امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
(۲) سقیفه کی کھوکھلی بنیادیں

(۲)

سقیفه کی کھوکھلی بنیادیں

«سقيفه» ایک سائبان تھا کہ جہاں انصار کبھی کبھار ایک دوسرے سے گفتگو اور بات چیت کرنے کے لئے بیٹھتے تھے۔رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کی رحلت کے بعد انصار کا ایک گروہ (جن کا سربراہ «سعد بن‏ عبادة» تھا) اس مقام پر جمع ہوا اور خلافت کی کرسی پر قبضہ کرنے اور زمام حکومت سنبھالنے کے لئے گفتگو کرنے لگے۔

یہ گفتگو عام مسلمانوں سے مخفیانہ طور پر انجام پائی نہ صرف بنی ہاشم اور مہاجرین کو ہی نہیں بلکہ سب انصار کو بھی اس کی اطلاع نہیں تھی۔ دوسرے دلائل سے قطع نظر کرتے ہوئے انہوں نے اس کام کے لئے ایک چھوٹی سی جگہ کا انتخاب کیا تھا کہ جو اس حقیقت کی بہترین دلیل ہے۔

سقیفہ یا سائبان بنی ساعدہ میں اکٹھے ہونے والے گروہ کا ہدف و مقصد یہ تھا کہ انصار کے سربراہ یعنی «سعد بن عبادة» کا حکومت کے لئے انتخاب کیا جائے اور دوسروں کو ڈرا دھمکا کر یا لالچ دے کر اپنے ساتھ کر لیا جائے اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خلافت و جانشینی آپ کے وصی و جانشین یعنی امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام سے غصب کر لی جائے۔

انصار و مہاجرین میں سے کثیر تعداد میں افراد لشكر «اُسامه» میں شامل تھے جو شہر مدینہ سے باہر تھے۔

رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم نے «اسامه» کو لشکر کی سربراہی کے لئے منتخب فرمایا تھا جو ایک بہادر و باایمان جوان تھے اور آپ نے ان کے لشکر کی خلاف ورزی کرنے والوں پر نفرین کی تھی۔

ابوبكر، عمر و ابوعبيده جرّاح اور قوم کے کچھ دوسرے بوڑھے افراد کہ جو ایک گروہ کی قیادت بھی نہیں کر سکتے تھے وہ بھی اسامه کے حکم کے تابع تھے۔

شہر مدینہ سے دور ہونے کی وجہ سے  لشکر اسامه کو رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کی شدت بیماری کی خبر نہیں تھی اور وہ لوگ یہ نہیں جانتے تھے کہ آنحضرت اپنی حیات کے آخری ایّام بسر کر رہے ہیں۔

«عائشه نے صہيب نام کے ایک شخص کو لشكر اسامه کی طرف بھیجا اور کہا:ابوبکر کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ پیغمبر کی حالت ایسی  ہے کہ اس میں بہتری آنے اور آپ کے صحتیاب ہونے کی کوئی امید نہیں ہے۔ عمر ،ابوعبيده  اور جو کوئی بھی تم لوگوں کے ساتھ آئیں انہیں لے کر جلدی سے میری طرف آؤ اور تم لوگ مدینہ میں رات کے وقت چھپ کر آؤ۔ صہیب نے ان تک یہ خبر پہنچائی۔ ابوبكر،عمر اور ابوعبيده رات کے وقت مدينه میں داخل ہوئے».(643)

  سوموار کے دن ظہر کے وقت رسول خداصلى الله عليه وآله وسلم کی رحلت ہوئی.(644)

اسی دن انصار اکٹھے ہوئے اور سعد بن عبادۃ کو سقیفہ بنی ساعدہ کی طرف لے گئے۔ جب عمر کو اس واقعہ کی خبر ہوئی تو اس نے ابوبکر کو بتایا اور ابوعبیدہ کے ساتھ جلدی سے سقیفہ پہنچے۔

سقیفہ میں انصار میں سے بہت سے لوگ جمع تھے کہ جن میں سعد بن عبادۃ بھی شامل تھا جب کہ وہ بیمار تھا۔ جب ابوبکر، عمر اور ابوعبیدہ وہاں پہنچے تو ان کے درمیان اختلاف شروع ہو گیا۔

انصار اپنے قبیلہ میں سے کسی شخص کو امیر بنانا چاہتے تھے جب کہ ابوبکر اور عمر کو اپنی ریاست کی فکر تھی۔

ابوبكر، عمر اور ابوعبيده میں سے ہر ایک نے اپنی باتوں سے حکومت کے حصول کی کوشش کی.

ان کے مقابلہ میں حباب بن منذر نے تقریر کی جو انصار میں سے تھا اور انہیں خبردار کیا: اس سے دستبردار ہو جاؤ اور اس جاہل( عمر) اور اس کے دوستوں کی باتیں نہ سنو۔ اپنا حق ضائع نہ کرو اور اگر انہوں نے قبول نہ کیا کہ ہم میں سے کوئی ایک شخص ان کا امیر ہو تو انہیں اپنے شہر سے نکال دو اور ان پر حکومت کرو.

اس دوران بشیر بن سعد نے تقریر کی جو انصار کے بزرگوں میں سے اور قبيلهٔ «اوس» کا سربراہ تھا۔ وہ ان لوگوں میں سے تھا جس نے ابوبکر، عمر اور کچھ دوسرے افراد کے ساتھ مل کر صحیفہ(قرارداد) پر دستخط کئے تھے کہ امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے حق خلافت کو غصب کریں۔

دو وجوہات کی بناء پر بشير بن سعد؛ ابوبكر اور عمر کی پشت پناہی کے لئے کھڑا ہوا:

   1 - وہ صحيفهٔ ملعونه پر دستخط کرنے والوں میں سے تھا جو غصب خلافت اور واقعۂ سقيفه کی بنیاد ہے۔

   2 - وہ قبيلهٔ «اوس» کا سربراہ تھا اور سعد بن عبادة قبيلهٔ «خزرج» کا سربراہ تھا اور زمانۂ جاہلیت میں ان دونوں قبیلوں کے درمیان جنگ تھی اور دونوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے خلاف بغض و کینہ تھا۔ جب بشير بن سعد نے دیکھا کہ انصار سعد بن عبادة کو منتخب کرنے کے لئے متفق ہو گئے ہیں تو اس میں حسد پیدا ہوا اور اس نے کوشش کی کہ کسی طرح یہ سب سعد بن عبادۃ کے برخلاف واقع ہو جائے.

ان دو اسباب کی وجہ سے اس نے اپنی باتوں سے انصار کو راضی کیا کہ ان کا میر قریش سے ہو.

ابوبكر نے کہا: عمر اور ابوعبيده قريش کے دو بوڑھے افراد ہیں تم ان میں سے جس کی چاہو بیعت کر لو۔ اور ان دونوں نے اس سے کہا:ہم یہ قبول نہیں کریں گے بلکہ تم اپنا ہاتھ آگے بڑھاؤ تا کہ ہم تمہاری بیعت کریں۔

اسی وقت بشير بن سعد نے موقع کو غنيمت سمجھا! اور کہا:میں تم لوگوں کے ساتھ تیسرا شخص ہوں! اور پھر انہوں نے ابوبکر کی بیعت کر لی!

  جب قبيلهٔ خزرج نے بشير بن سعد کے اس عمل کو دیکھا جو کہ ان میں سے بزرگ تھا اور انہوں نے دیکھا کہ اگر انہوں نے ابوبکر کی بیعت نہ کی تو قبيلهٔ «اوس» کے سربراہ سعد بن عبادۃ کو سربراہی مل جائے گی لہذا نہوں نے بھی ابوبکر کی بیعت کر لی اور وہاں اس قدر ہجوم ہو گیا کہ انہوں نے سعد بن عبادۃ کو پاؤں تلے روند ڈالا یہاں تک کہ اس نے چیخ کر کہا: تم لوگوں نے مجھے قتل کر دیا۔ عمر نے کہا: سعد کو قتل کر دو کہ خدا اسے قتل کرے۔

اسی وقت سعد کے بیٹے نے عمر کو ڈاڑھی سے پکڑا اور نزدیک تھا کہ وہاں مار پیٹ ہو جاتی لیکن ابوبکر نے عمر کو روکا۔ سعد نے اپنے قبیلہ کو حکم دیا: مجھے اس فتنہ کی جگہ سے لے چلو اور انہوں نے اسے اس کے گھر پہنچا دیا.(645)

1 - شوریٰ سقیفہ کی بناء پر جب تک خلیفہ معین نہیں ہوا تھا تب تک روئے زمین پر کوئی حجت نہیں تھی اور احاديث «لولا الحجّة» کی تکذیب وجود میں آئی کیونکہ شوریٰ سقیفہ نے ابوبکر کی خلافت کو ایجاد کیا اور اس پر دستخط کئے تھے نہ کہ اس کی خلافت کو کشف کیا تھا۔ کیونکہ ان کے قول کی بناء پر شوریٰ سقیفہ سے پہلے تک خدا اور پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی جانب سے کوئی بھی خلیفہ کے عنوان سے معین نہیں تھا اور یہ امر لوگوں پر چھوڑ دیا گیا تھا کہ وہ جسے چاہئیں پیغمبر کا خلیفہ قرار دے دیں۔

 2 - شوریٰ سقیفہ کی بناء پر اہلسنت کے عقیدہ کے مطابق ان چند دنوں تک لوگوں کا کوئی خلیفہ و رہبر نہیں تھا اور روايات «من مات ولم يعرف امام زمانه مات ميتة الجاهليّة»کی رو سے اس زمانے میں جو کوئی بھی مرا وہ جاہلیت کی موت مرا۔ کیونکہ احادیث کی بناء پر ہر زمانے میں امام موجود ہوتا ہے اور جو کوئی بھی اس زمانے میں ہو وہ اپنے وقت کے امام کو پہچانے ورنہ وہ جاہلیت کی موت مرا۔

   3 - واضح احاديث «من مات ولم يعرف ...» کی رو سے جو کوئی بھی اپنے امام کو نہ پہچانے وہ جاهليت کی موت مرا اور ان احادیث کے ظہور کی رو سے جو کوئی بھی زندہ ہو اور اپنے زمانے کے امام کو نہ پہچانے اس کی زندگی بالکل زمانۂ جاہلیت کے لوگوں کی زندگی کی طرح ہے اس بناء پر اہلسنت کے عقیدہ کے مطابق ان ایّام میں سب لوگوں حتی ابوبکر، عمر اور سقیفہ کا انعقاد کرنے والے سب لوگوں کی زندگی زمانۂ جاہلیت کے لوگوں کی زندگی کی مانند ہے۔

   4 – اس قول کا لازمہ یہ ہے کہ ان چند دنوں میں جب لوگوں پر جاہلیت حاکم تھی تو تب اسلام کی کوئی خبر نہیں تھی حالانکہ خدا نے واضح طور پر بیان فرمایا ہے ہے اسلام باقی رہے گا یہاں تک کہ «ليظهره على الدين كلّه».

