الإمام الصادق علیه السلام : لو أدرکته لخدمته أیّام حیاتی.
(۲) بنى ‏اميّه اور جنگ جمل

(۲)

بنى ‏اميّه اور جنگ جمل

   مسعودى نے «مروج الذهب» میں اور ان کے علاوہ دوسرے حضرات نے روايت کی ہے کہ: علىّ بن ابى طالب‏ عليه السلام جنگ جمل میں اسلحہ کے بغیر باہر نکلے جب کہ آپ حضرت رسول‏ صلى الله عليه وآله وسلم کی سواری پر سوار تھے۔ اس دوران آپ نے زبیر کو اپنی طرف دعوت دی جب کہ اس وقت زبیر اسلحہ سے لیس تھا، وہ امیر المؤمنین علی علیہ السلام  کے سامنے حاضر ہوا اور پھراس نے یہ واقعہ عائشہ سے بیان کیا۔ اس نے چیخ کر کہا: وای ہو مجھ پر! جنگ شروع ہو گئی ہے۔ عائشہ کو اطلاع دی گئی ہے کہ على‏ عليه السلام اسلحہ کے بغیر آئے ہیں اور اب جنگ نظر نہیں آ رہی۔ اس کے بعد عائشہ مطمئن ہو گئی اور اس کا دل پرسکون ہو گا.

   على‏ عليه السلام اور زبير بھی ایک دوسرے سے گلے ملے اور پھر على ‏عليه السلام نے زبير سے فرمایا:

واى ہو تم پر! تم نے کس لئے خروج کیا ہے؟

اس نے کہا: عثمان کے خون کا انتقام لینے کے لئے۔

فرمایا:ہم میں سے جو بھی قتل عثمان میں شامل تھا خدا سے قتل کر دے۔کیا تمہیں وہ دن یاد ہے کہ جب بنی بیاض میں ہماری ملاقات حضرت رسول‏ صلى الله عليه وآله وسلم سے ہوئی اور آنحضرت گدھے پر سوار تھے اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مجھے دیکھ کر ہنسے اور تم بھی ہنس رہے تھے.

اس دن تم نے کہا تھا:ابن بی طالب اپنی ہنسی مزاح سے باز نہیں آئیں گے۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا: وہ اہل مزاح نہیں ہیں۔ اے زبیر! کیا تم انہیں دوست رکھتے ہو؟ تم نے کہا:جی ہاں! خدا کی قسم ! میں انہیں دوست رکھتا ہوں۔ اس وقت رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے تم سے کہا تھا: جلد ہی تم ان سے جنگ کرو گے اور ان کے حق میں ستم کرو گے.

   زبير نے کہا: میں اپنے اس عمل سے استغفار کروں گا اور اگر مجھے یہ بات یاد آ گئی تو میں ہرگز خروج نہیں کروں گا.

   على‏ عليه السلام نے فرمایا: اب تم واپس چلے جاؤ.

   زبير نے جواب دیا: اب ہم ایک دوسرے کے مقابلہ میں آ گئے ہیں لہذا میں اپنے لئے یہ ننگ و عار سمجھتا ہوں کہ جنگ سے فرار ہو جاؤں.

   فرمایا:اے زبير! نار (آتش جہنم) میں جانے سے عار بہتر ہے.

   اس  کے بعد زبير میدان جنگ سے واپس چلا گیا اور اس نے یہ اشعار پڑھے:

اخترت عاراً على نار مؤجّجة

ما إن يقوم لها خلق من الطين

نادى عليّ بأمر لست أجهله

عار لعمرك في الدنيا وفي الدين

فقلت حسبك من عدل أباحسن

فبعض هذا الّذي قد قلت يكفيني

   اس کے بعد زبير منصرف ہو گیا اور وادى السباع کی طرف چلا گیا اور نماز کے وقت عمرو بن ‏جرموز کے ہاتھوں ناگہانى طور پر قتل ہو گیا۔ عمرو اس کی تلوار اور انگوٹھی لے کر على ‏عليه السلام کے پاس آیا تو على ‏عليه السلام نے فرمایا:

اس تلوار نے راه پيغمبر میں بہت زیادہ فداكارى کی ہے اور آنحضرت کے چہرے سے غم و اندوه کو برطرف کیا ہے لیکن آج یہ برائی میں گرفتار ہو گئی اور اس انداز میں اس کی زندگی کا خاتمہ ہوا اور ابن صفیہ کے قاتل کا تھکانہ جہنم ہو گا.

  على ‏عليه السلام کی طلحہ سے گفتگو:

اس کے بعد اميرالمؤمنين ‏عليه السلام نے طلحہ کی طرف رخ کیا اور فرمایا:

اے ابومحمّد! کیوں اپنے مقام سے خارج ہو گئے اور کیوں تم نے اس جنگ میں شرکت کی؟

اس نے کہا: میں خون عثمان کے مطالبہ کے لئے باہر نکلا ہوں.

امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا: ہم میں سے جو کوئی بھی قتل عثمان میں شریک تھا؛خدا اسے قتل کرے۔ کیا تم نے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے نہیں سنا تھا کہ آپ نے فرمایا: «أللّهمّ وال من والاه وعاد من عاداه». تم وہ پہلے شخص تھے جس نے میری بیعت کی اور خدا نے ناکثین عہد ( یعنی عہد و پیمان توڑنے والوں) کی مذمت کی ہے.

طلحہ نے کہا: میں اپنے اس عمل سے استغفار کرتا ہوں اور پھر وہ واپس چلا گیا۔ اس دوران مروان حكم نے کہا: زبير واپس چلا گیا ہے اور طلحہ بھی واپس پلٹ رہا ہے لہذا اب فرق نہیں کرتا کہ میں اپنے تیر علی کی طرف چلاؤں یا ان کی طرف۔ پھر اس نے طلحہ کی طرف تیر پھینکا اور اسے قتل کر دیا.

اميرالمؤمنين ‏علی عليه السلام جنگ کے بعد طلحہ کے پاس سے گذرے تو آپ نے فرمایا:

«إنّا للَّه وإنّا إليه راجعون»، خدا کی قسم! مجھے اس واقعہ سے کراہت ہے.(1)


1) معاويه و تاريخ: 59.

 

منبع: معاويه ج ...  ص ...

 

زيارة : 1020
اليوم : 108735
الامس : 226802
مجموع الکل للزائرین : 166939785
مجموع الکل للزائرین : 122966555