حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
آداب دعا

آداب دعا

 اس بیان سے دعا کرنے کی اہمیت اور اس کے حیرت انگیز اثرات واضح ہو گئے اور یہ کہ اگر دعا کرنے والا اس کے آداب کی رعائت  کرنے کے ساتھ دعا کرے تو اسے اس کی دعا کے مستجاب ہونے میں عجیب آثار نظر آئیں گے۔لہذا ہم اس جگہ دعا کے آداب بیان کرتے ہیں:

کتاب ’’المختار من کلمات الامام المہدی ‘‘میں کہا گیا ہے کہ دعا کے آداب سیکھو اور توجہ کرو  کہ کسے بلارہے ہو ؟اور کس لئے بلارہے ہو؟غور کرو کس کے متعلق سوال کر رہے ہو؟ کتنا سوال کر رہے؟ اور کس لئے سوال کر رہے ہو؟

دعا یعنی ان تمام موارد کے لئے خدا کی بارگاہ میں سوال اوراجابت کا مطالبہ ہے، نیز سارے اختیارات کو ترک کرنا او رتمام ظاہری و باطنی امور خدائے بر حق کے سپرد کردینا ہے ۔

اگر دعا کو اس کی شرائط کے ساتھ انجام نہ دیا تو اس کی قبولیت کے لئے منتظر نہ رہیں اس لئے کہ وہ ظاہر وباطن سے آگاہ ہے شاید خدا سے اس امر کے لئے دعا کررہے ہو جس کے باطن میں خدا اس کے برعکس دیکھ رہا ہو۔

یہ معلوم ہونا چاہئے کہ خدا اگر ہمیں دعا کا حکم نہیں دیتا لیکن ہم اخلاص کے ساتھ دعا کرتے تو وہ اپنے فضل کی بنیاد پر ہماری دعا کو قبول کرتا لہذا جب پروردگار عالم شرائط کے ساتھ انجام دی گئی دعا کی قبولیت کا ضامن ہے تووہ اسے کیسے قبول نہ کرے گا ؟[1]

آداب دعا درج ذیل ہیں:

پہلی شرط:دعا کو خدا نے نام سے شروع کرنا۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم  فرماتے ہیں:

لا يردّ دعاء أوّله «بسم اللَّه الرّحمن الرّحيم».[2]

جس دعا کے شروع میں «بسم اللَّه الرّحمن الرّحيم» ہو وہ رد نہیں ہو سکتی۔

دوسری شرط:دعا کرنے سے پہلے پروردگارکی حمد و ثناء بجالائی جائے۔

ہمارے سید و سردار حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

کل دعاء لایکون قبلہ تحمید فھوأبتر.[3]

ہر وہ دعا کہ جس سے پہلے پروردگار عالم کی حمد و ستائش نہ کی جائے وہ ابتر اور ناقص ہے ۔

امیر المومنین علیہ السلام کے مکتوب میں یوں بیان ہوا ہے:

دعا اور طلب کرنے سے پہلے خدا کی حمد و ثناء ہوتی ہے، جب پروردگارعالم سے دعا کرنا چاہو تو  پہلے اس کی تعریف کرو۔

راوی کہتا ہے کہ میں نے عرض کیا: اس کی حمد و ثناء کیسے کریں ؟

فرمایا اس طرح کہو :

يا مَنْ أَقْرَبُ إِلَيَّ مِنْ حَبْلِ الْوَريدِ ، يا مَنْ يَحُولُ بَيْنَ الْمَرْءِ وَقَلْبِهِ ، يا مَنْ هُوَ بِالْمَنْظَرِ الْأَعْلى ، يا مَنْ لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْ‏ءٌ . [4]

اے وہ (پروردگار)جو مجھ سے میری رگ گردن سے زیادہ قریب ہے ! وہ کہ جو انسان اور اس کے قلب کے درمیان  حائل ہوتا ہے! اے وہ جونظر کرنے میں بلند مرتبہ ہے ! اے وہ کہ جس کی مثل و مانند کوئی چیزنہیں ہے ۔

تیسری شرط:محمد و آل محمد علیہم السلام پر صلوات بھیجنا۔

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم فرماتے ہیں:

صلاتكم عليّ إجابة لدعائكم،وزكاة لأعمالكم.[5]

ہم پرتمہارا درود بھیجناتمہاری دعا کی قبولیت اورتمہارے اعمال کے پاکیزہ ہونے کاباعث ہے۔

