امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
بہشتی کافر!

بہشتی کافر!

 کچھ مصنفین نے وضاحت کی ہے کہ خدا اور اس کے رسول پر ایمان اسلام کی شرط ہے۔اگرچہ انسان ظاہری طور پر کفرگوئی کرییا یہودیت و عیسائیت کا اظہار کرے۔

 کچھ نے (جیسے ''ابن حزم'')مرجئہ کے عقیدے کے بارے میں مزید یہ کہا ہے:اگر کوئی اپنے دل میں خدا اور اس کے رسول کا معتقد ہو اگرچہ ظاہراً یہودی یا عیسائی ہو تو وہ نہ صرف حقیقت میں مسلمان ہے بلکہ خدا کے اولیاء اور اہل بہشت میں سے ہے!

 اس عقیدے کی بنا پر تمام اموی حاکم بھی خدا کے اولیاء اور جنتی ہیں!کیونکہ وہ کچھ لوگوں کو اجرت دیتے تھے کہ فرقۂ مرجئہ کی تبلیغ کریں تا کہ لوگ ان کا شمار اولیاء خدا میں سے کریں،چاہے وہ سب سے شرمناک  کے مرتکب ہی کیوں نہ ہوئے ہوں۔

 کتاب''شیعہ در مقابل معتزلہ و اشاعرہ ''میں لکھتے ہیں:

 اس میں شک نہیں ہے کہ مرجئہ اموی دور حکومت کے وسطی زمانے میں وجود میں آئے اور انہوں نے اسلامی محافل میں ان افکار کو پھیلانے کے لئے اپنی سرگرمیاں شروع کیں اور اموی حکمرانوں نے بھی ان افکار کو پھیلانے میں ان کی مددکی۔چونکہ مرجئہ انہیں مومن لکھتے تھے اور انہیں ہر چیز سے زیادہ اسی صفت کی ضرورت تھی خصوصاً ان حالات میں کہ جب خوارج امویوں اور تمام صحابیوں کے کافر ہونے پرزور دیتے تھے اور معتزلہ یہ نظریہ پیش کرتے تھے کہ اسلام عقیدے،تمام واجبات اور احکام پر عمل کرنے پر مبنی ہے اور جو بھی ان پر عمل نہ کرے تو وہ جہنم کا حقدار ہو گا اگرچہ وہ اسلام کے تمام اصول و ارکان کا معتقد ہی کیوں نہ ہو۔

 اس بنا پر خوارج کے مطابق اموی کافر تھے یا معتزلہ جس چیز کا دعویٰ کر رہے تھے اس کی رو سے ان کا ٹھکانا جہنم تھالیکن مرجئہ کی نظر میں یہ مؤمن تھے اورکثرت سے گناہ و منکرات انجام دینے کے باوجود وہ  دائرہ ایمان سے خارج نہیں ہوئے بلکہ بعض مرجئہ اس چیز کے قائل تھے کہ ایمان کے متحقق  ہونے کے لئے صرف خدا اور پیغمبر ۖ پر ایمان لانے کی شرط ہے۔اگرچہ انسان زبان سے کفر کا اظہار کرے اور بتوں کی پوجا کر ے اور اسلامی شہروں میں یہودیت اور عیسائیت کا پرچار کرے اور اس سے بڑھ کر ان کایہ کہنا تھا کہ اگر وہ اس حال میں مر جائے تو وہ اولیاء خدا اور اہل بہشت میں سے ہے!۔([1])

  یہ طبیعی امر ہے کہ ہم  ایسے حکمرانوں کامشاہدہ کریں جنہوں نے اس تفکر کو ہوا دی اور اس کی حمایت کیونکہ وہ اسلامی فرقوں میں سے کسی فرقے کو قبول نہیں کرتے تھے کہ جو انہیں ایسی صفات عطا کرے کہ یہ قدّیسیوں کی صف میں آجائیں۔جو ان کی حکومت اورمسلمانوں پر ان کے تسلّط کو جائز اور ان کے گناہوں کی انجام دہی میں زیادہ روی اور اسلامی تعلیمات و مقدسات کی بے احترامی کو صحیح قرار دے۔

 تعجب کی بات یہ ہے کہ اس زمانے میں کہ جب عقائد کے سلسلے میں فکری کشمکش کی آگ بھڑک رہی تھی ، گناہگاروں اور گناہان کبیرہ کو انجام دینے کے بارے میں خوارج اور معتزلہ کے آراء عام ہو چکے تھے تو یہی حکمران اس تفّکر کے فاتح تھے۔اور جب اس زمانے میں ان کے کفر اور ان کے جہنم کی آگ میں دائمی طور پر رہنے کے بارے میں فتویٰ دیا گیا تو ان کے لئے بہت آسان تھا کہ وہ اپنے اعمال کی مشروعیت کے لئے دانشور اور اصحاب و مبلغین حاصل کریں اور خریدیں۔([2])

 


[1]۔ فجر الاسلام:٦٣٣ اورابن حزم سے منقول: ج٤ ص٢٠٤

[2]۔ شیعہ دربرابر معتزلہ و اشاعرہ:١٤٩

 

    بازدید : 2028
    بازديد امروز : 27383
    بازديد ديروز : 153472
    بازديد کل : 140002647
    بازديد کل : 96550799