امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
معارف کہاں سے سیکھیں

معارف کہاں سے سیکھیں

معارف سے آشنائی سعادت و نیک بختی کا راستہ ہے ۔ہمیں معارف منبع وحی سے سیکھنے چاہئیں تا کہ ہم اپنے دل کو ان کے تابناک انوار سے منور کر سکیں۔ہمیں ان لوگوں سے گریز کرنا چاہئے جنہوں نے اپنے عقائد مکتب وحی علیھم السلام سے نہیں سیکھے ۔اگر ہم ان کی باتیں سنیں اور ان کے عقائد کی جستجو کریں تو ہم صراط مستقیم سے دور ہو جائیں گے اور ان کی پیروی کرنے کی وجہ سے ہم جہالت کے خشک اور بیابان سراب میں گم ہو جائیں گے اور ان کے کھوکھلے الفاظ کے گرداب میں پھنس کر تباہ و برباد ہو جائیں گے۔

پس یہی بہتر ہے کہ ہم شروع سے ہی صحیح عقائد و معارف کی پہچان کے لئے سفیران الٰہی کا رخ کریں کہ جن کی گفتار وحی الٰہی ہوتی ہے اور ان سے رہنمائی حاصل کریں ۔ان کے فرمودات کو آنکھوں سے لگائیں اور انہیں اپنے دل میں جگہ دیں کیونکہ یہ معارف الٰہی کی طرف ہدایت کا راستہ ہیں۔

حضرت پیغمبر اکرم ۖ نے امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام سے فرمایا: 

''بِنٰا اِھْتَدُوا السَّبِیْلَ اِلٰی مَعْرِفَةِ اللّٰہِ''([1])

(مقرب ملائکہ کی)ہمارے وسیلہ سے خدا کو پہچاننے کے راستہ کی طرف ہدایت ہوئی۔

 

گذشتہ زمانے سے ابھی غیبت کے زمانے تک انسان نے اپنے ذہن کے صرف کروڑویں حصے کو ہی بروئے کار لایا ہے اور بقیہ حصے سے استفادہ نہیں کیا۔

یہاںذہن میں  یہ سوال پیدا ہوتاہے کہ جو انسان اب تک اپنے ذہن کی تمام توانائیوں کو بروئے کار نہیں لا سکااور جس میں اپنے ذہن کی توانائیوں کو پہچاننے کی قدرت نہیں ہے تو وہ انسان خاندان وحی علیھم السلام کی ہدایت و رہنمائی کے بغیر صرف اپنے ذہن کی توانائیوں کے کروڑویں حصے پر ہی بھروسہ کرتے ہوئے کس طرح معارف الٰہی حاصل کر سکتا ہے اور کس طرح خالق کائنات کو پہچان سکتاہے۔

پس یہی بہتر ہے کہ انسان خود کو شاہدان خلقت کے ارشادات کے سپرد کر دے اور دوسروں کے دھوکے ومکاری کے جال میں پھنس کر فریب نہ کھائیں اور

دوسروں کو بھی فریب نہ دیں۔

مگر کیا خداوند متعال نے قرآن مجید میں یہ نہیں فرمایاہے: 

(یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّہَ وَکُونُواْ مَعَ الصَّادِقِیْنَ)()[2] 

اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو اور صادقین کے ساتھ ہوجاؤ۔

مگریہ کس طرح ممکن ہے کہ انسان ایمان اور تقویٰ رکھتا ہو اور اس آیت شریفہ کی رو سے معصومین علیھم السلام کے ساتھ بھی ہو لیکن وہ اپنے اعتقادات و عقائد دوسرے مکاتب سے اخذ کرتاہو؟!

کیا ساتھ ہونے اور معیّت کے یہی معنی ہیں؟!

کیا مقام ولایت اور مکتب اہلبیت علیھم السلام کی پیروی کے یہ معنی ہیں؟!

خدا اوند کریم کا ارشاد ہے: 

(مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَال صَدَقُوا مَا عَاہَدُوا اللَّہَ عَلَیْْہِ )([3])

مومنین میں ایسے بھی مرد میدان ہیں جنہوں نے اللہ سے کئے وعدہ کو سچ کر دکھایا ہے۔

 

جی ہاں جس طرح قرآن مجید نے فرمایاہے :کچھ ایمان والے افراد ہی روز ازل سے کئے گئے وعدے پر ہی باقی رہیں گے  لیکن دوسرے دانستہ یا نادانستہ طور پر صراط مستقیم سے دور ہو جائیں گے اور شیطان کے جال میں پھنس جائیں گے اور پھر آہستہ آہستہ ان میں خاندان وحی علیھم السلام اور ان کے فرمودات کا احترام کم ہوتا چلا جائے گا۔

کیا قرآن اور اہلبیت عصمت و طہارت علیھم السلام کی پیروی کے یہ معنی  ہیں؟!

