हमारा लोगो अपनी वेबसाइट या वेबलॉग में रखने के लिए निम्न लिखित कोड कापी करें और अपनी वेबसाइट या वेबलॉग में रखें
علم کی ترویج معنوی کمالات کا ذریعہ

علم کی ترویج معنوی کمالات کا ذریعہ

جو علم قلب کو حیات بخشتا ہے ،اس کی فضیلت فقط اس وجہ سے نہیں ہے کہ وہ عالم کے نفس میں تحولات ایجاد کرتا ہے۔بلکہ یہ دوسروں کو سکھائے تو یہ معاشرے میں تحولات ایجاد کرنے کے لحاظ سے بھی فضیلت رکھتا ہے۔کیونکہ علم کا لازمہ،اس کی نشر و اشاعت اور دوسروں کو سکھانا ہے۔

تعلیم حاصل کرنے والوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ دوسرے افراد کو بھی

تعلیم دیں۔اس طرح سے اگرچہ علم کم ہو لیکن ایک دوسرے کو تعلیم دینے سے یہ ہزاروں افراد میں فروغ پائے گا۔اب ہم جو واقعہ بیان کرنے جارہے ہیں اس سے آپ علم کی نشر و اشاعت کی فضیلت کا اندازہ بخوبی لگاسکتے ہیں۔

مرحوم مجلسی اول بزرگ شیعہ علماء میں سے ہیں۔وہ اپنی پوری زندگی ریاضت، مجاہدہ، تہذیبِ اخلاق اور لوگوں کی خدمت میں مشغول رہے۔وہ اپنی ایک تحریر میں بیان کرتے ہیں:

میں زیارت کے لئے گیا ،جب نجف اشرف پہنچا تو سردیوں کا موسم شروع ہوچکا تھا ،میں نے ارادہ کیا کہ سردیاںنجف اشرف میں گزاروں رات کو عالمِ خواب میں حضرت امیرالمومنین  کی زیارت نصیب ہوئی،انہوں نے مجھ پر بہت لطف و کرم کیااور فرمایا:اب تم نجف میں نہ رہو بلکہ واپس اپنے شہر (اصفہان)چلے جائو کیونکہ وہاں تمہاری زیادہ ضرورت ہے اور وہاں کے لئے تم زیادہ مفید ہو۔چونکہ مجھے نجف اشرف رہنے کا زیادہ اشتیاق تھا میں نے بہت اصرار کیا کہ کسی طرح مولا مجھے وہاںرہنے کی اجازت دے دیںلیکن حضرت امیرالمومنین نہ مانے اور فرمایا:اس سال شاہ عباس وفات پاجائیگا اور شاہ صفی اس کا جانشین بنے گا ،ایران میں سخت فتنہ برپا ہوگا،خدا چاہتا ہے کہ تم اس فتنہ کے دوران لوگوں کی ہدایت کرو۔([1])

مہم نکتہ یہ ہے کہ حضرت امیرالمومنین (ع) نے فرمایا کہ تم خود تنہا خدا کی طرف آنا چاہتے ہو،لیکن خدا چاہتا ہے کہ تمہاری ہدایت سے ستر ہزار افراد خدا کی طرف آئیں،پس تم واپس چلے جائو ۔اس خواب کی وجہ سے میں واپس اصفہان چلا گیا۔میں نے اپنے ایک نزدیکی دوست سے یہ خواب بیان کیا،اس ننے یہ خواب شاہ صفی کو بتایا کہ جو ان دنوں مدرسہ صفویہ میں تھا ۔چند دن گذرنے کے بعد شاہ عباس مازندران کے سفر کے دوران چل بسااور شاہ صفی اس کا جانشین بن گیا۔

اس خواب کی وجہ سے مرحوم علّامہ مجلسی اول اصفہان چلے آئے اور لوگوں کو علوم و معارف اہلبیت کے تابناک انوار سے آشنا کروایا۔

جی ہاں !غیبت کے دوران دانشمندوں اور خاندان عصمت و طہارت کے عقائد و معارف سے آگاہ افراد پر لازم ہے کہ ایک مہربان و شفیق باپ کی طرح دوسروں کی مدد کریں اور ان کی رہنمائی کی کوشش کریں۔

اس حقیقت سے آگاہ امام حسن عسکری  کی ایک روایت ہے کہ جو انہوں نے پیغمبرۖ سے نقل فرمائی ہے: 

'' اَشَدُّ مِن یُتِم ِالےَتِیم الّذی اِنقَطَعَ عَن اَبِیہ،یُتمُ ےَتِیمٍ اِنقَطَعَ عَن اِمَامِہ، وَلَاےَقدِرُالوُصُولُ اِلَیہ وَلَا یَدرِی کَیفَ حُکمُہ فِیمَاےَبتَلی بِہ مِن شَرایعِ دِینِہ اَلَا فَمَن کَانَ مِن شِیعَتِنَا عَالِما بِعُلومِنَاوَھَذا الجَاھِلُ بِشَرِیعَتِنا،اَلمُنقَطِعُ عَن مُشَاہِدَتِنَا،ےَتِیم فِی حِجرِہ۔اَلَا فَمَن ھَداہُ وَاَرشَدَہُ وَ عَلَّمَہ شَرِیعَتَنا کَانَ مَعَنَا فِی الرَّفِیقِ الاَعلٰی '' ([2])

