حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
30) عمار کے قتل کے بارے میں شبث بن ربعی کا معاویہ سے کلام

عمار کے قتل کے بارے میں

شبث بن ربعی کا معاویہ سے کلام

     شبث بن ربعی نے  جنگ صفین میں معاویہ سے اپنی ملاقات کے اہم اور قابل توجہ واقعہ کے بارے میںنقل کیا ہے کہ وہ کسی صورت میں جناب عمار کے قتل سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں تھا۔

     ابن اثیر نے یہ واقعہ اپنی کتاب میں یوں بیان کیا ہے:

     شبث بن ربعی نے معاویہ سے کہا: کیا تم عمار بن یاسر کو قتل کرنا پسند کرتے ہو؟

معاویہ نے کہا: کون سی چیزمجھے اس کام سے روک سکتی ہے؟! اگر سمیہ کا بیٹا میرے ہاتھ آئے تو میں اسے عثمان کے غلام کے سامنے قتل کردوں۔

     شبث نے کہا:اس خدا کی قسم کہ جس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے؛تمہاری یہ خواہش پوری نہیں ہو گی مگر یہ کہ بہت سے سر تن سے جدا ہو جائیں اور زمین آسمان کے کنارے تم پر تنگ ہو جائیں۔

     معاویہ نے کہا:اگر ایسا ہوا تو تجھ پر زیادہ تنگ ہو جائیں گے۔([1])

     اس نکتہ کی طرف توجہ کرنے سے کہ معاویہ نے بھی پیغمبر اکرمۖ کی متواتر روایت-کہ رسول خداۖ نے فرمایا:عمار کو ظالم و ستمگر گروہ قتل کرے گا''-کونقل کیا ہے۔جب شبث بن ربعی نے کہا:کیا تمعمار بن یاسر کو قتل کرنا پسند کرتے ہو؟تومعاویہ نے کہا:کون سی چیزمجھے اس کام سے روک سکتی ہے؟!اس سے رسول خداۖ کے فرمان کے سامنے معاویہ کی واضح و آشکارمخالفت ثابتہوجاتی ہے۔

     جنگ صفین میں  عمار کے قتل کے بارے میں معاویہ کا شبث بن ربعی کوجواب دینے میں اہم نکتہ موجود ہے کہ معاویہ نے حتی رسول خداۖ کے فرمان اور عمار کے قاتلوں کے بارے میںآنحضرت کی پیشنگوئی کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی۔

     جناب عمار کی عظمت، درخشاں کارنامہ اورنمایاں  چہرہ سب کے نزدیک ثابت ہے لیکن معاویہ نے اپنے ناپاک مقاصد تک پہنچنے اور حکومت و طاقت کے حصول کے لئے ان کا خون بہایا اور خود کو جہنم کی طرف روانہ کیا۔

     جناب عمار کی شخصیت اتنی جلیل القدر اور اہمیت کی حامل ہے حتی کہ ان کے زمانے میں سب سے زیادہ ظالم اور خونخوار شخص یعنی حجاج بن یوسف ثقفی بھی معتقد تھا:اگردنیا کے سب لوگ عمار کو قتل کرنے میں شریک ہوں تو سب کے سب جہنم میں جائیں گے۔

     ابن اثیر جو کہ علماء اہلسنت میں سے ہیں، یہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:

     بعض کہتے ہیں: ابوالغازیہ کہ جس نے عمار کو قتل کیا تھا،وہ حجاج بن یوسف ثقفی کے زمانے تک زندہ تھا۔وہ ایک دن حجاج کے پاس گیا۔حجاج نے اس کا احترام کیا اور پوچھا:تم نے سمیہ کے بیٹے (عمار)کو قتل کیا ہے؟اس نے کہا:ہاں۔

     حجاج نے کہا:جو کوئی بھی روز قیامت کسی بزرگ شخص کو دیکھنا چاہئے تو اس شخص کو دیکھے کہ اس نے سمیہ کے بیٹے کو قتل کیا ہے!

     اس دوران ابوالغازیہ نے حجاج سے کچھ تقاضا کیا۔لیکن حجاج نے وہ پورا نہ کیا۔

     ابوالغازیہ نے کہا:ان کے لئے دنیا ہموار کر رہے ہیں اور ہمیں اس میں سے ایک پائی بھی نہیں دیتے  اور پھر گمان کرتے ہیں کہ ہم روز قیامت بزرگوار ہوں گے!