   5 – دوسرا اشکال یہ ہے کہ جو لوگ ان چند دنوں تک زمانۂ جاہلیت کے لوگوں کی طرح تھے انہوں نے کس طرح اسلام اور مسلمانوں کے لئے خلیفہ معین کیا؟ کیا یہ خود ان کی جاہلیت کی دلیل نہیں ہے؟

اس بناء پر ان میں اس انتخاب کی قدرت و لیاقت نہیں تھی۔

   6 – فرض کریں کہ اگر انہیں اس کام کے لائق سمجھ بھی لیا جائے چونکہ ان ایّام میں ان کے بقول وہ سب زمانۂ جاہلیت کے لوگوں میں سے تھے، اور اگر وہ کسی کو معین کریں اورکسی شخص کا انتخاب کریں تو وہ زمانۂ جاہلیت میں حکومت کے لائق ہو گا نہ کہ اسلام اور مسلمانوں کے زمانے میں حکومت کے لائق ہو گا۔ کیونکہ اسے اسلام اور مسلمانوں کی کوئی خبر نہیں ہے لہذا عمر نے بارہا کہا تھا: « پشت پردہ موجود عورتیں عمر سے زیادہ اعلم ہیں» اور ابوبكر نے مكرّر یہ بات کہی: «أقليوني ولست بخيركم» «مجھے چھوڑ دو کہ میں تم میں سے بہترین نہیں ہوں ».

 

   7 – ابوبکر اور عمر کے اعترافات اور اس جیسی دوسری مثالیں سقیفہ میں رونما ہونے والی غلطی کی دلیل ہیں کیونکہ اگر سقیفہ میں حکومت کے لئے بہترین فرد کا انتخاب کیا گیا تو پھر ابوبكر نے کیوں یہ کہا: «أقيلوني ولست بخيركم»، کيا خليفهٔ الٰہى خلافت خدائى کو چھوڑ سکتا ہے.

   8 - (بحث کے اختتام پر نتیجہ):

فرض کریں کہ اگر امام اور خلیفہ کی شناخت میں تمام تر غلطیوں اور خامیوں کے باوجود بھی کچھ لوگ خلیفہ معین کر سکتے ہوں تو کیا عقل کی نظر میں یہ صحیح ہے کہ ہزار سال سے زیادہ عرصہ تک سب لوگ ان کے انتخاب کی پیروی کریں اور ان کی غلط راہ پر گامزن رہیں؟

کیونکہ اس بات کا خیال رہے کہ خلیفہ اور سلطان و بادشاہ معین کرنے میں کلی طور پر فرق ہے کیونکہ سلطان اور بادشاہ کے دستورات و احکام اس کی حکومت کے زمان و مکان تک محدود ہوتے ہیں لیکن خلیفہ جو احکام صادر کرتا ہے وہ سب لوگوں کے لئے ہوتے ہیں چاہے وہ اس کے زمانے میں ہوں یا اس کے زمانے کے بعد آئیں۔ کیا یہ صحیح ہے کہ کچھ لوگ جمع ہو کر تمام انسانوں اور نسلوں کی تقدیر میں دخل اندازی کریں؟ کیا اب بھی لوگ ابوبکر اور عمر کی بدعتوں اور انہوں نے جو کچھ شرعی حکم کے عنوان سے کہا؛ اس پر عمل کرتے رہیں؟!

   9 – کیا ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبروں میں سے کسی ایک نے بھی اپنے وصی کے انتخاب کا حق لوگوں کو سونپا ہے اور کیا انہوں نے خود کسی کو اپنے وصی کے عنوان سے منتخب کیا ہے؟ جب کہ گذشتہ تمام پیغمبروں کا زمانہ ان کی نبوت اور پیغمبری کے زمانے تک محدود تھا لیکن پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی نبوت کی خلافت منسوخ ہونے والی نہیں ہے بلکہ یہ قیامت تک جاری رہے گی۔

اس بناء پر اگر محدود زمانے کے لئے بھی لوگوں میں وصی کے انتخاب کی لیاقت و صلاحیت نہیں ہے چونکہ گذشتہ زمانے میں بھی پیغمبر اپنے جانشین کو معین کرتے رہے ہیں تو پھر کس طرح سے یہ کہا جا سکتا ہے ان لوگوں میں قیامت تک وصی کو معین کرنے کی لیاقت تھی۔

   10 – خلیفہ کو معین کرنے کی ذمہ داری حاکم کی ہے یا لوگوں کی؟

   اگر خلیفہ معین کرنے کی ذمہ داری لوگوں کی ہے تو پھر لوگوں کو عقل و بینش اور مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے اور ایک دوسرے سے مشورہ کرکے بہترین شخص کا انتخاب کرنا چاہئے؛ اگر یہ کام لوگوں کے ذمہ ہے اور یہ ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ خلیفہ معین کرنے کے لئے شوریٰ تشکیل دیں اور ایک دوسرے سے مشورہ کریں تو پھر ابوبکر نے اپنے بعد شوریٰ تشکیل دینے سے کیوں انکار کیا اور عمر کو اپنے خلیفہ کے عنوان سے معین کر دیا؟

اس بناء پر اگر خلیفہ معین کرنے کا حق شوریٰ کو ہے تو پھر ابوبکر نے عمر کو خلیفہ کے عنوان سے معین کرکے غلطی کی ہے اور اگر خلیفہ کو شوریٰ اور لوگوں کی مشاورت سے معین نہیں کیا جا سکتا بلکہ سابقہ حاکم کو یہ اختیار ہے کہ وہ خلیفہ معین کرے تو پھر رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کو اپنا خليفه معین کرنا چاہئے نہ کہ شوریٰ سقيفه کو.

    11 - کیا شوریٰ میں شرکت کرنے والے افراد کی کوئی خاص تعداد ہونی چاہئے یا سب لوگوں کو شوریٰ میں شرکت کرنی چاہئے؟ اگر سب لوگوں کا شوریٰ میں شریک ہونا ضروری ہے لیکن سقیفہ میں ایسا نہیں ہوا اور نہ صرف مختلف شہروں کے لوگوں اور مدینہ کے علاوہ دوسرے مقامات کے لوگوں کو اس کا علم نہیں تھا بلکہ خود مدینہ کے لوگ بھی شوریٰ کے تشکیل پانے سے بے خبر تھے۔ اور اگر کچھ خاص افراد شوریٰ تشکیل دیں تو پھر ان خاص افراد کو کون معین کر سکتا ہے خدا یا لوگ؟ دونوں صورتوں میں سقیفہ میں شرکت کرنے والے افراد کو نہ تو خدا نے اس کام کے کے لئے معین کیا تھا اور نہ کئی لاکھ مسلمانوں نے معین کیا تھا کہ جو مختلف شہروں اور دیہاتوں میں زندگی بسر کر رہے تھے۔ اس بناء پر آزاد انسان کس طرح کسی ایسی شوریٰ کی پیروی کر سکتے ہیں؟

   كتاب «تاريخ اسلام و عرب» میں «گوستاولوبون» کے اعداد و شمار کے مطابق رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کی رحلت کے وقت مکہ ومدینہ اور مختلف شہروں اور دیہاتوں سے تقریباً ستر لاکھ مسلمان زندگی گزار رہے تھے۔ اس زمانے میں نقل و حرکت اور رفت و آمد کے وسائل کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا ابوبکر نے ان سب سے رابطہ کیا تھا اور کیا ابوبکر ستر لاکھ مسلمانوں کا نمائندہ تھا؟ کس طرح ستر لاکھ مسلمان «سقيفه بنى ساعده» کے نام سے ایک سائبان تلے مشاورت کے لئے ایک ساتھ بیٹھ گئے؟! کیا ایک سائبان میں اتنی گنجائش ہے کہ اس کے نیچے اتنے لوگ بیٹھ سکیں؟!

اس نکتہ کی جانب توجہ کریں کہ اہلسنت کے سب علماء یہ بات قبول کرتے ہیں کہ ابوبکر کو خلافت کے لئے منتخب کرنے کا عمل سقیفہ میں انجام پایا اور وہیں کچھ لوگوں نے اس کی بیعت کی۔  سقیفہ میں اس کا انتخاب کرنے والوں اور وہاں اس کی بیعت کرنے والوں کی تعداد کتنی تھی؟

قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ اس سائبان تلے موجود کچھ لوگ ابوبکر کی خلافت کے خلاف کھڑے ہو گئے تھے۔ وہ سعد بن عبادۃ اور اس کے کچھ طرفدار تھے کہ جنہیں سعد کی حکومت کا خیال تھا۔

اب غور کریں کہ ابوبکر کی بیعت کے مخالفین اور موافقین کی تعداد کتنی تھی جو اس سائبان میں جمع ہوئے تھے؟!