ہمارے آقا و مولاحضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

لايزال الدعاء محجوباً حتّى يصلّي على محمّد وآل محمّد.[6]

دعا اس وقت تک محجوب رہے گی جب تک محمد و آل محمدعلیہم السلام پردرود نہ بھیجی جائے۔

دوسری حدیث میں فرماتے ہیں :

من كانت له إلى اللَّه عزّوجلّ حاجة فليبدأ بالصلاة على محمّد وآله ، ثمّ يسأله حاجته،ثمّ يختم بالصلاة على محمّد وآل محمّد،فإنّ اللَّه أكرم من أن يقبل الطرفين ويدع الوسط ، إذا كانت الصلاة على محمّد وآل محمّد لا تحجب عنه .[7]

جو پروردگار عالم کی بارگاہ میں حاجت مند ہو اسے چاہئے کہ محمد و آل محمد علیہم السلام پر صلوات سے ابتدا کرے اور پھر اپنی حاجت کو پروردگارعالم سے طلب کرے اور محمد و آل محمد علیہم السلام پر صلوات بھیج کر  تمام کرے، اس لئے کہ پروردگارعالم اس سے کہیں زیادہ کریم ہے کہ کلام کے دونوں سروں کو قبول کرے اور بیچ کے حصہ کو قبول نہ کر ے ۔جب دعامحمد و آل محمد علیہم السلام پر صلوات کے ساتھ ہو تومحجوب نہ ہوگی ۔

چوتھی شرط:شفاعت طلب کرنا۔

ہمارے مولا حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام فرماتے ہیں:

جب خدا سے کوئی حاجت ہو تو کہو:

أَللَّهُمَّ إِنّي أَسْأَلُكَ بِحَقِّ مُحَمَّدٍ وَعَلِيٍّ،فَإِنَّ لَهُمَا عِنْدَكَ شَأْناً مِنَ الشَّأْنِ،وَقَدْراً مِنَ الْقَدْرِ، فَبِحَقِّ ذٰلِكَ الشَّأْنِ وَبِحَقِّ ذٰلِكَ الْقَدْرِ أَنْ تُصَلِّيَ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ،وَأَنْ تَفْعَلَ بي كَذا وَكَذا...۔ [8]

پروردگارا!میں تجھ سے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور علی علیہ السلام کے حق کا واسطہ دے کر سوال کرتا ہوں، کیونکہ یہ دونوں بزرگ تیرے نزدیک مقام و منزلت رکھتے ہیں اور یہ تیرے نزدیک قدرو قیمت رکھتے ہیں پس اس قدرو منزلت اور اس شان کا واسطہ محمد و آل محمد علیہم السلام پر درود بھیج اور میری فلاں فلاں حاجت کو پوری فرما۔

کیونکہ روز قیامت کوئی بھی ملک مقرب ،پیغمبر مرسل اور آز مودہ مؤمن باقی نہیں ہوگا مگر یہ کہ اسے ان دو بزرگ ہستیوں کی شفاعت کی ضرورت نہ ہو۔

حاجتوں کے پورا ہونے اور اپنی چاہت و مقصد کے حصول کے لئے خدا کی بارگاہ میں کوئی وسیلہ پیش کرنا ضروری ہے کیونکہ خداوند عالم نے ہمیں اس کا حکم دیا ہے اور فرمایا ہے:

«وَابْتَغُوا إِلَيْهِ الْوَسيلَةَ»[9]

’’اوراس تک پہنچے کا وسیلہ تلاش کرو‘‘۔

خداوند متعال  کے نزدیک محمد و آل محمد علیہم السلام سے بڑھ کر کوئی مقرب وسیلہ نہیں ہے اور یہی شفاعت ہے۔

زیارت جامعۂ کبیرہ میں اس طرح پڑھتے ہیں :

أَللَّهُمَّ إِنّي لَوْ وَجَدْتُ شُفَعاءَ أَقْرَبَ إِلَيْكَ مِنْ مُحَمَّدٍ وَأَهْلِ بَيْتِهِ الْأَخْيَارِ ، اَلْأَئِمَّةِ الْأَبْرارِ لَجَعَلْتُهُمْ شُفَعَائي...۔

پروردگارا!اگر تیرے نزدیک میں محمدصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے اہلبیت اخیارعلیہم السلام اورئمہ ابرار علیہم السلام  سے بہتر کسی کو شفیع پاتا تو انہیں تیری بارگاہ میںاپنا شفیع قرار دیتا ۔

