حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
34) ذوالکلاع سے عمار یاسر کی گفتگو کے سولہ اہم نکات

ذوالکلاع سے عمار یاسر کی گفتگو کے سولہ اہم نکات

ہم نے ذوالکلاع اور عمار یاسر کی گفتگو کے بارے میں جو مطالب بیان کئے ہیں ، ان میں اہم نکات موجود ہیں کہ جن میں غور و فکر کرنا چاہئے:

     ١۔ذوالکلاع نے پیغمبر اکرمۖ کی پیشنگوئی سننے کے بعد یہ تحقیق کی کہ  یہ حدیث آنحضرت سے صادر ہوئی ہے۔پھر اسے یقین حاصل ہو گیا کہ اس نے جو کچھ سنا ہے وہ صحیح ہے اور رسول خداۖ کا فرمان ہے۔

     چونکہ وہ معاویہ اور عمرو عاص کے دھوکہ و فریب میں آچکا تھا اور وہ انہیں صحیح طرح نہیں پہچانتا تھا ، وہ یہ سوچ رہا تھا کہ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے لشکر میں جناب عمار کے ہونے کی وجہ سے شاید وہ معاویہ اور عمرو عاص کو جنگ سے ڈرائے اور انہیں صلح پر مجبور کر سکے۔

     اس لئے اس نے اپنے چچا زاد ابونوح (جو امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے لشکر کے بہادر سپاہیوں میں سے تھے)سے تقاضا کیا کہ وہ اس کے ساتھ عمرو عاص سے ملنے کے لئے چلیں تا کہ شاید اس سے گفتگو کرنے سے جنگ اور خون خرابہ صلح وامن میں تبدیل ہو جائے۔لیکن وہ اس چیز سے غافل تھا    کہ معاویہ اور عمرو عاص کا  امیر المؤمنین علی علیہ السلام سے جنگ کرنا دین اسلام کی ترقی کے لئے نہیں تھا بلکہ تخت سلطنت پر بیٹھنے اور طاقت کے حصول کے لئے تھا اور عثمان کا کڑتا عوام کو دھوکہ دینے کے علاوہ کچھ اور نہیں تھا۔

     گمراہ سیاستدانوں کی وجہ سے خوش فہمی کا شکار ہونے میں نہ صرف یہ کہ کوئی مثبت اثر نہیں ہوتا بلکہ اس میں صرف انسان کی گمراہی اور نابودی کا سامان ہوتا ہے۔

     ٢۔اس واقعہ میں عمرو عاص نے خود یہ اعتراف کیا کہ اس نے پیغمبر اکرمۖ سے یہ حدیث سنی ہے اور جب اسے یہ یقین ہو گیا کہ جناب عمار  امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے لشکر میں ہیں تو ان کے ساتھ مل جانے کے بجائے اس نے عمار سے ملاقات کرنے کی کوشش کی تا کہ شاید کوئی راستہ نکل آئے اور یہ واقعہ اس کے فائدہ میںاختتام پذیر ہو یا یہ کہ ذوالکلاع اور اس کے ساتھیوں میں شک و تردید ایجاد کر سکے۔اس  مقصد کے تحت عمرو عاص نے جناب عمار سے ملاقات کی۔

سیاستدان اپنے   ہی  مقاصد و اہداف کومستحکم کرنے کے لئے  دوسروں سے ملاقات کرتے، گفتگو کرتے اور بیٹھتے ہیں نہ کہ وہ راہ حق اور عوام کی خدمت کے لئے یہ سب کچھ کرتے ہیں۔

     ٣۔ذوالکلاع کے بہت زیادہ ساتھی تھے اور اگر وہ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے لشکر کے ساتھ ملحق ہو جاتا تو شام کے لشکر میں رخنہ پڑ جاتا۔عمرو عاص چونکہ اس حقیقت سے آشنا تھا  لہذا اس نے ایک ایسی چال چلی تاکہ اس کے ذریعہ یہ واقعہ ہونے سے روک سکے۔

     اس  کی وہ چال اتحاد اور وحدت کا دعویٰ کرنا تھا!تا کہ دونوں لشکر کے درمیان اتحادا ور وحدت کا بہانا(اعتقاد کے لحاظ سے خدا،کعبہ اور قرآن کا ایک ہونا ) بنا کر اس جنگ سے بچ سکے کہ جس میں اسے شام کے محاذ پر واضح شکست نظر آرہی تھی ۔اور وہ ذوالکلاع اور اس کے ساتھیوں کو امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے لشکر سے ملنے سے روکے کہ جس سے دوسرے محاذوں پر بھی ان کی شکست واضح ہو جاتی  تھی۔

     اس وجہ سے امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے لشکر کے سپہ سالار سے ملاقات کرتے ہیں سب سے پہلے کلمۂ '' شہادتین''کے لئے زبان کھولی اور خود کو مسلمان کہا!لیکن جناب عمار نے اس کے جواب میں فرمایا:خاموش ؛ تم نے اسے چھوڑ دیا ہے۔

