امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
عبّاسيوں کے محلّات

منصور دوانیقی کے توسط سے شہر بغداد کی تعمیر کے بارے میں کچھ مطلب

*********************************

6 ربیع الثانی؛ منصور دوانيقي لعنه الله کے توسط سے شہر بغداد کی تعمیر اور فاطمی سادات کو زندہ دیواروں میں چن دینا (سنہ ۱۴۶ ہجری)

*********************************

عبّاسيوں کے محلّات

جب خلافت کا دار الخلافہ دمشق سے بغداد منتقل ہوا تو اسلامی ہنر پر ایرانی ہنر بہت زیادہ رائج ہو گیا۔ عباسی خلفاء، وزراء اور حکومت کے تمام سرکردہ افراد کو خوبصورت محلات میں دلچسپی تھی اور منصور نے بغداد کے وسط میں «قصر الذهب» تعمیر کیا کہ جس کے صدر میں ایک ایوان تھا جس کی لمبائی تیس ذراع اور چوڑائی بیس ذراع تھی اور جس پر ایک قبہ تھا کہ جس پر سبز گنبد تھا.

«قصر الذهب» کی اونچائی اسّی ذراع تھی۔ اس نے یہ عمارت گچ اور اینٹوں سے تعمیر کی تھی اور اس کے کمرے ساج کی لکڑی کے ستوں پر بنائے گئے تھے اور کمروں کو لکڑیوں سے ڈھک دیا اور لاجورد سے رنگ کیا گیا۔ قصر الذہب ہارون کے زمانے تک اسی طرح باقی رہا اور پھر اس نے اسے گرا کر نئے سرے سے تعمیر کیا۔ اس محل کے قبّه پر ایک مجسمہ تھا کہ جس کے ہاتھ میں ایک نیزہ تھا جو ہوا کہ ساتھ گھومتا تھا.

کہتے ہیں:جب اس محل کے اس مجسمہ کو کسی کی طرف کرتے تھے اور وہ اس کی طرف اپنا نیزہ کرتا تو اس سے یہ معلوم ہو جاتا تھا کہ اس بارے میں کارجی فتنہ کریں گے۔لیکن پھر یہ معلوم ہو گیا کہ یہ محض ایک افسانہ تھا.

بغداد کے محلات میں سے ایک «قصر الخلد» تھا جو دجلہ کے کنارے دروازهٔ خراسان ‏کے بالمقابل بنایا گیا تھا. منصور نے اس کی بنیاد اور آرائش میں اس قدر خرچ کیا کہ اسے بہشت سے تشبیہ دیتے ہوئے «قصر الخلد» کا نام دیا گیا.

مہدى نے بھی قصر رصافہ کے نزدیک قصر وضاح تعمیر کیا.بغداد کے مشہور محلات میں سے ایک قصر عيسى تھا جو عيسى بن على عبّاسى نے دجلہ کے کنارے تعمیر کیا تھا. اس زمانے میں بغداد کی چند عمارتیں چند منزلوں پر مشتمل تھیں اور اس کی آرائش میں پارسی ماہرین سے مدد لی گئی تھی.

بغداد کے چار دروازوں پر بنائے گئے قبوں سے عباسی معماروں کی ترقی و پیشرفت کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے ان میں سے ہر ایک قبہ کی قطر پچاس ذراع تھا اور سونے سے اس کی آرائش کی گئی تھی۔ منصور گھوڑے پر سوار ہو کر قبہ میں گھومتا تھا اور ہر قبہ پر ایک مجسمہ تھا جو ہوا سے گھومتا تھا۔ آرام کرنے کے لئے خلفا ان قبّوں کی طرف جاتے  اور اگر بہتے ہوئے پانی کا نظارہ کرنا چاہتے تو دروازۂ خراسان کے قبّہ پر بیٹھ جاتے  اور اگر کرخ کے بازاروں کا دیکھنا چاہتے تھے دروازۂ بصرہ کے قبہ پر بیٹھ جاتے اور اگر باغات اور کھیتوں کو دیکھنا چاہتے تو دروازۂ کوفہ کے قبہ پر بیٹھتے۔ فاطمی خلفاء نے بھی اپنی قدرت اور طاقت کے زمانے میں فسطاط اور قاہرہ میں اسی قسم کے قبّہ تعمیر کئے تھے۔ 