نیز روایات واضح دلالت کرتی ہیں کہ کلام الٰہی میں وسیلہ سے مراد ائمہ معصومین علیہم السلام ہیں اور اگر ہم وسیلہ کو سیڑھی وغیرہ سے تعبیر کریں تو اس میں کوئی منافات نہیں ہے کیونکہ یہاں پر سیڑھی سے مراد بلندی اور ترقی وپیشرفت کی منزل طے کرنے کا وسیلہ ہے ۔

 رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ایک روایت میں نقل ہوا ہے:

ھُمُ الْعُروةُالْوُثْقی وَالْوَسِیلَةُ اِلَی اللّٰہِ.[10]

وہ یعنی اہل بیت عصمت و طہارت علیہم السلام خدا کی جانب مورد اطمینان وسیلہ ، اور محکم رسّی ہیں۔

پھر اس آیۂ مبارکہ کی تلاوت فرمائی :

« یَا اَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوْاللّٰہَ وَابْتَغُوْا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَةَ »[11]

’’اے ایمان لانے والو! خدا سے ڈرو او ر اس کی (بارگاہ )کے لئے وسیلہ طلب کرو ‘‘

شاید و سیلہ طلب کرنے کے لئے پروردگار عالم کی بارگاہ میں ایمان اور تقویٰ دولازمی شرط ہوں چنانچہ تقوا اورایما ن کے بغیر وسیلہ طلب کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

اس بناء پرجب یہ دونوں صفات جمع  ہوں تو مفید ہوں گے کیونکہ ایمان و تقویٰ کے بغیر ولایت کا وجود نہیں ہو سکتا۔

پانچویں شرط:گناہوں کا عتراف کرنا۔

ایک روایت میں ہمارے مولا حضرت امام صادق علیہ السلام سے نقل ہوا ہے:

إنّما هي المدحة،ثمّ الإقرار بالذنب ثمّ المسألةواللَّه ماخرج عبد من ذنب إلّا بالإقرار.[12]

بیشک دعامیں پہلے خدا کی مدح و ثنا پھر گناہ کا اقرار اس کے بعد اپنی حاجت کا سوال ہونا چاہئے ، خدا کی قسم کوئی بندہ بھی اپنے گناہوں کا اقرار کئے بغیر گناہوں سے نہیں نکل سکتا۔

چھٹی شرط:غفلت  اور بے توجہی کے عالم میں دعا نہ کی جائے بلکہ خدا کی بارگاہ  میں حضور قلب اور توجہ کے ساتھ دعا کریں ۔

جیسا کہ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

إنَّ اللَّه لايستجيب دعاء بظهر قلب ساه فإذا دعوت فأقبل بقلبك ثمّ استيقن الإجابة.[13]

بیشک خداوند عالم غافل دل سے کی گئی دعا کو قبول نہیں کرتا ہے لہذا جب دعا کرنا چاہو تو حضور قلب  اور توجہ کے ساتھ دعا کرو اور پھر اس کی مقبولیت کا یقین رکھو۔

چونکہ غافل درحقیقت دعا نہیں کرتا ، کیونکہ خدا کی طرف حضور قلب اور توجہ کے بغیر دعا ممکن نہیں ہو سکتی۔

ساتویں شرط:خوراک اور لباس کا پاک ہونا۔

چونکہ شائستہ دعا شائستہ عمل پر موقوف ہے ۔ نیک اور شائستہ عمل حرام اور پلید ی کے ساتھ کیسے اکٹھے ہو سکتے ہیں؟ قرآن مجید میں خداوند عالم کا یہ فرمان «يا أَيَّهُا الرُّسُلُ كُلُوا مِنَ الطَّيِّباتِ وَاعْمَلُوا صالِحاً»[14] ’’اے پیغمبر و! پاک وپاکیزہ چیزیں کھاؤاور عمل صالح انجام دو‘‘عمل صالح اور پاک و پاکیزہ غذا کے کھانے کے درمیان لازمہ پر بخوبی دلالت کرتا ہے۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :

من أحبّ أن يستجاب دعاؤه فليطيّب مطعمه ومكسبه.[15]

جو چاہتا ہے کہ  اس کی دعا مستجاب ہوتو اس کا کھانا  اور درآمد پاک و حلال ہونی چاہئے ۔

دوسری حدیث میں وارد ہواہے :

طَهِّرْ مَأكلك،وَلَا تَدخل فِي بَطنِكَ الْحَرام.[16]

