امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
پيغمبر اكرم صلی الله علیه وآله وسلم مدینہ میں قبا کے مقام پر داخل ہونا

12 ربیع الاوّل؛ پيغمبر اكرم صلی الله علیه وآله وسلم مدینہ میں قبا کے مقام پر داخل ہونا (سنہ ۱ ہجری)

**************************************************

اگر خاندان رسالت کے فضائل و كمالات کی معرفت حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ان کے نصیحت آمیز کاموں میں دقت کرو بلکہ ان نکے شیعوں حضرات ابراهيم ، اسماعيل ، داؤد و سليمان عليہم السلام کے امور پر توجہ کرو، بلكه حضرت‏ سليمان عليه السلام کے وصی آصف بن برخيا کے علم و قدرت کے متعلق بھی غور و فکر کرو تو معلوم ہو گا وہ کس طرح طبیعت میں تصرّف رکھتے ہیں، حالانکہ ان کے پاس صرف کتاب کا تھوڑا سا علم تھا۔ ان کو پوری کتاب کا علم نہیں دیا گیا.

   قرآن كريم میں اس واقعہ کو اس طرح سے بیان فرمایا ہے:

«يا أيُّها المَلأُ أيُّكُم يَأْتيني بِعَرْشِها قَبْلَ أنْ يَأْتُوني مُسْلمين × قالَ‏ عِفْريتٌ مِنَ الجِنّ أنَا آتيكَ بِهِ قَبْل أنْ تَقُومَ مِنْ مَقامك وَإنّي عَلَيْه لَقَويّ‏ أمينٌ × قالَ الَّذي عِنْدَهُ عِلْمٌ مِنَ الكِتابِ أنَا آتيكَ بِهِ قَبْلَ أنْ يَرْتَدَّ إلَيْك‏ طَرْفُك فَلَمّا رَءاهُ مُسْتَقِرّاً عِنْدَهُ قالَ هذا مِنْ فَضْلِ رَبّي لِيَبْلُوَني ءَأَشْكُرُ أمْ ‏أكْفُرُ وَمَنْ شَكَرَ فَإنَّما يَشْكُرُ لِنَفْسِهِ وَمَنْ كَفَرَ فَإنَّ رَبّي غَنِّيٌّ كَريمٌ» .(12)

(حضرت سليمان نے ان کے حواریوں سے کہا: ) تم میں کون ہے جو اس کے تخت کو لے کر آئے قبل اس کے کہ وہ لوگ اطاعت گزار بن کر حاضر ہوں۔ تو جنات میں سے ایک دیو نے کہا کہ میں اتنی جلدی لے آں گا کہ آپ اپنی جگہ سے بھی نہ اٹھیں گے میں بڑا صاحبِ قوت اور ذمہ دار ہوں ۔اور ایک شخص نے جس کے پاس کتاب کا ایک حصہ علم تھا اس نے کہا کہ میں اتنی جلدی لے آں گا کہ آپ کی پلک بھی نہ جھپکنے پائے اس کے بعد سلیمان نے تخت کو اپنے سامنے حاضر دیکھا تو کہنے لگے یہ میرے پروردگار کا فضل و کرم ہے وہ میرا امتحان لینا چاہتا ہے کہ میں شکریہ ادا کرتا ہوں یا کفرانِ نعمت کرتا ہوں اور جو شکریہ ادا کرے گا وہ اپنے ہی فائدہ کے لئے کرے گا اور جو کفران ہنعمت کرے گا اس کی طرف سے میرا پروردگار بے نیاز اور کریم ہے۔

آصف بن برخيا کی اس بات میں «أَنَا آتيكَ بِهِ» «میں اسے لے آؤں گا» میں ایک اہم نکتہ ہے جو وہابیت اور ان کے جاہل پیروکاروں کے عقیدہ کی نفی ہے۔ ہم ولایت کے مسائل کو بہتر انداز طور پر سمجھنے کے خواہش مند افراد کے لئے وضاحت کرتے ہیں:

خداوند نے آصف بن برخيا پر احسان فرمایا اور انہیں اپنے اسماء میں سے ایک اسم کی تعلیم دی۔ اس اسم کے توسط سے زمان و مکان میں تصرف کرنے کی قدرت و طاقت پیدا کر لی اور بلقیس کے تخت کو مملکت سبا سے فارس تک لے آئے جب کہ ان دو مقامات کے درمیان 500 فرسخ کا فاصله تھا اور یہ خدا پر ان کا عظیم فضل و کرم ہےاور جب آصف‏ نے اس قدرت سے استفادہ کرنا چاہا تو سليمان سے کہا : «میں اس کے لے آؤں گا» اور یہ نہیں کہا : «میں انہیں اذن خدا سے لے آؤں گا» .

اس آیت شریفہ سے یہ سمجھتے ہیں کہ جب خدا اپنے انبیاء اور اولیاء کو قدرت و ولایت عطا کرتا ہے تو ان پر واجب نہیں ہے کہ قدرت کے اظہار کے موقع پر کہیں کہ ہم اس کام کو اذن خدا سے انجام دے رہے ہیں۔ اس لئے ہم پر بھی یہ واجب نہیں ہے کہ جب ہم اولیاء سے متوسل ہوں تو یہ کہیں کہ ہماری حاجت کو خدا کے اذن سے پورا فرما دے۔ جیسا کہ آپ نے آصف بن برخیاء کی حضرت سلیمان کے ساتھ گفتگو ملاحظہ فرما۔ جب کہ آسف کا علم و قددرت ائمہ اطہار علیہم السلام کے علم و قدرت کے مقابلہ میں دریا کے سمانے قطرہ کی مانند ہے بلکہ اس سے بھی کم تر ہے کیونکہ ائمہ اطہار علیہم السلام کے پاس تمام کتاب کا علم ہے۔عبدالرّحمان بن كثير نے امام صادق عليه السلام سے اس آیت شریفہ «قالَ الَّذي‏ عِنْدَهُ عِلْمٌ مِنَ الكتابِ أنَا آتيكَ بِهِ قَبْلَ أنْ يَرْتَدَّ إلَيْك طَرْفُك»(13) کی تفسیر میں نقل کیا ہے کہ حضرت نے اپنی انگلیوں کو کھولا اور اپنے مبارک سینہ رکھا اور فرمایا:

وعندنا واللَّه علم الكتاب كلّه .(14)

خدا کی قسم «علم الكتاب» يعنى ہمارے پاس پوری کتاب کا علم ہے.

اس مطلب کو بیان کرنے والی بہت سی روایات ہیں۔اصبغ بن نباته‏ کی روایت روایت کی طرف متوجہ ہو:

اصبغ کہتے ہیں: میں نے امام حسين عليه السلام سے عرض كیا: اے میرے آقا!میں آپ سے ایک مطلب کے بارے میں پوچھنا چاہتا ہوں جس کے متعلق مجھے یقین ہے اور وہ رازوں میں سے ایک راز ہےاور آپ اس سے واقف ہیں۔ آپ نے فرمایا:

اے اصبغ ! کیا تم چاہتے ہو کہ پيغمبر اكرم صلى الله عليه وآله وسلم کی ابوبكر کے ساتھ مسجد قبا کی گفتگو مشاہدہ کرو؟

عرض كیا:یہ وہی چیز ہے جس کا میں نے ارادہ کیا ہے.

فرمایا: اٹھو، میں نے اچانک اپنے آپ کو کوفہ میں پایا اور آنکھ جھپکنے سے پہلے میں نے مسجد کو دیکھا۔ حضرت مجھے دیکھ کر مسکرائے اور پھر فرمایا: خدا نے ہوا کو سلمان بن داؤد کے لئے مسخر کیا «غُدُوُّها شَهْرٌ وَرَواحُها شَهْرٌ»(15) اور سلمان کو جو کچھ عطا کیا مجھے اس سے کہیں زیادہ عطا کیا.