   12 - مکتب وحی کے پیروکاروں نے اپنی اور اہلسنت کی کتابوں سے حضرت علی بن ابیطالب علیہما السلام کی خلافت کے اثبات کے لئے متقن اور فراوان دلائل ذکر کئے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی پیروی کا حکم دیا ہے۔ اگر شوریٰ حقیقت ہے اور ایک دینی مسئلہ ہے تو پھر کیوں پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایک بار بھی اپنے بعد خلیفہ معین کرنے کے لئے لوگوں کو شوریٰ کی تاکید نہی فرمائی؟ کیوں سقیفہ میں جمع ہونے والے افراد جیسے سعد بن عبادۃ اور اس کے طرفدار، اور ابوبکر و عمر اور ان کے طرفداروں نے شوریٰ کے مسئلہ کے بارے میں ایک مرتبہ بھی پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی سفارشات کی طرف اشارہ نہیں کیا؟

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اوصیاء علیہم السلام کی تعداد کے بارے میں سینکڑوں احادیث و روایات ہیں کہ وہ بارہ افراد ہیں۔ ان میں سے متعدد روایات کو اہلسنت کے بزرگوں نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے۔ پس یہ کس طرح شوریٰ کے ساتھ سازگار ہے؟

   13 – دیگر اشكال:

اگر شوریٰ عام آراء کی بنیاد پر تھی اور اس میں حزب اور گروہ بندی کا عنصر کارفرما نہیں تھا اور کوئی خاص گروہ مخصوص اہداف کے تحت اسے وجود میں نہیں لایا تو پھر پہلے سے عام اعلان کے بغیر سقیفۂ بنی ساعدہ میں ہی اس شوریٰ کو کیوں تشکیل دیا گیا؟ مسجد نبوی میں اس کا انعقاد کیوں نہیں کیا گیا تا کہ عام لوگ بھی اس میں شرکت کر سکتے؟ کیا عام لوگوں کو آگاہ کئے بغیر سقیفۂ بنی ساعدہ میں شوریٰ تشکیل دینا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ اس زمانے کے عام مسلمانوں کے اس کے انعقاد کی کوئی خبر نہیں تھی؟ کیا عام مسلمان ایک چھوٹی سی جگہ میں سما سکتے تھے؟!

سقیفہ میں انصار کے جمع ہونے سے پہلے مہاجرین اور بنی ہاشم کو شوریٰ تشکیل دینے کی اطلاع کیوں نہیں دی گئی؟!

جب ابوبکر اور عمر کو سقیفہ میں انصار کے جمع ہونے کی خبر ہوئی تو انہوں نے بنی ہاشم اور تمام مہاجرین کو اس سے مطلع کیوں نہیں کیا؟  کیا ایسے کسی اجتماع کو عام انتخابات اور تمام لوگوں کے عقیدہ اور رائے کا احترام سمجھا جا سکتا ہے؟

آپ کی نظر میں کیا سقیفہ کے واقعہ میں سب لوگوں کو مطلع کیا گیا اور کیا یہ سب لوگوں کی رائے کی بنیاد پر تھا یا یہ حزب، گرہ بندہ اور مخصوص افراد تک محدود تھا؟

   14 - دیگر اشكال:

کیا ایسی شوریٰ تشکیل دینا لازم تھا کیونکہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اپنی زندگی کے آخری ایّام میں ابوبکر، عمر اور دوسرے افراد کو اسامہ کی سربراہی میں جنگ کے لئے بھیجا تھا؟ اور اگر (اہلسنت کے عقیدہ کے مطابق) پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات کے آخری ایّام میں شوریٰ تشکیل دینے کے لئے ایسے افراد کا مدینہ میں ہونا ضروری تھا تو پھر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی یہ کوشش کیوں تھی کہ یہ لوگ مدینہ میں نہ ہوں؟ کیا ان کی مخالفت، گناہ و عصیان اور مدینہ کی طرف ان کا واپس پلٹ آنا ان کے مخفی منصوبوں کی دلیل نہیں ہے؟

اگر ابوبكر اور عمر دوسروں سے برتر تھے تو پھر رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم نے اسامه کو کیوں لشکر کا سربراہ بنایا؟ آپ نے لشکر اسامہ کی خلاف ورزی کرنے والوں پر نفرین کیوں کی؟ ان لوگوں نے کیوں خلاف وری کی اور لشکر اسامہ کو چھوڑ دیا؟

   15 - اگر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے حکم یا اشارہ یا کم سے کم آپ کی رضائیت سے شوریٰ تشکیل دی گئی تو پھر پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی حیات میں یا آنحضرت کی زندگی کے آخری ایّام میں کیوں شوریٰ تشکیل نہیں دی گئی؟ بلکہ اس کے برخلاف پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی راہنمائی کے خلاف کھڑے ہو گئے اور «إنّ الرجل ليهجر» کہہ کر اپنے باطنی عقیدہ کو آشکار کر دیا بلکہ انہوں نے صرف رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت تک کا صبر کیا تا کہ انہیں آنحضرت کی مخالفت کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ کیا ان کا رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت تک تأخیر کرنا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ لوگ جانتے تھے کہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کسی بھی ایسی شوریٰ کو تشکیل دینے کی مخالفت کریں گے؟

   16 - کیا شوریٰ میں شریک ہونا اور خلیفہ معین کرنا سب مسلمانوں کا دینی فریضہ تھا تو پھر سب کو اس میں شریک ہونا چاہئے تھا، یا اس میں مخصوص افراد شریک ہوئے کہ جو طاقت کے حصول کے لئے کوشاں تھے اور یہ صرف ایک سیاسی مسئلہ تھا کہ جس  کا تعلق طاقت و قدرت طلبی سے تھا؟

اگر یہ سب مسلمانوں کا دینی و مذہبی فریضہ تھا تو پھر کیوں کوئی ایک مسلمان عورت بھی سقیفہ میں شریک نہیں ہوئی؟! کیا غدیر کے دن جب رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم غدیر خم کے مقام پر پہنچے تھے تو آپ نے یہ حکم نہیں دیا تھا کہ آگے چلے جانے والے تمام مردوں اور عورتوں کو واپس بلاؤ؟ کیا غدیر کے دن عورتوں نے بھی امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی بیعت نہیں کی تھی؟ کیا ان عورتوں نے پانی کے اس ظرف میں اپنے ہاتھ رکھ کر بیعت نہیں کی تھی کہ جس میں حضرت علی علیہ السلام نے بھی اپنا ہاتھ رکھا تھا اور یوں انہوں نے بھی مسلمان مردوں کی طرحٖ امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی خلافت و امامت کو قبول نہیں کیا تھا؟ کیوں سقیفہ میں ایک بھی عورت موجود نہیں تھی؟

اگر عورتوں کو خلیفہ معین کرنے اور شوریٰ میں شریک ہونے کا کوئی حق نہیں ہے تو کیا انہیں خلیفۂ خدا کے ساتھ جنگ کرنے کا حق ہے؟ کیوں عائشہ نے جنگ جمل میں بارہ ہزار مسلمانوں کو موت کے منہ میں دھکیل دیا اور خود شرمندگی سے سر جھکائے مدینہ واپس چلی آئی؟

   17 – بڑھاپا اور رشتہ داری!

انہوں نے جو کچھ کہا اور جو کچھ انجام دیا صرف وہی سقیفہ کے مدعا کے باطل ہونے پر دلالت نہیں کرتے بلکہ انہوں نے جو کچھ نہیں کہا اور جس چیز کا اظہار نہیں کیا وہ بھی شوریٰ سقیفہ کے بطلان کی دلیل ہے۔ کیونکہ شوریٰ سقیفہ جو کہ برترین انسان! کے انتخاب کے لئے تشکیل پائی تھی اس میں عقلی لحاظ سے برترین انسان کی صفات کو آشکار کرنا چاہئے تھا اور ان صفات کا اظہار کرنا چاہئے تھا لیکن انسانی و اسلامی امور جیسے شہامت، شجاعت، اسلام لانے میں سب پر سبقت وغیرہ میں سے کوئی صفت بھی بیان نہیں کی گئی۔

یہ خود ایک دوسری دلیل ہے کہ انہوں نے خلفاء کی حکومت میں ان کے فضائل اور برجستہ صفات کے بارے میں جو کچھ کہا وہ جعلی اور خود ساختہ تھے (646)؛ کیونکہ اگر وہ برجستہ صفات کے مالک ہوتے تو پھر انہوں نے سقیفہ میں کیوں ان سے استدلال نہیں کیا صرف «بڑھاپے اور رشتہ داری » کے مسئلہ کو بیان کیا گیا۔ حالانکہ نہ تو صرف رشتہ داری برتری کا موجب بن سکتی ہے اور نہ بڑھاپا۔ ورنہ ابوبکر کا باپ اس سے زیادہ بوڑھا تھا تو پھر اسے خلیفہ ہونا چاہئے تھا جیسا کہ خود اس نے کہا:« اگر سن رسیدہ ہونا خلیفہ بننے کا معیار ہے تو پھر میں اس سے برا ہوں اور خلافت کا زیادہ مستحق ہوں ».

ان سب چیزوں سے قطع نظر کرتے ہو اگر ضعیف العمری خلافت الٰہی اور عوامی خلافت کا معیار ہے تو پھر ابوبکرکے بعد بھی یہی معیار ہونا چاہئے تھا۔ پس پھر ابوبکر نے کیوں عمر کا انتخاب کیا؟

اگر ابوبکر کی پيغمبر اكرم ‏صلى الله عليه وآله وسلم سے رشتہ داری ابوبکر کے لئے طہارت، معنوی تطہیر اور روحانی اہمیت کا باعث ہے تو پھر پيغمبر اكرم ‏صلى الله عليه وآله وسلم نے کیوں سدّ ابواب کے واقعہ میں حکم دیا کہ مسجد میں کھلنے والے اس کے گھر کے دروازہ کو بند کر دیا جائے۔

کیا یہ اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ وہ اور اس جیسے دوسرے افراد اس آيهٔ شريفه: «إِنَّما يُريدُ اللَّه لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهيراً»(647) میں شامل نہیں ہیں.

سدّ باب کے متعلق کثیر اسناد کے لئے ملاحظہ فرمائیں: نظريات الخليفتين: ج 1 ص 20 حوالہ جات اور ص 21.