اپنے کھانے کو پاکیزہ کرو اور اپنے شکم میں حرام مال داخل نہ کرو۔

ایک اورروایت میں نقل ہوا ہے :

أطب كسبك تستجاب دعوتك؛فإنّ الرجل يرفع اللقمة إلى فيه حراماً فما تستجاب له أربعين يوماً.[17]

اپنی درآمد کو پاک و حلال کرو تاکہ تمہاری دعا مستجاب ہو اس لئے کہ جب انسان حرام لقمہ منہ میں ڈالتا ہے تو چالیس روز تک اس کی دعا مستجاب نہیں ہوتی ہے۔

حدث قدسی میں واردہے :

فمنك الدعاء وعليّ الإجابة، فلا تحجب عنّي دعوة إلّا دعوة آكل الحرام.[18]

دوسری  روایت میں فرمایا :

إذا أراد أحدكم أن يستجاب له  فليطيّب كسبه،وليخرج من مظالم الناس ، وإنّ اللَّه لا يرفع دعاء عبد وفي بطنه حرام،أو عنده مظلمة لأحد من خلقه.[19]

جب تم میں سے کوئی چاہتا ہوکہ اس کی دعا مستجاب ہوتواسے چاہئے اپنی درآمد و معاش کو پاکیزہ  اور حلال کرے اور خودکولوگوں کے حق سے آزاد کرے کیونکہ خداوند اس شخص کی دعا کو بلند نہیں کرتا کہ  جس کے شکم میں حرام ہو یا اس پر حق الناس ہو۔

آٹھویں شرط:  واجب الذمہ حقوق کی ادائیگی۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

إنّ اللَّه عزّوجلّ يقول:وعزّتي وجلالي لا اُجيب دعوة مظلوم دعاني في مظلمة ظلمها، ولأحد عنده مثل تلك المظلمة.[20]

پروردگار عالم فرماتا ہے :مجھے اپنی عزت و جلال کی قسم! جس مظلوم پر ظلم ہوا ہے،جب کہ اس نے خود بھی  دوسرے  پراسی طرح کا ظلم کیا ہو تو اس کی دعا مستجاب نہ کروں گا۔ 

ہمارے آقا و مولا امیر المؤمنین حضرت امام علی علیہ السلام نے فرمایا:

إنّ اللَّه أوحى إلى عيسى بن مريم : قل للملإ من بني اسرائيل:... إنّي غير مستجيب لأحد منكم دعوة ولأحد من خلقي قبله مظلمة.[21]

پروردگار عالم نے حضرت عیسیٰ بن مریم پر وحی نازل فرمائی:بنی اسرائیل کے گروہ سے کہو: میں اس شخص کی دعا قبول نہیں کروںگا کہ جس کے پاس لوگوں کا حق ہے ۔

نویں شرط: حاجت پوری ہونی کی راہ میںحائل گناہوں کو ترک کرنا۔

حضرت امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :

إنّ العبد يسأل الحاجة فيكون من شأنه قضاؤها إلى أجل قريب،أو إلى وقت بطي‏ء فيذنب العبد ذنباً،فيقول اللَّه تبارك وتعالى للملك:لاتقض حاجته وأحرمه إيّاها،فإنّه تعرّض لسخطي واستوجب الحرمان منّي.[22]

جب بندہ خدا سے حاجت طلب کرے تو ممکن ہے کہ اس کی حاجت جلد پوری ہوجائے یا اس میں تأخیرہوجائے لیکن اسی دوران بندہ گناہ کا مرتکب ہوتا ہے توخداوند تبارک و تعالیٰ فرشتہ کو حکم دیتا ہے کہ اس کی حاجت  پوری نہ کرو اور اسے محروم رکھو کیونکہ وہ میرے غضب کا حقدار ہو گیاہے اور میری   جانب سے محرومیت کا مستحق ہے ۔

دسویں شرط:دعا کی قبولیت کی امید رکھنا۔

اس سے مراد یقین ہے اس لئے کہپروردگار عالم سے وعدہ خلافی محال ہے کیونکہ خدا نے خود اپنے کلام میں دعا کرنے کا حکم دیا ہے اور اس کی قبولیت کی ضمانت دی ہے:

« اُدْعُوني أَسْتَجِبْ لَكُمْ»[23]

مجھ سے دعا کرو میں مستجاب کروں گا۔

لہذاخدا وعدہ کی خلاف ورزی نہیں کرتاجیسا کہ قرآن مجید میں دوسری جگہ فرماتا ہے:

