امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
(1) یہودیوں کا امویوں کی حمایت کرنا

(1)

یہودیوں کا امویوں کی حمایت کرنا

انہوں نے یہ  کہا:اس زمانے میں دوسری تبدیلی مسلمانوں کی روائی سنت کے خلاف تنقیدی رویہ تھا جو امویوں کی کامیابی کا مثبت طور پر تعین کرتا تھا۔

ولہاوزن کے مطابق امویوں کی کامیابی ایک سلطنت کے قیام کے لئے تھی اور اسے انتظامیہ کی مدد سے چلانا لائق تحسین تھا۔''ہینری لامنز بلژکی''  کی تحریروں میں یہ تحسین اور زیادہ نکھر جاتی ہے۔

''لامنز''(Lammens) امویوں کو شام میں  عرب کی ملّی حکومت کا بانی سمجھتے ہیں اور اسے اسلام کے زیر تسلّط نہ جانے کی وجہ سے ایک طاقتور اور کامیاب حکومت قرار دیتے ہیں۔

 اپنے آبائی ملک سے عشق و محبت کی وجہ سے اس مہاجر مؤلف نے اپنے علم و دانش کو عربی منابع کے مطالعہ میں استعمال کیا اور اپنی چاہت کے مطابق اموی حکومت کا بہت ہی مناسب چہرا  دکھایا۔(انہوں  نے اپنی تحریروتألیف کا زمانہ لبنان میں گذاراجو تاریخی اعتبار سے شامِ کبیر کا ایک حصہ  شمار کیا جاتا تھا)۔حقیقت میں ان کا کام یہ تھا کہ مختلف منابع میں امویوں کے دفاع میں مطالب جمع کریں اور اسے اسلام کی روائی سنت کے خلاف چھپے ہوئے عام تعصب کو حربہ کے طور پر استعمال کریں۔

مجموعی طور پر تقریباً کچھ عرصہ پہلے تک غربی محققین اسی طرح ان دو رویوں پر ہی عمل پیرا رہے اور گلدزیہر،ولہاوزن،لامنزاور ان کے کچھ معاصرین جیسے ''ک.ھ بکر''اس سے آگے نہیں بڑے۔

١٩٤٠ء کی دہائی کے آخر میں امریکی محقیق D.C Dennett نے طیارے کے حادثہ میں اپنی موت سے کچھ دن پہلے کہا تھا کہ ولہاوزن کے تجزیہ کے مطابق امویوں کے ٹیکس کے نظام پر اعتراض اور اشکال وارد ہوتاہے اور جو عباسی انقلاب کی اصطلاح کے بارے میں تجزیہ پر دلالت کرتا ہے۔

دوسرے محققین نے امویوں کے زوال کے بارے میں ولہاوزن کے نتائج پر تنقید کی ہے اور وہ معتقد ہیں کہ اس نے حد سے زیادہ  عربوں کی حیثیت اورہاشمی تحریک میں ایرانی سربراہوں کے کردار پر زور دیا ہے۔اور اسی تاکید سے ایک برعکس تاکید وجود میں آئی کہ جو اسلامی تاریخ میں عربوں کی اہمیت کا بیان کرتی ہے ۔اس کی تائید کے لئے ''م.آ.شبان'' کے آثاربطور نمونہ پیش کیا۔

ان سب تنقیدوں کے باوجود ولہاوزن نے اموی تاریخ میں جو عمارت تعمیر کی وہ وسیع  بنیادوں پر آج بھی قائم ہے ۔لیکن پھر بھی اس کے منابع میں تجزیاتی روش کو ناکارہ بلکہ شبہہ آمیز سمجھا گیا ہے اور اسے قابل اعتراض قرار دیا گیا ہے۔کچھ دانشورکو اس بارے میں شک و شبہ ہے کہ کیا اموی دور کے بارے میں کوئی تفصیلی تاریخ لکھی جا سکتی ہے۔

اس سے پہلے ١٩٥٠ء میں تاریخ صدر اسلام کے مرجع کے عنوان سے مسلمانوں کی روائی سنت پر کلی شکایت کی گئی  جس پر گلدزیہر نے اپنے آثار میں مہر تائید ثبت کر دی اور بعد میں اس کے شاگرد ''جی.شاخت''نے زیادہ شدت کے ساتھ اپنے استاد کے فکری سفر کو جاری رکھا۔

''شاخت ''نے اسلامی شریعت کے مآخذکے بارے میں تاریخی تحقیقات کے بعد دعویٰ کیا کہ  اسے اپنے استاد کے نظریات کی تائید میں بہت سے شواہد ملے ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ اسلامی روایات پیغمبرۖ کی رحلت کے بعد کے زمانے میں وجود میں آئی ہیں  اور ان سب سے بڑھ کران کی تشکیل پر قانونی تنازعہ اثرانداز ہوتا ہے۔!!

