حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
45) مروان کا معاویہ سے ملنا اور اس کی خباثت

مروان کا معاویہ سے ملنا اور اس کی خباثت

     جمل کے واقعہ کے بعد مروان معاویہ سے مل گیا اور اپنی پیدائشی خباثت و نجاست اور اپنے گندے عقیدے کی وجہ سے وہ  امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی دشمنی میں کوشاں کرتا رہا اور آنحضرت کی وفات کے بعد اسے دو مرتبہ مدینہ کی حکومت ملی۔

 ابن اثیر نے کہا ہے: یہ ہر جمعہ کے دن منبر رسول خداۖ پر جاتا اور مہاجرین و انصار کی موجود میں  امیر المؤمنین علی علیہ السلام بہت زیادہ سبّ و شتم کرتا۔جب یزید بن معاویہ کو حکومت ملی تو مروان مدینہ میں تھا اور اس نے واقعۂ حرّہ میں مدینہ والوں کو قتل کرنے کے لئے مسلم بن عقبہ کو ورغلایا اور معاویہ بن یزید کی خلافت کے زمانے میں وہ شام میں تھا اور جب معاویہ مر گیا اور آل ابی سفیان کی حکومت ختم ہو   گئی اور لوگوں نے ابن زبیر کی بیعت کر لی تو مروان نے ابن زبیر کی بیعت کرنے کا ارادہ کیا، ااس نے مکہ کی طرف جانا چاہا تو بعض نے اسے منع کیا اور اس خلافت کا لالچ دلایا۔مروان جاثیہ کی طرف چلا گیا کہ جو شام اور اردن کے درمیان ہے۔عمرو بن سعید بن العاص (جو أشدق کے نام سے مشہور تھا) نے مروان سے کہاکہ میں لوگوں سے تمہارے لئے بیعت لیتا ہوں بشرطیکہ تمہارے بعد مجھے حکومت اور خلافت ملے ۔

     مروان نے کہا: خالد بن یزید بن معاویہ کے بعد خلافت تمہاری ہے۔اشدق نے قبول کر لیا اور لوگوں کو اس کی بیعت کی طرف بلایا۔

     سب سے پہلے جن لوگوں نے اس کی بیعت کی وہ اردن کے لوگ تھے کہ جنہوں نے نہ چاہتے ہوئے بھی تلوار کے خوف سے بیعت کی۔پھر شام اور کچھ دوسرے شہروں  کے لوگوں  نے بیعت کی۔

     مروان نے اپنے کارندوں کو مختلف شہروں میں بھیجا اور خود مصر کی طرف روانہ ہو گیا  اور اس نے اہل مصر کا محاصرہ کر لیا اور ان کے ساتھ جنگ کی یہاں تک کہ انہوں نے ابن زبیر کی بیعت کو چھوڑ دیا اور مروان کی اطاعت میں کرلی۔

     مروان نے اپنے بیٹے عبدالعزیز کو ان کا حاکم مقرر کیا اور خود شام واپس لوٹ آیا۔جب وہ شام میں داخل ہوا تو اس نے حسان بن مالک (جوقحطان کا  سید و سربراہ تھا) کو بلایااور اس خوف سے کہیں اس کے بعدبداعیۂ ریاست میں بغاوت و سرکشی نہ ہو جائے لہذا اس نے اسے ترغیب  دلائی کہ وہ خلافت کی طمع  کا خیال اپنے دل سے نکال دے۔

     جب حسان نے یہ دیکھا تو وہ کھڑا ہوا اور اس نے ایک خطبہ پڑھا اور لوگوں کو مروان کے بعد عبدالملک بن مروان اور عبدالملک کے بعد عبدالعزیزمروان کی بیعت کی دعوت دی اور لوگوں نے بیعت کر لی اور مخالفت نہ کی۔

     جب مروان کی بیوی اور خالد بن یزید کی ماں فاختہ کو اس کی خبر ہوئی تو اس نے مروان کو قتل  کرنے کا ارادہ کیا کیونکہ اس نے اپنا وعدہ توڑا تھا جب کہ اس نے وعدہ کیا تھا کہ اس کے بعد خلافت خالد بن یزید کی ہو گی۔پس اس نے دودھ میں زہر ملایا اور مروان کو دیا ۔جب مروان نے اسے پیا تو اس کی زبان نے کام کرنا چھوڑ دیا اور وہ حالت احتضار میں پہنچ گیا۔

     عبدالملک اور اس کے سب بیٹے اس کے پاس آئے اور مروان نے اپنی انگلی سے خالد کی ماں کی طرف اشارہ کیا یعنی اس نے مجھے قتل کیا ہے ،لیکن خالد کی ماں نے یہ بات چھپانے کے لئے کہا: میرا باپ تجھ پر قربان؛تم مجھے کتنا چاہتے ہو کہ مرتے وقت بھی مجھے ہی یاد کر رہے ہواور اپنے بیٹوں کو میری  بارے میں وصیت کر رہے ہو۔

     دوسرے قول کے مطابق جب مروان سو رہا تھا تو خالد کی ماں نے اس کے منہ پر تکیہ رکھ دیا اور اپنی کنیز کے ساتھ اس پر بیٹھ گئی یہاں تک کہ مروان کا دم نکل گیا۔

     یہ واقعہ٦٥ھ میں پیش آیا اور مروان کی تریسٹھ سال عمر تھی اوراس نے تقریباً نو مہینے  خلافت کی۔اس کے بیس بھائی، آٹھ بہنیں،گیارہ بیٹے اور تین بیٹیاں تھیں۔

     فریقین کی کتابوں میں اس پر لعنت کے بارے میں روایات وارد ہوئی ہیں اور اہلسنت کی کتابوں میں اس بارے میں ایک روایت ہے کہ عائشہ نے مروان سے کہا:

میں گواہی دیتی ہوں کہ رسول خداۖ نے تیرے باپ پر لعنت کی جب کہ تو اس کے صلب میں تھا۔

     ''حیاة الحیوان''، ''تاریخ خمیس ''اور ''اخبار الدول'' میں مستدرک حاکم سے یہ روایت نقل ہوئی ہے :عبدالرحمن بن عوف نے کہا ہے کہ جب بھی کوئی بچہ پیدا ہوتا تھا تو اسے رسول خداۖ کے پاس لایا جاتا تا کہ آنحضرت اس کے لئے دعا کریں لیکن جب آنحضرت کے پاس مروان کو لایا گیا تو آپ نے اس کے حق میں فرمایا:

     ھو وزغ بن الوزغ الملعون بن الملعون۔

     یہ چھپکلی اور چھپکلی کا بیٹا ہے، یہ ملعون  اور ملعون کا بیٹا ہے۔

     حاکم نے بھی روایت کی ہے:

عن عمرو بن مرّة الجھن و کانت لہ صحبة: ان الحکم بن أبی العاص استأذن عن النبی (ص) فعرف صوتہ فقال: ائذنوا لہ، علیہ و علی من یخرج من صلبہ لعنة اللّٰہ الاَّ المؤمن منھم و قلیل ماھم، یترفھون فی الدنیا و یضیعون فی الآخرة، ذومکر و خدیعة، یعطون ف الدنیا وما لھم فی الآخرة من خلاق۔([1])

 


[1] ۔ تتمّة المنتھی:٧٩

 

 

    ملاحظہ کریں : 2086
    آج کے وزٹر : 65142
    کل کے وزٹر : 165136
    تمام وزٹر کی تعداد : 141090326
    تمام وزٹر کی تعداد : 97414079