حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
42) حکمیّت سے مربوط پیشنگوئی میں اہم نکات

حکمیّت سے مربوط پیشنگوئی میں اہم نکات

     ان پیشنگوئیوں میں اہم اور قابل توجہ نکات موجود ہیں  کہ جن کے بارے میں غور کرنا ضروری ہے:

     ١۔رسول خداۖ کے فرمان سے یہ استفادہ کیا جاتا ہے کہ آنحضرت تمام اصحاب کو عادل نہیں سمجھتے تھے اور آپ اپنے اصحاب کو عادل ہونے سے مبرّا جانا ہے۔ کیونکہ آپ نے واضح طور پر فرمایا ہے: میرے صحابیوں میں سے دو افراد انصاف کرنے کے لئے بیٹھیں گے اور ان کا فیصلہ ظلم و ستم پر مبنی ہو گا۔ اس بنا پر ان دو افراد کو نہ صرف عادل نہیں سمجھا گیا بلکہ ان کا تعارف ظالم ا ور ستمگر کے طور پر کروایا گیا ہے۔

     ٢۔ دوسرا نکتہ یہ ہے کہ اس روایت کی بناء پر اہلسنت کے لئے عدالت صحابہ پر استدلال کرنے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا اور ان کا دعویٰ بغیر دلیل کے ہے۔

     ٣۔ تیسرا نکتہ کہ جس پر غور کرنا ضروری  ہے ،وہ یہ ہے کہ حضرت رسول اکرمۖ نے حکمیت کی اس پیشنگوئی میں دو حکَم کو باطل سمجھا ہے اور انہیں ظلم و ستم قرار دیا ہے۔

اس بناء پر ابوموسی کاامیر المؤمنین علی علیہ السلام کو خلافت سے معزول کرنے کا حکم ظلم و ستم تھا اور عمرو عاص کا معاویہ کو خلافت کے منصب پر فائز کرنا بھی ظلم و ستم تھا کہ جس کا نتیجہ یہ ہو گا:

     الف: امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کا حق مسلّم تھا اور انہیں خلافت سے الگ کرنا ظلم و ستم ہے۔

     ب: معاویہ میں خلافت کی لیاقت و صلاحیت نہیں تھی اوراسے خلیفہ بنانا بھی ظلم وستم تھا۔

     پس رسول خداۖ کے فرمان کی بناء پر آنحضرت کے خلیفہ امیر المؤمنین علی علیہ السلام ہیں اور معاویہ امیر کائنات علی علیہ السلام کے حق کا غاصب ہے ۔ حکمیّت کے واقعہ میں آنحضرت پر ظلم وستم ہوا اور آپ مظلوم واقع ہوئے۔

     ٤۔رسول خداۖ کا فرمان قرآن اور وحی الٰہی کے مطابق تھا جیسا کہ خداوند عالم کا ارشاد ہے:

     (وَمَا یَنطِقُ عَنِ الْہَوَی * إنْ ہُوَ إلاّ وَحْی یُوحَی )([1])

     ''اور وہ اپنی خواہش سے کلام بھی نہیں کرتا ہے  اس کا کلام وہی وحی ہے جو مسلسل نازل ہوتی رہتی ہے ''۔

     اس بناء  پر یہ واضح ہو جاتا ہے کہ حکمیّت (جن کو رسول خداۖ نے ردّ کیا) قرآن کی بنیاد پر نہیں تھی اور دونوں افراد نے اپنے ذاتی مفاد کی بناء پر حکم کیا تھا نہ کہ انہوں نے آیات قرآن اور وحی الٰہی سے استفادہ کیا۔

     قرآن کی کون سی آیات امیر المؤمنین علی علیہ السلام کو خلافت سے معزول کرنے اور معاویہ کو مقام خلافت پر بٹھانے پر دالت کرتی ہیں؟!

     ٥۔ حکمیّت کا مسئلہ قرآن کی پیروی کرنے کے لئے نہیں تھا بلکہ یہ جنگ کو ختم کرنے،معاویہ اور  عمرو عاص کو یقینی شکست سے بچنے کے لئے تھا۔

     ٦۔ اگر شکست سے بھاگنے کے لئے حکمیّت کے مسئلہ کو مطرح نہیں کیا گیا تھا بلکہ اسے قرآن کے حکم کی پیروی کی وجہ سے  مطرح کیا گیا تھا تو انہوں نے جنگ سے پہلے اس حکم کو کیوں قبول نہیں کیا کہ جب امیر المؤمنین علی علیہ السلام  انہیں حکم الٰہی کو قبول کرنے اور قرآن کی پیروی کرنے کی دعوت دے رہے تھے؟!

     ٧۔ حکمیّت کے مسئلہ میں قرآن سے استدلال نہیں کیا گیا اور اپنے حکم کے لئے کسی بھی آیت کو عنوان قرار نہیں دیا گیاپس پھر کچھ مسلمان کس طرح معاویہ کو رسول خداۖ کا خلیفہ مانتے ہیں؟!

