حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
مغرب میں خودشناسی کا ایک نمونہ

مغرب میں خودشناسی کا ایک نمونہ

کچھ مغربی ممالک میں تعلیمی اداروں، یونیورسٹیوں اور کالجوں میں داخلے کے خواہشمند حضرات کا ٹیسٹ لیا جاتا ہے اور ان سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات کی بنیاد پر انہیںیہ پتہ چل جاتا ہے کہ ان میں روحانی و علمی استعداد کس قدر ہے وہ علوم کے کس شعبہ میںزیادہ ترقی کر سکتے ہیں ؟پس جب یہ معلوم ہو جائے کہ وہ علوم کے کس شعبہ میں زیادہ ترقی کر سکتے ہیں، وہ ان کے لئے اسی شعبہ کا انتخاب کرتے ہیں ۔

اگرچہ خود شناسی کی اس قسم کے بھی بہت سے فوائد ہیں یہ صحیح راہ میں صرف ہونے والی انرجی اور توانائیوں  کو ضائع ہونے سے بچاتا ہے ۔لیکن زندگی کے آخر تک اسی پر اکتفاء کرنا اوراس سے زیادہ توانائی رکھنے والے جوان کے لئے اسی راہ کو  جاری و ساری رکھنا  ایسے ہی ہے جیسے کوئی شخص جوانی میں اپنے بدن کی سلامتی کے لئے اپنا چیک اپ کروائے اور بڑھاپے تک اسی پرباقی رہے!

ایسی شناخت صرف محدود وقت کے لئے کافی ہے ۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ انسان کی اندرونی اورروحانی توانائیاں کبھی بچپن یا جوانی میں ہی انسان میں نمودار ہوتی ہیں اور کبھی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عقل اور تجربہ کی افزائش سے کچھ انسانوں میں یہ  عظیم توانائیاں بڑھاپے میں نکھر کر سامنے آتی ہیں۔

اس بناء پر انسان کو ہمیشہاپنے اندر چھپی ہوئی پوشیدہ توانائیوں سے آگاہی کی کوشش کرنی چاہئے  اور انہیں آشکار کرنا چاہئے کیونکہ ہم نے دیکھاہے کہ بہت سے ذہین افراد نے بڑھاپے میں اپنی ذہانت کو نکھارا ہے۔

لہذا اگر کوئی ذہانت کے ٹیسٹ میں ایک معلم کے برابرصلاحیت رکھتا ہو تو اسے اپنی زندگی کے آخری ایام تک یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ وہ ایک معلم ہی کی صلاحیت رکھتا ہے۔بلکہ اسے انسان ساز مکتب اہلبیت علیھم السلام کے الہام و فرامین کی روشنی میں یہ سوچنا چاہئے کہ خداوند کریم نے اس میں ایسی خصوصیات  و خصلتیں خلق کی ہیں جن سے استفادہ کرکے انسان اپنی صلاحیت کے نئے دروازے کھول سکتاہے۔

پختہ ارادہ ،ہمت اور توبہ انہی خصوصیات میں سے ہیں۔

مثال کے طور پر انسان توبہ کی وجہ سے اپنے اندر موجود عظیم توانائی تک رسائی حاصل کرکے انہیں عظیم توانائیوں میں تبدیل کر سکتا ہے۔

اسی طرح مکتب اہلبیت عصمت و طہارت علیھم السلام کے فرمودات و کلمات میں اپنے پیروکاروں کوہمت اور ارادے کے بارے میں جو کچھ سکھایا ہے ان کا مسئلہ بھی ایسے ہی ہے ۔

اس بناء پر اگر ایسی خصوصیات کے باوجود انسان ان کی طرف متوجہ نہ ہو اور محدود وقت کے لئے اپنی کچھ توانائیوں کو پہچان کر انہی پر اکتفاء کرے تو یہ بہت بڑی غلط فہمی ہو گی ۔ہمیں ہمیشہ نفس اور اس  کی تبدیلیوں کی طرف متوجہ رہنا چاہئے تا کہ ہمیں اپنے نفس کی دوراندیشانہ شناخت ہو۔