کیا انہوں نے بھی دوسروں کی طرح مشہورحدیث ثقلین کو اَن دیکھا کردیا اور بھلا دیا ہے؟!

اس بناء پر ہمیں چاہئے کہ ہم اپنے عقائد قرآن مجید اور اہلبیت اطہار علیھم السلام سے سیکھیں اور اسی راستے سے حقائق تک پہنچیں جس کی طرف انہوں نے رہنمائی فرمائی ہے۔کیونکہ ذاتی و شخصی آرا ء اور قیاس سے ہم نہ صرف حقائق و معارف تک نہیںپہنچ  سکتے ہیں بلکہ ہم سے بالکل راہ ہی گم ہو جائے گی۔ جس سے ہم گمراہی میں مبتلا ہو جائیں گے۔

اس بارے میں  امیر المؤمنین  حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: 

''مَنِ اعْتَمَدَ عَلَی الرَّأْیِ وَالْقِیٰاسِ فِمَعْرِفَةِ اللّٰہِ ضَلَّ وَ تَشَعَّبَتْ عَلَیْہِ الْاُمُوْرُ''([4]) 

جو کوئی خدا کی معرفت میں رائے اور قیاس پر اعتماد کرے وہ گمراہ ہو جائے گا اور اس پر امور غیر واضح ہو جائیں گے۔

اس بناء پر رائے،قیاس اور احتمال سے خدا کی معرفت حاصل نہیں کی جاسکتی کیونکہ قیاس کے ذریعے حاصل ہونے والی معرفت کا نتیجہ گمراہی ہوتا ہے ۔

مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: 

''رُبَّ مَعْرِفَةٍ اَدَّتْ اِلَی التَّضْلِیْلِ''([5])

کبھی معرفت (انسان کو )گمراہی کی طرف لے جاتی ہے۔

 

ممکن ہے کہ کسی مکتب میں معارف و حقائق بھی ہوں لیکن اگر ان کا انجام گمراہی ہو تو اس کا کیا فائدہ ہے ؟

اس بناء پرخودبینی میں گرفتار افراد،خود کو ہی اصل ذات سمجھنے والے  اور خود کو راز و نیاز اور دعا و مناجات سے بے نیاز سمجھنے والوں نے معرفت سے بالکل استفادہ نہیں کیا۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

''لاٰ یَقْبَلُ اللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ عَمَلاً اِلاّٰ بِمَعْرِفَةِ وَ لاٰ مَعْرِفَةَ اِلاّٰ بِعَمَلٍ ، فَمَنْ عَرَفَ دَلَّتْہُ  مَعْرِفَتُہُ عَلَی الْعَمَلِ وَ مَنْ لَمْ یَعْمَلْ فَلاٰ مَعْرِفَةَ لَہُ ، اِنَّ الْاِیْمٰانَ بَعْضُہُ مِنْ بَعْضٍ''([6])

خداوند کسی عمل کو قبول نہیں کرتا مگر یہ کہ وہ معرفت کے ساتھ انجام دیا گیا ہو،اور عمل کے بغیر کوئی معرفت نہیں ہوتی ۔پس جو پہچان و شناخت رکھتا ہو ،اس کی معرفت اسے عمل کی طرف رہنمائی کرے گی اور جو کوئی عمل نہ کرے اسے کوئی معرفت نہیں ہے ۔کیونکہ بعض اپنا ایمان دوسرے بعض سے لیتے ہیں۔

اس بناء پر عبادت اور مناجات سے ہاتھ اٹھا لینا معرفت کی دلیل نہیں ہے بلکہ معرفت کی علامت صحیح معارف (جو انسان نے سیکھے ہیں)کے مطابق عمل کرنا ہے۔

معارف کے اعلی درجوں تک پہنچنے والے افراد اپنے دل کو کسب معارف سے نورانی کرتے ہیں  وہ معارف کی جتنی بھی منزلوں کو طے کریں ،انہیں خدا کی اتنی ہی زیادہ معرفت حاصل ہوتی ہے اور وہ خود کو خدا اور اولیائے خدا کے سامنے بہت چھوٹا سمجھتے ہیں اور ان کی نظروں میں ان کی تقصیر و کوتاہی جلوہ گر ہوتی ہے۔

سید الساجدین حضرت امام زین العابدین علیہ السلام فرماتے ہیں:

''جَعَلَ مَعْرِفَتَھُمْ بِالتَّقْصِیْرِ شُکْراً''([7])

