امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
(۳) سقیفہ میں کوئی اجماع نہیں تھا

(۳)

سقیفہ میں کوئی اجماع نہیں تھا

– اگر فرضاً خیالی اجماع کو قبول کر لیں اور کہیں کہ لوگوں نے رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کے بعد ابوبکر کو پیغمبر خدا صلى الله عليه وآله وسلم کے خلیفہ کے عنوان سے منتخب کیا تو کیا ان کے اس انتخاب کو خدا نے قبول کیا یا ایسا نہیں ہوا لیکن خدا نے کبھی بھی ان کے انتخاب پر مہر تصدیق ثبت نہیں کی؟

یہ سوال بہت اہم اور نتیجہ خیز ہے اور عقلاء کو مکمل طور پر اس کے بارے میں اور اس کے جواب کے بارے میں غور کرنا چاہئے اور قرآن کی طرف رجوع کرتے ہوئے واضح و آشکار طور پر اس کا قانع کنندہ جواب حاصل کرنا چاہئے کیونکہ قرآن کریم پر تو فریقین متفق ہیں۔

اس لئے ہم قرآن کریم کی طرف رجوع کرتے ہیں جو خدا کے احکام و دستورات کو بیان کرتا ہے  کیونکہ روایات میں ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ اپنی مشکلات کے حل کے لئے قرآن کی طرف رجوع کریں اور اس کے ذریعہ اپنی مشکلات کو برطرف کریں۔

اس بات کو صرف شیعہ ہی نیں بلکہ اہلسنت بھی قبول کرتے ہیں اور دونوں فرقوں نے اسے بارے میں اپنی کتابوں میں روایات کو نقل کیا ہے۔ ہم اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کتاب میں اسے بیان کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہتے ہیں:

قرآن کریم  میں امامت و خلافت کے مسئلہ میں نازل ہونے والی آیات کی طرف رجوع کریں تو قرآن کریم کی نظر میں عقلاء کے لئے ابوبکر کے انتخاب کی ماہیت بطور کامل روشن ہو جائے گی.

عمر کے بعد تین دن میں شوریٰ کی وجہ سے خلیفہ کو معین کیا گیا حالانکہ اس نے چھ افراد کو معین کیا تھا( تتمّۃ المنتہی:۱۲) کہ جن میں سے کوئی ایک اس کے موت کے بعد اس کا جانشین بن جائے البتہ ان شرائط کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ جو تاریخ میں ذکر ہوئی ہیں۔

لیکن رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کی رحلت کے بعد ایک گھنٹہ میں کام تمام کر دیا گیا اور سقیفہ میں ابوبکر کی بیعت کر لی حالانکہ اہلسنت کے بقول رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم نے کسی کو خلافت کے لئے معین نہیں کیا تھا۔ نیز اس بارے میں بنی ہاشم، قریش ( تین افراد کے علاوہ)، مہاجرین اور بے شمار انصار کو اس بارے میں کوئی خبر نہیں تھی۔

سقیفہ میں حتی قرآن کی کسی ایک آیت اور رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کی کسی ایک روایت سے بھی استدلال نہیں کیا گیا۔

اگر شوریٰ کی تشکیل اور خلیفہ کے انتخاب کا حق لوگوں کو حاصل ہے تو پھر رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم نے اسے پہلے کیوں بیان نہیں فرمایا اور فرض کریں کہ اگر پیغمبر اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے بیان کیا تھا تو پھر سقیفہ میں کسی نے اس سے استدلال کیوں نہیں کیا۔

جس دن ابوبکر کی بیعت کی گئی تو اس کے باپ سے سارا ماجرا بیان کیا گیا۔ اس کے باپ نے پوچھا کہ اس میں آخر ایسی کون سے خصوصیت تھی کہ جس کی وجہ سے اسے خلافت کے لئے منتخب کر لیا گیا؟ کہا گیا: اس کی عمر کی وجہ سے۔ اس کے باپ نے کہا: پس میں عمر میں اس سے بڑا ہوں۔(۸۱۱)

زهرى کہتے ہیں: على‏ عليه السلام ، بنی ہاشم اور زبير نے چھ ماہ تک ابوبکر کی بیعت نہیں کی اور فاطمہ علیہا السلام کی شہادت کے بعد اس کی بیعت کی.(812)


(811) از شرح نهج البلاغة ابن ابى الحديد: 74/1.

812) بحار الأنوار: 338/28، تاريخ كامل: 224/220/2.

 

منبع: غیر مطبوع ذاتی نوشتہ جات: ص 677

 

 

بازدید : 739
بازديد امروز : 0
بازديد ديروز : 252778
بازديد کل : 152719420
بازديد کل : 108304130