امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
عصر ِ ظہور میں قدرت کے حصول کی تحلیل

عصر ِ ظہور میں قدرت کے حصول کی تحلیل

روایت سے جو بہترین نکتہ استفادہ کیا جا سکتا ہے،وہ یہ ہے کہ زمانۂ ظہور میں بشریت کے لئے حیرت انگیز تبدیلیاںوجود میں آئیں گی کہ جس کی وجہ سے انسان روئے زمین کے کسی دور دراز   علاقے میں بیٹھے اپنے دوستوں اور عزیزوں کو دیکھ سکے گا۔ہزاروں کلو میٹر کی دوری کے باوجود انہیں  آسانی سے دیکھاجا سکے گا  اور ان کے حالات سے آگاہی حاصل کی جا سکے گی۔

زمانۂ ظہور میں انسان کو حاصل ہونے والی اس قدرت کی چند صورتوں سے تجزیہ و تحلیل کرنا ممکن ہے ۔

١۔جس طرح انسان کی قوّت فکر کامل ہوجائے گی اور اس کی قوّت ارادہ بھی قوی ہوگی۔ پھر ارادہ اور فکر کے متمرکز ہونے سے وہ دنیا کے ہر حصے کو ملاحظہ کر سکے گا ۔یعنی اس کی ظاہری نظر میں وسعت آجائے گی،یا یہ کہ رؤیت سے مراد رؤیت باطنی

یا دل کی آنکھوں سے دیکھنا مقصود ہے۔

گز شتہ ابحاث میں زمانہ ظہور میں تحوّل فکر اور تقویت ارادہ کے بارے میں بیان کئے گئے مطالب کی رو سے یہ تحلیل ایک فطری امر ہے۔

٢۔ ظہور کے درخشاں اور نعمتوں سے سرشار زمانے میں صنعت اور ٹیکنالوجی میں ایسی ترقی ہو   گی کہ انسان جدید وسائل سے استفادہ کرتے ہوئے ایک دوسرے کو کائنات کے مشرق و مغرب میں دیکھ سکے گا۔

البتہ یہ نکتہ بھی مد نظر رکھنا چاہیئے کہ اب ہمارا ذہن کمپیوٹر،انٹر نیٹ اور ٹیلی وژن سے آشنا ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ ہم انٹر نیٹ کے ذریعہ ایک دوسرے کی تصویردیکھ سکتے ہیں۔ایسے تصویری وسائل کی وجہ سے ممکن ہے کہ ہم آئندہ کی پیشرفتہ ایجادات کو بھی ایک قسم کا تصویری وسیلہ سمجھیں۔حالانکہ ممکن ہے کہ آئندہ انسان کے اختیار میں آنے والے وسائل نہ صرف تصویری ہوں بلکہ ان کے تجسّم کو بھی دکھائیں۔

٣۔ اس کی دیگر تحلیل بھی کی جاسکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ آئندہ معنوی اور مادّی لحاظ سے انسان کے لئے جو حیرت انگیز اور بے نظیر پیشرفت میسر آئے گی۔انسان ان دونوں سے استفادہ کرسکے گا کہ جنہیں ہم نے بیان کیا۔

٤۔ ہم نے جو کچھ بیان کیا،اس کے لئے ایک اور تحلیل کرنا بھی ممکن ہے اور وجہ یہ ہے کہ باطنی قوّت میں اضافہ سے انسان اپنے مثالی وجود کو دنیا کے کسی کونے میں بیٹھے ہوئے اپنے عزیز یا دوست  کے سامنے حاضر کرسکے گا وہ اپنے مثالی وجود کو تجسّم بخشے گا یا تجسّم کے بغیر ہی  اپنے بھائیوں کو دیکھ سکے گا۔

