور جب پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم نے جناب ابوذر کے حق میں یہ جملہ فرمایا۔

عثمان کی محفل میں موجود تمام صحابیوں نے کہا: وہ سچ بولتے ہیں۔ (56).

پس جناب ابوذر کے ذریعہ سے روز قيامت تک یہ حجت قائم ہو گئی اور انہوں نے اپنے اعمال کے ذریعہ حق کو باطل سے جدا کر دیا۔اب معاویہ کو جناب ابوذر کی باتوں سے ناراض ہونے کی بجائے ان پر عمل کرنا چاہئے تھا اور منکرات سے دستبردار ہو جانا چاہئے تھا.(57)  


53) شرح نهج البلاغه ابن ابى الحديد: 55/3.

54) شرح نهج البلاغه ابن ابى الحديد: 257 - 258/8.

55) شرح نهج البلاغه ابن ابى الحديد: 258/8.

56) شرح نهج البلاغه ابن ابى الحديد: 258/8.

57) تاريخ أميرالمؤمنين‏ عليه السلام ج 1 ص 495.

 

منبع: معاویه ج ... ص ...

 

 

بازدید : 842
بازديد امروز : 87813
بازديد ديروز : 301789
بازديد کل : 145700833
بازديد کل : 100207757