عباسی دور میں تعمیراتی تزئین و آرائش کے نمونوں میں سے ایک وہ نقش و نگار ہیں جو گچ کی مدد سے دیواروں کے نچلے حصوں پر کئے جاتے تھے کہ سامراء میں گھنڈرات کی کھودائی سے جن کا پتہ چلا  نیز دیواروں پر گن سے بنائی جانے والی تصاویر بھی اپنی مثال آپ ہیں جن کے کچھ نمونے ماہرین آثار قدیمہ کے ہاتھ لگے ہیں۔ گچ کے ان ٹکڑوں پر حیوانات، پرندوں، شکاریوں اور رقص کرتی ہوئی عورتوں کی تصاویر نقش ہیں۔ عباسی دور میں کپڑے، دھات اور مائعات کی صنعت میں بہت ترقی ہوئی جس کے نمونہ مصر، افریقہ اور ایران کے بازاروں تک پہنچے.

عبّاسی خلفاء نے صرف بغداد اور سامره جیسے شہروں کی آبادکاری پر ہی توجہ نہیں دی  بلکہ انہوں نے مکہ کے راستے میں بھی محل تعمیر کئے۔ طبری کے مطابق مہدی کے حکم دیا کہ مکہ کے راستہ میں اس سے برا محل تعمیر کیا جائے جو سفاح نے قادسیہ سے زبالہ تک تعمیر کیا تھا نیز سفاح کی بنائی ہوئی عمارتوں میں توسیع کی جائے۔ منصور کی بنائی ہوئی عمارتوں کو اسی حال میں باقی چھوڑ دیا گیا.

مہدی کے زمانے میں بصرہ کے علی عہد محمد بن سلیمان کے قصر کے بارے میں مسعودی کہتے ہیں:جب اس نے ایک نہر کے کنارے اپنا محل تعمیر کیا تو اس کے پاس عبد الصمد بن شبہ آیا تو اس نے پوچھا: تم نے میرے اس محل کو کیسا پایا؟

اس نے کہا: تم نے میٹھے اور اچھے پانی پر ایسا بہترین محل بنایا ہے کہ  جس کی ہوا رقیق اور ملائم ہے.

محمّد نے کہا: تم نے اس عمارت کے بارے میں جو بات کہی ہے وہ اس میرے اس محل سے زیادہ خوبصورت ہے.

سب عبّاسي خلفاء تعمیرات اور محلات میں دلچسپی رکھتےتھے۔ مسعودی کہتے ہیں: معتصم تعمیرات کو پسند کرتا تھا اور کہتا تھا: اس کام میں بہت منافع ہے، زمین کو آباد کرو اور مالیات اور ٹیکس بڑھاؤ اور مال و دولت میں اضافہ کرو، چارپایوں سے فائدہ اٹھا کر قیمتیں کم کرو اور معیشت میں ترقی کرو اس سے کسب و اور روزگار میں تیزی آئے گی.

وہ اپنے وزير محمّد بن عبدالملك سے کہتا تھا: جس جگہ دس درہم خرچکر کے ایک سال کے بعد گیارہ درہم حاصل ہوں تو اس بارے میں مجھ سے دوبارہ مشورہ مت کرو.

     بغداد کی عمارات

اب ہم بغداد کی عمارتوں کا ایک نمونہ پیش کرتے کرتے ہیں کہ جو عباسی دور کی سب سے بڑی یادگار ہیں. اسلام کے آغاز سے ہی یہ رسم تھی کہ ہر خاندان نے نئے دارالخلافہ کا انتخاب کیا اور یہ رسم پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تبعیت کی وجہ سے تھا کہ آپ نے اپنا دارالخلافہ یثرب کو قرار دیا اور اس کا نام «مدينۃ ‏الرسول» ہو گیا۔

جب حضرت علىّ بن ابى طالب‏ عليه السلام کو خلافت ملی تو آپ اپنا دارالخلافہ يثرب سے كوفه لے گئے، لیکن کوفہ والوں نے آپ سے وفا نہ کی اور مردانگی کا مظاہرہ نہ کیا.