     جناب عمار نے عمرو عاص کے جواب میں یہ کیوں کہا؟

     ج:کیونکہ رسول اکرمۖ کے اس بزرگ صحابی کی نظر میں جو بھی اپنے زمانے کے امام پر ایمان نہ رکھتا ہو تو اس نے خدا کی توحید اور رسول اکرمۖ کی رسالت کی گواہی کو بھی چھوڑ دیا ہے۔اس عظیم الشان اور دلاور شخص کی نظر میں کلمۂ شہادتین کا اسی صورت میں کوئی فائدہ ہے کہ جب شہادت ثالثہ بھی کہتا ہو۔ یہ حقیقت دنیائے اسلام کے ا س عظیم انسان کے کلام سے بخوبی واضح و آشکار ہوتی ہے کہ جب انہوں نے عمرو عاص سے فرمایا:''خاموش ؛تم نے اسے چھوڑ دیا ہے۔

     جناب عمار جو کہ بہادر و دلاوری کے علاوہ خطابت میں بھی ماہر تھے،انہوں نے عمرو عاص سے فرمایا:کیاتم چاہتےہو کہ ایسی بات کہوں کہ جو تمہیں تمہاری جگہ سے اٹھنے سے پہلے ہی کفر سے منسوب کر دے اور تم خود بھی اسے قبول کرو؟!

     اس وقت عمرو عاص نے خود کو جناب عمار کے کلام سے محکوم ہوتے ہوئے دیکھا تو اس نے احترام کے عنوان سے آپ کو کنیت کے ذریعہ مخاطب کیا اور کہا:اے ابویقظان؛اس لشکر میں سب سے زیادہ تمہاری اطاعت و پیروی کی  جاتی ہے،تمہیں خدا کی قسم دیتا ہوں کہ ان کا اسلحہ قتل کرنے سے روکو.....تم لوگ کس لئے ہم سے جنگ کر رہے ہو؟ کیا ہم ایک ہی خدا کی عبادت نہیں کرتے ؟ لیکن کیا ہم آپ کے قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز نہیں پڑھتے اور جس چیز کی تم دعوت دیتے ہو اسی چیز کی دعوت نہیں دیتے؟ کیا ہم تمہاری کتاب کی تلاوت نہیں کرتے اور تمہارے پیغمبرۖ پر ایمان نہیں رکھتے؟!

     اس موقع پر پیغمبر خداۖ کے بزرگ صحابی اور امیرالمؤمنین علی علیہ الساام کے یاور و دلاور نے لب کشائی کی اور خداوند کی عبادت،دین،قبلہ،کتاب خدا اور پیغمبرکے بارے میں کہا کہ یہ ہمارے اور ہمارے ساتھیوں کے ہیںاوران کا تم سے یاتمہارے ساتھیوں سے کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔اور پھر آپ نے ناکثین(جمل میں عہد و پیمان توڑنے والے) اورقاسطین(صفین کے ظالم اور ستمگر)سے جنگ کرنے کے بارے میں رسول خداۖ کا فرمان بیان کیا اور پھر آپ نے  امیرالمؤمنین علی علیہ الساام کی پیروی کیبارے میں  رسول اکرمۖ کا فرمان بیان کیا۔

     یہاں جو نکتہ قابل غور ہے وہ یہ ہے کہ :عمرو عاص نے کتاب خدا،قبلہ،پیغمبر اور خدا کی  عبادت کو اتحاد و وحدت اور جنگ سے دوری کا وسیلہ قرار دیا لیکن لشکرعراق کے تواناسپہ سالار نے اسے ردّ کر دیا اور وہ قبلہ،قرآن،پیغمبر اور خدا کی عبادت کے ایک ہونے کو نہ صرف اتحاد و وحدت کا معیار قرار نہیں دیتے بلکہ کہتے ہیں:قبلہ،قرآن وغیرہ.کا تجھ سے اور تیرے ساتھیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

     یہ ایسی حقیقت ہے کہ جس کے شیعہ و سنی معتقد ہی کیونکہ شیعہ ایک ایسے گروہ  (نواصب) کوبالکل مسلمان نہیں مانتے اور انہیں کافر قرار دیتے ہیں اگرچہ وہ قرآن،قبلہ،پیغمبر اور خدا پر اعتقاد کے لحاظ سے ظاہری طور پر یکساں ہیں۔

     اہلسنت کے بھی مسلمانوں کے ایسے کئی فرقوں کو مسلمان نہیں سمجھتے اور انہیں رافضی قرار دیتے ہوئے کافر سمجھتے ہیںاگرچہ وہ خدا،پیغمبر ،قرآن اور قبلہ پر ایمان رکھتے ہیں۔اس بناء پر کس طرح قبلہ، کتاب ،پیغمبر کے ایک ہونے اور خدا پر اعتقاد کوعقیدہ میں اتحاد و وحدت کی دلیل سمجھ سکتے ہیں؟!

     ٤۔یہ سب اس شخص کے بارے میں ہے کہ جو خدا،پیغمبر،قرآن اور قبلہ کا معتقد ہے لیکن اگر اس اعتقاد کی بنیادمصلحت و سیاست یا دوسرے لفظوں میں نفاق کی بنیاد پر ہو-جس طرح معاویہ اور عمرو عاص کا ایسا ہی عقیدہ تھا-تو پھر کس طرح اس طرح کے افراد کو خدا کے حقیقی بندوں سے متحد پر سکتے ہیں؟!