     حجاج نے کہا:ہاںخدا کی قسم؛جس کے دانت احد کے پہاڑ،اس کی ران وَرِقام کے پہاڑ اور اس کا گروہ  مدینہ وربذہ کی طرح ہو ،وہ قیامت کے دن بزرگوار بن جائے گا! خدا کی قسم کہ اگر روئے زمین کے تمام لوگ عمار کے خون میں شریک ہوتے تو سب کے سب جہنم میں جاتے۔

     عبدالرحمن سلَمی کہتے ہیں:جب عمار قتل ہو گئے تو میں معاویہ کی فوج میں گیا کہ کیاجنابعمار کے قتل سے ان میں بھی اسی طرح شور مچا ہوا ہے کہ جس طرح ہم میں شور بپا تھا؟

     معاویہ کے سپاہیوں کے ساتھ ہمارا یہ حال تھا کہ جب بھی جنگ کی آگ ٹھنڈی ہو جاتی تھی تو وہ ہمارے ساتھ گفتگو کرتے تھے اور ہم ان کے ساتھ گفتگو کرتے تھے۔میں نے دیکھا کہ معاویہ،عمرو عاص،ابوالأعور اور عبداللہ بن عمرو گفتگو میں مصروف تھے۔

     میں نے اپنا گھوڑا ن کی طرف دوڑایا تا کہ ان کی  کسی بات سے محروم نہ رہ جاؤں۔ عبداللہ بن عمرو بن عاص نے اپنے باپ سے کہا:بابا ان؛آپ  نے اس شخص کو اس دن قتل کیا ہے ، کیا آپ جانتے ہیں پیغمبر اکرمۖ نے کیا فرمایا تھا؟اس نے کہا: کیا فرمایا تھا؟

     کہا:کیا اس طرح نہیں تھا کہ جب مسجد نبوی تعمیر کی جا رہی تھی تو لوگ ہر دفعہ ایک اینٹ اٹھاتے تھے اور عمار ہر بار دو اینٹیں اٹھاتے تھے اور انہوں نے اس کام میں اتنی کوشش کی کہ بے ہوش ہو گئے۔پیغمبر اکرمۖ ان کی بالین کے پاس آئے اور ان کے چہرے سے گردو خاک صاف کی اور فرمایا:

     اے سمیہ کے بیٹے؛ شاباش ہے تجھ پر، دوسرے ہر مرتبہ ایک اینٹ اٹھاتے ہیں اور تو ہر بار دو اینٹیں اٹھاتا ہے؛ لیکن ان سب کے باوجود ظالموں کا لشکرتمہیں قتل کر دے گا۔

     عمرو عاص نے معاویہ سے کہا: دیکھ رہے ہو کہ میرا بیٹا عبداللہ کیا کہہ رہا ہے؟

     معاویہ نے پوچھا: کیا کہہ رہا ہے؟

     عمرونے اس سے بھی یہی واقعہ بیان کیا ۔معاویہ نے کہا: کیا ہم نے اسے قتل کیا ہے؟! اسے اس نے قتل تک پہنچایا کہ جو اسے اس جنگ میں لے کر آیا!!

     شامی اپنے خیموںسے باہر آئے اور سب نے کہا: بیشک عمار کو اس نے قتل تک پہنچایا کہ جو اسے اس جنگ میں لے کر آیا!!

     میں  نے جانتا تھا کہ کون زیادہ حیرت زدہ ہیں ، وہ یا یہ؟([2])

     عمار کے بارے میں آپظالم اور خونخوارحجاج بن یوسف  کےقول سے بھی آگاہ ہوئے۔ عبداللہ بن عمرو عاص کہ جو معاویہ کے لشکر کے رہنماؤں میں سے تھا،اس کا بھی عمار یاسر کے قتل کے بارے میں ایسا عقیدہ تھا۔اب اس واقعہ کی طرف توجہ کریں:

     جناب عمار کے قتل ہوجانے کے بعد دو افراد میں عمار کے لباس اور لوازمات (جو میدان جنگ میں عمار کے پاس تھے) کے بارے میں جنگ و نزاع ہو گیا،وہ دونوں عبداللہ بن عاص کے پاس آئے تا کہ وہ ان کااختلاف برطرف کرے۔

     عبداللہ نے کہا:وای ہو تم پر!میرے پاس سے دور ہو جاؤ،رسول خداۖ نے فرمایا تھا:

     قریش کوعمار سے کیا کام؟عمار انہیں جنت کی طرف دعوت دے رہے ہیں اور وہ اسے آگ کی طرف دعوت دے رہے ہیں، ان کا قاتل اور ان کے لباس و لوازمات لے جانے والے جہنمی ہیں۔([3])

 


[1]۔ تاریخ کامل ابن اثیر:ج٥ ص١٨٦٩

[2]۔ تاریخ کامل ابن اثیر:ج٥ص١٨٩٥

[3]۔ الغارات و شرح اعلام آن: ٥١٤

 

 

    ملاحظہ کریں : 2381
    آج کے وزٹر : 0
    کل کے وزٹر : 155803
    تمام وزٹر کی تعداد : 144265114
    تمام وزٹر کی تعداد : 99488724