«وَعْدَ اللَّهِ لايُخْلِفُ اللَّهُ وَعْدَهُ وَلكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لايَعْلَمُونَ»[24]

یہ وعدۂ الہٰی ہے اور پروردگارعالم اپنے وعدے کی خلاف ورزی نہیں کرتا لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

خدا کیسے وعدہ خلافی کرسکتا ہے جب کہ وہ بے نیاز ،قادر ،مہر بان،رحیم اور صاحب عظمت ہے ؟

ایک دوسری حدیث میں ارشاد ہوتا ہے :

فإذا دعوت فأقبل بقلبك ثمّ استيقن الإجابة.[25]،[26]

جب دعا کرو تو اپنے پورے وجودکے ساتھ پروردگار کو پکارو اور پھر دعا کی قبولیت کا یقین رکھو ۔

گیارہویں شرط :دعا میں اصرار اور استقا مت ۔

مرحوم علامہ مجلسی ؒاسے دعا کے آداب اور شرائط میں شمار کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ قدیم وحی میں واردہے:

لاتملّ من الدّعاء ، فإنّي لا أملّ من الإجابة.[27]

دعا کرنے سےتھکومت، اس لئے کہ میں اجابت سے نہیں تھکتا ۔

عبد العزیز طویل نے حضرت امام صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا :

إنّ العبد إذا دعا لم يزل اللَّه في حاجته ما لم يستعجل.[28]

جس وقت بندہ دعا کرتا ہے تو پروردگار عالم اس کی دعا کی اجابت کی حالت میں ہوتا ہے مگر یہ کہ وہ خود جلدی نہ کرے ۔یعنی دعا سے جلد ہاتھ اٹھا لے۔

اسی طرح حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت ہوئی ہے :

إنّ العبد إذا عجّل فقام لحاجته ، يقول اللَّه تعالى : استعجل عبدي أتراه يظنّ أنّ حوائجه بيد غيري.[29]

جس وقت بندہ اپنی حاجت طلب کرنے میں جلدی کرے تو پروردگار عالم فرماتا ہے : میرا بندہ جلدی کر رہا ہے کیا وہ خیال کرتا ہے اس کی حاجتیںمیرے علاوہ کسی اورکے ہاتھ میں ہیں؟

رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا :

انَّ اللّٰہ یُحب السائل اللحو ح.[30]

پروردگار عالم اصرار کرنے والے سائل کو دوست رکھتا ہے ۔

ولید بن عقبہ ہجری کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد باقر علیہ السلام سے سناکہ آپ نے فرمایا:

واللَّه،لا يلحّ عبد مؤمن على اللَّه في حاجة إلّا قضاها له.[31]

خدا کی قسم! کوئی بھی بندہ ایسا نہیں ہے جو اپنی حاجت پر اصرار کرے لیکن  خدا  اسے قبول نہ کرے۔

ابو صباح نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے:

إنّ اللَّه كره إلحاح الناس بعضهم على بعض في المسألة ، وأحبّ ذلك لنفسه ، إنّ اللَّه يحبّ أن يسأل ويطلب ما عنده .[32]

بیشک پروردگاراس بات کو پسند نہیں کرتا ہے کہ بعض لوگ دوسروں سے کسی مسئلہ میں اصرار کریں  لیکن اس اصرار کو خوداپنے لئے دوست رکھتا ہے،اور بیشک پروردگارعالم دوست رکھتا ہے کہ اس سے سوال کیا جائے اور جوچیز اس کے پاس ہے ،اسے سے طلب کی جائے۔

احمد بن محمد بن ابونصر سے روایت ہوئی ہے کہ وہ کہتے ہیں:

میں نے امام رضا علیہ السلام سے عرض کیا :میں آپ پر قربان جاؤں! میں فلاں سال سے اب تک پروردگار عالم سے ایک حاجت کا سوال کر رہا ہوں مگر حاجت کے پوری ہونے میں تأخیر کی وجہ سے اپنے دل میں کچھ چیزیں (شک ووسوسہ )محسوس کرتاہوں ۔

آپ  نے اس کے جواب میں فرمایا:

يا أحمد؛إيّاك والشيطان أن يكون له عليك سبيل،حتّى يقنّطك،إنّ أبا جعفر عليه السلام كان يقول:إنّ المؤمن ليسأل اللَّه حاجة فيؤخّر عنه تعجيل إجابته حبّاً لصوته واستماع نحيبه.