پھر کچھ ایسے لوگ بھی پائے گئے جنہوں نے ''شاخت''کی تحقیقات کی مدد سے سنت روائی میں تاریخ صدر اسلام کی تحقیقات پر حملہ کیا۔

١٩٧٣ءمیں''آ.نت''نےUntersuchungen Quellenkritischeکے نام سے اپنی ایک کتاب شائع کی جس میں اس نے منابع کا تجزیہ کرنے والی ولہاوزن کی بنیاد پر اعتراض کئے۔اس نے اس بات پر زور دیا کہ تاریخی روایات کو جمع اور منتقل کرتے وقت انہیں پھر سے نئی طرز پر لکھا گیاحتی کہ ابتدائے اسلام کے اخباریوں کا ابتدائی سنت روائی میں کوئی عمل دخل نہیں تھا جب کہ ان کی تحریروں کا خلاصہ ہمارے منابع میں موجود ہے۔بلکہ وہ بھی ایسی معلومات کو جمع و تدوین کرنے والے تھے کہ جن تک رسائی سے پہلے  یہ ابتدائی تشکیل کے مرحلہ تک ہی تھا۔

وہ معتقد تھا کہ ہم تک پہنچنے والے منابع تک رسائی نہیں ہیں اور اسی طرح آٹھویں صدی عیسوی کے اخباریوں اور واضح و معین خصوصیات کے خاص مکاتب تک بھی رسائی ممکن نہیں ہے  اور ان میں سے ہر کسی کی واقعیت اور جزوی حیثیت کو الگ الگ مشخص نہیں کر سکتے۔حقیقت میں ان میں سے ہر ایک کو متنوع معلومات اور نظریات سے منتقل کیا گیا ہے۔

پھر''نت''نے منابع پر اشکالات اور ان کی داخلی شکل کوعلیحدہ کیا تا کہ وہ یہ دکھا سکے کہ منابع صرف ''topoi''کا ایک مجموعہ ہے  اور تاریخی اعتبار سے اس کی بنیاد پر سوال اٹھا ہے۔

 مفصل صورت میںصدر اسلام کی تاریخ کی تعمیر نو کے لئے ان منابع سے استفادہ کرنا برا سمجھتا تھا۔ایسا لگتا ہے کہ ''نت''یہ چاہتا تھا کہ اپنی کتاب کی تألیف سے ابتدائے اسلام کی تاریخ سے اپنی مرضی کے مطابق نتائج اخذ کرے لیکن اسے عملی جامہ نہ پہنانے میں کامیاب نہ ہو سکا ۔تمام مؤرخین نے کم و بیش امویوں کی تاریخ لکھنے میںولہاوزن  کی تقلید کی اور منابع پر تنقید کے ذریعہ ان کا خیال تھا  کہ صحیح تنقید سے اموی تاریخ کی تعمیر نومیں مدد مل سکتی ہے۔

جرمنی میں ''ردوان سعید ''اور ''گرانٹ روٹر''جیسے د انشوروں کا نام لیا جا سکتا ہے جن کی کوشش تھی کہ ولہاوزن کے اسی طریقہ کار سے استفادہ کریں۔لیکن وہ جدید سماجی اور اقتصادی مفاہیم کے منابع سے زیادہ استفادہ کرتے تھے۔ریاست ہائے متحدہ امریکہ میں''ف.مک گراو دانر'' (F.Mcgraw Fonner)نے فتوحات عرب کی تاریخ کو جدید انداز میں لکھا اور اس نے اپنی کتاب کی تألیف میں اپنی روش شناسی کی توجیہ کا وعدہ کیا۔لیکن اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اکثر ایسی بدعت آمیز تحقیقات میں پابندی اور تعطّل کا احساس ہوتا ہے۔ ''ورنراندہ''(Wener Ende) اور ''ا.ل پترسون''(E.L Peterssen)ایسے مؤلفین کا واضح نمونہ ہیں۔

حالیہ دنوںمیں'Slavesson Horsesesکےنام سے 'پیڑیسیاکرون'  (Patricia Crone)کی تألیف میں کوشش کی گئی ہے کہگلدزیہر،شاخت اور نت کے طریقۂ کار کو قبول کرتے ہوئے اسلامی منابع میں ایک دوسری  روش سے استفادہ کیا جائے۔ ''پیڑیسیاکرون''کے مطابق یہ طریقۂ کار زندگی نامہ یا انساب کے لئے موذوں ہے۔

