الإمام الصادق علیه السلام : لو أدرکته لخدمته أیّام حیاتی.
لوگوں کا علوی سادات کے قیام کا ساتھ دینا اور ان کا متفرق ہونا

15ربیع الثانی؛ محمد بن قاسم علوى کا معتصم کی زندان میں قید ہونا

********************************

لوگوں کا علوی سادات کے قیام

کا ساتھ دینا اور ان کا متفرق ہونا

   محمّد بن قاسم بن على ابن عمر بن علىّ بن حسين بن علىّ بن ابى طالب ‏عليهما السلام:

   ان کی والدہ صفيّه بنت موسى بن عمر بن علىّ بن الحسين تھیں، اور آپ کی کنیت ابوجعفر ہے۔ لوگوں نے آپ کو «صوفى» کا لقب دیا تھا کیونکہ آپ ہمیشہ سفید لباس پہنتے تھے۔ آپ دانشور، فقیہ، دین دار اور زاہد تھے۔ اور آپ ان  لوگوں میں سے تھے کہ جو عدل اور توحيد(1641) کے قائل تھے ، نیز آپ زيديّه اور جاروديّه کے ہم‏ عقيده تھے.

   معتصم کے زمانے میں محمّد نے طالقان(1642) میں قیام كیا۔ ان کے اور عبداللَّه بن طاهر کے درمیان ہونے والی جنگوں کے بعد عبداللَّه نے انہیں گرفتار کرکے معتصم کے پاس بھیج دیا۔

   ہمارے لئے ان کے قیام اور گرفتاری کا واقعہ احمد بن عبيداللَّه نے محمّد بن ازہر سے نقل کیا ہے اور کچھ احمد بن حارث خزّاز کی کتاب سے اخذ کیا ہے اور اس کی تفصیل جعفر بن احمد بن ابى مندل كوفى نے اپنی سند سے ابراہيم بن عبداللَّه عطّار سے ہمارے لئے بیان کی ہے کہ جو خود محمّد بن قاسم کے ساتھ طالقان میں موجود تھے.

   ابراهيم بن عطّار کہتے ہیں: ہم دس سے زیادہ افراد تھے کہ جو محمد کے ساتھ کوفہ سے خراسان کی طرف روانہ ہوئے اور ہم ’’مرو‘‘ سے آگے گئے اور اس واقعہ سے پہلے محمّد نے «رقّه» اور «روز» کی طرف خروج كیا جب کہ ان کے ساتھ زيديّه کا ایک گروہ بھی تھا  کہ جن میں يحيى بن حسن بن فرات اور عبّاد بن يعقوب رواجنى شامل تھے.

   اور جب لوگوں نے ان کی باتیں سنی کہ جو معتزلہ مذہب کے موافق تھیں تو اس کی بناء پر اہل کوفہ ان سے الگ ہو گئے۔ فقط ہم ان کے ساتھ تھے اور ہماری تعداد بیس افراد سے کم تھی یہاں تک کہ ہم ’’مرو ‘‘ کے مقام پرپہنچے اور وہاں ہم لوگوں میں پھیل گئے اور ان سے محمد بن قاسم کے لئے بیعت لینے لگے اور زیادہ مدت نہیں گذری تھی کہ وہاں کے لوگوں میں سے چالیس ہزار افراد نے ان کی بیعت کی اور ہم محمد کو مرو کے ایک قصبہ میں لے گئے کہ جہاں کے سب لوگ شیعہ تھے اور انہوں نے ان کو ایک ایسے قلعہ میں جگہ دی کہ جہاں پرندہ بھی پر نہیں مار سکتا تھا اور جو ایک بلند و بالا پہاڑ پر واقع تھا.

   اور جب قیام کرنے کے مقدمات فراہم ہو گئے تو انہوں نے بیعت کرنے والے لوگوں کے ساتھ ایک رات اکٹھے ہونے کا وعدہ کیا، سب لوگ طے شدہ مقام پر پہنچ گئے اور محمد بھی قلعہ سے باہر آ گئے.

   اسی دوران ایک شخص کے رونے کی آواز سنائی دی۔ محمد نے مجھ سے کہا: اٹھو اور دیکھو کہ یہ کیوں رو رہا ہے؟ میں اس آواز کی کھوج میں گیا تو دیکھا کہ ایک نسّاج (جولاہا) رو رہا تھا کہ جس کا ایک نمد ( ایک قسم کا قالین) تھا جو ہماری بیعت کرنے والے ایک شخص نے اس سے زبردستی لے لیا تھا۔ میں نے اس نسّاج( جولاہا) سے پوچھا: تم کیوں رو رہے ہو؟

   اس نے کہا: تمہارے ایک آدمی نے میرا نمد( ایک قسم کا قالین) لے لیا ہے۔ میں نے اس شخص سے کہا: اس کا نمد اسے واپس کر دو کہ محمد بن قاسم نے اس کے رونے کی آواز سنی ہے.

   میری یہ بات سننے کے بعد اس شخص نے مجھ سے کہا: ہم نے تمہارے ساتھ اس لئے خروج کیا ہے تا کہ کوئی نفع و فائدہ حاصل ہو  اور ہم اپنی ضروریات کی اشیاء لوگوں سے کسی بھی طرح چھین سکیں!