کیا مسجد مین امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے گھر کا دروازہ کھلا رہنا اور ابوبکر و عمر کے گھر کے دروازوں کو بند کر دینا امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی روحانی پاکیزگی اور طہارت کی دلیل نہیں ہے؟

یقین جانئیے کہ اس تحریر کا غور سے مطالعہ کرنے سے آپ کے ذہن میں اہم افکار وجود میں آئیں گے۔ عقلی اور انسانی لحاظ سے آپ کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ اس کو اہمیت دیں اور حقیقت تک پہنچنے کی جستجو کریں۔

اور اس بات پر توجہ کریں کہ اندھی تقلید، تعصب،گذشتگان کے غلط افکار و عقائد کا نشہ زمانۂ جاہلیت کے لوگوں کی خصوصیت میں سے ہے لہذا اس سے سختی سے پرہیز کریں اور اس روش کے مطابق اپنی اور اپنے دوستوں کی زندگی کو حقیقت کے انوار سے منور کرتے ہوئے پرثمر بنائیں۔

  سدّ باب کی اسناد

   ہم سدّ باب کے مسئلہ کے بارے میں بحث کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ اس کی اسناد تک رسائی کے لئے مندرجہ ذیل مآخذ کی طرف رجوع فرمائیں:

   سنن ترمذى: 641 640 639/5، مسند احمد: 369  26/2175/1، فتح البارى: 14 - 12/7، مستدرك حاكم: 134 125 117/3، كنزالعمّال: 155 120 101 96/15، خصائص النسائى: 75 - 72، إرشاد الساري: 85 - 84/6، وفاء الوفاء السمهودي: 480 - 474/2، الصواعق المحرقة:125 122 121، حلية الأولياء: 153/4، اللآلى المصنوعة: 354 - 346/1، أنساب الأشراف: 106/2، تاريخ بغداد: 205/7، المناقب الخوارزمي:238 235 214، ترجمة الإمام علي عليه السلام( من تاريخ ابن عساكر تحقيق محمودي: 327 281 - 252/1، علل الشرائع: 202 201، ينابيع المودّة: 283،لسان الميزان: 165/4، مناقب الإمام علي عليه السلام( ابن الغزالي: 261 - 252، الإصابة: 509/2، تذكرة الخواصّ: 41، منتخب كنز العمال در حاشيه مسندأحمد: 29/5، سنن البيهقى الكبرى: 243/2، احكام القرآن: 248/2، السيرة الحلبيّة: 374 373/3، ذخائر العقبى 87 77 76، شرح نهج البلاغة:195/9، نزل الأبرار: 35 34 از نظريّات الخليفتين: 20/1.

   18 - حديث ثقلين اور سقيفه

سقیفہ کے بارے میں ایک اور بہت اہم نکتہ ہے کہ سقیفہ میں پيغمبر اكرم‏ صلى الله عليه وآله وسلم کے واضح اور صریح فرامین کی مخالفت کی گئی ہے کیونکہ تمام مسلمان رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اس حدیث پر متفق ہیں اور شیعہ و سنی علماء نے اسے اپنی کتابوں میں بیان ہے اور وہ حدیث ثقلین ہے۔ پيغمبر اكرم‏ صلى الله عليه وآله وسلم کی یہ حدیث دنیا کے تمام مسلمانوں کے لئے ہے کہ قرآن اور اہلبیت علیہم السلام کی طرف رجوع کیا جائے۔

حديث ثقلين(650) بہت معروف اور متواتر احادیث میں سے ہے اور کثرت روایت کی وجہ سے اس کی سند کا تجزیہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے اور روایات میں یہ مختلف تعبیرات سے وارد ہوئی ہے کہ جس پر شیعہ و سنّی علماء کا اتفاق ہے۔

پيغمبر اكرم‏ صلى الله عليه وآله وسلم نے فرمایا: میں تم میں جو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں؛ كتاب خدا اور اپنی اہلبیت.

یہاں حقیقت کی جستجو کرنے والے افراد کہ جو قومی و قبائلی اعتقادات کی وجہ سے باطل کی طرف گامزن نہیں ہونا چاہتے، ان سے میرا یہ سوال ہے کہ کیا سقیفہ میں جمع ہونے والوں نے پيغمبر اكرم‏ صلى الله عليه وآله وسلم کی اس حدیث یعنی حدیث ثقلین( جس پر شیعہ و سنّی علماء متفق ہیں)پر عمل کیا؟ یا انہوں نے اس کی مخالفت کی اور اسے پامال کیا؟

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی اہلبیت میں سے کون سے افراد سقیفہ میں شریک ہوئے تھے؟ کیا یہ لوگ اہلبیت پيغمبر اكرم‏ صلى الله عليه وآله وسلم کے احترام و اکرام کے لئے ثقیفہ میں شریک ہوئے؟ کیا ان کے گھر پر حملہ کرنا، ان کے گھر کو جلانا، حضرت فاطمہ علیہا السلام کو طمانچہ اور تازیانہ مارنا(۶۵۱)، حضرت علی بن ابیطالب علیہما السلام کے گلے میں رسی باندھنا، حضرت محسن علیہ السلام کو شہید کرنا ( کہ ان تمام چیزوں کی بنیاد سقیفہ میں رکھی گئی تھی)خاندان پيغمبر اكرم‏ صلى الله عليه وآله وسلم کا احترام تھا؟ اگر یہ امور کسی کا حترام ہے تو پھر بے احترامی کیا ہو گی؟

سقیفہ میں شرکت کرنے کے نتیجہ کو مدنظر رکھتے ہو (جس کا مقصد صرف پيغمبر اكرم‏ صلى الله عليه وآله وسلم کے خاندان کی بے احترامی اور ان کو اذیت دینا تھا) کس طرح سقیفہ میں سقیفہ نشینوں کی ان بدکاریوں اور برے اعمال  کو حدیث ثقلین کے تابع سمجھا جا سکتا ہے؟!

 

   19 - تمام مسلمانوں  کے صحیح اعتقاد کی بناء پر قرآن عظیم القدر کتاب ہے کہ جس میں اہم حیاتی و علمی مسائل مختصر الفاظ، رموز اور اشارات میں بیان ہوئے ہیں۔

قرآن مجید کے معارف و اسرار تک رسائی صرف انہی ہستیوں کے دامن سے وابستہ ہو کر حاصل کی جا سکتی ہے جو اس کے حقیقی و واقعی عالم ہیں یعنی پيغمبر اكرم‏ صلى الله عليه وآله وسلم اور آپ کی اہلبیت اطہار علیہم السلام۔ ورنہ قرآن کے اسرار و رموز کی پیچیدگی سے لوگوں کے لئے راہ مسدود ہو جائے کہ جو قرآن کے علوم و معارف سے ناآشنا ہیں۔

پيغمبر اكرم‏ صلى الله عليه وآله وسلم نے قرآن کے معارف و حقائق سے آشنائی کے لئے لوگوں کو قرآن و عترت کے دامن سے وابستہ ہونے کا حکم دیا ہے اور آپ نے حدیث ثقلین( جسے شیعہ اور اہلسنت نے متواتر سند سے نقل کیا ہے) میں دنیا کے تمام لوگوں سے بیان فرمایا: قیامت تک قرآن و عترت ایک دوسرے سے پیوستہ ہیں۔

اس بیان کی رو سے اگر کوئی ان دونوں میں جدائی ڈالے اور پيغمبر اكرم‏ صلى الله عليه وآله وسلم کی اہلبیت علیہم السلام کو چھوڑ دے تو وہ قرآن کے عظیم معنوی آثار اور اعلٰی معارف سے بہرہ مند نہیں ہو سکتا۔ صرف سلمان اور جابر جیسی ہستیاں ہی مکتب اہلبیت علیہم السلام کی کامل پیروی سے قرآن کے اسرار سے آگاہ ہو سکتی ہیں۔

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے: سقیفہ میں جو منصوبہ بنایا گیا اس کی رو سے قرآن و عترت میں جدائی کی بنیاد رکھی گئی کیا یہ تمام انسانوں پر سب سے بڑا ظلم و ستم نہیں ہے؟

کیا جن افراد نے سقیفہ میں لوگوں کو خلافت و رہبری  کے لئے جمع کیا تھا اور جنہوں نے ابوبکر کو خلیفہ کے عنوان سے منتخب کیا وہ لوگ یہ نہیں جانتے تھے کہ معارف قرآن کے سلسلہ میں وہ لوگ بھی دوسروں کی طرح ہیں اور ان کے انتخاب سے در اہلبیت پيغمبر اكرم‏ صلى الله عليه وآله وسلم بند ہو جائے گا کہ جن کے ساتھ قرآن ہمیشہ پیوستہ ہے؟

ہم جانتے ہیں کہ قرآن دنیا کے تمام لوگوں کے لئے علمی منشور ہے اس بناء پر مسلمانوں کا خلیفہ اس شخص کو ہونا چاہئے جو قرآن کے ظاہر و باطن سے مکمل طور پر آشنا ہو ورنہ وہ لوگوں کے لئے اس کلام کو کیسے بیان کر سکتا ہے جو خود خدا کی تعبیر میں ثقیل قول اور سنگین کلام ہے: «إِنّا سَنُلْقي عَلَيْكَ قَوْلاً ثَقيلاً»(652) اور پھر کیسے اس پر عمل کر سکتا ہے.

   کیا ابوبکر کو قرآن کی بحار انوار سے آشنائی تھی؟ اگر وہ اس سے آشنا تھا تو کیوں کبھی اس نے اس کا اظہار نہیں کیا اور کیوں وہ قرآنی کلمات کی توضیح میں حیران و سرگردان ہو جاتا تھا؟ اور کیوں لوگوں کے کثیر سوالات کے سامنے بے بس ہو کر انہیں امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی طرف روانہ کر دیتا تھا؟

گذشتہ بیانات کی رو سے ہم یہ کہنا چاہتے ہیں:

سقیفہ میں بنائے گئے منصوبہ سے لوگوں کو مکتب امیر المؤمنین علی علیہ السلام سے دور کیا گیا۔ کیا ابوبکر کو منتخب کر کے اور «حسبنا كتاب اللَّه» کہہ کر لوگوں کے لئے قرآن کو عترت سے جدا نہیں کیا گیا؟

 کيا خليفه خدا اور جانشين پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم کو بھی خود پيغمبر اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کی طرح قرآن مجید کے اسرار و رموز سے آشنا نہیں ہونا چہائے؟ کیا پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم کی جانشین لوگوں کی دینی قیادت و رہبری نہیں ہے؟ کیا اپنی دینی و آسمانی کتاب سے آشنا نہیں ہونا چاہئے؟

   20 - جو لوگ سقیفہ میں جمع ہوئے کیا وہ لوگ دینی و مذہبی فریضہ کی بنیاد پر وہاں جمع ہوئے تھے یا لوگوں پر حکومت کرنے کی نیت سے؟  اگر دوسری صورت کو قبول کریں تو آپ نے ان کی محکومیت پر دستخط کر دیئے۔ لیکن اگر کوئی یہ کہے کہ وہ لوگ سقیفہ میں دینی و مذہبی ذمہ داری کی بنیاد پر خلیفہ معین کرنے کے لئے جمع ہوئے تھے تو پھر ان سے ہمارا یہ سوال ہے:

اگر خلیفہ اور رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کے وصی کو معین کرنا دینی احکامت کا جزء تھا اور خود پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم نے اسے بیان اور معین نہیں فرمایا جیسا کہ اہلسنت اس بات کے قائل ہیں تو پھر اس کا نتیجہ یہ ہے کہ پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم نے دین کے تمام احکامات کو بیان نہیں کیا جب کہ قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے:

«اَلْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتى».(653)

اس دن (یعنی عيد غدير کا دن اور امير المؤمنین حضرت على ‏عليه السلام کو وصی کے عنوان سے معین کرنے کا دن) ہم نے اپنے دين کو تمہارے لئے کامل کر دیا اور تمہارے لئے اپنی نعمتوں کو تمام کر دیا ۔

اس بیان سے یہ واضح و روشن ہو جاتا ہے کہ وصىّ رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کو معین کرنا ایک مذہبی و دینی حکم ہے جسے پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم  نے خود انجام دیا ہے۔

اس گفتگو کا نتیجہ یہ ہے کہ سقیفہ میں اجتماع صرف خلیفہ معین کرنے کے لئے نہیں تھا بلکہ اس کا مقصد رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کے فرامین و احکامات اور آپ کے حقیقی جانشین یعنی امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی مخالفت تھی.