اس کا کہنا ہے کہ اگر اسلامی منابع  میں بنیادی معلومات(اسماء ،تاریخ خلفاء اور سربراہ وغیرہ) کا مستقل منابع (جیسے سکّے،نوشتہ جات اور غیر اسلامی منابع)سے رجوع کرکے تجزیہ کیا جائے تو دو طرح کے یہ مناب ایک دوسرے کی  باہمی تائیدسے ہماری مدد کر سکتے ہیں۔

اسی طرح اس کا خیال ہے کہ اگر اسلامی معلومات میں پوشیدہ تمام معلومات کوبعد کے زمانے  کی جعلی یا topoiکے نوشتہ جات کا اقتباس کہہ کر کم اہمیت دی جائے تو یہ انصاف نہیں ہوگا۔

واضح ضمنی موارد جیسے کسی شخص کاسماجی مقام،کسی قبیلہ یا فرقہ کا تعلق،  قبیلہ  میں ازدواج،سماجی وسیاسی روابط سے بہتر انداز میں حقیقت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔جزئی دکھائی دینے والی معلومات  جیسے کسی شخص کا مقام،کسی قبیلہ یا فرقہ کا تعلق،ازدواجکے اعتبار سے کسی شخص کے تعلقات،سماجی و سیاسی روابط حقیقت سے زیادہ نزدیک ہوتے ہیں اور مؤرخ کوان معلومات کی طرف بھی توجہ کرنی چاہئے اور اس کے بعد دوسرے مراحل( جیسے قیام کرنے کے اسباب  اور تاریخ کے بڑے واقعات کے بارے میں تاریخی رپورٹ)کو طے کرے۔

اس نظرئے کی رو سے ''کرون''کی کتاب میں جو چیز قابل توجہ ہے وہ مشترکہ یکجہتی اور مفہومی باریک بینی ہے۔اس نقطۂ نظر کے نتائج (کہ جنہیں  اخذ کرنے میں کچھ دوسرے بھی حصہ دار ہیں یاپھر پیش پیش ہیں)میں سے یہ ہے کہ یہ سادہ روایت اور واضح سیاسی واقعات سے دور ہوگئے اور مختلف ادروں اور سماجی و مذہبی تاریخ میں زیادہ دلچسپی دکھانے لگے۔

''م.ج.مورنی''(M.G Morony)کی کتاب ایک دوسرا نمونہ ہے کہ جس میں اس نقطۂ نظر کی پیروی کی گئی ہے ۔ جدید اسلامی دنیا بالخصوص عربی دنیا میں اموی تاریخ بعض مواقع (مثل آئینہ) آج کے مذہبی اور سیاسی خدشات کی عکاسی کر سکتی ہے۔لیکن اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ اموی تاریخ کے بارے میں لکھی گئی تمام نئی  عربی و اسلامی کتابیںآج کے مسائل کا حل پیش کر سکتی ہیں یا اگر کسی مصنّف کے مذہبی یا سیاسی رویہ کو پہلے ہی سے یہ پیشنگوئی کر سکتے ہیں کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے۔بلکہ اموی دور کی اہمیت مشرق وسطی کو اسلامی و عربی بنانا ہے۔!

اس معنی میں  یہ واضح ہے کہ عرب یا مسلمان (جو آج کی جدید دنیا میںاپنی شناخت کے پیچھے ہیں)اموی سلسلہ کی تاریخ میں اپنی شناخت کی تلاش کر رہے ہیں اور خاص طور پر اسلام اور عربی قومیت کے درمیان کسی  بھی طرح کی ممکنہ کشیدگی اموی تاریخ کے بارے میں نظریات پر اثرانداز ہو سکتی ہے۔

عربی قومیت کی نظر میں اموی سلسلہ کوپہلی عرب سلطنت قرار دیا جا سکتا ہے لیکن اسلامی روائی سنت میں امویوں کی عام طور پردشمنانہ تصویر پیش کی گئی ہے اور اگر شناخت کے مسئلہ میں اسلام کی  طرف دیکھا جائے تو عرب اپنے مسائل حل کر سکتے ہیں۔

 اگرشیعہ اپنی مخصوص شیعی نظر (یعنی تشیع کی روائی سنت سے اخذ کی جانے والی نظر) سے اموی تاریخ پر نگاہ کریں تویہ ایک کلی کشیدگی اور شاید پوشیدہ و مخفی کشیدگی بھی ہے اور اگرشامی قومیت  اورعام عربی قومیت کو حاشیہ میں رکھیں تو دونوں صورتوں میں ممکن ہے کہ یہ کشیدگی ظاہر ہو کر حقیقت کوزیادہ واضح طور پر بیان کرسکے۔([1])

 


[1] ۔ امویان؛نخستین ودمان حکومت گر در اسلام:١٤٦

 

منبع: معاویه ج 1 ص 34

 

بازدید : 979
بازديد امروز : 0
بازديد ديروز : 274398
بازديد کل : 151198361
بازديد کل : 106020034