حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
راز فاش کرنے کے نقصانات

راز فاش کرنے کے نقصانات

 اسرار کو فاش کرنا اور رازوں کو نہ چھپا سکنا انسان کیظرفیت کے کم  ہونے کی دلیل ہے۔اہلبیت اطہار علیھم السلام کے اسرار و معارف کے انوار کے دریا میں غوطہ زن ہونے والے ان اسرار و رموز کو فاش کرنے سے گریز کرتے تھے۔ان کی رازداری ان کی ظرفیت و قابلیت کی دلیل  اور معنوی مسائل میں ان کی ترقی و پیشرفت کا وسیلہ ہے۔

جو راز چھپانے کی طاقت نہیں رکھتے ،یہ ان کی استعداد و ظرفیت کے کم ہونے کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ کچھ موارد میں ان کے افشاء کرنے کا اصلی سبب اصل حقائق میں شک کرنا ہے ۔

  حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

 ''مُذِیْعُ السِّرِّ شٰاکّ''([1])

 راز کو فاش کرنے والا شک میں مبتلا ہوتاہے۔

 جو راز کو فاش کرتا ہے ،اگر راز کو فاش کرتے وقت اسے شک و تردید نہ ہو تو اس کے بعد وہ اس بارے میں شک میں گرفتار ہو جاتاہے ۔  کیونکہ جب دوسروں سے راز بیان کرتے ہیں تو پہلے دوسروں کو اصل مسائل کے بارے میں شک  ہوتا ہے اور پھر خود بھی ان کا انکار کر کے اپنے مرتبہ سے گر جاتا ہے۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس حقیقت کو  یوں بیان فرمایا ہے:

 ''اِفْشٰاءُ السِّرِّ سُقُوْط''([2])

 راز کو فاش کرنا سقوط (پستی)ہے۔

 ان انمول فرامین سے استفادہ کرتے ہوئے جو خود کو صاحب ''حال'' سمجھتے  ہیں اور معتقد ہیں کہ وہ ایک مقام و مرتبے تک پہنچ گئے ہیں ،انہیں اس بات کا خیال رکھناچاہئے کہ نہ کہے جانے والے مسائل کو کہنے سے نہ صرف کچھ افراد ان حقائق کا انکار کر دیں گے بلکہ اس سے آپ اپنے زوال کے اسباب بھی مہیا کردیں گے۔

چھوٹا سا برتن تھوڑے سے پانی ہی سے لبریز ہو جاتا ہے لیکن دریا نہروں اور ندیوں کے پانی کو اپنے اندر سمو لیتا ہے لیکن پھر بھی اس میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ۔کامیابی کے متلاشی اور بلند معنوی درجات تک پہنچنے کی جستجو کرنے والوں کو دریا دل ہونا چاہئے اور رازوں کو چھپانے سے اپنی ظرفیت کو وسعت دیں ۔اس روش کے ذریعے سنت الٰہی کی پیروی کریں ۔

  حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس حقیقت کو  یوں بیان فرماتےہیں:

  ''.....اَلسُّنَّةُ مِنَ اللّٰہِ جَلَّ  وَ عَزَّ ،فَھُوَ أَنْ یَکُوْنَ کَتُوْماً لِلْاَسْرٰارِ''([3])

 مومن میں  خدا کی جو سنت ہونی چاہئے وہ یہ ہے کہ وہ رازوں کو چھپانے والا  ہو۔

 اس بناء پر مقام معرفت اور حقائق تک پہنچنے والا بایمان شخص انہیں ایک خزانے کی طرح دوسروں سے چھپائے ۔انسان کسی خزانے کے بارے میں راز کو فاش کرکے کس طرح اسے دوسروں کی دسترس سے محفوظ رکھ سکتاہے۔

 اس بیان کی روشنی میں خدا کے حقیقی بندے وہ ہیں جو اغیار کے ہاتھ اپنی کوئی کمزوری نہ لگنے دیں ۔

 اولیائے خدا نے خاموشی اور راز کو چھپانے سے خود کو زینت بخشی نہ کہ انہوں نے خود کو بدنام کیا۔

 حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

  ''حلیتھم طول السکوت و کتمان السر''

 طولانی خاموشی اور راز چھپانا ان کی زینت  ہے۔

کم گوی و مگوی ھر چہ دانی              لب دوختہ دار تا توانی

بس سرّ کہ فتادۂ زبان است             با یک نقطہ زبان زیان است

آن قدر رواست گفتن آن             کاید  ضرر از نگفتن آن

نادان بہ سر زبان نھد دل             در قلب بود زبان عاقل

 اہلبیت عصمت و طہارت علیھم السلام نے متعدد روایات میں اپنے محبوں کو تاکید فرمائی ہے کہ وہ لوگوں سے اسرار اور ایسی باتیں ضرور چھپائیں جنہیں برداشت کرنے کی ان میں طاقت نہ ہو اور ان ہستیوں نے ان کی اس نکتہ کی طرف توجہ دلائی ہے کہ ہمیشہ اسرار کی حفاظت کرنے کی کوشش کرو اور اپنا راز اپنے دل میں دفن کر دو۔

 


[1]۔ بحار الانوار:٨٨٧٥،اصول کافی:٣٧١٢

[2]۔ بحار الانوار:ج۷۹ص۲۲۹،تحف العقول:٣١٥

[3]۔ بحار الانوار:ج۷۸ص۲۹۱،تحف العقول:٣١٥

 

 

 

    ملاحظہ کریں : 2286
    آج کے وزٹر : 137567
    کل کے وزٹر : 167544
    تمام وزٹر کی تعداد : 143886109
    تمام وزٹر کی تعداد : 99299164