حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
(1 محرم الحرام) امام حسين عليه السلام کا راه کربلا میں عبید اللہ بن حر جعفی کے خیمہ کے نزدیک قصر بنی مقاتل کے مقام پر پہنچنا (سنهٔ ۶۱ ہجری)

********************************

یکم محرم الحرام: امام حسين عليه السلام کا راه کربلا میں عبید اللہ بن حر جعفی کے خیمہ کے نزدیک قصر بنی مقاتل کے مقام پر پہنچنا (سنهٔ ۶۱ ہجری)

********************************

ضحّاك بن عبداللَّه

ضحاك بن عبداللَّه مِشرَقى هَمْدانى

وہ کوفہ میں قبيله هَمْدان (8)، بنو مشْرَق(9)، امام حسين عليه السلام کے یاران و اصحاب اور امام سجّاد عليه السلام‏ کے راویوں میں سے تھے.(10)  قصر بنى مقاتل کے مقام پر ضحاك امام حسين عليه السلام کی خدمت میں پہنچے اور روز عاشورا امام حسین علیہ السلام کا ساتھ دیا لیکن بنی ہاشم اور امام حسین علیہ السلام کی شہادت سے قبل پہلے سے طے شدہ موافقت کی بناء پر آپ آنحضرت سے اجازت لے کرمعرکہ سے باہر نکل گئے۔ انہوں نے معرکہ کو ترک کرنے سے پہلے تک عاشورا کے  واقعات کا اپنی آنکھوں سے مشاہدہ کیا اور اسے کوفہ  میں نقل کیا۔ کربلا کے بہت سے واقعات انہیں سے روایت ہوئے ہیں۔

کشی کی روايت کی بناء پر وہ اپنے چچا کے بیٹے کے ساتھ قصر بنى مقاتل کے مقام پر امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں پہنچا اور اس نے آنحضرت سے ملاقات کی. امام حسین علیہ السلام نے پوچھا: کیا تم میری نصرت کے لئے آئے ہو؟ مشرقى نے کہا: میں بوڑھا ہو چکا ہوں اور میرے بہت زیادہ اہل و عیال ہیں اس کے علاوہ میرے پاس لوگوں کی امانتیں ہیں لہذا میں یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ امانتوں کی حفاظت کروں اور ان کے مالکان تک صحیح و سالم پہنچاؤں۔ اس کے چچا کے بیٹے نے بھی ایسا ہی کچھ عذر پیش کیا.جب امام علیہ السلام نے یہ دیکھا کہ وہ دوسروں سے زیادہ اپنی سلامتی چاہتے ہیں تو آپ نے فرمایا: اگر تم ہماری نصرت نہیں کرنا چاہتے تو ہم سے اتنا دور چلے جاؤ کہ نہ تم ہمیں دیکھو اور نہ ہماری فریاد سنو ، ورنہ اگر کوئی ہمارا سایہ دیکھ پائے یاہماری  فریاد سن سکے کہ ہمیں یاور و مددگار کی ضرورت ہے لیکن وہ ہماری نصرت نہ کرے تو خداوند اسے آتش جہنم میں ڈالے گا.(11)

طبرى کے مطابق ضحاك ، مالك بن نضر أرحبى کے ساتھ اسی مقام پر امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں پہنچے اور آپ کی خدمت میں سلام پیش کرنے کے بعد بیٹھ گئے۔امام‏ عليه السلام نے سلام کا جواب دیا اور ان کے آنے کا سبب پوچھا؟ انہوں نے کہا: ہم اس لئے آئے ہیں تا کہ خداوند متعال سے آپ کے لئے عافیت طلب کریں اور تجدید عہد کریں اور آپ تک لوگوں کی خبریں پہنچائیں کہ لوگ آپ سے مقابلہ کے لئے متفق ہیں تا کہ آپ کوئی چارہ جوئی کریں۔ امام نے فرمایا:میرے لئے خدا ہی کافی ہے اور وہ کس قدر اچھا وکیل ہے۔

ان دونوں نے سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کے بارے میں اپنی پریشانی کا اظہار کرنے کے بعد واپس جانے کا ارادہ کیا اور خدا حافظ کہا۔امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:کون سی چیز تمہیں ہماری مدد کرنے سے روک رہی ہے؟مالک نے کہا:میں مقروض ہوں اور میرے اہل و عیال ہیں۔ ضحاک نے عرض کیا:مجھ پر بھی قرض ہے اور میرے بھی اہل و عیال ہیں۔لیکن اگر آپ ہمیں جانے کی اجازت دیں تا کہ آپ کے پیروکاروں میں سے کوئی باقی رہے اور آپ کو کوئی فائدہ پہنچا سکے اور شرّ کو دور کرے۔ میں جنگ میں آپ کی مدد کروں  اور جب کوئی یاور نہ رہا تو واپس چلا جاؤں۔ امام حسین علیہ السلام نے اس کی شرط کو قبول کیا اور ضحاک ان کے ساتھ روانہ ہو گئے۔ (12)