     ٥۔قابل توجہ ہے کہ پیغمبر اکرمۖ نے اپنی پیشنگوئیوں میں فرمایا ہے:لوگوں کا ایک گروہ  فتنہ و امتحان میں واقع ہو گا اور وہ ان میں مبتلا ہو گا''۔اس موقع پر آنحضرت نے امیر المؤمنین علی علیہ السلام کو حکم دیا کہ ایسے افراد کے ساتھطریقۂ کار یہ ہے کہ ان کے ساتھ جنگ کی جائے اگرچہ وہ کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے ہوں،اور قرآن کو آسمانی کتاب سمجھتے ہوں!

     ابن ابی الحدید نے اس بارے میں کہا ہے:حضرت  امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے سامنے ایک شخص کھڑا ہوا اور اس نے کہا:ہمیں فتنوں سے آگاہ فرمائیں اور کیا اس بارے میں آپ نے پیغمبر خداۖ سے پوچھا ہے؟

      امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

     چونکہ خداوند متعال نے اپنا یہ قول نازل فرمایا ہے:

     (الم* أَحَسِبَ النَّاسُ أَن یُتْرَکُوا أَن یَقُولُوا آمَنَّا وَہُمْ لَا یُفْتَنُونَ)([1])

     الم*کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اس بات پر چھوڑ دیئے جائیں گے کہ وہ یہ کہہ دیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور ان کا امتحان نہیں ہوگا۔

     میں سمجھ گیا کہ جب تک رسول خداۖ ہم میں موجود ہیں تب تک ہم پر کوئی بلا نازل نہیں ہوگا، اس لئے میں نے رسول خداۖ سے عرض کیا:یہ کون سا فتنہ ہے کہ جس کے بارے میں خدا نے خبر دی ہے؟

     فرمایا:اے علی علیہ السلام!بیشک میرے بعد جلد ہی میری امت فتنہ میں  گرفتار ہو جائے گی اور انہیں پرکھا جائے گا۔

      امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فتنوں کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے اور اسی وجہ سے اسے امر بہ معروف اور نہی از منکر سے یادکیاہے اور فرمایا ہے:''تمہارے لئے کتاب خدا سے تمسک اختیارکرنا ضروری ہے''یعنی جب بھی کوئی فتنہ درپیش اور لوگ حیرانگی کے عالم میں ہوں تو تمہیں کتاب خدا سے متمسک ہونا چاہئے۔اسی لئے ایک شخص اٹھا اور اس نے آنحضرت سے فتنوں کے بارے   میں  سوال کیا۔

      پیغمبر خداۖ سےنقل ہونے والی یہ حدیث(بہت سے محدثین نے اس حدیث کوحضرت علی علیہ السلام سے بھی نقل کیاہے اور اس پر غور کرنا چاہئے)یوں ہے:

     پیغمبر اکرمۖ نے  امیر المؤمنین علی علیہ السلام سے فرمایا:

     خداوند  متعال نے تم پر فتنوں میں گرفتار لوگوں کے ساتھ جہاد کو واب قراردیا ہے؛جس طرح مشرکوں کے ساتھ جہاد کرنا مجھ پر واجب قرار دیا  تھا۔([2])

      امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

     میں نے پیغمبر خداۖ سیعرض کیا:یا رسول اللہ !وہ کون سافتنہ ہے کہ جس کی وجہ سے مجھ پر جہا واجب کیا گیاہے؟

     فرمایا:ایک  گروہ ہے کہ جو گواہی دیتا ہے کہ خدا کے علاوہ کوئی پروردگار نہیں ہے اور میں خدا کا رسول ہوں لیکن وہ میری سنت کے مخالف ہیں۔

     میں نے کہا:یا رسول اللہ!کس وجہ  سے ان سے جنگ کروں حلانکہ  انہی عقائد کا اقرار کرتے ہیں کہ جن کے ہم معتقدہیں؟

     فرمایا:دین میں وجود میں آنے والی بدعتوںاور حکومت کی مخالفت کرنے کی وجہ سے۔

     میں نے عرض کیا:یا رسول اللہ!آپ نے مھے شہادت کی بشارت دی تھی اب خدا سے دعا کریں کہ میری شہادت کے بارے میں عجلت کرے۔

     فرمایا:اس صورت میں کون عہد و پیمان توڑنے والوں، تباہی پھیلانے والوں اور دین سے خارج ہونے والوں سے جنگ کرے گا؟ بیشک میں نے تمہیں شہادت کی بشارت دیہے اور تم جلد ہی شہید ہو جاؤ گے،تمہارے سر پرضربت لگائی  جائے گا اور تمہاری ڈاڑھی تمہارے خون سے خضاب ہو گی۔اس موقع پرآپ کا صبر کیسا ہو گا؟