اپنے باپ کا سایہ سر سے اٹھ جانے والے یتیم سے بڑھ کر بے سرپرست وہ یتیم ہے کہ جو اپنے امام سے دور ہو اور امام تک پہنچنے کی قدرت نہ رکھتا ہو وہ نہیں جانتا کہ اسے درپیش آنے والے شرعی احکامات میں اس کا کیا وظیفہ ہے؟

آگاہ ہوجائو کہ ہمارے شیعوں میں سے جو ہمارے علوم سے آشنا ہیں،ان میں سے جو بھی ایسے شخص کی ہدایت کرے اور اسے شریعت کے احکام بتائے کہ جو ہماری شریعت سے جاہل ،ہمارے دیدار سے محروم اور ہمارے حجر میں یتیم ہو تو وہ بہشت میں بلند مقام پر ہمارے ساتھ ہوگا۔

 

اس روایت میں پیغمبر اکرۖ م  علوم کی ترویج اور نا بلد و نا آشنا افراد کی ہدایت کرنے کو تکامل معنوی کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

جو  لوگوں کی ہدایت اور راہنمائی کرے گا وہ بہشت برین میں ہمارے ساتھ ہوگا۔اسی وجہ سے بہت سے علماء نے علم و دانش کو کسب کرنے کی بہت کوششیں کی،ان میں سے بعض تو اس طرح علمی صلاحیت و مسائل میں کھو جاتے کہ وہ کھانے پینے اور سونے کو ہی بھول جاتے۔

مرحوم حاج کریم فرّاش کہ جو حضرت امام حسین(ع) کے حرم کے خدام میں سے تھے وہ کہتے ہیں:میں حرم مطہر میں خدمتگذاری میں مصروف تھا خدّام نے زوّاروں کو حرم کے دروازے بند ہونے کی اطلاع دی،میں نے دیکھا کہ وحید بہہبانی اور آقا شیخ یوسف بحرانی ایک ساتھ حرم سے باہر آئے اور برآمدے میں آکر علمی مسائل پر بحث کرنے لگے،پھر خدام نے زائرین کو برآمدے کے دروازے بند ہونے کی اطلاع دی تو ان دونوں بزرگواروں نے صحن میں آکر بحث کو جاری رکھا،یہاں تک کے صحن کے دروازے بند ہونے کے بارے میں بھی زائرین کو مطلع کیا گیا۔

وہ دونوں بزرگوار صحن سے نکل کر دروازے کے پیچھے اپنی علمی گفتگو میں مصروف رہے،میں حرم کے صحن میں تھا سحری کے وقت حرم کے دروازے کھولنے گیا ،جب میں نے حرم کے دروازے کھولے تو دیکھا کہ وہ دونوں بزرگوار ابھی تک کھڑے ہیں اور علمی بحث کررہے ہیں۔

جب میں نے دیکھا تو ان کے قریب کھڑا ہوگیا اور ان کی بحث سننے لگا ،لیکن انہوں نے اپنے مباحثہ کو جاری رکھا،یہاں تک کہ مؤذن نے صبح کی اذان دی تو اس وقت آقا شیخ یوسف بحرانی حرم مطہر کی طرف چلے گئے کیونکہ وہ حرم مطہر میں امام جماعت تھے،پھر ان کی بحث تمام ہوئی۔([3])

پوری شیعہ تاریخ میں علماء حقہ نے جن زحمات و تکالیف کو برداشت کیا ،ان کی زحمات لوگوں کو بتائیں اور ان کے احترام کی کوشش کریں،ان کی بدگوئی اور استخفاف سے گریز کریں۔

امام صادق (ع) فرماتے ہیں:

'' من اَفسَدَ بِالعُلَماءِ اَفسَدَدِینَہ'' ([4])

علماء کی اہانت کرنے والا اپنے دین کو فاسد کرتا ہے۔

یہ فرامین ان علماء کے بارے میں صادر ہوئے ہیں کہ جنہوں نے دین خدا کی خدمت میں اپنی زندگی بسر کی۔ایسے علماء کی اہانت ،دین اور خدا کے دستورات کی اہانت ہے۔ کیونکہ ایسے علماء علم ودانش کو کسب کرنے کی جستجو و کوشش اور اسے معاشرے میں فروغ دینے کی وجہ سے خدا کی بارگاہ اوراہلبیت عصمت و طہارت علیہم  السلام  کے مقربین میں سے ہیں۔

اس بناء پر جو ان کی اہانت کرے،حقیقت میں  وہ دین کی اہانت کرتا ہے،اور جو خدا کے دستورات کی اہانت کرے وہ اپنے دین کو تباہ کرتاہے۔

 


[1]۔ فوائدالرضویہ مرحوم محدث قمی :٤٤٠

[2]۔ بحارالانوار :ج٢ص ٢

[3]۔ فوائدالرضویہ مرحوم محدث قمی:٤٠٦

[4]۔ بحارالانوار:ج٢٣ص٣٧٨

 

    यात्रा : 7349
    आज के साइट प्रयोगकर्ता : 47930
    कल के साइट प्रयोगकर्ता : 94259
    कुल ख़ोज : 132547198
    कुल ख़ोज : 91881375