معاويه نے دمشق کو اپنا دارالخلافہ قرار دیا۔ شام کی حکومت کے زمانے سے اس نے اپنی ساتھیوں، رشتہ داروں اور بے شمار عطا و نوازش کے ذریعہ اس حکومت میں اپنا رسوخ پیدا کیا اور اسے اپنی من پسند جگہ بنا لیا.

اس کے علاوہ شام کی زمین بھی ذرخیز تھی نیز وہ اسلام کے مرکز حجاز سے قریب تھی اور عرب قبائل سے اس کا فاصلہ بھی کچھ زیادہ نہیں تھا۔ اس کے علاوہ دمشق کی حدود مشرقی روم سے بھی نزدیک تھیں کہ جن سے امویوں کا سروکار تھا.

جب عبّاسيوں کو حکومت ملی تو انہوں نے دار الخلافہ کو منتقل کرنے کے بارے میں سوچا کیونکہ یہ روم کی سرحدوں سے نزدیک تھا جس کی وجہ سے سے رومیوں کی جانب سے حملہ کا خطرہ تھا، نیز یہ عباسیوں کی قوت کے ان کے ساتھی پارسیوں سے بھی دور تھا لہذا انہوں نے اسے اپنے لئے مناسب دارالخلافہ نہ سمجھا.

عراق میں اسلام کی فتوحات کے دوران دو شہر وجود میں آئے کہ جو مسلمان سپاہ کا مرکز بنے جن میں سے ایک بصرہ تھا کہ جو دجلہ کے قریب تھا اور دوسرا شہر کوفہ تھا جو فرات کے کنارے پر تھا اور پارسیوں کی حکومت تک پہنچنے کے لئے حجاز کےقافلوں کا گذر وہیں سے ہوتا تھا۔ سب سے پہلے سفاح نے انبار (قدیم پارسی شہر کہ جو مشرقی فرات کے کنارہ آباد تھا) کے دورہ کے دوران ایک محل تعمیر کیا اور اس کا نام ہاشمیہ رکھا اور سفاح کی موت کے بعد منصور کو خلافت ملی تو اس نے بھی ہاشمیہ کے نام سے ایک محل تعمیر کیا. منصور کا بنایا ہوا محل ہاشمیہ کوفہ اور حیرہ کے درمیان واقع تھا  اور وہ بھی پارسیوں کو ایک قدیم شہر تھا۔ منصور حیرہ کو اپنا دارالخلافہ بنانا چاہتا تھا لیکن چونکہ وہ کوفہ سے نزدیک تھا کہ جہاں شیعوں کا اثر و رسوخ تھا  نیز وہاں عرب کے ایسے قبائل آباد تھے جو فتنوں سے گھبراتے نہیں تھے لہذا اس نے اس کام سے گریز کیا۔

راوندیوں کے فتنہ کے بعد اسے اس شہر سے مزید نفرت ہو گئی.کوفہ کے علاوہ تمام شہروں کے ساتھ بڑے صحراء تھے کہ جن کی وجہ سے کبھی ریت کے طوفان آتے تھے۔ لہذا منصور کو اپنے دارالخلافہ کے انتخاب کی فکر لاحق تھی اور اس نے بہت زیادہ غور و فکر کرنے کے بعد بغداد کا انتخاب کیا جو کہ دجلہ کے نزدیک تھا اور جس کی زمین بھی بہت ذرخیز تھی.(2257)


2257) تاريخ سياسى اسلام (دكتر حسن ابراهيم ‏حسن): 306/2.

 

منبع: معاویه ج ... ص ...

 

 

بازدید : 916
بازديد امروز : 117338
بازديد ديروز : 164145
بازديد کل : 159266141
بازديد کل : 118092700