   21 – ایک دوسرا بہت اہم نکتہ یہ ہے کہ اگر فرض کر بھی لیں کہ پيغمبر اكرم‏ صلى الله عليه وآله وسلم اپنا جانشين مقرر نہیں فرمایا تھا اور اس کا انتخاب لوگوں پر چھوڑ دیا تھا تا کہ مسلمان ایک دوسرے سے مشاورت کرکے حقیقی و واقعی جانشین کا انتخاب کریں جو حکومت الٰہی کا مستحق ہو۔

اگر ہم فرض کر لیں اور اس تصور کو مان بھی لین تو یہ سوال پیدا ہوتا ہے:کیا پيغمبر اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے یہ کام سب لوگوں کے ذمہ لگایا تھا یا یہ کام سقیفہ میں جمع ہونے والے ایک خاص گروہ کے سپرد کیا تھا؟

ان دونوں صورتوں میں سے جس کا بھی ادعا کیا جائے اخبار و روایات نبوی میں ان کے بارے میں کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ اس پر ایک اور اشکال و اعتراض بھی ہوتا ہے کہ اگر پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم نے سب لوگوں کو اس کام کا حکم دیا تھا تو پھر بنی ہاشم کے بزرگوں اور عام مسلمانوں نے اس میں شرکت کیوں نہیں کی اور ثانیاً اگر مان بھی لیا جائے کہ پيغمبر اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کی جانب سے ایسا حکم دیا گیا تھا تو پھر اس زمانے میں مختلف اسلامی ممالک، شہروں اور دیہاتوں میں  بسنے والے تقریباً ستر لاکھ مسلمانوں کو کیسے اس بات سے مطلع کیا گیاجب کہ اس زمانے میں آج کی طرح کی جدید سہولیات بھی مہیا نہیں تھیں اور کس طرح ان سب لوگوں کے تین چار دن کی مدت میں ابوبکر کر اپنا ووٹ دے دیا؟!

کیا یہ معقول ہے کہ ستر لاکھ مسلمان مختصر سی مدت میں ابوبکر کو ووٹ دے دیں جب کہ افراد کی رائے میں کوئی اختلاف بھی نہ ہوا ہو اور کسی اور کو بھی کوئی ووٹ نہ دیا ہو۔

پس اگر اس زمانے کی سہولیات کو مدنظر رکھیں تو یہ ممکن ہی نہیں ہے ستر لاکھ مسلمان انتخابات میں شریک ہوئے ہوں اور یہ محال ہے کہ مختصر مدت میں سب نے ابوبکر کو منتخب کرنے کے لئے کسی اختلاف کے بغیر ابوبکر کو اپنا ووٹ دیا ہو!

اگر دوسری صورت کو قبول کریں اس فریضہ کو ادا کرنے کے لئے پيغمبر اکرم صلى الله عليه وآله وسلم کی جانب سے کچھ خاص افراد کو منتخب کیا گیا تھا  اور سب کا انتخابات میں شریک ہونا ضروری نہیں تھا!! تو اس صورت میں ہمارا یہ کہنا ہے کہ:

اب تک کسی نے بھی اس چیز کا دعویٰ نہیں کیا اور اس پر کسی طرح کی کوئی دلیل بھی نہیں ہے اور جب اسامہ اور تمام انصار نے ابوبکر کے انتخاب کی مخالفت کی تو انہوں نے کیوں اس بات کو تاریخ میں ذکر نہیں کیا۔

کیا یہ خود اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ایک موقع پرست گروہ نے ایک دوسرے سے اتحاد کرتے ہوئے خلافت کی کرسی پر قبضہ جما لیا اور دنیا بھر کے مسلمانوں کو اب تک اسلام کی حقیقی حکومت سے محروم کر دیا ہے؟!

    22 - ہر گروہ کو اس کے اعمال و کردار سے پہچانا جا سکتا ہے اور ان کے چہرے سے نقاب کو پلٹا جا سکتا ہے۔

جو لوگ سفینۂ ولایت کو چھوڑ کر سقیفہ میں بیٹھ گئے اور ایک دوسرے سے ساز باز کرکے دین کے ارمانوں کا خون کر دیا، کیا وہ لوگ مسلمانوں کے رہبر ہو سکتے ہیں؟!

اگر سب لوگ تھوڑا سا غور و فکر کریں اور موروثی تعصب کو ترک کر دیں تو ان لوگوں کو آسانی سے اہل سقیفہ کے کرتوتوں کا علم ہو جائے گا اور وہ ان کے اہداف و مقاصد سے بھی آشنا ہو جائیں گے۔

بے شمار سیاسی جماعتیں اور حکومت طلب گروہ اپنے مقاصد کے حصول کے لئے ابتداء میں لوگوں کے احساسات کا خیال کرتے ہیں اور ایک ہی دفعہ اپنے ان اہداف کو آشکار نہیں کر دیتے کہ جو لوگوں کے احساسات سے سازگار نہیں ہوتے بلکہ آہستہ آہستہ لوگوں کو اپنے افکار کی طرف مائل کرتے ہیں۔ لیکن سقیفہ میں سقیفہ نشینوں پر قدرت و طاقت اور حکومت طلبی کا ایسا نشہ طاری تھا کہ انہوں نے ابتداء سے ہی اپنے اہداف و مقاصد سے پردہ ہٹا دیا اور آغاز سے ہی پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم اور اہلبیت اطہار علیہم السلام کی مخالفت میں کھڑے ہو گئے۔

   23 - اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ ایسی بے شمار روایات ہیں جو امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی خلافت پر دلالت کرتی ہیں کہ جنہیں صرف شیعوں نے ہی نہیں بلکہ اہلسنت نے بھی اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے جیسے حدیث گدیر، حدیث منزلت اور اسی طرح دیگر احادیث۔

اگر ان روایات کو مدنظر رکھا جائے کہ جن کی رو سے امیر المؤمنین علی علیہ السلام کا امامت و خلافت کے عنوان سے انتخاب ہوا اور پھر آپ کو چھوڑ کر کسی دوسرے کا انتخاب کر لیا جائے تو یہ خدا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے واضح و صریح حکم کی مخالفت ہے کیونکہ خداوند کریم نے قرآن مجید میں اس کی واضح طور پر نفی کی ہے اور اسے آشکار گمراہی و صلالت سے تعبیر کیا ہے اور خدا نے فرمایا ہے:

«وما كان لمؤمن ولامؤمنة إذا قضى اللَّه ورسوله امراً أن يكون لهم الخيرة من أمرهم، ومن يعص اللَّه ورسوله فقد ضلّ ضلالاً مبيناً».(654)

پيغمبر اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے ابتدائے رسالت سے آخر تک بارہا امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی امامت و خلافت کو معین فرمایا اور بارہا اس کی تاکید کی  اور اسے الٰہی حکم قرار دیا۔ اب کس طرح ایک چھوٹا سا گروہ خدا کے انتخاب و اختیار کی مخالفت کر سکتا ہے اور شوریٰ و سقیفہ کے نام پر کس طرح خدا کے منتخب کردہ خلیفہ کی بجائے کسی اور کا انتخاب کر سکتا ہے؟!

کيا یہ عمل آشکار گمراہی و ضلالت نہیں ہے؟!

کیا یہ خدا کی معصيت و نافرمانى نہیں ہے؟!

کیا خدا کے فرمان کی نافرمانی کرنے والوں اور خدا کی معصیت کرنے والوں کی پیروی کرنا آشکار گمراہی و ضلالت نہیں ہے؟ 

کیا ہماری یہ ذمہ داری نہیں ہے کہ خدا کے غضب میں مبتلا افراد اور گمراہ کرنے والے لوگوں سے دوری اختیار کی جائے؟ کیونکہ ہم ہر دن نماز میں بارہا پڑھتے ہیں«غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِم وَلَا الضَّالّينَ»(655)؟

    24 - اہلسنت کے پاس اپنے عقیدہ کی حقانیت کے بارے میں سقیفہ کے سوا کوئی دلیل نہیں ہے اور جب قوی برہان و استدلال سے سقیفہ کی بنیادیں بھی کھوکھلی ہو جائیں تو پھر ان کے پاس اپنے عقیدہ کے صحیح ہونے کی کوئی دلیل باقی نہیں رہے اور پھر ان کی تمام باتیں بے سر و پا ہوں گی۔

اس بناء پر ہم حقیقت کو آشکار اور نمایاں کرنے کے لئے سقیفہ کے مسئلہ کا تجزیہ کو تحلیل کرتے ہیں اور تمام پاک سرشت لوگوں سے ہمارا یہی تقاضا ہے کہ تعصب، تنگ نظری اور اپنے قبائلی و قومی افکار سے قطع نظر کرتے ہوئے اپنے ضمیر و وجدان سے واقعۂ سقیفہ کا تجزیہ کریں اور صرف اندھی تقلید پر ہی بھروسہ نہ کریں بلکہ آنکھیں کھول کر محکم عقلی دلائل کو ملاحظہ کریں اور اپنے وجود کے عظیم سرمایہ کو ویران کرنے والے سیلاب کی موجوں سے دور کریں۔

   25 – سقیفہ میں رونما ہونے والے واقعات کے بطلان کے اہم دلالئل میں سے ایک اہم دلیل وہ سخن ہیں جو ابوبکر و عمر نے اپنی مدت خلافت اور بالخصوص اپنے آخری ایّام میں کہے اور اپنے اعمال و کردار پر ندامت و پشیمانی کا اظہار کیا۔

انہوں نے بطور مکرر اپنے کردار پر پشیمان کا اظہار کیا اور اپنا اصلی چہرہ دکھایا۔ مثال کے طور پر ابوبکر کے اس کلام پر توجہ فرمائیں:

   واللَّه لوددت أني كنت شجرة إلى جانب الطريق مرّ عليّ جمل فاخذني فادخلني فاه فلاكني ثم ازدردني ثم اخرجنى بعد أو لم اك بشراً.(656)

اے كاش! میں اونٹ ہوتا.

