حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
عبادت مخلصانہ ہونی چاہئے؟

عبادت مخلصانہ ہونی چاہئے؟

اس بناء پر کثرت عبادت اہمیت کا معیار نہیں ہے بلکہ عبادت کی اہمیت کا معیار و ملاک اس کی تأثیر ہے اگرچہ عبادت کم ہی کیوں نہ ہو۔اگر عبادت مخلصانہ ہو تو اس کے بہت سے اثرات ہیں۔اسی لئے ہمیں ہر کام اور بالخصوص معنوی امور میںخلوص کے ساتھ قدم بڑھانا چاہئے اور ذاتی حساب اور غرض سے ہاتھ اٹھا لینا چاہئے اور کسی بھی مکاری  اور فریب  کے بغیر سچائی سے اپنا کام کرنا چاہئے۔

دل کوہر قسم کے فریب اور مکاری سے پاک کرنا اور خلوص کو حاصل کرنا شیعوں کی خصوصیات میں سے ہے ۔حضرت امام حسین علیہ السلام فرماتے ہیں: 

''اِنَّ شِیْعَتَنٰا مَنْ سَلُمَتْ قُلُوْبُھُمْ مِنْ کُلِّ غَشٍّ وَ دَغَلٍ''([1])

بیشک ہمارے شیعہ وہ ہیں جن کے دل ہر قسم کے فریب اور دھوکے  سے پاک ہوں۔

 

نیتوں میں  دھوکا و فریب انسان کی شخصیت میں کمی کا باعث بنتا ہے ۔اس لئے یہ کوشش کرنی چاہئے کہ عبادت کومخلصانہ طور پر انجام دیں اور مسلم اور محکم ارادہ سے اپنے دل سے ہر قسم کی غرض فریب اور دھوکے کو دور کریں۔

دل کو مکاری،دھوکے اور فریب سے پاک کرنے کا ایک طریقہ محمد و آل محمد علیھم السلام پر زیادہ سے زیادہ  ددرود بھیجنا ہے۔([2])دعاؤں سے پہلے درود بھیجنے کی ایک وجہ فریب اور دھوکے کو دور کرنا اور خلوص کا حصول ہے۔

جن امور میں کوشش اور جستجو خلوص  کی بنیاد پر نہ ہو بلکہ  فقط دکھاوا ہو تو اس کا نہ صر ف یہ کہ کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوتا  بلکہ یہ بہت بڑا گناہ ہے ۔لیکن جو عبادت مخلصانہ ہو تو وہ خدا کے تقرب کے لئے بہت مؤثر ہے۔کیونکہ عبادات کو انجا م دینے میں  اگرمخلصانہ طور پر کوشش کی جائے تو یہ انسان میں راسخ برائیوں کو نیست و نابود کرکے انسان کو خدا کے نزدیک کردیتی ہے۔

عبادت اور عبودیت و بندگی کے مقام تک پہنچنا ہی صراط مستقیم ہے،ہمیں چاہئے کہ ہم خدا کی عبادت کے ذریعہ صراط مستقیم کی طرف قدم بڑھائیں ۔

خدا وند کریم کا ارشاد ہے: 

اِنَّ اللَّہَ ہُوَ رَبِّیْ وَرَبُّکُمْ فَاعْبُدُوہُ ہَذَا صِرَاط مُّسْتَقِیْم ۔([3])

اللہ ہی میرا اور تمہارا پروردگار ہے اور اسی کی عبادت کرو کہ یہی صراط مستقیم ہے ۔

 

اس بناء پر انسان خدا کی عبادت و بندگی کے ذریعے اس کے صراط مستقیم پر آ سکتاہے اور شیاطین کے تسلط سے رہائی حاصل کر سکتاہے۔

اس راہ کی طرف قدم بڑھانا اور اس پر قائم رہنا  ،یہ خودانسان کی سعادت اور نجات کی دلیل ہے۔

یہ ایک ایسی حقیقت ہے جسے امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام نے یوں بیان فرمایا ہے:

''دَوٰامُ الْعِبٰادَةِ بُرْھٰانُ الظَّفَرِ بِالسَّعٰادَةِ''([4])

عبادت میں دوام انسان کی سعادت و کامیابی کی دلیل ہے۔

کیونکہ انسان عبادت اور اس کی شرائط کی حفاظت سے اولیاء خداکی صفوں میں داخل ہو جاتاہے اور اس کا شمارخداکے ممتاز بندوں میں سے ہوتاہے اور وہ اولیاء خدا

کی مخصوص اوصاف و خصوصیات کا مالک بن جاتاہے۔

حضرت امیر المؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں: 

''سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ:یَقُوْلُ:اَنَا وَ عَلِّ اَبَوٰا ھٰذِہِ الْاُمَّةِ ،وَ لَحَقُّنٰا عَلَیْھِمْ أَعْظَمُ مِنْ حَقِّ أَبَوَیْ وِلاٰدَتِھِمْ،فَاِنَّنٰا نَنْقُذُھُمْ اِنْ اَطٰاعُوْنٰا مِنَ النّٰارِ اِلٰی دٰارِ الْقَرَارِ ،وَ نُلْحِقُھُمْ مِنَ الْعُبُوْدِیَّةِ بِخِیٰارِ الْأَحْرٰارِ''([5]) 