عرض كیا: خدا کی قسم!برحق ہے اور ایسے ہی ہے اور پھر فرمایا:

نحن الّذين عندنا علم الكتاب وبيان ما فيه ، وليس عند أحد من خلقه ماعندنا ، لأنّه أهل سرّ اللَّه .

کتاب کا علم اور اس کا بیان ہمارے پاس ہے اور جو کچھ ہمارے پاس ہے وہ اس کی مخلوق میں سے کسی کے پاس نہیں ہے کیونکہ ہم سر الٰہی بھی رکھنے والے ہیں.

پھر فرمایا:ہم پروردگار عالم کے ساتھ تعلق رکھنے والے ہیں اور رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کے وارث ہیں.

فرمایا: داخل ہو جاؤ.

پس میں مسجد میں داخل ہو گیا اچانک میں نے پيغمبر اكرم صلى الله عليه وآله وسلم کو محراب میں دیکھا کہ آپ اپنے اوپر چادر لپیٹے ہوئے تھے۔ اسی دوران امیر المؤمنین علی علیہ السلام کو دیکھا کہ آپ نے ابوبكر کا گریبان پکڑا ہوا تھا. پيغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اس وقت اپنی انگلی دانتوں میں دبائے ہوئے تھے اور آپ نے فرمایا: تو اورتیرے اصحاب میرے بعد بدترین لوگوں میں سے تھے تم پر خدا اور میری طرف سے لعنت ہو .(16)

  اس واقعه سے تعجّب نہیں کرنا چہاے کیونکہ خاندان وحى عليہم السلام اپنے پاس موجود اسی ولایت کے سبب آسمانوں اور زمینوں میں تصرف کرنے کی قدرت رکھتے تھے.

اميرالمؤمنين علی عليه السلام نے فرمایا:

اس ذات کے حق کی قسم! جس نے دانے کر چیر کر اور مخلوق کو پیدا کیا. میرے پاس آسمانوں اور زمنون کے متعلق وہ اختیار اور قدرت ہے کہ تم اس کے جاننے کی ہمت نہیں رکھتے۔ خدا کے اسم اعظم بہتر ۷۲ حروف ہیں۔ آصف بن برخیا ان میں سے صرف ایک کے متعلق علم رکھتا ہے اسی ایک حرف کی بناء پر تخت بلقیس اور اس کے درمیان جو زمین تھی؛ اس میں تصرف کیا، وہاں گئے تخت کو اٹھایا اور زمین اپنی اصلی حالت پر باقی چلی گئی اور یہ پورا عمل پلک جھپکنے سے پہلے اننجام پایا۔خدا کی قسم! تمہارے بہتر حروف کا علم ہمارے پاس ہے اور ایک حرف ایسا ہے جو خدا کے ساتھ مخصوص ہے اور وہ خدا کے علم غیب میں پوسیدہ ہے۔ کوئی بھی قدرت و طاقت نہیں رکھتا ہے مگر بزرگ و برتر خدا کے سبب سے جس نے ہماری ہماری معرفت حاصل کر لی اس نے ہمیں پہچان لیا اور جس نے ہماری معرفت حاصل نہ کی اس نے ہمارا انکار کیا.(17)


12) سوره نمل ، آيه 40 - 38 .

13) سوره نمل ، آيه 40 .

14) الكافى : 229/1 ح 5 .  

15) سوره سبأ ، آيه 12 .

16) بحار الأنوار : 184/44 ، به نقل از كتاب مناقب آل ابى طالب : 52/4 .

17) بحار الأنوار : 37/27 ح 5 .

 

منبع: فضائل اہلبیت علیہم السلام میں سے ایک ناچیز قطرہ:ج 1 ص 15

 

بازدید : 1049
بازديد امروز : 0
بازديد ديروز : 251678
بازديد کل : 152717221
بازديد کل : 108300832