اور عمر نے کہا: يا ليتني كنت كبش اهلي سمّنوني ما بدا لهم حتّى إذا كنت كأسمن ما يكون زارهم من يحبّون، فذبحوني لهم فجعلوا بعض شواءً وبعض قديداً ثمّ أكلوني، ولم أكن بشراً.(657)

اگر انہوں نے اپنی حکومت کے دوران احکام الٰہی پر عمل کیا اور اگر یہ پيغمبر خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے خلیفہ و جانشین تھے تو کیا یہ صحیح میں ہے کہ ان میں ایک یہ خواہش کرے کہ اے کاش میں اونٹ ہوتا اور اے کاش میں انسان کا پاخانہ ہوتا؟!

کیا ایک لاکھ چوبیش ہزار نبیوں میں سے کسی نے بھی اپنے پوری زندگی میں کبھی ایسی کسی خواہش کا اظہار کیا؟

جو ذات اپنی زندگی کے آخری ایّام «فزت وربّ الكعبة» کہے؛ کیا وہ خلافت و حكومت کی مستحق ہے یا جو ایک حیوان ہونے یا انسان کا پاخانہ ہونے کی آرزو کریں وہ لوگ خلافت و حکومت کے حقدار ہیں؟!

نيز عمر نے کہا ہے: واللَّه لو أن لي طلاع الأرض ذهباً لافتديت به من عذاب اللَّه عزّوجلّ قبل أن أراه.(658)

اسی طرح اس نے اپنی موت کے وقت اپنے بیٹے عبداللہ سے کہا: ضع خدّى بالارض مابى عبداللَّه فقال له: ضع خدّى بالارض لا امّ لك فوضع خده على الارض فجعل يقول: ويل امى ويل امى! ان لم تغفر لى... فلم يزل يقولها حتى خرجت روحه.(659)

   26 - حكومت يا خلافت؟

جو بات مسلم ہے وہ یہ ہے کہ ابوبکر و عمر نے پيغمبر اكرم‏ صلى الله عليه وآله وسلم کے بعد حکومت پر قبضہ جما لیا نہ کہ خلافت پر۔ شیعہ اور اہلسنت میں اختلاف اس بات پر ہے کہ انہوں نے پيغمبر اكرم‏ صلى الله عليه وآله وسلم کی جانشینی و خلافت کے عنوان سے لوگوں پر حکومت کی ہے؟ یا انہوں نے جو حکومت حاصل کی اس کا پيغمبر اكرم‏ صلى الله عليه وآله وسلم کی جانشینی کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے؟

شیعوں کے عقیدہ کی رو سے ان کی حکومت غاصبانہ تھی اور انہوں نے ظلم و ستم، طاقت کے زور پر حقیقی خلیفہ یعنی حضرت علی بن ابی طالب علیہما السلام کے حق کو پامال کرکے یہ حکومت حاصل کی لیکن اہلسنت کہتے ہیں کہ وہ خلیفہ و جانشین پيغمبر تھے نہ کہ غاصبین خلافت۔

اس بات کی وضاحت کے لئے کہ کیا وہ خلیفہ و جانشین پيغمبر اكرم‏ صلى الله عليه وآله وسلم تھے یا نہیں؟ اس نکتہ پر توجہ کریں:

عقلی اعتبار سے ہمیشہ رہبر اور اس کے بعد اس کے خلیفہ و جانشین کے درمیان تابعیت و سنخیت پائی جانی چاہئے یا وہ سابقہ حاکم کے معین کرنے سے حاکم بنا ہو تا کہ عرف میں بعد والے حاکم کو سابقہ حاکم کا جانشین کہا جائے ورنہ بعد والا حاکم سابقہ حاکم کا خلیفہ و جانشین نہیں ہو گا بلکہ اس نے سابقہ حاکم کے بعد صرف لوگوں کی حکومت و رہبری حاصل کی ہے! اس صورت میں بعد والے حاکم پر کسی طرح سے بھی خلافت و جانشینی کا عنوان صادق نہیں آتا ہے۔

اس بناء پر اگر نہ تو سابقہ حاکم نے بعد والے حاکم کو معین کیا ہو اور نہ ہی ان کے درمیان کوئی تابعیت و سنخیت پائی جاتی ہو تو اس صورت میں دوسرا حاکم کس طرح پہلے والے حاکم کا خلیفہ و جانشین ہو سکتا ہے؟!

مثال کے طور پر اگر کسی شخص کو ملک کی سربراہی ملے اور اس نے لوگوں کے ووٹ کے ذریعہ حکومت و طاقت حاصل کی ہو نہ کہ ملک کے سابقہ سربراہ کے معین کرنے سے تو کیا اس صورت میں اسے پہلے والے سربراہ کا خلیفہ کہہ سکتے ہیں؟

یہ واضح ہے کہ اس صورت میں اسے سابقہ سربراہ کا خلیفہ و جانشین نہیں کہا جا سکتا بالخصوص اگر ان کے افکار و کردار اور نظریات میں زمین آسمان کا فرق ہو۔

ابوبکر، عمر اور عثمان بھی پيغمبر اكرم‏ صلى الله عليه وآله وسلم کے معین کرنے سے خلافت تک نہیں پہنچے بلکہ یہ انجام دی گئی بے شمار بدعتوں کے بل بوتے پر اور پيغمبر اكرم‏ صلى الله عليه وآله وسلم کی مخالفت کے ذریعہ اس مقام تک پہنچے۔ بالخصوص یہاں تک پہنچنے کے لئے انہوں نے اہلبیت پيغمبر اكرم‏ صلى الله عليه وآله وسلم پر جو ظلم روا رکھے اور جہاں تک ہو سکا انہوں نے امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام، حضرت فاطمۂ زہراء علیہا السلام اور تمام اہلبیت اطہار علیہم السلام کو طرح طرح کی اذیتیں پہنچائیں اور ان پر ظلم و ستم کئے۔

اگر کوئی شخص کسی ملک کے سربراہ کے خاندان پر ظلم و ستم کرے اور ان کے گھر پر حملہ کرے، اسے آگ لگا دے، اس کی بیٹی کو تازیانہ یا تلوار کے غلاف سے مارے اور اس کے فرزند کے سقط حمل کا باعث بنے ، یا اس کے چہرے پر طمانچہ و تازیانہ مارے تو کیا فہمیدہ اور عاقل افراد کی نظر میں ایسا شخص ملک کے سابقہ سربراہ کا خلیفہ و جانشین ہے یا اس کا مخالف اور دشمن؟!

علاوه ازیں ابوبکر، عمر اور حکومت تک رسائی میں ان کی مدد کرنے والے تمام افراد نے اپنی زندگی کے ایّام میں ایسی ایسی باتیں کہیں ہیں جو اس بات کی دلیل ہیں کہ انہوں نے اپنی حکومت کے دوران جو کام انجام دیئے وہ اس میں خود کو قصور وار اور مقصر سمجھتے ہیں! کیا پيغمبر کا خلیفہ وہ شخص ہو سکتا ہے جو اپنی زندگی کے آخر میں خود کو سخت غلطی کا مرتکب پائے(۶۶۰) یا پيغمبر اكرم‏ صلى الله عليه وآله وسلم کا خلیفہ وہ شخص ہے جو یہ کہے:«فزت وربّ الكعبة».

اس بناء پر یہ لوگ پيغمبر اكرم‏ صلى الله عليه وآله وسلم کے بعد حاکم تو بنے مگر آنحضرت کے خلیفہ و جانشین نہیں تھے اور نہ ہی ان کی حکومت الٰہی حکومت تھی بلکہ نہ صرف ان کی الٰہی حکومت نہ تھی بلکہ عوامی حکومت بھی نہ تھی کیونکہ جس طرح واضح دلائل سے یہ ثابت کیا کہ ان کی حکومت پيغمبر اكرم‏ صلى الله عليه وآله وسلم کی خلافت و جانشینی نہیں تھی اسی طرح ہم نے ثابت کیا ہے کہ ان کی حکومت میں عوامی اجماع بھی نہیں تھا۔

ان سب کے باوجود اگر پھر بھی ابوبکر خلیفۃ المسلمین تھا اور اس کا احترام سب پر لازم تھا تو پھر عمر اس کی باتوں کو اہمیت کیوں نہیں دیتا تھا جب کہ وہ اس کا قریبی ترین فرد تھا اور سقیفہ کے بانیوں میں سے تھا۔ ابوبکر نے فدک کے متعلق جو خط لکھا تھا کیا عمر نے وہ خط حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام سے نہیں چھینا تھا  اور اس پر تھوکا نہیں تھا اور کیا اسے پھاڑ نہیں دیا تھا؟ 

عمر نے متعد موارد میں ابوبکر کی توہین کی جسے اہلسنت نے بھی اپنی کتابوں میں لکھا ہے!

جب عمر کی نظر میں ابوبکر کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور وہ اس کی توہین کرتا ہے تو دوسروں پر ابوبکر کا احترام کرنا کیوں ضروری ہے؟!

اگر ابوبکر رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کا خلیفہ نہیں تھا تو پھر چودہ سو سال کے بعد ہم اس کا احترام کیوں کریں اور اس کی توہین کرنا حرام سمجھیں اور اگر وہ رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کا خلیفہ و جانشین تھا تو پھر عمر نے کیوں اس کا احترام نہیں کیا اور عمر کیوں نے اس کی توہین کیوں کی؟!

اس کے کچھ نمونے سيوطى نے «الدرّ المنثور» ، عسقلانى نے «الإصابة»، بخارى نے «تاريخ الصغير» اور محاملى نے «امالى» میں ذکر کئے ہیں...