 ثمّ قال:واللَّه ما أخّر اللَّه عن المؤمنين ما يطلبون في هذه الدّنيا خير لهم ممّا عجّل لهم فيها ، وأيّ شي‏ء الدنيا.[33]

اے احمد !شیطان سے دوری اختیار کرو! کہیں وہ تمہارے اندر نفوذ نہ کر جائے اور تمہیں ناامید نہ کر دے۔جیسا کہ امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :اگر مومن پروردگار عالم سے کوئی حاجت طلب کرتا ہے اور اس کی حاجت روائی میں تأخیر ہوتی ہے تو اس کی یہ وجہ ہے کہ پروردگار عالم کو اس کی آواز اچھی لگتی ہے اور وہ اس کی فریادکو مزیدسننا چاہتا ہے ۔

پھر فرمایا :خدا کی قسم! اس دنیا میں مومنین جو کچھ طلب کرتے ہیں ،پروردگار عالم انہیں وہ عطا کرنے میں تأخیر نہیں کرتا ہے مگر یہ کہ وہ ان کے لئے ان چیزوں سے بہتر ہے جس میں ان کے لئے تعجیل فرمائی ہے اور دنیا کی کیا قیمت ہے؟!!

امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں :

إنّ العبد الوليّ للَّه يدعو اللَّه في الأمر ينوبه،فيقال للملك الموكّل به:إقض لعبدي حاجته ولاتعجّلها،فإنّي أشتهي أن أسمع نداءه وصوته.

وإنّ العبد العدوّ للَّه ليدعو اللَّه في الأمر ينوبه،فيقال للملك الموكّل به: إقض لعبدي حاجته وعجّلها،فإنّي أكره أن أسمع نداءه وصوته.

 قال:فيقول الناس: ما اُعطي هذا إلّا لكرامته،وما منع هذا إلّا لهوانه.[34]

جس بندے کو پرور دگار عالم دوست رکھتا ہے اور کسی حاجت کے متعلق وہ خدا سے دعا کرے تو اس کی حاجت کے لئے مأمور فرشتے سے کہا جاتاہے :میرے بندے کی حاجت پوری کرو لیکن جلدی نہ کرو اس لئے کہ مجھے اس کی نداوصدا سننا پسند ہے۔

 اور وہ بندہ جو خدا کا دشمن  ہے اورجب وہ کسی امر میں دعا کرے تو اس کی حاجت کے لئے مامور فرشتہ سے کہا جاتاہے : اس کی حاجت جلدی پوری کروکیونکہ  اس کی ندا وآواز مجھے پسند نہیں ہے ۔

حضرت نے فرمایا :لیکن لوگ یوں کہتے ہیں کہ دوسری قسم کے لوگوں کی حاجت پوری نہیں ہوئی مگر خدا کے نزدیک ان کی کرامت کی وجہ سے ،اور پہلے قسم کے لوگوں کی حاجت روا ہونے میں تأخیر نہیں ہوئی مگر ان کے بارگاہ خدا میں پست ہونے کی وجہ سے۔

حضرت امام صادق علیہ السلام ایک دوسری روایت میں فرماتے ہیں:

لايزال المؤمن بخير ورخاء ورحمة من اللَّه ما لم يستعجل فيقنط فيترك الدعاء، قلت له: كيف يستعجل ؟

قال : يقول : قد دعوت منذ كذا وكذا ، ولا أرى الإجابة.[35]

مؤمنجب تکجلدی نہ کرے،پشیمان نہ ہو اور دعا سے ہاتھ نہ اٹھا  لے،وہ ہمیشہ خیر وآسا ئش اور رحمت الہی میں ہے ۔

ہم نے امام سے عرض کیا :کیسےجلدی کرتا ہے ؟

حضرت نے فرمایا : کہتا ہے ایک مدت سے پرور دگار سے دعا کررہاہوں مگر وہ قبول نہیں ہوتی۔

اسی طرح دوسری جگہ فرماتے ہیں :

إنّ المؤمن ليدعو اللَّه في حاجته فيقول عزّوجلّ:أخّروا إجابته،شوقاً إلى صوته ودعائه. فإذا كان يوم القيامة قال اللَّه:عبدي دعوتني وأخّرت إجابتك وثوابك كذا وكذا، ودعوتني في كذا وكذا فأخّرت إجابتك وثوابك كذا .