   ابراہيم کہتے ہیں: میں نے کسی بھی طرح سے اس شخص سے وہ نمد لے کر اس کے مالک کو دے دیا۔ پھر میں محمّد بن قاسم کے پاس گیا اور ان سے سارا واقعہ بیان کیا.

   محمّد نے مجھ سے کہا:اے ابراہیم!کیا ایسے کاموں (اور ان لوگوں) سے دین خدا کی مدد کی جا سکتی ہے؟!

   انہوں نے یہ بات کہی اور مجھے حکم دیا کہ میں لوگوں سے کہوں: اب تم لوگ واپس چلے جاؤ تا کہ ہم اس بارے میں کچھ سوچیں.

   میں ان کے حکم کو مانتے ہوئے لوگوں کے پاس گیا اور ان سے کہا: آج کچھ وجوہات کی بناء پر محمد نے حکم دیا کہ آپ لوگ واپس چلے جائیں۔ لوگ یہ بات سن کر متفرق ہو گئے اور پھر محمد نے بھی وہاں قیام نہ کیا اور فوراً طالقان کی طرف روانہ ہو گئے کہ جس کا فاصلہ مرو تک چالیس فرسخ تھا۔ ہم بھی لوگوں میں منتشر گئے تا کہ انہیں ایک بار پھر ان کی طرف دعوت دیں۔ اس کے بعد بڑی تعداد میں لوگوں نے ان کی بیعت کی۔ ہم ان کے پاس گئے اور ان سے کہا: اگر واقعاً آپ قیام کا ارادہ رکھتے ہیں تو اب باہر نکلیں اور اپنے دشمنوں سے جنگ کے لئے جائیں۔ امید ہے کہ خدا آپ کو نصرت اور کامیابی عطا فرمائے۔ اور کامیابی کے بعد آپ اپنے لشکر میں سے جسے چاہیں اور جس کے دین و ایمان کو پسند کریں؛ انہیں منتخب کرکے اپنے پاس رکھیں اور بقیہ کو واپس پلٹا دیں۔ اگر آپ نے وہی کام انجام دیا کہ جو آپ نے مرو میں آغاز سے ہی ایک شخص کے عمل کی وجہ سے انجام دیا تھا اور سب کو واپس جانے کا حکم دیا تھا تو یہ جان لیں کہ عبداللَّه بن طاہر حتمی طور پر آپ کو گرفتار کر لے گا اور آپ ہمیں اور اپنے آپ کو اس کے سامنے تسلیم کریں اس سے بہتر یہ ہے کہ آپ اپنے گھر میں بیٹھیں اور دوسرے تمام لوگوں کی طرح اپنے اہلخانہ کے ساتھ آرام سے زندگی بسر کریں.

   جب محمّد نے یہ باتیں سنیں تو انہوں نے خروج کرنے کا ارادہ کیا۔ وہ باہر نکلے اور اس کی خبر عبداللَّه بن طاہر کے کانوں تک پہنچ گئی۔ اس نے خراسان میں پولیس کے سربراہ حسن بن نوح نامی شخص کی قیادت میں محمد سے  جنگ کے لئے ایک لشکر بھیجا اور ہم نے اسی معرکہ میں ہی اسے سخت شکست دی.

  جب عبداللَّه بن طاہر کو اس کی خبر ہوئی تو اس کی دنیا اندھیر ہو گئی اور اس نے اپنے لشکر کے ایک اور سپہ سالار نوح بن حبّان بن جبله - يا حبّان بن نوح بن جبله – کی سربراہی میں ایک لشکر ہم سے جنگ کے لئے بھیجا تو ہم نے اسے حسين بن نوح سے بھی بری شکت دی لیکن وہ خود عبداللَّه بن طاہر کے پاس واپس نہ گیا اور اس نے عبداللہ کو معذرت طلبی کے عنوان سے ایک خط لکھا  اور قسم کھائی کہ جب تک کامیاب یا قتل نہ ہوا؛ وہ واپس نہیں آئے گا.

   عبداللَّه بن طاہر نے اس کی مدد کے لئے ایک بہت بڑا لشکر بھیجا اور وہ پھر ہم سے جنگ کے لئے آ گئے۔ نوح بن حبّان کے لشکر نے کئی مقامات پر کمین گاہیں بنائی ہوئیں تھیں اور جب جنگ شروع ہوئی تو کچھ گھنٹے کے بعد نوح فرار ہو گیا اور ہم اس کا پیچھا کرنے کے لئے پراکندہ ہو گئے۔ اسی وقت کمین گاہوں میں بیٹھے ہوئے لوگ باہر نکلے کہ جس کی وجہ سے ہمیں شکست ہوئی۔ اس دوران محمد بن قاسم شہر «نسا» پہنچ گئے اور وہاں روپوش ہو گئے  اور ہم بھی آہستہ آہستہ نئے سرے سے لوگوں کو ان کی طرف دعوت دینے لگے... .(1643)


1641) شايد اس سے یہ مراد ہو کہ وہ شیعوں کی طرح عدل کو اصل مذہب کا جزء سمجھتے تھے.

1642) طالقان؛ خراسان کے شہروں میں سے ایک شہر تھا کہ جو مرو اور بلخ کے درمیان واقع تھا.

1643) ترجمه مقاتل الطالبيّين: 552.

 

منبع: معاویه ج ... ص ...

 

 

زيارة : 1081
اليوم : 109573
الامس : 226802
مجموع الکل للزائرین : 166941460
مجموع الکل للزائرین : 122967391