میں نے کہا:یا رسول اللہ!یہ تو صبر کا نہیں بلکہ شکر کا مقام ہے۔

     فرمایا:ہاں!تم نے صحیح کہا ہے۔ جنگ کے لئے تیار ہو جاؤ آپ کے ساتھ جنگ کی جائے گا۔

     میں نےعرض کیا:یا رسول اللہ!کاش آپ میرے لئے کچھ اور واضح فرما دیں۔

     فرمایا:میرے بعد میری امت فتنوں اور امتحانوں میں گرفتار ہو جائے گی،وہ قرآن کی تأویل  اور اپنی رائے کے مطابق عمل کرے گی۔برائیوں کو اچھائی اور رشوت کو ہدیہ  اور سود کو بیع کے نام پر حلال شمار کرے گی۔قرآن کے معانی میںتحریف کرے گی اور گمراہی کابول بالاہو گا۔

     (اور پھرایسا ہوگا) پہلے اپنے گھر میں بیٹھ جاؤیہاں تک کہ تمہیں حکومت مل جائے اور جب تمہیں حکومت ملے تو تمہارے خلاف سینوں میں آگ بھڑک اٹھے گی اورحالات تمہارے  برخلاف ہو جائیں گے؛اس موقع پر تم تأویل قرآن کے سلسلہ میں جنگ کرو گے کہ جس طرح تنزیل کے سلسلہ میں جنگ کی تھی اور ان کی یہ دوسری حالت ان کی پہلی حالت سے کم نہیں ہے۔

     میں نے عرض کیا:یا رسول اللہ! آپ کے بعد جو فتنوں سے دچار ہوںگے،ان کے ساتھ کیسا برتاؤ کروں  اور انہیں کس مقام پر رکھوں؟کیا فتنہ  کے مقام  پر یا دین سے منحرف ہو جانے والوں کے مقام پر؟

     فرمایا:انہیں مقام فتنہ میں رکھوکہ وہ ششدر ہو جائیں گے یہاں تک کہ انہیں عدل و انصاف اپنی گرفت میں لے۔

     میں نے کہا؛اے رسول خداۖ؛ کیا ہماری طرف سے عدل انہیں اپنی آغوش میں لے گا یا کسی اور کی طرف سے؟

     فرمایا:ہماری طرف سے کہ جو ہم سے ہی شروع ہوا تھا اور ہم پر ہیختمہو گا،خداوند شرک کے بعد ہمارے وسیلہ سے دلوں میں الفت قرار دے گا۔

     میں نے عرض کیا:خدا کی ان نعمتوں پر خدا کا شکر کہ جو اس نے ہمیں عطا فرمائی ہیں۔([3])

     اس روایت پرغور و فکرکریں کہ جسے شیعہ و سنّی علماء نے نقل کیا ہے اور جس نیبے شمار افراد کے اعتقادی نظریہ کو بدل کر رکھ دیا ہے۔اس روایت کا دو مرتبہ مطالعہ کریں اور اس کے مطالب پر غورکریں اور اپنے لئے ہدایت کے دریچہ کھولیں۔

     ٦۔مذکورہ واقعہ کی رو سے جناب عمار خود کو ان لوگوںکے ساتھ سمجھتے تھے کہ جو عثمان کے قتل میں شریک ہوئے ۔اس روایت کی بناء پر عثمان کو قتل کرنے میں جناب عمار کا ہاتھ تھا۔اس صورت میں  ان روایات کے مطابق (کہ جو رسول اکرمۖ سے عمار کی مدح  اور ان کی برحق ہونے کے بارے میں وارد ہوئی ہیں)عثمان کے قتل کی وجہ سے جناب عمار کی سرزنش نہیں کی جا سکتی اور عثمان کے کڑتے کو قتل عمار کے لئے حربہ قرار نہیں دیا جا سکتابلکہ عمار کے بارے میں پیغمبر اکرمۖ کی رائے اس سے بھی واضح ہے۔

 ٧۔ اگرچہ عمار کے کاموں اور شخصیت کی وجہ سے معاویہ توہین کے عنوان سے انہیںسیاہ غلام کا نام دیتاتھا لیکن وہ جانتا تھا کہ لوگوں میں ان کی شخصیت اتنی اہم ہے کہ وہ اپنے خطاب سے لشکر کو حرکت اور ان کی مخالفت پر ابھار سکتے ہیں۔ اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سیاستدان اپنے مخالفوں کو کس حد تک حقیر سمجھتے ہیں اور انہیںکمتر شمار کرتے ہیں۔

     معاویہ کا یہ رویہ عمار کو حقیقر سمجھنے اور ان کی شخصیت کوکمتر شمار کرنے کے لئے تھا تا کہ وہ شام کے لوگوں کے درمیان فتنہ پیدا کریں اور انہیں ان کی رہنمائی سے دور رکھیں۔

     ٨۔ چونکہ عمرو عاص ،عمار کوسیاہ غلام نہیں کہہ سکتا تھااور ان کی شخصیت کو کمترشمار نہیں کر سکتا تھا۔ اس لئے اس نے ایک دورسری چال چلی اور جب ذوالکلاع ،مار اور عمرو عاص کی گفتگو سے مطمئن نہ ہوا تو عمرو عاص نے اس سے کہا:عمار جلد ہی ان سے الگ ہو کر ہم سے ملحق ہو جائے گا!