قال: فيتمنّى المؤمن أنّه لم يستجب له دعوة في الدّنيا ممّا يرى من حسن الثواب.[36]

بندۂ مومن خدا سے اپنی حاجت کے لئے دعا کرتا ہے تو پروردگارعالم فرماتا ہے اس کی دعا کی  اجابت میں تأخیر کرو چونکہ مجھے اس کی آواز اور دعا سننے کا اشتیاق ہے ۔اورجب قیامت کادن ہوگاتو پروردگار عالم فرمائے گا:میرے بندے!  تو نے مجھ سے دعا کی اور میں نے اسے قبول کرنے میں تأخیر کی اور اب یہ اس تأخیر کا ثواب اور جزا ہے جو تونے مجھ سے فلاں مورد میں بھی دعا کی تھی اور میں نے اس کا جواب دینے میں تأخیر کی،اب یہ اس کی جزا و ثواب ہے ۔

حضرت نے فرمایا :اس روز مومن آرزو کرے گاکہ اے کاش !دنیا میں اس کی کوئی دعا مستجاب نہ ہوتی اور یہ وہ وقت ہوگا جب آخرت میں اس کی نیک جزا دیکھے گا ۔

حضرت امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:

رحم اللَّه عبداً طلب من اللَّه حاجة فألحّ في الدّعاء،اُستجيب له أو لم يستجب له،وتلا هذه الآية:

 « وَأَدْعُو رَبِّي عَسٰى أَنْ لَا أَكُونَ بِدُعَاءِ رَبِّي شَقِيّاً »[37]،[38]

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نےفرمایا :خداوند اس بندے پر رحمت کرے کہ جو خدا سے کوئی حاجت طلب کرے اور پھر دعا کرنے میں اصرار کرے، چاہے اس کی دعا مستجاب ہو یا نہ ہواور پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی:اوراپنے پروردگار کوہی پکاروں گا، امید ہے کہ میں اپنے پروردگار کو پکارنے میں محروم نہیں رہو ں گا۔

توریت میں ذکر ہوا ہے :

يا موسى؛ من أحبّني لم ينسني ، ومن رجا معروفي ألحّ في مسألتي.

 يا موسى؛ إنّي لست بغافل عن خلقي ولكن اُحبّ أن تسمع ملائكتي ضجيج الدّعاء من عبادي ، وترى حفظتي تقرّب بني آدم إليَّ بما أنا مقوّيهم عليه ومسبّبه لهم.

 يا موسى ؛ قل لبني إسرائيل : لاتبطرنّكم النعمة فيعاجلكم السلب ، ولاتغفلوا عن الشكر فيقارعكم الذلّ ، وألحّوا في الدّعاء تشملكم الرحمة بالإجابة ، وتهنئكم العافية.[39]

اے موسیٰ!جو ہمیں دوست رکھتا ہے وہ مجھے فراموش نہیں کرتا ،جو مجھ سے خیرکی امید رکھتا ہے  وہ اپنی دعاپر اصرار کرتا ہے ۔

اے موسیٰ! میں اپنی مخلوقات سے غافل نہیں ہوں لیکن مجھے پسند ہے کہ میرے فرشتے میرے بندوں کا فریاد اور ان کی دعا سنیں اورمیرے عرش کے محافظ مشاہدہ کریںکہ انسان اور اولاد آدم دعا اور فریاد (جس کی قوت میں نے خود انہیں عطا کی ہے اور دعا کے اسباب بھی انہیں فراہم کئے ہیں)کے ذریعہ کس طرح مجھ سے نزدیک ہوتے ہیں۔

اے موسیٰ !بنی اسرئیل سے کہہ دو :نعمت اور آسائش تمہیں ناشکری اور غرور میں مبتلا نہ کر دے کیونکہ اس صورت میں جلدہی تم سے نعمت چھین لی جائے گی اور حمد و شکر سے غفلت نہ کرو تاکہ ذلت و رسوائی تمہارے دامن گیر نہ ہو، دعا میں اصرار کرو تاکہ رحمت الٰہی دعا کی اجابت کی صورت میں تمہارے شامل حال ہو اور عافیت و سلامتی سے سرفرازر ہو۔

امام باقر علیہ السلام فرماتے ہیں :

لايلحّ عبد مؤمن على اللَّه في حاجته إلّا قضاها له.[40]

کوئی ایسا بندہ نہیں ہے ،جو اپنی حاجت  پراصرار کرے اور خدا اس کی حاجت روائی نہ کرے ۔

منصور صیقل کا بیان ہے :

قلت لأبي عبداللَّه عليه السلام:ربّما دعا الرجل فاستجيب له ثمّ اُخّر ذلك إلى حين ؟ قال : فقال : نعم ، قلت : ولِمَ ذلك ليزداد من الدعاء ؟ قال : نعم.[41]

