امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
یہودی یا یہودی زادوں کے ہاتھوں اسلام کے کچھ بزرگوںکی شہادت

یہودی یا یہودی زادوں کے ہاتھوں اسلام کے کچھ بزرگوں کی شہادت

اموی حکام میں سے عیسائیوں اوریہودیوں کے طرفدار گورنر مسلمانوں کو سخت تکالیف پہنچاتے تھے ، جن کی وجہ سے بعض اوقات انہی یہودی اور عیسائی زادوں کے ہاتھوں مسلمان شہید ہو جاتے تھے۔وہ لوگ اموی حکمرانوں کا نام سے استعمال کرتے ہوئے اسلام کے نام پر اسلام کے پیشواؤں اور مسلمانوں کو شہید کرتے اور بے انتہاقتل و غارت کرتے تھے۔تاریخ انسانیت میں نقل ہونے والا ایک نہایت شرمناک اور وحشیانہ قتل محمد بن ابی بکر کی شہادت ہےجو معاویہ بن حدیج کندی کے نام سے ایک یہودی زادہ نے انجام دیا۔

محمد بن ابی بکر اگرچہ ابو بکر کے بیٹے تھے لیکن چونکہ وہ حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے طرفدار ، پیروکار اور مصر میں آپ کے گورنر تھے، اسی لئے ان کے ساتھ یہ بدترین سلوک کیا گیا اور ایک یہودی زادہ نے انہیں شہید کرنے کے بعد ان کے بدن کو گدھے کی کھال میں لپیٹ کر آگ لگا دی۔اس واقعہ کو جاننے کے لئے ہم عمر و عاص اور معاویہ بن حدیج سے ان کی جنگ کو ذکر کرتے ہیں۔

ابن  ابی  الحدید  لکھتے  ہیں:

عمروعاص نے مصر کا قصد کیا۔محمد بن ابی بکر لوگوں کے درمیان کھڑے ہوئے اور خدا کی حمد و ثناء کے بعد یوں کہا :

امّا بعد؛اے مسلمانو اور مومنو!بیشک جو لوگ بے حرمتی کرتے ہیں اور گمراہی میں پڑے ہیں اور ظلم و وجور کے ساتھ سرکشی کرتے ہیں،اب وہ تمہارے خلاف کھڑے ہوئے ہیں اور لشکروں کے ساتھ تمہاری طرف روانہ ہو چکے ہیں ۔جو بھی جنت اور بخشش کا طلبگار ہے وہ ان سے جنگ کے لئے تیار ہو جائے اور خدا کی راہ میں جہاد کرے،خدا تم پر رحمت کرے؛کنانہ بن بشر کے ساتھ فوراً روانہ ہو جاؤ۔

تقریباًدوہزار افراد کنانہ کے ساتھ روانہ ہو گئے اور محمد بن ابی بکر دوہزار افراد کے ساتھ ان کے پیچھے روانہ ہوئے اور انہوں نے کچھ دیر اپنے لشکر گاہ میں قیام کیا۔عمر وبن عاص،محمد بن ابی بکر کے پہلے لشکرکے سپہ سالار کنانہ کے مقابلہ میں لڑنے کے لئے آیااور عمرو جونہی کنانہ کے قریب پہنچاتو اس نے کنانہ سے مقابلہ کے لئے ایک کے بعد ایک گروہ بھیجالیکن شامیوں کا جو بھی گروہ آتا کنانہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ اس پر حملہ کرتے اور ان پر ایسے وار کرتے کہ وہ انہیں عمرو عاص کی طرف الٹے پاؤں بھگا دیتے تھے اور انہوں نے متعدد بار یہ کام انجام دیا۔

 عمروعاص نے جب یہ دیکھا تو معاویہ بن حدیج کو پیغام بھیجا اور وہ بہت بڑے لشکر کے ساتھ اس کی مدد کے لئے آ گیا ۔کنانہ نے جب وہ لشکر دیکھا تووہ اور ان کے ساتھی اپنے گھوڑوں سے اتر آئے   اور انہوں نے ان پر تلوار سے وار کرنا شروع کئے جب کہ وہ اس آیت کی تلاوت کر رہے تھے:’’کوئی نفس بھی اذنِ پروردگار کے بغیر نہیں مرسکتا ہے سب کی ایک اجل اور مدت معین ہے‘‘[1]اور تلوار سے ان پر اسی طرح وار کر رہے تھے ،یہاں تک کہ وہ شہید ہو گئے۔خدا ان پر رحمت کرے۔