     اس عمل سے یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ سیاستدان اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لئے ہر قسم کا حربہ اختیار کر سکتے ہیںاور ہر قسم کا جھوٹ بول سکتے ہیں۔

     ٩۔ چونکہ ذوالکلاع نے عام لوگوں کی طرح (کہ جنہوں نے سیاستدانوں کے جھوٹے و عدوں سے دھوکا کھایا تھا)اپنی راہ کو جاری رکھا ۔اگر وہ فہم و فراست رکھتااور اور چالاک ہوتا (کہ ہر مؤمن کو ایسا ہونا چاہئے)ہوتا تو اس نے جو روایت سنی تھی ،اس کی بناء پر عمار کے راستہ کومنتخب کر لیتا۔اور اس محال فرض کی بناء پر اگر عمار دوسرے لشکر سے منسلک ہو جاتے تو وہ بھی عمار کے منسلک ہو جانے کے بعد یہی کام انجام دیتے۔لیکن عمرو عاص کے ذریعہ فریفتہ ہو جانے کی وجہ سے اس نے باطل راہ میں اپنی جان گنوا دی۔حالانکہ وہ  باطل کے خلاف چند گھنٹوں کی مقاومت کرکے جاویدانی حیات حاصل کر سکتا تھا۔وہ بیچارہ یہ نہیں جانتا تھا کہ عمرو عاص اس کے قتل ہوجانے کی وجہ سے کتنا خوش ہو گا۔چونکہ جس دن جناب عمار شہید ہو گئے اسے دن ذوالکلاع بھی قتل ہو گیا اورعمرو عاص نے معاویہ سے کہا:خدا کی قسم! میں نہیں جانتا کہ ان دونوں میں سے کس کے قتل ہونے پر زیادہ خوشی مناؤں۔

     ١٠۔ اجتماعی شخصیت کے مالک افراد کو یہ جان لینا چاہئے کہ ان پر لوگوں کی نگاہیں ٹکی ہوتی ہیں  کیونکہ لوگوں میں ان کی شخصیت مؤثر ہوتی ہے۔لوگ ان کے کردار و رفتار میں غور و فکرکرتے ہیں اور ان کی پیروی کرتے ہیں۔

     اس بناء پر کسی باطل راستہ کو منتخب کریں تونہ صرف وہ خود گمراہ ہوتے ہیں بلکہ اپنی شخصیت کے مطابق لوگوں کو بھی گمراہ کرتے ہیں۔اگر دو باطل راستوں یا حق و باطل میں سے کسی ایک کے انتخاب کے دوران باطل راستہ کو منتخب کریں تو کچھ لوگ انہیں کے رائے اور عقیدے کی وجہ سے باطل راستے کو ہی انتخاب کر لیتے ہیں اور انہیں  قیامت کے دن اس کا جواب دینا ہو گا۔

     عمرو عاص چونکہ یہ جانتا تھا کہ ذوالکلاع اجتماعی شخصیت کا مالک تھااور وہ شام کے لشکرمیں سے بہت سے افراد کو امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے لشکر کی طرف کھینچ سکتا ہے،اس لئے عمرو عاص نے معاویہ سے کہا:اگرذوالکلاع، عمار کے قتل ہونے کے بعد زندہ ہوتا تو مجھے یقین تھا کہ وہ اپنے تمام ساتھیوں کے ساتھ ہم سے جدا ہو کر ان سے ملحق ہوجاتا اور ہمارا کام خراب کر دیتا۔

     ١١۔رسول خداۖ کی پیشنگوئیوں کونہ صرف ذوالکلاع  جانتا تھا بلکہ شام کے لشکر میں سے بھی بہبے شمار افراد ان سے آگاہ تھے۔اس لئے جناب عمار کی شہادت کے بعد ان میں اختلاف پیدا ہو گیالیکن معاویہ نے فوراً مکاری سے کام لیا  اور یہ بات پھیلا دی کہ عمار کو اس نے قتل کیا ہے جو اسے میدان جنگ میں لے کر آیا تھا! جلد شام کی زود باور عوام پراس کی باتیں اثرانداز ہوئیں جس نے ان کی چہ میگوئیوں کو راستہ روک لیا۔

     پوری تاریخ میں باطل کے مقابلہ میںحق کی ظاہری شکست کی دو وجوہات ہیں:

     الف:بے دین سیاستدانوں کی مکاریاں اور ان کامکر و رفریب۔

     ب:عوام الناس کاجلدی یقینکر لینا کہ وہ جو کچھ بھی سنیں اسے فوراً مان لینا اور جھوٹے لوگوں کی پروپیگنڈوں سے اثر لینا کہ جس کے نتیجہ میںوہ خیانت کرنے والے سیاستدانوں کی پستپناہی کرتے ہیں۔

     ١٢۔حقیقت چاہے سخت اور تلخ ہو پھر بھی وہ ایک گروہ (اگرچہ کم)کے لئے راستہ کھول دیتی ہے اور ان کی ہدایت کرتی ہے اور انہیں عام لوگوں سے الگ کر دیتی ہے۔

     صفین میں بھی کچھ عام لوگوں نے معاویہ ا ور عمرو عاص کی فریب  کاریوں سے دھوکہ کھایالیکن پھر بھی معاویہ کے لشکر میں سے متعدد لوگ جناب عمار کی شہادت کے بعد امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے لشکر سے ملحق ہو گئے کہ جن میں عبداللہ بن سوید بھی شامل ہیں۔

