امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
بنی امیہ کے زمانے میں قدریہ، جبریہ اور مرجئہ

بنی امیہ کے زمانے میں قدریہ، جبریہ اور مرجئہ

 کتاب 'تاریخ تحلیلی اسلام''میں لکھتے ہیں: اموی حکومت کے دور میںصدی کے دوسرے نصف حصے میںدین کے اعتقادی مسائل سے متعلق فکری تحریکیں وجود میںآئیں جن کا مرکز غالباً عراق تھا۔اس کی وجہ یہ ہے کہ عراق کے کچھ شہر وں (جن میں سے ایک کوفہ ہے) میں مختلف فلسفی اور دینی عقائد و افکار تھے۔ان میں جو پہلی بحث ہوئی وہ یہ تھی کہ کیا لوگ اپنے اعمال میں مختار ہیں یا مجبور؟ان دو طرح کے افکار کے طرفداروں کو قدریہ و جبریہ کا نام دیا گیا۔

  جنگ صفین کے بعد مسلمانوں میں اس کے آغاز کے آثار ملتے ہیں کہ کسی نے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام سے پوچھا:کیا ہم اپنے ارادہ و اختیار سے اس جنگ میں گئے یا ہم مجبور تھے؟

  اس کے بعد ہر گروہ نے اپنے عقائد کی تائید اور دوسرے کے عقائد کی مخالفت میں احادیث سے استناد کیا۔

  امویوں کے دور حکومت میں ایک دوسرے مکتب کی تأسیس ہوئی جسے ''مرجئہ'' کا نام دیا گیا۔ امویوں نے اس گروہ سے اپنے مظالم کی توجیہات کے لئے استفادہ کیا ۔ جیسا کہ ہم نے کہا کہ خوارج کا ایک گروہ گناہان کبیرہ کے مرتکب افراد کو ہمیشہ کے لئے جہنمی سمجھتا تھا اور ان کے مقابلے میں ''مرجئہ'' کہتے تھے:ان کا فیصلہ خدا پر چھوڑ دینا چاہئے۔ ان کا عذر یہ تھا کہ اگر اس بارے میں سختی کی جائے تو مسلمان تفرقہ کا شکار ہو جائیں گے۔ ایسے طرز تفکر سے  انہوں  نے معاویہ اور دوسرے اموی خلفاء کی تائید کی کہ جو کوفہ و بصرہ اور دوسرے شہروں میں مختلف نیک و پارسا افراد کو قتل کر رہے تھے۔

 مرجئہ نے اپنی فکر کی بنیاد اس آیت کو قرار دیا: (وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللّہِ ِمَّا یُعَذِّبُہُمْ وَِمَّا یَتُوبُ عَلَیْہِمْ وَاللّہُ عَلِیْم حَکِیْم)([1])

جبریہ، قدریہ اور مرجئہ کے تفکرات کی جنگ سے''معتزلہ'' کے نام سے

 ایک معتدل فکری مکتب وجود میں آیا۔کہتے ہیں: اس طرز تفکر کے وجود میں آنے کی وجہ یہ تھی کہ حسن بصری گناہان کبیرہ انجام دینے والے شخص کو کافر سمجھتا تھا ۔ لیکن اس کے شاگردوں میں سے ''واصل بن عطا''کا اس سے مختلف نظریہ تھا اور وہ کہتا تھا: ایسا شخص کفر و ایمان کی درمیانی منزل پر ہو گا۔

     کہتے ہیں:جب واصل بن عطا اپنے استاد سے الگ ہو گیا تو حسن نے کہا:''اعتزلَ منّا''اس نے ہم سے کنارہ کشی اختیار کر لی ہے۔

     اس کی وجہ تسمیہ کے بارے میں کچھ دوسرے نظریات بھی ہیں۔([2])

 


[1] ۔ سورۂ توبہ، آیت :١٠٦''اور کچھ ایسے بھی ہیں جنہیں حکم خدا کی امید پر چھوڑ دیا گیا ہے کہ یا خدا ان پر عذاب کرے گا یا ان کی توبہ کو قبول کرلے گا وہ بڑا جاننے والا اور صاحبِ حکمت ہے ''۔

[2] ۔ تاریخ تحلیلی اسلام:٢٢٨

 

 

 

    بازدید : 2768
    بازديد امروز : 28923
    بازديد ديروز : 153472
    بازديد کل : 140005494
    بازديد کل : 96553875