امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
شرمساری

شرمساری

اب تک ہم نے زمانِ ظہور کو مختلف عناوین سے یاد کیا۔عصرِ حیات و زندگی،نجات کا دن،فلاح کا دن،ظہور کا درخشاں زمانہ،ظہور کا پُر نور اور پُر مسرّت زمانہ،منوّر زمانہ ،عقلوں کے تکامل کا زمانہ۔  اب ہمیں یہ دیکھنا چاہیئے کہ ہم نے اس حیات بخش اور نجات زمانے کے لئے کیا کام انجام دیئے ہیں۔ہم نے عالمی عادلانہ حکومت کے نزدیک ہونے کے لئے کون سا اقدام کیا ہے،اس راہ میں ہم نے اپنی کتنی ثروت و دولت خرچ کی ہے؟

جس طرح ہم اپنے اور اپنے اہل خانہ اور فرزندوں کی زندگی کو پُر آسائش بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور ان کے آئندہ کے بارے میں فکر مند رہتے ہیں۔کیا ہم نے کبھی آئندہ آنے والی دنیا اور اس کے متعلق اپنے وظیفہ و ذمہ داری کے بارے میں بھی سوچا ہے؟

یہ کس طرح ممکن ہے کہ کوئی ظہور کا منتظر ہو لیکن اس راہ میں کوئی قدم نہ اٹھائے ۔کیا دولت کے حصول اور اموال کے جمع کرنے میں  کے لئے تمام کوششیں اور دنیا کی نجات کے لئے اپنے دینی اور انسانی فریضہ کو بھلا دینا انتظار امام زمان سے مناسبت رکھتا ہے؟

کیا یہ صحیح ہے کوئی ظہور کا معتقد بھی ہو اور منتظر بھی،لیکن اس کے باوجود صبح سے شام تک اپنا سارا دن مادّی ترقی کی جستجو میں صرف کرے اور شرعی وظیفہ بالکل فراموش کردے۔

بعض دولتمندوں کو اس وقت انتہائی شرم کا سامنا پڑے گا کہ جب عصرِ ظہور میں امام عصر علیہ السلام  ان کی مذمت کریں گے اور آنحضرت دنیا پرستی اور دنیا کا مال جمع کرنے کی وجہ سے لوگوں کی تنقید کریں گے۔

ایک روایت میں حضرت باقر العلوم علیہ السلام  فرماتے ہیں: 

'' یجمع الیہ اموال الدنیا من بطن الارض و ظھرھا،فیقول للناس تعالوا الی ماقطعتم فیہ الارحام،و سفکتم فیہ الدّماء الحرام و رکبتم فیہ ما حرّم اللّہ عزّوجلّ، فیعطی شیئاً لم یعطہ احد کان قبلہ و یملأ الارض عدلاً و قسطاً و نوراً کما ملئت ظلماً و جوراً و شرّاً ''  ([1])

زیر زمین ثروت اور روئے زمین پر موجودتمام ثروت اوردنیا کا مال و دولت اس کے پاس جمع  ہوگا۔پھر وہ لوگوں سے کہے گا:

آئو اس چیز کی طرف کہ جس کی وجہ سے تم لوگوں نے قطع رحم کیا،ناجائز خون بہایااور خدا کی حرام کردہ چیزوں کے مرتکب ہوگئے۔

پس وہ اس قدر مال و دولت عطا کرے گا کہ جو اس سے پہلے کسی نے دوسرے کو عطا نہیں کی ہوگی۔وہ زمین کو عدل و انصاف اور نور سے بھر دے گا ۔جس طرح وہ ظلم و جور و شر سے پُر ہوچکی تھی۔

 

جی ہاں!وہ شرمساری اور شرمندگی کا زمانہ بھی ہے۔ایسے لوگوں کے لئے شرمندگی کہ جن کوتمام مادّی وسائل مہیّا تھے،لیکن اس کے باوجود انہوں نے کبھی بھی انسانوں کی نجات اور ان کی مشکلات کو رفع کرنے کی کوشش نہیں کی۔اس سے بھی زیادہ شرمسار وہ ہوں گے کہ جنہوں نے نہ صرف انسانوں کی فلاح و بہبود کے لئے اپنا مال خرچ نہیں کیا۔بلکہ امام زمانہ علیہ السلام کے مال پر بھی قبضہ جما کر بیٹھ گئے اور انہوں نے وہ مال ایسے موارد میں بھی صرف نہیں کیا کہ جن میں حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج) کی رضائیت شامل تھی۔

کیا ایسے افراد کو اپنے گفتار و کردار پر نظر ثانی کرنے کی اشد ضرورت نہیں ہے؟

 


[1] ۔ نوادرالاخبار:٢٧٥،بحارالانوار:ج ٥١ص  ٢٩،الغیبة مرحوم نعمانی:٢٣٧ باب ١٣ ح٢٦
 

 

    بازدید : 7339
    بازديد امروز : 17360
    بازديد ديروز : 97153
    بازديد کل : 131699310
    بازديد کل : 91353886