   27 – صالح یا فاسد شخص کا انتخاب؟

اب تک ہم نے یہ ثابت کیا کہ کبھی بھی لوگ مل کر کسی انسان کو رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کے خلیفہ کے عنوان سے معین نہیں کر سکتے۔ اب ہم یہ کہیں گے: اگر فرض کریں کہ کوئی شوریٰ کے مسئلہ کو قبول کرے اور کہے کہ لوگ ووٹ کے ذریعہ کسی کو بھی رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کے خلیفہ اور رہبر الٰہی کے عنوان سے منتخب کر سکتے ہیں چاہے وہ کوئی شیطانی انسان اور خطاکار ہو؟!!

اگر کوئی قرآن کی واضح آیات کی روشنی میں شیطان کے ہاتھوں میں اسیر ہو تو وہ رسول اللَّه‏ صلى الله عليه وآله وسلم کا خلیفہ و جانشین نہیں ہو سکتا لیکن کہ اسفوس کہ سقیفہ کے واقعہ میں ایسا ہی ہوا جیسا کہ اس بات کو خود اہلسنت کی کتابوں سے استفادہ کیا جاتا ہے!!

اس حقیقت کی مزید وضاحت کے لئے ابوبکر کے اقوال کو بیان کرتے ہیں جنہیں اہلسنت کے چند مشہور علماء نے بیان کیا ہے اور اس کے بعد ہم قرآن مجید کی آیات سے متمسک ہوں گے تا کہ ہماری گفتار مستدل ہو جائے:

   كنز العمّال میں ابوبكر سے نقل کیا گیا ہے کہ اس نے قدرت و طاقت حاصل کرنے کے بعد کہا:

کیا تم لوگ یہ سوچ رہے ہو کہ میں رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کی سنت کے مطابق عمل کروں گا، میں اس طرح عمل نہیں کروں گا! کیونکہ آنحضرت وحی کی وجہ سے اشتباہات سے محفوظ تھے اور ان کے ہمراہ فرشتہ اور ملک تھے؛ لیکن میرے ساتھ شیطان ہے جو مجھے گمراہ کرتا ہے پس جب بھی میں غضب کروں تو مجھ سے اجتناب کرنا(۶۶۱)

اس کے کلام سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ شیطان اس طرح اس پر مسلط تھا کہ وہ اس  کے اختیار کو سلب کر دیتا تھا! اس لئے وہ دوسروں سے کہہ رہا ہے کہ مجھ سے پرہیز کرنا!

کیا جس انسان پر شیطان کا تسلط ہو وہ کسی ایسے شخص کا جانشین ہو سکتا ہے کہ جن کے ساتھ فرشتے اور ملک ہوں۔ اس کے علاوہ کیا خداوند کریم نے قرآن کریم میں شیطان سے خطاب کرتے ہوئے نہیں فرمایا ہے:

«إنّ عبادي ليس لك عليهم سلطان إلّا من اتّبعك من الغاوين وإنّ جهنّم لموعدهم أجمعين».(662)

بیشک میرے بندوں پرتمہارا کوئی تسلط اور اختیار نہیں ہے مگر وہ لوگ جو تمہاری پیروی کریں وہ گمراہوں میں سے ہیں اور بیشک ان سب کے لئے جہنم کا وعدہ ہے۔

ایک مرتبہ پھر ابوبکر کے اعتراف پر غور کریں اور پھر کلام خدا کے ساتھ اس کا موازنہ کریں۔ آیۂ شریفہ پر غور فرمائیں کہ جس انسان پر شیطان کا تسلط ہو کیا اس میں رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کی خلافت و جانشینی کی صلاحیت ہو سکتی ہے؟

جو شخص یہ کہے کہ مجھ سے دوری اختیار کرنا اور مجھ سے پرہیز کرنا ،اس شخص کو دوسروں پر کیا فوقیت حاصل ہے؟ جو شخص واضح طور پر یہ کہے کہ میں رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کی سنت پر عمل نہیں کروں گا وہ شخص رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کا جانشین کیسے ہو سکتا ہے؟

   28 – معزول کرنے اور منصوب کرنے کا حق

اگر لوگوں کو یہ حق حاصل ہے کہ و رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کے بعد خلیفہ معین کریں تو کیا ان کے پاس کسی کو معزول کرنے کا بھی اختیار ہے؟ یا ان کے پاس ایسا اختیار نہیں ہے؟ یعنی جس شخص کو معین کیا گیا ہے اگر وہ کوئی بھی عمل، بدعت اور خیانت انجام دے تو کیا پھر بھی اس کے تمام کاموں کو قبول کرنا چاہئے اور کیا اس کے تمام ظلم و ستم کے باوجود اسے خلیفہ و جانشین سمجھنا چاہئے اور اسے احترام کی نگاہ سے دیکھنا چاہئے؟ یا اسے چھوڑا کر کسی اور کا انتخاب کر سکتے ہیں؟

عقل کے لحاظ سے یہ بات واضح ہے کہ جب بھی لوگ کسی کا انتخاب کریں اور اس میں برائیاں دیکھیں تو وہ کسی دوسرے شخص کو اس کی جگہ منصوب کر سکتے ہیں کیونکہ حاکم کا انتخاب اور اسے معزول کرنے دونوں ایک دوسرے سے وابستہ ہیں اور دونوں کا آپس میں ارتباط ہے۔

اگر لوگوں کو حاکم کے انتخاب کا اختیار حاصل ہو تو ان کے پاس اسے معزول کرنے کا بھی اختیار حاصل ہونا چاہئے اور اگر لوگوں کے پاس اسے معزول کرنے کا اختیار نہیں ہے تو پھر ان کے پاس حق انتخاب بھی نہیں ہونا چاہئے۔

اس بیان کی رو سے لوگوں نے ابوبکر اور عمر کو کیوں برطرف نہیں کیا جب کہ بارہا انہوں نے حکومت کے لئے اپنی عدم لیاقت کا اظہار کیا اور کیوں ان سے خلافت و حکومت کی کرسی لے کر اس کے اہل کے سپرد نہیں کی گئی ؟

حالانکہ صدر اسلام میں لوگ اس اشتباہ کے مرتکب ہوئے اور انہوں نے حکومت کے لئے ایسے افراد کا انتخاب کیا تو پھر چودہ سو سال کے بعد جب لوگ عالمی تکامل کی طرف گامزن ہیں تو اس صورت میں کیسے ان کی حکومت کا صحیح قرار دیا جا سکتا ہے اور کس طرح اس  کے احترام کے قائل ہو سکتے ہیں؟

کیا ایسا طرز تفکر گذشتگان کے عقائد کی اندھی تقلید نہیں ہے؟ کیا ایسے عقائد مردہ پرستی ، قوم پرستی، اور قومیت کی بنیاد پر افکار و عقائد (نہ کہ حقیقت و واقعیت کی بنیاد پر)کو قبول کرنا نہیں ہے ؟!

کیا جو انسان اس بات کا اقرار کرے اور کہے «أقيلوني، مرا واگذاريد»، کیا اب بھی کچھ لوگ اسے حکومت اور رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کی خلافت و جانشینی کے لائق سمجھیں؟!

ابوبکر اور عمر نے بارہا حکومت کے سلسلہ میں لوگوں کے سامنے اپنے عجز و ناتوانی اور عدم صلاحیت کا اظہار کیا۔ اس حقیقت کو اہلسنت کے علماء نے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے۔(۶۶۳) ان سب کے باوجود! کیا پھر بھی انہیں رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کا خلیفہ و جانشین سمجھنا چاہئے؟!

   29 – اگر فرضاً خیالی اجماع کو قبول کر لیں اور کہیں کہ لوگوں نے رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کے بعد ابوبکر کو پیغمبر خدا صلى الله عليه وآله وسلم کے خلیفہ کے عنوان سے منتخب کیا تو کیا ان کے اس انتخاب کو خدا نے قبول کیا یا ایسا نہیں ہوا لیکن خدا نے کبھی بھی ان کے انتخاب پر مہر تصدیق ثبت نہیں کی؟

یہ سوال بہت اہم اور نتیجہ خیز ہے اور عقلاء کو مکمل طور پر اس کے بارے میں اور اس کے جواب کے بارے میں غور کرنا چاہئے اور قرآن کی طرف رجوع کرتے ہوئے واضح و آشکار طور پر اس کا قانع کنندہ جواب حاصل کرنا چاہئے کیونکہ قرآن کریم پر تو فریقین متفق ہیں۔

اس لئے ہم قرآن کریم کی طرف رجوع کرتے ہیں جو خدا کے احکام و دستورات کو بیان کرتا ہے  کیونکہ روایات میں ہمیں حکم دیا گیا ہے کہ اپنی مشکلات کے حل کے لئے قرآن کی طرف رجوع کریں اور اس کے ذریعہ اپنی مشکلات کو برطرف کریں۔

اس بات کو صرف شیعہ ہی نیں بلکہ اہلسنت بھی قبول کرتے ہیں اور دونوں فرقوں نے اسے بارے میں اپنی کتابوں میں روایات کو نقل کیا ہے۔ ہم اختصار کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کتاب میں اسے بیان کرنے سے گریز کرتے ہوئے کہتے ہیں:

قرآن کریم  میں امامت و خلافت کے مسئلہ میں نازل ہونے والی آیات کی طرف رجوع کریں تو قرآن کریم کی نظر میں عقلاء کے لئے ابوبکر کے انتخاب کی ماہیت بطور کامل روشن ہو جائے گی۔

 

   30 – عمر کے بعد تین دن میں شوریٰ کی وجہ سے خلیفہ کو معین کیا گیا حالانکہ اس نے چھ افراد کو معین کیا تھا( تتمّۃ المنتہی:۱۲) کہ جن میں سے کوئی ایک اس کے موت کے بعد اس کا جانشین بن جائے البتہ ان شرائط کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ جو تاریخ میں ذکر ہوئی ہیں۔

لیکن رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کی رحلت کے بعد ایک گھنٹہ میں کام تمام کر دیا گیا اور سقیفہ میں ابوبکر کی بیعت کر لی حالانکہ اہلسنت کے بقول رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم نے کسی کو خلافت کے لئے معین نہیں کیا تھا۔ نیز اس بارے میں بنی ہاشم، قریش ( تین افراد کے علاوہ)، مہاجرین اور بے شمار انصار کو اس بارے میں کوئی خبر نہیں تھی۔

