امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
علم کی محدویت

علم کی محدویت

لوگوں کا علم سے ناامید ہونے کا دوسرا سبب علم کی محدودیت ہے۔

اس بارے میں ارشاد خدا وندی ہے:

''  وَمَا ُوتِیتُمْ مِنَ الْعِلْمِ ِلاقَلِیلاََ''([1])

جب تک انسان کا دماغ مکمل طور پر فعال نہ ہواور ذہین ترین فرد بھی دماغ کے کچھ حصہ سے  استفادہ کرے تو انسان کس طرح دنیا کے اسرار و رموز کو سمجھ سکتا ہے؟خاندان نبو ت علیھم السلام  کے فرمودات  میں اس حقیقت کی تصریح ہوئی ہے ۔لیکن مغرب اب کہیں جا کر اس سے آگاہ ہوا ہے۔ جب تک زمانۂ غیبت جاری رہے اور بشر عقلی تکامل تک نہ پہنچے اور دماغ مکمل طور پر فعّال نہ ہو ، تب تک علم کی محدودیت بھی باقی رہے گی۔اس بیان کی روشنی میں محدود علم کس طرح مجہول مطالب اور مشکلات کا جواب دے سکتا ہے ؟ وہ کس طرح تاریک دنیا کو مدینہ فاضلہ میں تبدیل کر سکتا ہے؟

اگر علم مشکلات اور مجہول مطالب کا جواب دینے ہی سے قاصر ہو تو پھر معاشرے میں بہت سے سوال بغیر جواب کے باقی رہ جائیں گے۔لیکن لوگ اس امر کو جان گئے ہیں کہ علم مشکلات کا حل نہیں ہے ۔ بہت سے دانشوروں نے اس حقیقت کا

اعتراف کیا ہے ۔ہم یہاں ان میں سے چند ایک کے اقوال نقل کرتے ہیں۔

۱۔ علم کی حدودمشخص ہیں ۔ یہ ہمیں اشیاء کی کیفیت کے بارے میں نہیں بتا سکتا ۔علم ہم سے کہتا ہے کہ زمین کس طرح سورج کے گرد گردش کرتی ہے انسان کس طرح پیدا ہوتے اور مرتے ہیں ۔ لیکن یہ کیوں کا جواب نہیں دے سکتا۔([2])

 

 


[1]۔ سورۂ اسراء، آیت:٨٥

[2]۔ علم شبہ علم و علم دروغین: ٤٥

 

 

    بازدید : 6960
    بازديد امروز : 0
    بازديد ديروز : 80197
    بازديد کل : 135562669
    بازديد کل : 93630675