     ان لوگوں کا امیر المؤمنین  علی علیہ السلام کے لشکر سے ملحق ہو جانا اس بات کا سبب بنا کہ معاویہ غصہ سے بھڑک اٹھا اور اس نے عمرو عاص کو کہلوا بھیجا کہ تم نے شام کے لوگوں کو میرے لئے تباہ کر دیا ہے ۔کیا تم نے جو کچھ بھی پیغمبرۖ سے سنا تھا، وہ سب کہنا ضروری تھا؟

     ١٣۔عمرو عاص نے معاویہ کے اعتراض کا جواب دیا اور وہ بھی ایک دوسرے سے اس طرح ناراض ہو گئے کہ جس طرح سیاستدان اپنے گناہ اور غلطیاں دوسروں پرتھونپدیتے ہیں ۔عمرو عاص نے کنارہ کشی اختیار کرنے کا ارادہ کر لیالیکن چونکہ سیاستدان جانتے ہیں کہ انہیں نیا کے حصول اور اپنے مقاصد تک پہنچنے کے لئے آپس میں بنا کر رکھنی پڑتی ہے،اس لئے انہوں نے آپس کے تعلقات صحیح  کر لئے،اور حق کے مقابلہ باطل کا پرچم لہڑا دیا اورجنگ کے شعلہ روشن کر دیئے۔

     ١٤۔ایک اہم مطلب کہ جس کی طرف سب کو توجہ کرنی چاہئے اور وہ یہ ہے کہ تاریخ تاریخ کو دہراتی ہے۔اور یہ جان لینا چاہئے کہ یہ نکتہ بنیادی اہمیت کا حامل ہے اور امت کی اعتقادی حیات اسی سے وابستہ ہے۔

     ہم سب کو یہ جاننا چاہئے کہ بہت سے ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں کہ جنہوں نے تاریخ کے صفحات کو بھر دیا ہے اور یہ واقعات  پھر سے کسی اورنئے رنگ و روپ میں رونما ہوتے ہیں۔اگرہمیں تاریخ کے مطالعہاور تاریخی و اعتقادی واقعات سے آشنا ہوکر عمرو عاص کی مکاریوں اور ابوموسی اشعری کی پستی سے دکھ ہوتا ہے تو ہمیں ہوشیار رہنا چاہئے کہ کہیں ہم بھی انہی کی صف میں کھڑے نہ ہو جائیں!!

     ابوموسی اشعری اور عمرو عاص ایک ساتھ متحد ہو گئے کہ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کو معزول کر سکیں لیکن عمرو عاص نے ابوموسی اشعری کو دھوکہ دے کر معاویہ کو منتخب کر لیا ،اب ہم شیعہ عقائد و شعائر کو چھوڑ کر تشیع کو پامال نہ کریں کہ یوں عمرو عاص اور معاویہ کے پیروکاروں کی صف میںکھڑے ہو جائیں!

     اگر اتحاد اور وحدت کی خاطر ضروری ہے کہ شیعہ اپنے کچھ عقائد و شعائر سے دستبردار ہو جائیں تو پھر آج تک سنی اپنے کس مخصوص شعائر سے دستبردار ہوئے ہیں؟

     کیا ایسا اتحاد ابوموسی اور عمرو عاص کے اتحاد کی طرح نہیں ہے؟اگر ایسا نہیں ہے تو پھر صرف شیعہ ہی اپنے کچھ عقائد سے کیوں ہاتھ اٹھا لیں؟

     جی ہاں!اگر ہم اس وقت نہیں تھے کہ جب صفین میں جنگ کے شعلہ بھڑک رہے تھے تا کہ ہم اس میں شریک ہو کر  امیر المؤمنین علی علیہ السلام پراپنی جان قربان کریں،تو ہمیں اس زمانے میں کوشش کرنی چاہئے کہ ہم ابوموسی اور عمرو عاص کی راہ پر نہ چلیں۔

     اس بناء پربندگان صالح کو ہمیشہ ہوشیار رہنا چاہئے اور یہ جان  لینا چاہئے کہ سیاسی اتحاد و وحدت ایک چیز ہے اور اعتقادی وحدت دوسری چیزہے۔ ان دونوں کوتشخیص دینے والے افراد کو انہیں آپس میں نہیں ملانا چاہئے اور انہیں اپنے عقائد کاپاک گوہر ناپاک  ہاتھوں میں  نہیں بیچنا چاہئے۔

     جب کبھی اتحاد و وحدت کی بات آئے تو اس سے سیاسی وحدت مراد ہونی چاہئے  اور اگر اس کی ضرورت ہو ورنہ ان دوگروہوں کے درمیان کس طرح اتحاد و وحدت ہو سکتا ہے کہ جن کے امام دو طرح کے ہوں؟لیکن کیا یہ ایسا نہیں ہے مقام امامت کے علاوہ بھی دو مختلف اقوام کے افراد کہ جن کے دو الگ الگ صدر ہو،کیا یہ ممکن ہے کہ قانون کے لحاظ سے ان میں اتحاد و وحدت ہو؟