ابراہیم ثقفی کہتے ہیں:محمد بن عبداللہ نے مدائنی سے اور محمد بن یوسف سے نقل کیا ہے  کہ جب کنانہ قتل ہو گئے تو عمرو عاص نے محمد بن ابی بکر کو اپنا ہدف بنایا اور چونکہ محمد کے ساتھی منتشر ہو گئے تھے،وہ آرام سے باہر آئے اور اپنی راہ کو جاری رکھا  ،یہاں تک کہ ایک ویرانہ  میں پہنچے اور وہاں پناہ لے لی۔عمرو عاص آیا اور شہر فسطاط[2]میں داخل ہوا اور معاویہ بن حدیج ،محمد بن ابی بکرکا تعاقب کرتے ہوئے ان کی تلاش میں باہر آیا۔راستے میں اسے کچھ غیرمسلمان ملے  اس نے ان سے پوچھا:کیا تم نے یہاں سے کسی  اجنبی  شخص کو گزرتے ہوئے دیکھا ہے ؟

پہلے انہوں نے کہا:نہیں۔پھر ان میں سے ایک نے کہا:میں اس ویرانے میں گیا تو میں نے دیکھا کہ وہاں ایک شخص بیٹھا ہوا تھا۔

معاویہ بن حدیج نے کہا:ربّ کعبہ کی قسم! یہ وہی ہے۔اور سب دوڑتے ہوئے وہاں گئے اور محمد تک پہنچ گئے،وہ لوگ انہیں باہر لائے  اور نزدیک تھا کہ وہ پیاس سے جان بحق ہوجاتے،وہ انہیں فسطاط لے کر آئے ۔اسی وقت محمد بن ابی بکر کا بھائی عبدالرحمن-جو عمرو عاص کے لشکر میں تھا-کھڑا ہوا اور اس نے عمرو سے کہا:خدا کی قسم! میرے بھائی کوپھانسی نہ دی جائے،معاویہ بن حدیج کو پیغام دو اور اسے اس کام سے منع کرو۔عمرو بن عاص نے معاویہ بن حدیج کو پیغام بھیجا کہ محمد بن ابی بکر کو میرے پاس بھیج دو۔

معاویہ بن حدیج نے کہا:تم نے میرے چچا زاد بھائی کنانہ  بن بشر کو قتل کیا ہے اور اب میں محمد بن ابی بکر کو چھوڑ دوں؟کبھی نہیں! ’’اور کیا تمہارے کفار ان سب سے بہتر ہیں یا ان کے لئے کتابوں میں کوئی معافی نامہ لکھ دیا گیا ہے‘‘[3]

محمد نے کہا:مجھے ایک بوند پانی پلا دو۔

معاویہ بن حدیج نے کہا:اگر تمہیں پانی کی ایک بوند بھی دوں توخدا مجھے سیراب نہ کرے،تم عثمان کو پانی پلانے کی راہ میں حائل ہوئے  تھے اور اسے روزے کی حالت میں اس کے گھر میں قتل کیا تھا ،خدا نے اسے جنت کا ٹھنڈا شربت پلایا!خدا  کی قسم؛اے ابوبکر کے بیٹے!میں تمہیں پیاسا ہی قتل کروں گااور خدا تمہیں گرم پانی اور جہنم کے کھولتے ہوئے اورناپاک پانی  سے سیراب کرے گا۔!

محمد بن ابی بکر نے اس سے کہا:اے کاتنے والی یہودی عورت کے بیٹے!یہ خدا کے ہاتھ میں ہے کہ وہ اپنے دوستوں کو سیراب کرتا ہے اور اپنے دشمنوں کو پیاسا رکھتا ہے،تم اور تمہاری طرح کے افراد وہ لوگ ہیں؛جنہیں تم پسند کرتے ہو اور وہ تمہیں پسند کرتے ہیں اور خدا کی قسم! اگر میرے ہاتھ میں تلوار ہوتی تو تم مجھے اس طرح نہیں پکڑ سکتے تھے ۔

معاویہ بن حدیج نے ان سے کہا:کیا تمہیں پتہ ہے کہ میں تمہارے ساتھ کیا کروں گا؟تمہیں اس مردہ گدھے کے پیٹ میں رکھ کے جلا دوں گا۔

محمد نے کہا:فرض کرو کہ تم میرے ساتھ ایسا کرو گے تو کیاہوا؟ کیونکہ بہت سے اولیاء خدا کے ساتھ بھی ایسا کیا گیا۔خدا کی قسم!مجھے امیدہے کہ تم مجھے جس آگ سے ڈرا رہے ہو ،خدا میرے لئے وہ آگ ٹھنڈی کردے گا اور مجھے سلامت رکھے گا جس طرح خدا نے اپنے خلیل حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لئےآگ کو گلزار بنا دیا تھا ،اور مجھے امید ہے کہ خدا یہ آگ تمہارے اور تمہارے ساتھیوں کے لئے قرار دے جس طرح نمرود اور اس کے ساتھیوں کے لئے قرار دی اور مجھے امید ہے کہ خدا تجھے،تیرے پیشوا اور اس شخص( عمرو عاص کی طرف اشارہ کیا)کو جلنے والی آگ میں جلائے گا۔’’کہہ دیجئے کہ ہمارے اور تمہارے درمیان گواہ بننے کے لئے خدا کافی ہے کہ وہی اپنے بندوں کے حالات سے باخبر ہے اور ان کی کیفیات کا دیکھنے والا ہے‘‘۔ [4]