پس محدود وقت کے لئے خودشناسی پوری زندگی کی خودشناسی اور خودسازی کی دلیل نہیںہے بلکہ خودشناسی اور خودسازی  ہمیشہ کی بنیادوں پر دوراندیشی اور نفس کے بارے میں فکر کے ساتھ ہونی چاہئے۔

حضرت امیر المومنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''اِنَّ الْمَحٰازِمَ مَنْ قَیَّدَ نَفْسَہُ بِالْمُحٰاسَبَةِ وَ مَلِکَھٰا بِالْمُغٰاضَبَةِ وَ قَتَلَھٰا بِالْمُجٰاھَدَة''([1])

بیشک دوراندیش وہ ہے جو محاسبہ کے ذریعہ اپنے نفس پر قابو رکھے اور اپنے نفس پر غضب کے ذریعہ اس کا مالک بن جائے اور مجاہدت کے ذریعہ اسے قتل کر دے۔

دوراندیشی ،نفس کے محاسبہ اور نفس پر مغاضبہ کے ذریعہ انسان کے نفس میں ایسی تبدیلیاں ایجاد ہوتی ہیں جس سے گذشتہ زمانے میں کئے جانے والے تمام ٹیسٹوں کی اہمیت کم ہو جاتی ہے۔

پس نفس میں پیدا ہونے والی تبدیلیوں اور شخصیت کی تجدیدکے نتیجہ میں نئے ٹیسٹ کرنے چاہئیں جس طرح وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بدن کا نئے سرے سے چیک اپ کیا جاتا ہے۔

اسی لئے ماہرین نفسیات روحانی پریشانیوں سے نجات اور زندگی کو پر مسرت بنانے کے کچھ طریقے بیان کرتے ہیں ۔تصویر و تصور ، تجسم اور ارادے ایسے ہی مہم طریقے ہیں جن پر یہ بھروسہ کرتے ہیں۔

دنیا والوں نے جن حقائق تک اب رسائی حاصل کی ہے ہمارے راہنماؤں اور پیشواؤں نے ہمیں وہ حقائق بہت پہلے سکھائے تھے ۔ لہذا ہمیں ان کی نئی دریافتوں کی کوئی ضرورت نہیں ہے جو انہوں نے اپنے نظریات کی بنیاد پر فراہم کئے ہیں۔ہمیں''دون خوان''اور ''کاستاندا'' کے تجربات اور تصنیفات کی کوئی ضرورت نہیںہے ان کے لئے یہی بہتر ہے کہ وہ امریکا کے جادوگروں کو ہی چکمہ دیں۔

جس طرح ہمیں ''ماہاریشی''کی راہنمائی کی کوئی ضرورت نہیں ہے اس کے لئے یہی بہتر ہے کہ وہ ہندوستان کے سیکھوں اور ہندؤں کو ہی تعلیم دے ۔ہمیں ''ذن بودیسم''اور ''پیران''کی بھی ضرورت نہیں ہے ۔ان کے لئے ''ذن''اور ''گوان''کی طریقت ہی گائے پرستوں کو سکھائیں۔ہمیں نہ ہی تو ''کرشنا مورتی''کی بصیرت کی ضرورت ہے اور نہ ہی اس کے شیر کے دانتوں کی ان کے لئے یہی بہتر ہے کہ وہ ہمارے آگاہ جوانوں کی طرف اپنی طمع کے دانت نہ بڑھائیں۔

 


[1]۔ شرح  غرر  الحکم: ج۲ ص ۵۵۸

 

 

    ملاحظہ کریں : 1891
    آج کے وزٹر : 48249
    کل کے وزٹر : 165136
    تمام وزٹر کی تعداد : 141056544
    تمام وزٹر کی تعداد : 97397186