     اگر دشمن دوممالک پر حملہ کرے تو سیاسی وحدت سے اپنا دفاع تو کر سکتے ہیں اور دشمن سے جنگ کے لئے ایک ساتھ متحد ہو سکتے ہیں۔

     اس بناء پر جب دو ملکوں کا قانون کے لحاظ سے رفتار و کردار یکساں نہیں ہو سکتا اور اسن میں وحدت نہیں ہو سکتی (کیونکہ وہ دو مختلف عقیدے کے قانون بنانے والوں کے تابع ہیں)تو پھر کس طرح دو  امتیں عقیدہ و رفتار کے لحاظ سے یکساں اور متحد ہو سکتی ہیں کہ جو کئی ممالک سے زیادہ ہیں؟

     جی ہاں!قرآن تو ایک ہے لیکن اسے سمجھنے میں اختلاف ہے۔قبلہ ایک ہے لیکن اس کی طرف نماز پڑھنے کا طریقہ یکساں نہیں ہے۔رسول خداۖ ایک ہے لیکن سب ان کے فرامین کو نہیں سنتے بلکہ غدیر میںآپ کے اہم ترین فرامین ،حدیث منزلت اور اہلبیت اطہار علیہم السلام کے بارے میں فرمودات کو چھوڑ دیاگیا۔بلکہ رسول اکرمۖ کی حدیثوں کو تدوین کرنے اور لکھنے سے روکنے کا حکم دیا گیا اس سے بھی بڑھ کر معاویہ نے تو اپنے بارے میں جھوٹی روایات گھڑنے کا حکم دیا اور ان کی نسبت آنحضرت کی طرف  دی۔لہذاکس طرح عقیدے کے لحاظ سے اتحاد و وحدت کا دعویٰ کیا جا سکتا ہے؟

     اس بناء پر اتحاد و وحدت کے مسئلہ میں غور کریں کہ کیا ہم عمرو عاص کی راہ پر چل رہے ہیں یا ہم عقیدے کے لحاظ سے جناب عمار کے ساتھ ہیں اور اس راہ پر چل رہے ہیں کہ جس کا اختتام جنت پر ہوتا ہے؟

     ١٥۔جنگ صفین کے واقعہ میں عرب کے کچھ مشہور و معروف افراد جیسے ذوالکلاع ،کچھ عابد و زاہد افراد جیسے عبداللہ بن سوید اور کچھ عام معاشرے کے افراد جیسے ذوالکلاع کے پیروکاروں کا یہ عقیدہ تھا کہ رسول خداۖکی پیشنگوئی کی وجہ سے ایسے لشکر میں ہونا چاہئے کہ جس میں عمار ہوں۔کیونکہ آنحضرت کے فرمان کے مطابق کسی بھی لشکر میں عمار کا وجود اس گروہ کے حق اورصراط مستقیم پر ہونے کا معیار ہے۔

     اس بناء پروہ  امیر المؤمنین علی علیہ السلام اورآنحضرت کی فوج کو اسی صورت میں حق پر سمجھتے تھے کہ جناب عمار ان کے ساتھ ہوں ورنہ انہیں   امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی عظمت اور شخصیت کی کوئی  معرفت نہیں تھی۔

     یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اگرچہ کئی سال سے معاویہ نے شام کی حکومت پر غاصبانہ قبضہ کیا تھااور وہ وہاں کے لوگوں پر حکومت کر رہا تھالیکن اس نے کبھی بھی امیر المؤمنین علی علیہ السلام اور خاندان اطہار علیہم السلام کے بارے میں پیغمبر اکرمۖ کی بے شمار حدیثوں میں سے کسی حدیث کا کوئی تذکرہ نہیں کیا اور انہیں خاندان پیغمبر اکرم ۖ (جو دین کے ارکان ہیں)کی کوئی معرفت نہیں تھی۔

     پس اگر معاویہ نماز اور ر وزہ وغیرہ کے بارے میںبات کرتا تھا تو وہ اپنی حکومت و سلطنت کو استوار کرنے کے لئے ایسا کرتا تھانہ یہ کہ اس کا دین اسلام پر کوئی عقیدہ تھا۔اس وجہ سیجہاں بھی کوئی دینی حکم اس کے نقصان میں ہوتا تویا اسے  بالکل بیان نہیں کرتا تھا اور یا پھرلوگوں کے لئے برعکس بیان کرتا تھا۔ اس لئے وہ خاندان وحی علیہم السلام کی تعریف کرنے کی بجائے ان کی مذمت کے لئے کوشاں رہتا تھا اور یہ خود اس حقیقت کی دلیل ہے کہ معاویہ ایک سیاسی حکمران تھا نہ کہ مذہبی حکمران۔

     اگر معاویہ اور عمرو عاص خدا،رسول،کتاب اور قبلہ کے معتقد ہوتے تو وہ ان لوگوں سے جنگ نہ کرتے کہ جن لوگوںکابھی یہ عقیدہتھا۔پس جنگ سے پہلے جب   امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے انہیں کتاب خدا کی دعوت دی تو انہوں نے کیوں قبول نہیں کیا؟

     انہوں نے کیوں خود جنگ کا آغاز کیا؟لیکن کیا اس زمانے میں دوخدا،دو پیغمبر،دو کتابیں اور دو قبلہ تھے کہ جو انہوں نے جنگ کا آغاز کر دیا اور جب انہیں شکست کے آثار نظر آ نے لگے تو ان کا خدا، رسول خدا،کتاب ا ور قبلہ ایک ہو گئے؟!

