امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
(۳) يزيد اور واقعۂ كربلا

(۳)

يزيد اور واقعۂ كربلا

قانون جاذبہ کی بنیاد پر کسی بھی چیز کو ہوا میں چھوڑا جائے تو وہ زمین کی طرف نیچے گرتی ہے۔ انسان کی انسانیت میں بھی ایک ایسی حالت موجود ہے جو فساد کی طرف مائل کرتی ہے اسی لئے اسلام انسان کو بلند مقام اور ارتقاء بخشتا ہے، کیونکہ آئین الٰہی انسان کی روح کو شب و روز کی عبادات کے ذریعہ برجستہ اور اعلیٰ مقام تک پہنچاتا ہے اور اسے عمر میں پاک و منزہ کرتا ہے۔ کبھی فساد و تباہی کی اصلاح  کے لئے رشد کی صورت میں چاند گرہن یا سورج گرہن جیسی نشانیوں کی ضرورت ہوتی ہے اور سید الشہداء کی شہادت بھی انہی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے

سانحہ کربلا سے سے زمین لرزاں ہو گئی کہ جس نے اسلام کو دوبارہ سے دلوں میں زندہ کر دیا کیونکہ اس واقعہ میں خدا کی راہ میں شہادت کا ارادہ تھا۔ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی رحلت سے پچاس سال کے بعد واقعۂ کربلا رونما ہونا لوگوں کے احساسات دھندلانے کے لئے کافی تھا کہ وہ لوگ اپنے پیغمبر کے فرزندوں (جب کہ وہ خود پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور آپ کے فرزندوں پر درود بھیجتے تھے)کو قتل کرنے کے لئے تیار ہو گئے!

کربلا میں اس ظلم و بربریت کے سربراہ یزید بن معاویہ نے خود اپنے اس ظلم کے بارے میں فیصلہ کیا جو اس معنی کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ اس نے اپنے کارندوں سے کہا: حسین کو قتل کئے بغیر بھی میں تمہاری فرمانبرداری پر راضی تھا۔

خوف و ہراس کی وجہ سے اس کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے اور وحشت کی وجہ سے اس کی زبان سے ریاکارانہ طور پر یہ الفاظ جاری ہوئے۔ اس کے سپاہیوں نے دو سال کے بعد وہی کچھ واقعۂ حرّہ میں انجام دیا جو کچھ انہوں نے کربلا میں انجام دیا تھا اور تیسری مرتبہ وہ تب اس عمل کے مرتکب ہوئے جب انہوں نے كوه ابوقبيس سے منجنيق کے ذریعہ کعبہ پر پتھر برسائے۔

پہلا ظلم ،دوسرے ظلم اور دوسرا ظلم تیسرے ظلم پر منتہی ہوا۔ اسی طرح ظالموں کے ظلم اور جنایتیں بڑھتی رہتی ہیں اور مزید طالم اور مجرم وجود میں آتے رہتے ہیں۔

یزید کا نفاق،ریاکاری، دوروئی اس گروہ کے لئے تمسخر تھی جس نے ناچیز جنس کے مقابلہ میں خود کو شیاطین کے ہاتھوں فروخت کر دیا اور ایسے مظالم کے مرتکب ہوئے کہ جن کا کوئی حاصل نہیں تھا۔ چاہے وہ کم عقل ہی کیوں نہ ہوں لیکن پھر بھی اس سے اس کا حساب لیا جائے گا ۔ ظالم حاکم و فرمانروا اپنے لشکر سے سرزد ہونے والے ہر قسم کے ظلم و جنایت کا ذمہ دار ہوتا ہے کیونکہ وہ لوگ صرف اپنے حاکم اور فرمانروا کے ظلم و ستم کی وجہ سے ظلم کرتے ہیں، پھر چاہے وہ ظلم حاکم کے صریح حکم سے  انجام نہ دیا گیا ہو.(616)


 616) پيشواى علم و معرفت: 76.

 

منبع: کتاب معاویه ج ... ص ...

 

بازدید : 881
بازديد امروز : 214284
بازديد ديروز : 285904
بازديد کل : 163482792
بازديد کل : 121064276