اس رویات کی توضیح میں جس نکتہ کا اضافہ کرنا چاہیئے وہ یہ ہے کہ چاہے ہم گزشتہ تحلیلات میں سے سب یا کچھ یا کسی ایک تحلیل کو قبول کریں  یا روایت کی توضیح میں کوئی اور تحلیل لائیں۔لیکن اس مطلب کوضرورمدنظر رکھیں کہ اس روایت کے ظاہر سے یہ استفادہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ قدرت یعنی دنیا کے کسی خطے میں بیٹھے انسان کو دیکھنا،ایک ایسی حالت ہے کہ جو عام لوگوں کے لئے وجود میںآئے گی۔یعنی روایت سے عمومی حالت استفادہ ہوتی ہے۔

اس بناء پر جس روایت سے بھی رؤیت کی وضاحت کریں،لیکن یہ جان لیں کہ ظہور کے زمانے میں دور افتادہ علاقوں سے رؤیت صرف کسی خاص گروہ کی خصوصیات میں سے نہیں  ہے۔بلکہ عام لوگوں میں یہ قدرت پیدا ہوگی۔

٥۔ رؤیت اور ایک دوسرے کو دوسری طرح دیکھنا بھی ممکن ہے اور وہ طرف مقابل کا انسان کے پاس حاضر ہونا ہے۔مذکورہ بعض صورتوں کے برعکس ۔ روایات میں اسی طرح کی اور روایات بھی وارد ہوئی ہیں کہ جو بھی حضرت خضر علیہ السلام کو سلام کرے ،وہ ان کے نزدیک حاضر ہوتے ہیں۔ اب اس روایت پرتوجہ کریں۔

ایک روایت میں حضرت امام رضا علیہ السلام ، حضرت خضر علیہ السلام کے بارے میں فرماتے ہیں:

''انہ لیحضر حیث ماذکر، فمن ذکرہ فیکم فلیسلّم علیہ ''([1])

انہیں جب یا د کیا جائے وہ حاضر ہوجاتے ہیں۔پس تم میں سے جوبھی انہیں یاد کرے،ان پر سلام بھیجے۔

ہم نے جوصورتیں ذکر کی ہیں،ان میں سے بعض کا لازمہ انسان کا دو یا دو سے بیشتر جگہوں پر ہونا ہے۔

٦۔ظہور کے درخشاں اور با عظمت زمانے کی تبدیلیوںمیں سے ایک تبدیلی انسان کی آنکھوں اور بصارت میں رونما ہوگا۔ اس کی قوّت ِ بصارت میں اس قدر اضافہ ہو گا کہ اس میں دور  دراز کے علاقوں کو دیکھنے کی قدرت فراہم ہوجائے گی۔([2])

انسان کی بصارت میں ایجاد ہونے والا تحوّل ایسا ہوگا کہ اس میں حیرت انگیز  اضافہ وجود میں آئے گا۔ زمانۂ ظہور میں انسان کی قوّہ باصرہ میں حیران کن اضافہ

کے بارے میں اس روایت پر توجہ کریں ۔

امام صادق  علیہ السلام  فرماتے ہیں: 

''انّ قائمنا اذا قام مدّ اللّٰہ لشیعتنا فی أسماعھم و أبصارھم حتی (لا) یکون بینھم و بین القائم برید، یکلّمھم فیسمعون و ینظرون الیہ وھو فی مکانہ ''([3])

بے شک جب ہمارا قائم  علیہ السلام  قیام کرے گا تو خداوند متعال ہمارے شیعوں کے کانوں اور آنکھوںمیں کشش پیدا فرمائے  گا۔(ان کی قدرت میں اضافہ فرمائے  گا) یہاں تک کہ ان کے اور حضرت قائم علیہ السلام کے درمیان کسی واسطہ کی ضرورت نہیں ہوگی۔وہ ان کے ساتھ بات کرے گا اور وہ سنیں گے اور وہ  ان کی طرف دیکھیں گے۔حالانکہ وہ اپنی جگہ پر ہوں گے۔ 

یہ روایت واضح طور پر دلالت کرتی  ہے کہ زمانۂ ظہور میں خدا وند متعال انسان کے دیکھنے اور سننے کی قدرت میں اضافہ فرمائے گا۔سب حضرت بقیةاللہ الاعظم (عج) کو دیکھ سکیں گے۔ چاہے وہ کسی بھی جگہ پر ہوں،اسی طرح وہ آنحضرت  کی آواز بھی سن سکیں گے۔

