امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
(4) جنگ جمل

 (4)

جنگ جمل

«عثمان کی بیوی نائلة بنت فرافصة نے معاويه کو خط لکھا اور عثمان کے قتل ہونے کی خبر دی اور اسے یہ بتایا کہ مصر والوں نے خود کو علی بن ابیطالب علیہ السلام، ابن ابوبکر اور عمار یاسر کے سپرد کر دیا ہے اور انہوں نے بھی عثمان کے قتل کا حکم دیا... » (299)

واقدی اور مدائینی کی روایت میں موازنہ کے سیاق کی رو سے جب نائلہ سے محمد بن ابوبکر کو مورد الزام ٹھہرانے کے متعلق پوچھا گیا تو وہ غصہ میں آ گئی اور اس الزام سے دستبردار ہو گئی(300)، اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ مصر والوں کو عثمان کے قتل کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا تا کہ علی علیہ السلام کے قریبی ساتھیوں کو نشانہ بنایا جا سکے ۔ اس صورت میں یہ صرف ایک سیاسی الزام ہے۔ لیکن ہمارے لئے مدائنی کی روایت میں قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ نئے خلیفہ  کے اہم ساتھیوں میں عمار کا نام اہم ہے۔ علی علیہ السلام نے ابتداء میں ہی ایک حاکمیہ کمیٹی تشکیل دی جن میں اکثر انصار اور اسلام میں سابقہ رکھنے والے افراد شامل تھے۔یہ واضح  ہے کہ محمد بن ابی بکر اور کچھ دوسرے افراد کے علاوہ قریش ان کے دشمن تھی اور انہوں نے ان کے سقوط اور زوال  کی ہر ممکن کوشش کی۔

امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی خلافت کے خلاف قریش تین مرتبہ متحد ہو چکے تھے اور اب انہوں نے نئے خلیفہ کے خلاف اعلان جنگ سے بھی گریز نہ کیا۔ ’’جمل‘‘ مسلمانوں میں ہونے والی پہلی جنگ تھی کہ جس سے مسلمانوں کے درمیان جنگ اور فتنہ کے در کھل گئے اور جناب عمار ان لوگوں میں شامل تھے جو امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے ساتھ مدینہ سے خارج ہوئے۔ اس اقدام کا نتیجہ خطرناک تھا لیکن عمار اس کے علاوہ کچھ اور نہیں دیکھ رہے تھے جب کہ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے ہمراہ سپاہیوں  کی ایک مختصر سی تعداد تھی۔آپ کوفہ کی طرف روانہ ہوئے اور روانہ ہونے سے پہلے کوفی رہبروں میں سے اپنے ایک طرفدار(جناب مالک اشتر نخعی) کو  وہاں مدد کی درخواست کے لئے بھیجا۔ مالک کوفیوں کے ایک گروہ کے فرمانروا تھے جنہوں نے گذشتہ خلیفہ کے خلاف قیام کیا تھا ۔ علی علیہ السلام نے اہلیان کوفہ سے مذاکرات کے نتیجہ کے انتظار میں ذی قار میں قیام کیا کیونکہ کوفہ میں عثمان کے آخری ولی عہد (ابو موسیٰ اشعری) کی یہ کوشش تھی کہ وہ کوفہ کا جھکاؤ معاویہ کی طرف کر دے۔ امام حسن علیہ السلام اور عمار یاسر اس کمیٹی کے دو رکن تھے جو کوفہ گئے اور وہاں کے قبائل کے سربراہوں سے توافق کیا جس کے لئے مالک اشتر نخعی نے پہلے سے زمینہ تیار کیا تھا۔(301)

یوں بصرہ میں بھی علی علیہ السلام کا پلڑا بھاری ہو گیا، کوفی قبائل کی مدد، پہلے سے ساتھ موجود صحابہ، بغاوت کرنے والوں میں سے ساتھ مل جانے والے افراد سے جنگ میں کوئی مشکل نہیں ہوئی البتہ ان لوگوں کی اس حرکت کے بارے میں کوئی خاص اطلاع نہیں ہے جب کہ تاریخی روایات ہمیں ان جنگوں میں عمار کی موجودگی اور ان کی شجاعت کی خبر دیتی ہیں وہ زبیر (جوجدید فتنہ کا ایک ستون تھا) کی طرف بڑھے اور نزدیک تھا کہ اس پر فتح پا لیتے لیکن وہ تیزی سے اس بزرگ صحابی کے سامنے سے بھاگ گیا (302). اس بارے میں ان خطوط کو بكائى نے نقل کیا ہے:

«میں على‏ عليه السلام کے سپاہیوں کی صفوں میں تھا کہ ام المؤمنين کے ناقہ کا پتا لگایا. اور میں نے دیکھا کہ محمّد بن ابوبكر اور عمار بن ياسر دونوں لشکر کے درمیان کشمکش کے دوران آگے بڑھ رہے ہیں تا کہ کون جلدی اس تک پہنچے۔ پھر انہوں نے اونٹ کو چلنے سے روک دیا اور عائشہ کو اس کے هودجش (یعنی اس کے كجاوه) میں محفوظ رکھا. » (303)

گذشتہ امور کی رو سے اکثر و بیشتر عمار کی استوار اور مبارز شخصیت کو مدنظر رکھتے تھے ان کے وجود میں حماسہ، شوق اور ایسی اقدر استوار تھیں کہ جو ان کی رفتار میں ریشہ دواں تھیں۔اس کے علاوہ عمار صرف ایک مبلغ نہیں ہیں جو ایک اصل کی طرف صرف لوگوں کی ہدایت کے لئے کوشاں ہوں یا ایک قضیہ  کے طرفدار ہوں بلکہ لشکر میں ایک قوی جنگجو بھی ہیں۔ ان کے نزدیک خوف کی کوئی راہ نہیں تھی اور یہ بھی نہیں ہے کہ وہ اس خاندان سے ہیں جس سے اسلام کے اوّل شہداء ہیں اور جنہوں نے سرکش مشرکین کی طرف سے زیادہ مصائب اور تکالیف برداشت کی۔ خود ان پر بھی ایسے ایسے ظلم و ستم کئے گئے جس سے انسانیت کی اہانت کی گئی۔ ابن سعد نے عمار کے بارے میں ان کے ایک ہم عصر کے قول کو نقل کیا ہے:

«جنگ صفين میں ایک بوڑھے شخص کو دیکھا جن کے ہاتھوں میں لرزتا ہوا ہتھیار تھا ، عمرع بن عاص کی طرف دیکھا کہ جس کے ہاتھ میں بیرق تھی اور کہا: رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ہمراہ تین بار اس بیرق سے جنگ کی ہے( کفار قریش سے جنگ کی طرف اشارہ تھا) اور اب یہ چوتھی مرتبہ ہے۔ خدا کی قسم اگر ہمیں اس قدر زیادہ مارین کہ ‏هَجَر (باستان سے دور دراز ایک علاقہ) تک پیچھے دھکیل دیں تو بھی میرا یہی عقیدہ ہے کہ ہم حق پر ہیں اور وہ گمراہی و ضلالت میں ہیں۔ ».(304)


299) ایضاً، ص 592.

300) ایضاً، ص 560.

301) ابن اثير، ایضاً، ص 228 و 260.

302) ایضاً، ص 262.

303) خليفة بن خياط، تاريخ، ص 143.

304) رفتارشناسى امام على‏ عليه السلام در آيينه تاريخ: 214.

 

منبع: معاویه ج ... ص ...

 

 

بازدید : 866
بازديد امروز : 0
بازديد ديروز : 199023
بازديد کل : 166264720
بازديد کل : 122627981