میں نے رسول خداۖ سے سناہے:آپۖ نے فرمایا:میں اور علی علیہ السلام اس امت کے باپ ہیں، اور ان پر ہمارا حق ان کے والدین سے زیادہ ہے جن سے وہ پیدا ہوئے ہیں ۔کیونکہ ہم انہیں جہنم سے نجات دلا کر جنت میں داخل کریں گے(اگر وہ ہماری پیروی کریں)اور انہیں دوسروں کی بندگی سے اوربہترین آزاد افراد سے ملحق کریں گے۔

پس خاندان نبوت علیھم السلام کے فرامین کی پیروی اور مخلصانہ عبادت سے انسان مقام عبودیت تک پہنچ سکتا ہے اورنیک و صالح افراد کے ساتھ ملحق ہو سکتاہے اور انسان سے پلید شیطان دور ہو جاتا ہے۔یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کی خدا نے قرآن مجید میں تصریح فرمائی ہے۔ 

        (اِنَّ عِبٰادِْ لَیْسَ لَکَ عَلَیْھِمْ سُلْطٰان وَکَفٰی بِرَبِّکَ وَکِیْلاًً)([6])

بیشک میرے اصلی بندوں پر تیرا کوئی بس نہیں ہے اور آپ کا پروردگار ان کی نگہبانی کے لئے کافی ہے ۔

 

بہت سے شیعہ بزرگوںنے قرب الٰہی اور عبودیت کے مقام تک پہنچنے کے لئے بہت کوشش کی۔

معنوی مقامات کے حصول کے لئے مرحوم کرباسی  کی کوشش ایسی ہی کوششوں کا ایک نمونہ ہے۔ ان کا شمار بزرگ شیعہ علماء میں ہوتا ہے اور آپ سید بحر العلوم کے شاگردوں میں سے ہیں۔ان کے حالات زندگی میں لکھا گیا ہے:

اس بزرگ شخصیت نے شب قدر کو درک کرنے کے لئے پورا سال رات سے صبح تک عبادت انجام دی اور ہر رات تہجد کی برکات سے مستفید ہوتے ۔مرحوم کرباسی عبادت میں خشوع وخضوع اور حضور قلب کی رعایت کرتے ۔ایک بار اصفہان کے ایک اعلی عہدہ دار نے ان کے احترام کا خیال نہ رکھا تو آپ نے اس کے بارے میں دعا کی ۔کچھ مدت کے بعد ہی اس حاکم کو معزول کر دیا گیا ۔پھر مرحوم کرباسی نے اس کے لئے یوں لکھا: 

دیدی کہ خون ناحق پروانہ شمع را

چندان امان نداد کہ شب را سحر کند

 

وہ  اپنے زمانے کے سب سے بڑے زاہد تھے ۔مرحوم مرزا قمی  نے ان سے توضیح المسائل لکھنے کا تقاضا کیا تو انہوں نے جواب میں کہا:میرے بدن کی ہڈیوں میں جہنم کی آگ کو برداشت کرنے کی طاقت نہیں ہے لیکن بالآخر مرحوم مرزا قمی کے اصرار پر آپ نے رسالہ لکھا۔

اگر کوئی فقیر آپ سے کوئی چیز مانگتا تو آپ اس سے گواہ لانے کو کہتے اور پھر آپ گواہ اور فقیر دونوں کو قسم دیتے کہ اس چیز کو خرچ کرنے میں اسراف نہیں کروگے ،اور پھر اسے ایک مہینے کا خرچہ دیتے۔

کہتے ہیں کہ ایک دن کسی واقعہ کے بارے میں ایک شخص نے ان کے سامنے گواہی دی ۔آپ نے اس سے پوچھا کہ تم کیا کام کرتے ہو؟اس نے کہا :میں غسل دیتا ہوں۔آپ نے اس سے غسل دینے کے شرائط پوچھے۔اس شخص نے غسل کی شرطوں کو بیان کیا اور پھر کہا کہ میں دفن کے وقت میت کے کان میں کچھ کہتا ہوں:مرحو م کرباسی نے کہا:تم میت کے کانوں میںکیا کہتے ہو؟اس شخص نے کہا:میں میت کے کان میں کہتا ہوں کہ تم خوش نصیب ہو کہ مر گئے اور آقا کرباسی کے پاس گواہی دینے کے لئے نہیں گئے۔!([7])

 


[1]۔ بحار الانوار:ج٦۸ج۱۵٦،تفسیر امام العسکری علیہ السلام:١٢٣

[2] ۔ اس بارے میں ایک مفصل روایت کی طرف رجوع کریں جسے مرحوم علامہ مجلسی  نے بحار الانوار:ج۴۹ص۱٦ میں ذکر کیا ہے۔

[3]۔ سورۂ زخرف ،آیت :٦٤

[4]۔ شرح غرر الحکم:٢٢٤

[5]۔ بحار الانوار:ج۲۳ص۲۵۹، تفسیر الامام العسکری علیہ السلام:١٣٣

[6]۔ سورۂ اسراء ،آیت:٦٥

[7]۔ فوائد الرضویہ:١٠،قصص العلماء:١١٨

 

 

    ملاحظہ کریں : 2442
    آج کے وزٹر : 0
    کل کے وزٹر : 141610
    تمام وزٹر کی تعداد : 143894196
    تمام وزٹر کی تعداد : 99303208