میں نے امام صادق علیہ السلام سے عرض کیا :ممکن ہے کہ بعض اوقات ایک شخص دعا کرے اور وہ مستجاب ہو لیکن ایک مدت تک اس میں تأخیر ہو؟

آپ نے فرمایا: ہاں۔

ہم نے عرض کیا :ایساکیوں ہوتا ہے ؟ کیا اس لئے کہ وہ زیادہ دعا کرے ؟            

حضرت نے فرمایا:ہاں۔

 ہم نے جو کچھ بیان کیا وہ دعا کے شرائط اور آداب کا نہایت اہم حصہ تھااب ہم بعض امور کو زیادہ تأکید کے ساتھ بیان کریں گے ۔

 


[1] ۔ بحار الأنوار : ج ۹۳، ص ۳۲۲

[2] ۔ بحار الأنوار : ج ۹۳، ص ۳۱۳

[3] ۔الکافی : ج۲، ص ۵۰۳

[4] ۔ بحار الأنوار : ج ۹۳، ص ۳۱۵

[5] ۔ بحار الأنوار : ج ۹۴، ص ۵۴

[6] ۔ بحار الأنوار : ج ۹۳، ص ۳۱۲ اور ۳۱۶

[7] ۔ بحار الأنوار : ج ۹۳، ص ۳۱۶

[8] ۔ بحار الأنوار : ج ۹۴، ص ۲۲

[9] ۔ سورۂ مائدہ ، آیت :۳۵

[10] ۔ تفسیر صافی : ج ۱، ص ۴۴۱

[11] ۔ سورۂ مائدہ ، آیت :۳۵

[12] ۔ بحار الأنوار : ج ۹۳، ص ۳۱۸

[13] ۔ بحار الأنوار : ج ۹۳، ص ۳۲۳

[14] ۔ سورۂ مؤمنون ، آیت :۵۱

[15] ۔ بحار الأنوار ، ج ۹۳ ، ص ۳۷۲

[16] ۔ بحار الأنوار ، ج ۹۳ ، ص ۳۷۳

[17] ۔ بحار الأنوار ، ج ۹۳ ، ص ۳۵۸

[18] ۔ بحار الأنوار ، ج ۹۳ ، ص ۳۷۳

[19] ۔ بحار الأنوار ، ج ۹۳ ، ص ۳۲۱

[20] ۔ بحار الأنوار ، ج ۹۳ ، ص ۳۲۰

[21] ۔ بحار الأنوار ، ج ۹۳ ، ص۳۷۲

[22] ۔ بحار الأنوار ، ج ۹۳ ، ص۳۲۸

[23] ۔ سورۂ غافر،آیت:٦٠

[24] ۔ سورۂ روم،آیت:٦

[25] ۔ بحار الأنوار ، ج ۱ ، ص۳۲۳

[26] ۔ المختار من کلمات الامام المہدی، ج ۱ ص ۲۳۸

[27] ۔ بحار الأنوار ، ج ۹۳ ، ص۳۷۳

[28] ۔ الکافی : ج۲، ص ۳۷۴

[29] ۔ بحار الأنوار ، ج ۹۳ ، ص۳۷۵

[30] ۔ بحار الأنوار ، ج ۹۳ ، ص۳۷۵

[31] ۔ الکافی ، ج۲ ، ص۴۷۵

[32] ۔ الکافی ، ج۲ ، ص۴۷۵

[33] ۔ بحار الأنوار ، ج ۹۳ ، ص۳۷۴

[34] ۔ بحار الأنوار ، ج ۹۳ ، ص۳۷۴

[35] ۔ بحار الأنوار ، ج ۹۳ ، ص۳۷۴

[36] ۔ بحار الأنوار ، ج ۹۳ ، ص۳۷۴

[37] ۔ سورۂ مریم ، آیت : ۳۸

[38] ۔ بحار الأنوار ، ج ۹۳ ، ص۳۷۵

[39] ۔ بحار الأنوار ، ج ۹۳ ، ص۳۷۴

[40] ۔ بحار الأنوار ، ج ۹۳ ، ص۳۷۵

[41] ۔ بحار الأنوار ، ج ۹۳ ، ص۳۷۵

    ملاحظہ کریں : 252
    آج کے وزٹر : 70625
    کل کے وزٹر : 164982
    تمام وزٹر کی تعداد : 142116579
    تمام وزٹر کی تعداد : 97998940