امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
(1) شهادت حضرت رقيه ‏عليها السلام

(1)

شهادت حضرت رقيه ‏عليها السلام

بعض کتابوں میں ذکر ہوا ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی یہ چھوٹی بیٹی اپنے بابا کی شہادت کے دن سے انہیں نہیں دیکھ سکی تھی اور اپنے بابا کے لئے آپ کا دل بہت اداس تھا ، جب بھی آپ اپنے بابا کے بارے میں پوچھتیں تو آپ سے کہا جاتا کہ وہ کل آئیں گے اور آپ کے لئے تحفہ بھی لائیں گے ۔یہاں تک کہ آپ نے ایک رات اپنے بابا کو خواب میں دیکھا اور جب وہ یہ سب سمجھ گئیں تو انہوں نے آہ و نالہ اور گریہ و زاری شروع کر دی اور ان سے کہا گیا کہ کیوں اس قدر گریہ و زاری کر رہی ہیں تو انہوں نے جواب دیا مجھے میرے بابا چاہئیں، مجھے میری آنکھوں کا نور چاہئے۔ جناب رقیہ علیہا السلام کو جتنا دلاسا دیا جاتا اسی قدر آپ کے غم کی شدت میں اضافہ ہوتا، پس اہلبیت بھی گریہ اور آہ و فغان کرنے لگے اور سب نے عزاداری کرنا شروع کر دی اور اپنے چہرے کو نوچا اور بالوں کو پریشان کیا ، اس گریہ کی آواز سے  یزید نیند سے بیدار ہوا اور اس  کے کارندوں نے اسے بتایا کہ امام حسین علیہ السلام کی چھوٹی بیٹی کو اپنے بابا کی شہادت کی خبر ہوئی ہے  اور اہل حرم ان کے ساتھ مل کر گریہ و عزاداری کر دہے ہیں۔ پس جب یزید نے یہ سنا تو کہا: اس کے بابا کا سر لے جا کر اس کے سامنے رکھ دو تا کہ شاید اسے کچھ تسلی ہو!! پس امام حسین علیہ السلام کے سر اقدس پر مصری کپڑا رکھ کر سامنے رکھ دیا گیا۔ جب امام حسین علیہ السلام کی چھوٹی بیٹی جناب رقیہ علیہا السلام نے کپڑا ہٹایا اور کہا کہ یہ سر کس کا ہے؟ ان سے کہا گیا کہ یہ تمہارے بابا کا سر ہے، پس آپ نے طشت میں سے سر اٹھایا ،سینہ سے لگایا اور کہا:

يا أَبَتاهُ مَنْ ذَا الَّذى خَضَبَكَ بِدِمائِكَ يا أَبَتاهُ مَنْ ذَا الَّذى قَطَعَ وَريدَيُكَ يا أَبَتاهُ مَنْ ذَا الَّذى أَيْتَمَنى عَلى صِغَرِ سِنّى يا أَبَتاهُ مَنْ بَقَى بَعْدَكَ نَرْجُوهُ يا أَبَتاهُ مَنْ لِلْيتيمَةِ حَتّى تَكْبُرَ يا أَبَتاهُ مَنْ لِلنِّساءِ الْحاسِراتِ يا أَبَتاهُ مَنْ لِلْأَرامِلِ الْمُسَبَّياتِ يا أَبَتاهُ مَنْ لِلْعُيُونِ الْباكِياتِ يا أَبَتاهُ مَنْ لِلْغَريباتِ‏ الضَّايِعاتِ.

بابا جان کس نے آپ کے چہرے کو خون سے خضاب کیا؟ اے بابا جان کس نے آپ کی رگ گردن کاٹیں؟ اے بابا جان کس نے مجھے بچپن میں یتیم کر دیا؟ بابا جان! آپ کے بعد میں کس سے امید رکھوں؟ اے بابا جان! کون آپ کی یتیم بچی کی پرورش و سرپرستی کرے گا؟ اے بابا جان! کون ان غریب ،سرگرداں اور بے یارو مددگار عورتوں کی مدد کرے گا؟ اے بابا جان! بیوہ عورتوں کی اسارت کے بعد کون حمایت کرے گا؟ بابا جان کو اشک بارانی کرتی ہوئی  سوزان آنکھوں کو مرہم فراہم کرے گا؟ اے بابا جان! کون غیرب عورتوں کو سہارا دے گا؟

در شام با پدر به سر باب عرضه داشت

آن طفل خردسال كه تاب توان نداشت

كى باب ار چه رفته ‏اى و خود نگفته‏ اى

كو تاب دورى پدر مهربان نداشت

در قتلگاه گشتم و نشناختم تو را

چون جسم بى نشان تو بابا نشان نداشت

عمّه بپا نداشت عزايت به كربلا

آرى پدر ببخش كه عمه امان نداشت

پھر امام حسین علیه السلام کی اس چھوٹی بیٹی نے اپنے بابا کے مبارک منہ پر اپنا منہ رکھا اور اتنا گریہ کیا کہ بے ہوش ہو کر زمین پر گر گئیں۔ جب انہیں ہلایا گیا تا کہ وہ ہوش میں آئیں لیکن پتہ چلا کہ ان کے بدن سے روح پرواز کر گئی ہے اور جب اہلبیت نے یہ دیکھا کہ وہ دنیا سے جا چکی ہیں تو علنی طور پر گریہ کیا ، غم منایا اور اس دن دمشق میں کوئی ایسا شخص دکھائی نہیں دے رہا تھا کہ جس کی آنکھ اس مصیبت پر اشکبار نہ ہو.(709)


709) اشكهاى سوزان: 365 .

 

منبع: غیر مطبوع ذاتی نوشتہ جات ص 1518

 

 

بازدید : 823
بازديد امروز : 164282
بازديد ديروز : 286971
بازديد کل : 148620601
بازديد کل : 101997466