حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
22) امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی معاویہ کے بارے میں پیشنگوئی

امیر المؤمنین علی علیہ السلام

کی معاویہ کے بارے میں پیشنگوئی

مرحوم سلطان الواعظین شیرازی لکھتے ہیں: اگر آپ  غور سے نہج البلاغہ (جو امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے خطبات وکلمات کا مجموعہ ہے) کا مطالعہ کریںتو آپ کو مختلف حوادث، بڑے بادشاہوں کے حالات،صاحب زنج کا خروج، مغلوں کا غالب آنا، چنگیز خان کی سلطنت، ظالم خلفاء کے حالات اور شیعوں کے ساتھ ان کے معاملات کے بارے میں آنحضرت کی بیان کی گئی غیب کی بہت سی خبریں ملیں گی۔خاص طور پر شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدکی پہلی جلد کے صفحہ ٢٠٨ سے ٢١١ تک یہ تفصیل سے بیان ہوئے ہیں۔

 خواجہ کلان بلخی حنفی نے بھی ''ینابیع المودّة''کے چودہویں باب کے آغاز میں  امام علی علیہ السلام کے کچھ خطبات اور پیشنگوئیاں بیان کی ہیں  جو آنحضرت کے کثرت علم پر دلالت کرتی ہیں۔انہیں پڑھیئے تا کہ حقیقت واضح ہوجائے۔

معاویہ کے غلبہ پانے اور اس ملعو ن کے مظالم کی پیشنگوئی کرنا:

 ان پیشنگوئیوں میں سے ایک آنحضرت کا کوفہ والوں کو معاویہ علیہ الھاویہ کے ان پر غلبہ پانے اور انہیں امیرالمؤمنین علی علیہ السلام پر سبّ ولعن کرنے کے حکم کے بارے بتانا ہے۔چنانچہ جیسا آپ نے بتایا تھا ویسے ہی بعد میں رونما ہوا۔ ان میں سے آپ نے فرمایا:

 أما أنّہ سیظھر علیکم بعد رجل رحب البلعوم مندحق البطن، یأکل ما یجد ویطلب مالایجد، فاقتلوہ ولن تقتلوہ۔

ألا؛ وَانّہ سیأمرکم بسبّ والبرائة منّ ؛ فأماّالسبّ فسبّون،فانّہ لی زکوة ولکم نجاة۔ وأمّاالبرائة، فلا تتبرّؤا منّ، فانّ ولدت علی الفطرة و سبقت الی الایمان والہجرة۔

     جلدی ہی میرے بعد تم لوگوں پر موٹی گردن والا اور باہر نکلے ہوئے پیٹ والا آدمی غالب آئے گا،اسے جو ملے گا وہ کھالے گااور اسے جو چیز نہیں ملے گی وہ اسے طلب کرے گا؛ پس اسے قتل کر دینا  لیکن تم اسے ہرگز قتل نہیں کرو گے۔

     آگاہ ہو جاؤ؛ جلد ہی وہ شخص تمہیں مجھ پر سبّ و شتم کرنے اور مجھ سے سے بیزاری کا اظہار کرنے کا حکم دے گا۔میں تمہیں سبّ و شتم کرنے کی اجازت دیتا ہوں(چونکہ وہ زبانی ہے)کیونکہ یہ سبّ وشتم میرے لئے پاکیزگی اور تمہارے لئے (اس ملعون کے شر ّ سے) نجات ہے۔لیکن مجھ سے بیزاری کا ظہار نہ کرنا(چونکہ یہ ایک قلبی امر ہے) کیونکہ میں فطرت (توحید و اسلام) پر متولد ہوا ہوں ، (یہ جملہ اشارہ ہے کہ آنحضرت کے والدین مؤمن تھے)اور میں نے آنحضرت کے ساتھ ایمان اور ہجرت میں سبقت لی ہے۔([1])