معاویہ بن حدیج نے ان سے کہا:میں تمہیں ظلم و ستم سے قتل نہیں کر رہا بلکہ تمہیں عثمان بن عفان کے خون کے بدلےقتل کررہا ہوں۔

محمد نے کہا:تمہیں عثمان سے کیا سروکار؟جس شخص نے ظلم کیا ،خدا اور قرآن کے حکم کو تبدیل کر دیا اور خداوند متعال نے فرمایا ہے:’’اور جو ہمارے نازل کئے ہوئے قانون کے مطابق فیصلہ نہ کرے گا وہ سب کافر شمار ہوں گے‘‘۔’’وہ ظالموں میں شمار ہو گا‘‘۔’’وہ فاسقوں میں شمار ہو گا‘‘۔[5]

اس کے کئے گئے ناروا کاموں کی وجہ سے ہم غضبناک ہوگئے اور ہم اسے واضح طور پر خلافت سے الگ کرنا چاہتے تھے لیکن اس نے قبول نہ کیا اور لوگوں کے ایک گروہ نے اسے قتل کر دیا۔

معاویہ بن حدیج غصہ میں آگیا اور انہیں اپنے سامنے لا کر ان کی گردن اڑا دی اور پھر ان کے بدن کومردہ گدھے کے پیٹ میں رکھ کر جلا دیا۔

جب عائشہ تک یہ خبر پہنچی تو وہ ا س بات  پر بہت روئی۔وہ ہر نماز کے بعد قنوت پڑھتی تھی جس میں معاویہ بن ابی سفیان،عمرو عاص اور معاویہ بن حدیج پر لعنت کرتی تھی۔اس نے اپنے بھائی کے اہل  وعیال اور بیٹوں کی کفالت کا ذمہ لے لیا جن میں قاسم بن محمد بھی شامل تھے۔

کہتے ہیں:معاویہ بن حدیج ایک پلید اور لعنتی شخص تھا جو حضرت  علی بن ابی طالب علیہما السلام سبّ و شتم کیا کرتا تھا ۔

ابراہیم ثقفی کہتے ہیں:عمرو بن حماد بن طلحہ قناد نے علی بن ہاشم سے ، انہوں نے اپنے والد سے،اور انہوں نے داؤد بن ابی عوف سے ہمار ے  لئے روایت نقل کی ہے کہ معاویہ بن حدیج مسجد نبوی میں امام حسن بن علی علیہما السلام کی خدمت میں آیا۔

امام حسن علیہ السلام نے اس سے فرمایا:اے معاویہ!لعنت ہو تم پر؛تم وہی ہو جو امیر المؤمنین علی بن ابی طالب علیہما السلام کو دشنام دیتا تھا ؟! خدا کی قسم!اگر تم انہیں قیامت کے دن دیکھو -اور میں سوچ بھی نہیں سکتا کہ تم انہیں دیکھو گے-تو تم انہیں اس حال میں دیکھو گے کہ وہ اپنے برہنہ پاؤں سے تم جیسے لوگوں کے چہروں کو کچلیں گے اور انہیں حوض کوثر کے پاس سے بھگا دیں گے جس طرح بیگانے اونٹوں کو بھگا دیا جاتا ہے۔[6]

 


۱۔ سورۂ آل عمران،آیت:١٤٥ .

۲۔ فسطاط وہ پہلا شہر تھا جو  مصر میں عربوں  نے دریائے نیل کے مشرق میں بنایا  اور یہ شہر عمرو عاص کے توسط سے بنایا گیا اور اس میں ایک مسجد بھی بنائی گئی!(المنجد الأعلام) .

۱ ۔ سورۂ قمر،آیت:٤٣ .

۱۔ سورۂ بنی اسرائیل،آیت:٩٦ .

۲ ۔ سورۂ مائدہ،آیات:٤٤،٤٥ اور ٤٧.

۱۔ جلوۂ تاریخ در شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید:٢٢٥٣ .

    بازدید : 2563
    بازديد امروز : 13028
    بازديد ديروز : 153472
    بازديد کل : 139974660
    بازديد کل : 96522086