(خدا نے عرفاء کی ) معرفت کو ان کی تقصیر سے شکر قرار دیا ہے۔

وہ عرفان کے جتنے بھی  بلند درجات تک پہنچ جائیں ،انہیں اتنی ہی زیادہ خداکی عظمت اور اپنی تقصیر دکھائی دے گی۔خود بینی میں گرفتار افراد کے لئے بہتر ہے کہ وہ معرفت ِنفس کے ذریعہ خود بینی سے چھٹکارا حاصل کریں۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں: 

''سُدَّ سَبِیْلَ الْعُجْبِ بِمَعْرِفَةِ النَّفْسِ''([8])

نفس کی معرفت کے ذریعے خودبینی کے راستوں کو مسدود کرو۔

 

یہ تعجب کی بات ہے کہ کوئی اپنی روح اور نفس کو نہ پہچانے حتی کہ اسے اپنے جسم کی بھی کوئی اطلاع نہ ہواور نہ ہی وہ اپنے دماغ،خون اور بدن کے دوسرے اعضاء و جوارح سے صحیح طور پر آگاہ ہو تو وہ کس طرح معارف الٰہی تک پہنچ سکتا ہے اور کس طرح خلاق کائنات کو پہچان سکتاہے ۔

امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: 

''عَجِبْتُ لِمَنْ یَجْھَلْ نَفْسَہُ کَیْفَ یَعْرِفُ رَبَّہُ؟!([9])

مجھے تعجب ہے !جو اپنے نفس سے جاہل ہو ،وہ کس طرح خدا کو پہچان سکتاہے؟!

 

ایسے افراد تکبر،خود بینی اور خود فروشی کو خود سازی اور خودشناسی سمجھتے ہیں !لیکن اس کے باوجود وہ دوسرے لوگوں کی مدد اور ہدایت کرتے ہیں!!!

امیر المؤمنین  حضرت  علی علیہ السلام فرماتے ہیں: 

''عَجِبْتُ لِمَنْ یَتَصَّدی لِاِصْلاٰحِ النّٰاسِ وَ نَفْسُہُ أَشَدُّ شَْئٍ فِسٰاداً''([10]) 

مجھے تعجب ہے !جو لوگوں کی اصلاح کا ذمہ دار ہو ،لیکن اس کا نفس فساد کے لحاظ سے ہر چیز سے شدید تر ہے!

 قرآن مجید میں خداوند کریم کا ارشاد ہے: 

(أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنْسَوْنَ أَنفُسَکُمْ)([11])

کیا تم لوگوں کو نیکیوں کا حکم دیتے ہو اور خود اپنے کو بھول جاتے ہو ۔

 

پس یہی بہتر ہے کہ ایسے افراد دوسروںکے لئے دلسوزی چھوڑ کر پہلے اپنی خودسازی کی کوشش کریں ۔خداوند متعال کا ارشاد ہے : 

(عَلَیْْکُمْ أَنفُسَکُمْ لاَ یَضُرُّکُم مَّنْ ضَلَّ ِذَا اہْتَدَیْْتُمْ )([12]) 

 اپنے نفس کی فکر کرو ۔اگر تم ہدایت یافتہ رہے تو گمراہوں کی گمراہی تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچاسکتی ۔

 امیر المؤمنین  حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: 

''اَیُّھَا النّٰاسُ عَلَیْکُمْ بِالطّٰاعَةِ وَالْمَعْرِفَةِ بِمَنْ لاٰ تَعْذِرُوْنَ بِجِھٰالَتِہِ''([13]) 

اے لوگو!تم پر خدا کی اطاعت اور ایسے لوگوں کی شناخت لازم ہے کہ اگر تم نے انہیں نہ پہچانا تو تمہارا کوئی عذر قبول نہیں  کیا جائے گا۔

 


[1]۔ بحار الانوار:ج۲٦ص۳۵۰اور  ج۳٦ص۳۳۷، کفایة الأثر:٢١

[2]۔ سورۂ توبہ ،آیت:١١٩

[3]۔ سورۂ احزاب ،آیت:٢٣

[4]۔ شرح غرر الحکم:ج۵ص۴٦۳

[5]۔ شرح غرر الحکم:ج۴ص۷۵

[6]۔ بحار الانوار:ج۱ص۲۰۷

[7]۔ بحار الانوار:٧٨،تحف العقول:٢٧٨

[8]۔ بحار الانوار: ج۷۸ص١٦٤،تحف العقول:٢٨٤

[9]۔ شرح غرر الحکم:ج ٤ص۳۴۱

[10]۔ شرح غرر الحکم:ج۴ص۳۴۰

[11]۔ سورۂ بقرہ ،آیت:٤٤

[12]۔ سورۂ مائدہ،آیت :١٠٥

[13]۔ بحار الانوار:ج۲ص۱۰۰

 

 

 

    بازدید : 2439
    بازديد امروز : 121633
    بازديد ديروز : 180834
    بازديد کل : 141889638
    بازديد کل : 97814340