     اگر معاویہ اور عمرو عاص کا حقیقت میں خدا،رسول خدا،کتاب اور قبلہ پر ایمان تھا اور وہ خود کو اس لحاظ سے عراق کے لوگوں اور  امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے لشکر کے ساتھ متحد سمجھتے تھے اور ایک دوسرے کے خلاف جنگ کرنے کو اتحاد و وحدت کے برخلاف سمجھتے تھے تو پھر جنگ صفین کے بعد معاویہ کے ساتھیوں نے کیوں کئی مرتبہ عراق پر شب خون مارا اور بے شمار مسلمانوں کو ایک ساتھ قتل کیا؟!

     معاویہ کے حکم پربسر بن ارطاة کی لشکر کشی کا واقعہ کہ جسے شیعہ و سنی علماء نے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے،کیا اس کی لشکر کشی اور نہتے لوگوں کو قتل کرنا اتحاد و وحدت کے منافی نہیں تھا؟

     اسی طرح  معاویہ کے حکم پر ہی عمرو عاص کا مصر پرحملہ کرنا ،اس ملک پر لشکر کشی کرنا ، مظلوم لوگوں کو   امیر المؤمنین علی علیہ السلام سے دوستی کے جرم میں قتل کرنا اور محمد بن ابی بکر کو شہید کرنااور اسی طرح ان کے بے جان جسم کو گدھے کی کھال میں رکھ کر جلا دینا کیا یہی اتحاد و وحدت کے معنی میں تھا؟

     اگر معاویہ''خال المؤمنین ''تھا!چونکہ وہ ام حبیبہ کا بھائی تھا تو پھر محمد بن ابی بکر بھی خال المؤمنین تھے؛چونکہ وہ بھی عائشہ کے بھائی اور ابوبکر کے بیٹے تھے۔کیا خال المؤمنین کا خال المؤمنین!سے جنگ کرنا اور پھر محمد بن ابی بکر کے جسم کو گدھے کی کھال میں رکھ کر جلا دینا!کیا یہ معاویہ کے ان لوگوں کے ساتھ اتحاد و وحدت کی دلیل تھی کہ جو خدا،قبلہ اور قرآن کو مانتے تھے؟!

     ١٦۔یہ بہت ہی قابل توجہ اور قابل غور نکتہ ہے:اس روایت میں رسول خداۖنے واضح طور پر فرمایا:

     پوری تاریخ کے دوران یہ فتنہ لوگوں کے گلے پڑے گا یہاں تک کہ الٰہی عادلانہ حکومت قائم ہو جائے اور معاشرہ عدل و انصاف سے بھر جائے۔

     اس بناء پر جیسا کہ ہم نے کہا انحرافی افکار اورعقائد کن افکار صرف معاویہ اور عمروعاص کے زمانے سے ہی مخصوص نہیں ہیں بلکہ یہ امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے ظہور تک جاری رہیں گے؛جیسا کہ پیغمبر خداۖ نے بھی اس کی وضاحت فرمائی ہے۔

     اس بناء پر ہوشیار رہیں اور گمراہ کرنے والے اس طرح کے افکار کے راستہ پر نہ چلیں  یہاں تک کہ پوری دنیا پر امام زمانہ عجل اللہ فرجہ الشریف کی عادلانہ و ہدایت کرنے والی حکومت قائم ہوجائے۔

     جب خاندان وحی علیہم السلام کی عالانہ عالمی حکومت پوری دنیا کو تسخیر کرلے گی تو فتنہ اور فتنہ برپا کرنے والوں کو صفحۂ ہستی سے مٹا دے گی اوردنیا والوں کے دلوں میں الفت و محبت پیداہو گی،پھر حقیقی اتحاد و وحدت قائمہوگی اور ان میں  کسی طرح کا کوئی کینہ اور حسد نہیں ہوگا ۔ جس طرح عدالت کی ابتداء بھی اسی خاندان سے ہوئی تھی اور اس کے اختتام بھی خاندان وحی  علیہم السلام کے ذخیرۂ الٰہی  حضرت بقیة اللہ الاعظم عجل اللہ فرجہ الشریف کے دست قدرت سے ہو گا۔

 


[1]۔ سورۂ عنکبوت، آیت: ١،٢

[2] ۔ اس  بارے میں مزید جاننے کے لئے ''کنز العمال:ج ٨ ص٢١٥ اور فضائل الخمسة: ج٢ص٣٦٣ - ٣٤٩'' کی طرف رجوع کریں

[3]۔ جلوۂ تاریخ در شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید: ج٤ ص٣٢٣

 

 

    ملاحظہ کریں : 2071
    آج کے وزٹر : 64664
    کل کے وزٹر : 165136
    تمام وزٹر کی تعداد : 141089369
    تمام وزٹر کی تعداد : 97413601