امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
یقین کی اہمیت

یقین کی اہمیت

یقین با عظمت عالم غیب کی طرف جانے کا آسان اور سیدھا راستہ ہے۔ یقین عالم ملکوت تک پہنچنے اور نا مرئی دنیا سے ارتباط کے لئے صراط مستقیم ہے۔ یقین تہذیب یافتہ اشخاص اور بزرگان کی اہم ترین صفات میں سے ہے، یقین اہلبیت اطہار کے اصحاب اور اللہ کے خاص بندوں کی اہم ترین خصوصیات میں سے ہے۔یقین ،انسان میں قوی ترین روحانی قوّت کو ایجاد کرتا ہے، یقین خاندانِ وحی سے ارتباط کا وسیلہ ہے، دل میں یقین کا وجود معنوی پیوند کے موانع کو برطرف کرتا ہے اور اہلبیت کے تقرب اور ان تک پہنچنے کی راہ کو ہموار کرتا ہے۔یقین کی افزائش سے آپ اپنے دل کو ملائکہ کی قیامگاہ قرار دے کر اسے شیاطین کے شر اور وسوسوں سے نجات دے سکتے ہیں۔شیطان کے شر سے رہائی پانے کے بعد آپ کو بہت سے معنوی فیض حاصل ہوںگے۔اس صورت میں آپ کا دل نورانیت سے سرشار ہوجائیگا۔

اسی وجہ سے حضرت بقیة اللہ (عج)  کے ظہور کے دن تمام لوگوں کے دل و جان میں یقین پیدا ہوجائیگا ، کیونکہ اس دن جب تاریخ کی قدیم ترین  عبات گاہ (خانہ کعبہ) سے حضرت قائم آل محمد (عج)  کی حیات بخش صدا لوگوں کی سماعتوں تک پہنچے گی توابلیس اور اس کے پیروکاروں کے دلوںمیں خوف طاری ہوجائے گا ،حضرت بقیةاللہ اعظم  کے ظہور سے سب شیاطین ہلاک ہوجائیں گے۔

اس وقت لوگوں کے دل وسوسہ سے نجات پاجائیں گے اور ان کے دل و جان پر آرام و اطمینان کی حاکمیت ہوگی۔اس دن لوگوں کے دلوں میں یقین اور ایمان میں اضافہ ہوگا۔اس دن یقین پیدا کرنے والے سب امور فراہم ہوجائیں  گے اور یقین کے ذریعہ سب کے باطن کی اصلاح ہوجائے گی۔ یہ بات ثابت کرنے کے لئے کہ ظہور کے وقت سب اہل یقین بن جائیں گے، ہم مقدمہ کے طور پر کچھ مطالب ذکر کرتے ہیں:  خدا وند متعال قرآن مجید میں حضرت ابراہیم کے بارے میں فرماتا ہے:

'' وَ کَذٰلِکَ نُرِی َاِبرَاہیمَ مَلَکُوتُ السمٰوات وَالاَرض وَ لِیَکُون مِن المؤمنین'' ([1])

او ر اسی طرح ہم ابراہیم کو آسمان اور زمین کے اختیارات دکھاتے ہیں اور اس لئے کہ وہ یقین کرنے والوں میں سے ہوجائیں۔

صفوان کہتا ہے کہ میں نے امام رضا(ع)  سے پوچھا کہ خدا نے حضرت ابراہیم  (ع) کے بارے فرمایاہے:

'' اَوَ لَم نُؤمِن قَال بلیٰ وَ لٰکِن لِیَطمَئِنَّ قَلبی '' ([2])

کیا ابراہیم کو یقین نہیں تھا اور کیا ان کے دل میں شک و شبہہ موجود تھا؟

'' قَالَ لَا،کَانَ عَلیٰ یَقِینٍ وَ لٰکِن اَرادَ مِنَ اللّٰہ الزِّیَا دَةَ فِی یَقِینِہ ''([3])

حضرت امام رضا (ع) نے فرمایا : نہیں ، انہیں یقین تھا لیکن اس نے خدا سے چاہا کہ اس کا یقین زیادہ ہوجائے۔

اس بناء پر حضرت ابراہیم  نے ملکوت آسمانی اور زمین کو دیکھا اور ان کے یقین میں اضافہ ہوا ملکوت آسمان و زمین کو دیکھنے کی وجہ سے ان کا یقین زیادہ ہوا ، پھر ان میں دوسروں  کے دلوں میں بھی یقین ایجاد کرنے کی قدرت پیدا ہو گئی۔

ظہور کے زمانے کے لوگوں کی حالت اور امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی سلطنت پر توجہ کریں کہ آنحضرت صاحب ملکوت ہیں وہ جلوہ ولایت و ملکوتی سے زمین و آسمان کا مشاہدہ کرسکتے ہیں کیا اس زمان کے لوگ یقین یقین حاصل نہیں کرسکتے؟پس عصر غیبت میں بھی ہر کوئی یقین حاصل کرنے کی کوشش کرے ۔یقین حاصل کرنے سے انسان شیطان پر حاکم بنسکتا ہے اور معنویت کے صراط مستقیم پر گامزن ہوسکتاہے۔

 


[1]۔ سورہ  آیت انعام:٧٥

[2]۔ سورہ بقرہ  آیت:٢٦٠

[3]۔ بحارالانوار:ج۷۰ص۱۷٦

 

    بازدید : 7514
    بازديد امروز : 0
    بازديد ديروز : 108584
    بازديد کل : 133232295
    بازديد کل : 92224332