     ابن ابی الحدید نے ''شرح نہج البلاغہ(چاپ مصر):ج ١ص۳٦۵'' اور دوسروں نے اہلسنت کے بزرگ علماء سے تصدیق کی ہے کہ وہ لعین، معاویہ بن ابی سفیان ہی تھاکہ جب وہ غالب ہوا تو اس کی خلافت محکم ہو گئی تو اس نے لوگوں کوامیر المؤمنین علی علیہ السلام پر سبّ و شتم کرنے اور آنحضرت سے بیزاری کا اظہار کرنے کا حکم دیا۔ آٹھ سال تک مسلمانوں میں یہ قبیح فعل رائج رہا اور وہ ظالمانہ طور پر عمر بن عبدالعزیز کی خلافت کے زمانے تکمحراب و منبر حتی کہ نماز جمعہ کے خطبوں میں بھی آنحضرت پر سبّ و شتم کرتے تھے۔ پھر اس وقت کے اس اموی خلیفہ نے صالحانہ سوجھ بوجھ سے سبّ و شتم کو ختم کیا اور لوگوں کو یہ قبیح کام کرنے سے منع کیا۔([2])

 


[1] ۔ زیادہ کھانے والے شخص  سے حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی مراد معاویہ علیہ الھاویہ ہے کیونکہ ابن ابی الحدید ''شرح نہج البلاغہ (چاپ مصر):٣٣٥١''میں کہتے ہیں: معاویہ زیادہ کھاتا تھا اور وہ تاریخ میں زیادہ کھانے والے کے نام سے مشہور ہے۔''وکان یأکل فی الیوم سبع أکلات'' (جیسا کہ زمخشری نے کتاب''ربیع الأبرار''میں کہاہے)وہ دن میں سات مرتبہ کھاناکھاتا تھااور ہر مرتبہ اتنا زیادہ کھاتا تھاکہ وہ دسترخوان کے ساتھ ہی لیٹ جاتا تھااور آواز دیتا تھا:''یا غلام ؛ارفع۔فواللّٰہ ما شبعت ولکن مللت''اے غلام؛آؤ اور یہ دسترخوان لے جاؤ خدا کی قسم؛ میں  تھک گیا ہوںلیکن ابھی تک سیر نہیں ہوا۔

یہ ملعون ان لوگوں میں سے تھا کہ جسے ''جوع الکلاب''کی بیماری لاحق تھی۔(قدیم طب میں اس بیماری کے بارے میں لکھا ہے کہ اس بیماری کے دوران بیمار کے معدہ میں ایسی حرارت ہوتی ہے کہ چاہے جو غذا مری کے ذریعہ معدہ تک پہنچے لیکن پھر بھی وہ بحارات میں تبدیل ہو جائے گی اور اس کا نفع و نقصان معلوم نہیں ہوگا)۔

اس کا زیادہ کھانا ایک ضرب المثل بن گئی۔ہر زیادہ کھانے والے شخص کو اس سے تشبیہ دیتے تھے۔ ایک شاعر نے زیادہ کھانے والے  .١پنے ایک دوست کی خوبصورت انداز میں مذمت کی ہے اور کہا ہے:

و صاحب ل بطنہ کالھاویة        کأنّ ف امعانہ معاویة

 میراایک ایسا دوست ہے کہ جس کا پیٹ ہاویہ کی طرح ہے کہ جیسے اس کی انتڑیوںمیں معاویہ بیٹھا ہو۔

ہاویہ ،جہنم کے طبقوں میں سے ایک ہے، چونکہ جہنم کافروں کو قبول کرنے سے سیر نہیں ہو گی۔ جیسا کہ قرآن مجید میں فرمایا ہے:جہنم سے کہا جائے گا:(ہَلِ امْتَلَاْتِ وَتَقُولُ ہَلْ مِن مَّزِیْدٍ )(سورۂ ق،آیت:٣٠)''کہ کیا تو بھر گیا  ہے؟تو وہ کہے گا کہ کیا کچھ اور مل سکتا ہے؟ ''یہ اشارہ ہے کہ جہنم کبھی بھی کافروں کو قبول کرنے سے سیر نہیں ہو گا۔

[2]۔ شب ہای پشاور:٩٤٠

عمر بن عبدالعزیز کے کئی چہرے تھے اور اس نے صرف منبروں سے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام پر سبّ و شتم کرنے سے منع کیا اور منبروں کے علاوہ ہر کسی کو امیرالمؤمنین علی علیہ السلام پر سبّ و شتم کرنے کی کھلی چھوٹ تھی لیکن اگر کوئی معاویہ پر لعنت کرتا تھا تو وہ عمربن عبدالعزیز کے حکم پر تازیانہ کھاتا تھا!!

 

 

    ملاحظہ کریں : 2182
    آج کے وزٹر : 111858
    کل کے وزٹر : 164982
    تمام وزٹر کی تعداد : 142199043
    تمام وزٹر کی تعداد : 98081406