     ٨۔ صرف یہی نہیں کہ حکمیّت کے مسئلہ کی بنیاد قرآن پر نہیں تھی بلکہ معاویہ کا امیر المؤمنین علی علیہ السلام سے جنگ کرنے اور معاویہ کی آنحضرت سے مخالفت اصل میں قرآن کی مخالفت ہے۔کیونکہ   عثمان کی موت سے معاویہ کو شام پر نہ ہی تو کوئی قانونی اختیار تھا اور نہ ہی اس کے پاس خلافت کاکوئی

     جواز تھا۔ پس جب اس کے پاس خلافت نہیں تھی تو وہ کس طرح عثمان کے خون کا ولی ہو سکتا ہے؟!

     ٩۔ اس کے علاوہ عثمان کے بیٹوں کے ہوتے ہوئے معاویہ عثمان کے خون کا ولی بھی نہیں تھا تو پھر کس طرح معاویہ خود کو عثمان کے خون کا ولی کہہ رہا تھا؟ اس بناء پر معاویہ کا  امیر المؤمنین علی علیہ السلام سے جنگ کرنا اور آپ کی مخالفت کرنا درحقیقت قرآن کی مخالفت تھی۔

     ١٠۔ دوسرا اہم نکتہ: جس طرح حدیبیہ کے صلح نامہ سے لفظ ''رسول اللہ'' کو مٹا دینا خلاف واقع اور حکم خدا کے برخلاف تھا اسی طرح حکمیّت کے مسئلہ میں لفظ''  امیرالمؤمنین'' کو مٹا دینا بھی خلاف واقع اور خوشنودی پروردگار کے بر خلاف ہے۔

     اس بناء پر جس طرح پیغمبر اکرمۖ ''رسول اللہ'' تھے اور یہ لفظ آن حضرت کے اسم مبارک کے ساتھ ہونا چاہئے اسی طرح حضرت علی علیہ السلام کے نام کے ساتھ''  امیرالمؤمنین''بھی ہونا چاہئے،اور جس طرح لفظ ''رسول اللہ''کو مٹا دینا پیغمبر خداۖ پر ظلم تھا اسی طرح لفظ ''  امیرالمؤمنین''کو مٹا دینا  مولائے کائنات علی علیہ السلام پر ظلم ہے۔

     ١١۔ ایک اور اہم نکتہ: کلمہ''امیرالمؤمنین'' کو مٹا دیناحضرت علی علیہ السلام  پر ظلم ہے کیونکہ آنحضرت سب مؤمنوں کے امیر ہیں۔اس بناء پر معاویہ کے دعویٰ کا کوئی جواز باقی نہیں بچتاکیونکہ وہ نہ ہی تو مؤمنوں کاامیر ہے اور نہ ہی رسولۖ کا خلیفہ ہے۔

     ١٢۔ دوسرا اہم نکتہ: چونکہ معاویہ کے پاس مؤمنوں کی سربراہی و خلافت کا مقام نہیں تھا۔ایسے مقام کا دعویٰ کرنے والا انسان گمراہا ور گمراہ کرنے والا ہوتا ہے اور اس کے پیروکار اور تابعین بھی سب کے سب گمرا ہ ہوتے ہیں۔

     ١٣۔ ایک اور اہم نکتہ:رسول خداۖ کی تیسری پیشنگوئی کے مطابق معاویہ نہ صرف یہ کہ گمراہ شخص ہے بلکہ اسے برسرحکومت لانے والے دونوں منصف بھی گمراہ اور ان دونوں کی پیروی کرنے والے بھی گمراہ ہیں۔

     قابل توجہ یہ ہے ابوموسی اشعری نے خود یہ روایت رسول خداۖ سے سنی اور روایت کی ہے۔

     حکمیّت کے واقعہ کے رونما ہونے اور اس کے بطلان کے بارے میں رسول خداۖ کی پیشنگوئیوں میں بہت زیادہ اہم نکات موجود ہیں جو سب کے لئے بخوبی یہ واضح کردیتے ہیں کہ معاویہ کو تخت خلافت پر بیٹھنے کا کوئی حق نہیں تھا۔

     اس نے پہلے سے تیارشدہ پروگرام ،اپنی مکاریوں اور عمرو عاص کی فریب کاریوں کی مدد سے بے شمار مسلمانوں کو راہ مستقیم سے منحرف کیا ہے۔

     حکمیّت کے موضوع کے علاوہ رسول خداۖ کی دوسری پیشنگوئیوںسے بھی یہ واضح ہو جاتا ہے کہ معاویہ کا کردار و رفتار رسول خداۖ کے ارشادات و فرمودات کے برخلاف تھا۔

 


[1]۔ سورۂ نجم، آیت:٣،٤


 

 

    ملاحظہ کریں : 2176
    آج کے وزٹر : 7395
    کل کے وزٹر : 171324
    تمام وزٹر کی تعداد : 143968412
    تمام وزٹر کی تعداد : 99340316