 


[1]۔ صحیفہ مہدیہ: ٩٨

[2] ۔ اس میں کسی قسم کا شک نہیں ہے کہ ظہور کے زمانے میں انسان کے جسم میں جوتحوّلات وجود میں آئیں گے۔ وہ انسان کی آنکھوں اور قوة باصرہ پر بھی اثر انداز ہوں گے، گزشتہ زمانے میں بھی کچھ ایسے افراد تھے کہ جن کے قوت بصارت بہت  قوی تھی۔ان میں سے ایک ابو علی سینا ہیں ۔ ا ن سے نقل ہوا ہے کہ انہوں نے کہا کہ میں دن کے وقت ستارہ عطارد کو دیکھا کہ مقار ن وقت میں وہ سورج پر ایسے  تھا جیسے چہرے پر تل ہو ۔اگرچہ عطارد دوسرے آسمان اور سورج چوتھے آسمان پر ہے۔ لیکن چونکہ مقارن تھے۔یعنی ایک برج اور ایک دقیقہ میں جمع ہوئے تھے۔لہذا ایسے لگتا تھا جیسے سورج کے چہرے پرتل ہو(گلزار کبریٰ٣٨٣)

قصص العلماء میں ان کی قوت باصرہ کے بارے میں لکھا ہے کہ ان کی بصارت اس حد تک تھی کہ وہ چار فرسخ کے فاصلے سے مکھی کو دیکھ لیتے تھے۔ایک روز وہ سلطان کی مجلس میں داخل ہوئے تو انہوں نے دیکھا کہ اس نے دور بین لگائی ہوئی ہے۔شیخ نے پوچھاکہ یہ دوربین کس لئے لگائی ہے؟

سلطان نے کہا:چار فرسخ سے ایک سوارآرہا ہے میں اسے دیکھنا چاہتا ہوں کہ وہ کون ہے؟شیخ نے کہا چار فرسخ کے لئے دوربین کی کیا ضرورت ہے پھر شیخ نے اس جانب دیکھ کر کہا کہ فلاں شکل اور لباس میں ملبوس ایک سوار آرہا ہے۔اس کا گھوڑافلاں رنگ کا ہے۔وشیرینی کھارہا ہے۔

سلطان نے کہا کہ شیرینی مطعومات میں سے ہے نہ کہ مرئیات میں سے ہے ۔ پس آپ کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ وہ شیرینی کھا رہا  ہے؟

ابو علی سینا نے اس کے جواب میں کہا! کیونکہ اس کے منہ کے ارد گرد کچھ مکھیاں اڑ رہی ہیں ۔ یہ اس چیز کی علامت ہے کہ وہ شیرینی کھارہا ہے۔جب وہ سوار آیا تو اس سے اس بارے میں پوچھا گیاتو اس نے وہی کہا۔جو کچھ شیخ نے کہا تھا ۔ اسی طرح اس کی شکل صورت، لباس اور گھوڑے کا رنگ بھی ویسا ہی تھا، جیسے شیخ نے بتایا تھا۔ایک قول کے مطابق شیخ نے کہا کہ وہ روٹی  کھارہا ہے۔ کیونکہروٹی کے ذرات اس کی داڑھی اور مونچھوںمیں گرے ہوئے ہیں ۔ تفحص کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ جیسا شیخ نے کہا تھا ،وہ درست تھا۔

(گلزار کبریٰ:٣٨٢) ہمارے زمانے میں بھی کچھ ایسے افراد ہیں کہ کاقوّہ باصرہ بہت قوی ہے۔

[3] ۔ بحارالانوار: ج ۵۲ص۳۳٦
 

 

    بازدید : 7348
    بازديد امروز : 86919
    بازديد ديروز : 85752
    بازديد کل : 133188965
    بازديد کل : 92202667