عاشورا کے دن جب عمر بن سعد نے حکم دیا اور کوفیوں نے امام حسین علیہ السلام کے یاور و انصار پر تیر برسائے اور امام کی فوج کے گھوڑوں کو زخمی کر دیا  تو ضحاک کے ذہن میں ایک تدبیر آئی اور اس نے امام حسین علیہ السلام کے اصحاب کے خیموں میں سے ایک خیمہ کے درمیان اپنے گھوڑے کو چھپا دیا اور آنحضرت کے سامنے پیدل جنگ کے لئے روانہ ہوا۔ انہوں نے دو افراد کو قتل کیا اور ایک کا  ہاتھ کاٹ دیا۔ امام حسین علیہ السلام نے ان کے لئے دعا کی۔لیکن جب سويد بن عمرو بن ابى مطاع انمارى خثعمى و بشير (بشر) بن عمرو حضرمى کے سوا امام کے سب اصحاب شہید ہو گئے اور بنی ہاشم کی باری آئی تو ضحاک امام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا:اے فرزند رسول خدا!میرے اور آپ کے درمیان یہ طے پایا تھا کہ جب تک آپ کے یاور و انصار رہیں تب تک میں جنگ میں آپ کی نصرت کروں اور جب کوئی یاور نہ رہے تو آپ نے مجھے جانے کی اجازت دی تھی۔ اب نہ تو میں آپ سے شر کو دور کر سکتا ہوں اور نہ خود سے۔امام حسین علیہ السلام نے فرمایا:تم سچ کہہ رہے ہو،لیکن تم کس طرح جاؤ گے؟ اگر تم دشمن کی صفوں میں سے گزر کر جا سکتے ہو تومیری طرف سے تمہیں جانے کی اجازت ہے۔ عرض کیا:میں نے اپنا گھوڑا چھپا لیا تھا لہذا میں اس پر سوار ہو کر یہاں سے جا سکتا  ہوں۔پھر وہ خیمہ سے اپنا گھوڑا نکال کر لائے اور تیزی سے عمر سعد کے لشکر کی صفوں تک پہنچ گئے۔ کوفیوں نے لاچار ہو کر راستہ دے دیا اور وہ وہاں سے صحیح و سالم گزر گئے ۔ لیکن پندرہ لوگوں نے ان کا تعاقب کیا ۔ضحاک ساحل فرات کے قریب شفیّہ کے مقام تک بھاگے لیکن اس مقام پر تعاقب کرنے والے ان تک پہنچ گئے ۔جب ضحاک نے یہ دیکھا تو ان کی طرف واپس پلٹے۔ پیچھا کرنے والوں میں كثير بن عبداللَّه شعبى، ايوب بن مشرح خيوانى اور قيس بن‏عبداللَّه صائدى بھی شامل تھے کہ جنہوں نے ضحاک کو پہچان لیا اور دوسروں سے کہا:یہ ہمارے چچا کا بیٹا ضحاک بن عبداللہ ہے۔ تمہیں خدا کی قسم ہے کہ اسے کوئی نقصان نہ پہنچاؤ۔ان میں سے بنی تمیم کے تین افراد نے ان سے کہا:خدا کی قسم!ہم اپنے بھائیوں کی بات مانتے ہوئے اسے کوئی نقصان نہیں پہنچائیں گے اور دوسرے افراد نے بھی ان کی پیروری کی اور یوں ضحاک کو وہاں سے نجات ملی۔(۱۳)

ضحاک مشرقی کا واقعہ اس زمانے کے لوگوں کی حالت کا ایک واضح و روشن نمونہ ہے۔ اگرچہ وہ شیعہ اور امام حسین علیہ السلام کے محب تھے اور امام کو مستقبل کے خطرات سے آگاہ کرنے کی نیت سے امام کی خدمت میں حاضر ہوئے لیکن جب زندگی اور موت کی بات آئی تو انہوں نے معذرت کر لی اور وہ اپنی بقیہ زندگی اور دنیا کی محبت کا امام کی اطاعت و محبت سے سودا نہ کر سکے بلکہ انہوں نے صرف اس شرط پر امام کی حمایت کی کہ وہ آخری وقت میں اپنی جان بچا سکے۔اس سے بڑھ کر اس نے عاشورا کے دن امام حسین علیہ السلام  اور اہلبیت اطہار علیہم السلام کی تنہائی اور آپ کے دسیوں اصحاب کی جانفشانی دیکھی لیکن اس کے باوجود اپنی ان خواہشات کو بھول نہ پائے۔ (14)


8) بلاذرى، ایضاً، ج 3 ص 404.

9) محمّد بن طاهر سماوى،ایضاً، ص 135 و 222.

10) شيخ طوسى، رجال، ص 116، شماره 1163.

11)ایضاً، اختيار معرفة الرجال: ص 113، شماره 181.

12) تاريخ طبرى: 317 / 4.

13) ایضاً، ص 339 و 444.

14) نگاهى نو به جريان عاشورا: 209.

 

منبع: غیر مطبوع ذاتی نوشتہ جات:ص 1412 

 

 

ملاحظہ کریں : 2
آج کے وزٹر : 21809
کل کے وزٹر : 160420
تمام وزٹر کی تعداد : 144317956
تمام وزٹر کی تعداد : 99515151