    31 -سقیفہ میں حتی قرآن کی کسی ایک آیت اور رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کی کسی ایک روایت سے بھی استدلال نہیں کیا گیا۔

اگر شوریٰ کی تشکیل اور خلیفہ کے انتخاب کا حق لوگوں کو حاصل ہے تو پھر رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم نے اسے پہلے کیوں بیان نہیں فرمایا اور فرض کریں کہ اگر پیغمبر اکرم صلى الله عليه وآله وسلم نے بیان کیا تھا تو پھر سقیفہ میں کسی نے اس سے استدلال کیوں نہیں کیا۔

   32 -   انصار میں سے کچھ لوگ سقیفہ میں جمع ہوئے جو رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کی نصرت کی آڑ میں وہ انحصار کے طالب تھے اور وہ خلافت کو اپنے لئے منحصر کرنا چاہتے تھے اور جیسا کہ شیعہ و سنّی علماء نے لکھا ہے کہ انہوں نے تمام انصار، مہاجرین، قریش اور بنی ہاشم کو اطلاع دیئے بغیر اس پروگرام کا آغاز کر دیا گیا لیکن نہ صرف یہ کہ وہ خود اس سے بہرہ مند نہ ہو سکے بلکہ انہیں شرمندگی و ندامت اور جبراً سقیفہ کو چھوڑنا پڑا اور وہ درد بھرے دل کے ساتھ اپنے گھروں کو واپس لوٹ گئے۔

اگرچہ انہوں نے ابتداء میں دنیا کو اپنے حق میں پایا اور عالم خيال میں انہوں نے «سعد بن عباده» مسلمانوں کو رہبر بھی بنا لیا لیکن کچھ لمحات کے بعد انصار میں سے دو افراد.... اور.... رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کے گھر پہنچ گئے اور انہوں نے لوگوں کو آگاہ کئے بغیر ابوبکر اور عمر کو سقیفہ میں انصار کے اجتماع سے مطلع کیا۔ وہ دو افراد جانتے تھے کہ سقیفہ میں انصار کا جمع ہونا خلافت کی کرسی پر قبضہ جمانے کے لئے خطرہ کی گھنٹی تھی اور پھر وہ لوگ فوراً اس سائبان تک پہنچ گئے کہ جس کی بنیادیں کھوکھلی تھیں! یعنی وہ سقیفہ بنی ساعدہ پہنچ گئے۔

انہوں نے رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کے جسد پاک کو چھوڑ دیا اور تازہ جوش و خروش کے ساتھ سقیفہ کی طرف روانہ ہو گئے۔

کچھ لوگ سقیفہ کو خلیفہ معین کرنے کے لئے شوریٰ کا مرکز سمجھتے ہیں اس بناء پر سقیفہ میں بحث و استدلال کی فضا حاکم ہونی چاہئے تھی تا کہ بہترین فرد کا انتخاب کر سکتے کیونکہ جو لوگ خلافت و حکومت حاصل کرنا چاہتے تھے ان میں رہبری و قیادے کی بہترین صفات اور برجستہ خصوصیات ہونی چاہئیں تھی اور اس لحاظ سے انہیں دوسروں پر سبقت حاصل ہونی چاہئے۔

    33 -  ابوبکر نے کہا ہے: مجھے تین کاموں کو انجام دینے اور تین کاموں کو انجام نہ دینے کے سوا کسی چیز کا افسوس نہیں ہے۔ اور میں تین کاموں کے بارے میں رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم سے سوال کرنا چاہتا تھا:

وہ تین کام جنہیں نے میں نے انجام دیا اور کاش میں نے انہیں انجام نہ دیا ہوتا: 1 - فوددت أنّي لم أكن كشفت عن بيت فاطمة وتركته ولو أغلق على حرب، وودت أنّي يوم‏ سقيفة بني ساعدة كنت قذفت الأمر في عنق أحد الرجلين، عمر أو أبوعبيدة فكان أميراً وكنت وزيراً، و... (664) 

   34 -  ایک ایسا مکان کہ جس کے در و دیوار بھی نہیں تھے اور صرف اس پر ایک لرزتی ہوئی چھت کا سایہ تھا اور کبھی عرب کی تپتی ہوئی خشک،گرم اور گرد آلود ہوائیں لوگوں کے سروں اور چہروں پر پڑتی تھی کہ وہاں لوگوں نے سورج کی تپش اور پسینہ سے بچنے کے لئے پناہ لی تھی۔

سورج کی تپتی ہوئی گرمی ایک طرف، زیاست طلبی کے لئے جوش و خروش اور جنگ و جدال دوسری طرف؛ جس سے خال سے بھرے ہوئے ان کے چہروں پر پسینہ کے قطرے بہہ رہے تھے۔ رسول اللَّه‏ صلى الله عليه وآله وسلم کے جسد مطہر، بنی ہاشم، مہاجرین اور دوسرے مسلمانوں کو حکومت پر قبضہ جمانے کے لئے چھوڑ کر آنے والوں کے چہرے مزید بھیانک ہو رہے تھے۔

کیا واقعاً وہ لوگ وہاں خدا کے لئے اکٹھے ہوئے تھے؟ کیا واقعاً ان کا ہدف و مقصد اسلام کے مستقبل کی حفاظت کے لئے رہبری و قیادت کا نظام ایجاد کرنا تھا یا ان کا مقصد طاقت، قدرت طلبی اور حکومت و ریاست کی ہوس تھی؟ کیوں وہ لوگ رسول خدا‏ صلى الله عليه وآله وسلم کے جسد مطہر کو چھوڑ کر سقیفہ میں جمع ہوئے؟ اگر ان کا مقصد مسلمانوں کی خیر خواہی تھا تو پھر انہوں نے بنی ہاشم، قریش اور اسی طرح مہاجرین کو اس عمل میں شریک کیوں نہیں کیا؟ کیوں ان لوگوں سے چھپ کر مخفیانہ طور پر مشاورت کے لئے بیٹھ گئے؟ اگر ان کا مقصد مسلمانوں سے مخفیانہ طور پر کوئی عمل انجام دینا نہیں تھا تو وہ لوگ مسجد نبوی کو چھوڑ کر سقیفہ میں کیوں جمع ہوئے؟

کیوں انہوں نے کم سے کم ایک دن بھی صبر نہیں کیا تا کہ رسول خدا‏ صلى الله عليه وآله وسلم کا جسم مطہر محترمانہ انداز میں سپرد خاک ہوتا اور اس کے بعد اپنے اس کام میں مصروف ہو جاتے؟!

   35 - ہم نے کہا کہ ایک فرد کی خلافت اس زمانے میں دوسروں کی خلافت سے منافات رکھتی تھی اور اگر کہیں کہ خلافت کا اصل مسئلہ عباسی حکومت کے زوال کے بعد تمام ہو گیا اور اب اسلامی ممالک کے کسی بھی سربراہ کو اپنا خلیفہ نہیں سمجھتے اور مسئلہ خلافت کے اختتام کے بعد لازم نہیں ہے کہ ہم کسی شخص کو خلیفہ کے عنوان سے معین کریں تو ہمارا یہ کہنا ہے کہ:

اگر خلیفہ کو معین کرنا ایک حیاتی امر ہے اور اسلامی یا کم سے کم انسانی اعتبار سے یہ ایک ضرورت شمار ہوتی ہے تو پھر کیوں کروڑوں مسلمان اس اہم ضروری اور حیاتی مسئلہ سے غافل ہیں اور اب اس کی جانب کسی طرح کی کوئی توجہ نہیں کی جارہی  اور اگر خلافت کے مسائلہ کو اسلامی یا کم سے کم سے انسانی ضرورت نہیں سمجھتے تو پھر شیعوں کی مخالفت کیوں کرتے ہیں کہ دنیا بھر کے مسلمانوں کی آدھی آبادی انہی سے تشکیل پاتی ہے، صرف ایک مسئلہ کی وجہ سے.........

   36 - کیا صدر اسلام کے مسلمانوں نے جو راہ طے کی تھی وہ صحیح تھی اور کسی ایک شخص کو مسلمانوں پر حکومت کرنے کے لئے منتخب کرنا درست اقدام تھا؟

اگر فرض کریں کہ ان کا عمل صحیح تھا کیا ہمیں ان کی پیروی کرنی چاہئے یا نہیں؟ اگر ان کی راہ و روش صحیح تھی تو پھر ہمیں بھی اسی طرح عمل کرنا چاہئے  تو پھر آج ہم اسلامی ممالک میں اپنے کسی ایک شخص کو حاکم کے عنوان سے منتخب کرکے لوگوں پر مسلط کیوں نہیں کرتے تا کہ وہ حکومت کو اسلامی قرار دے  اور خود کو اسلامی ریاست و حکومت کا سربراہ قرار دے؟ کیا فہد اور دوسرے افراد عمر کی طرح خود کو رسول اللَّه‏ صلى الله عليه وآله وسلم کا خلیفہ سمجھتے ہیں؟!

اس بناء پر اگر ایک وقت میں چند خلفاء ہو سکتے ہیں تو پھر کچھ لوگوں کے سائبان بنی ساعدہ یعنی سقیفہ میں ابوبکر کو خلیفہ کے عنوان سے معین کیا لیکن دوسرے اکثر افراد،بنی ہاشم اور بزرگ صحابیوں نے مسجد میں ابوبکر کے خلاف احتجاج کیا جیسے سلمان و ابوذر اور مقداد۔ اسی طرح اسامہ اور ان کا لشکر جو مدینہ سے باہر تھا ،یہ سب افراد امیر المؤمنین حضرت علی بن ابیطالب علیہما السلام کو اپنا خلیفہ سمجھتے تھے نہ کہ آپ کو دوسرے تین افراد کے زمانے کے بعد چوتھا خلیفہ سمجھتے تھے۔ اگر ایک وقت میں ایک ہی شخص کی خلافت دوسرے افراد کی خلافت کی نفی کرتی ہے تو اہلسنت کی نظر میں دور حاضر میں مسلمانوں کا خلیفہ کون ہے؟اگر وہ لوگ یہ کہیں کہ جو بھی لوگوں پر حکومت کرے وہ ان پر خدا کا خلیفہ ہے تو ہم نے جو فرض کیا یہ اس کے برخلاف ہے؛ کیونکہ اس صورت میں......

   37 - ابوبكر: آگاه ہو جاؤ میں تم لوگوں میں سے بہترین نہیں ہے اور مجھے اپنے اس مقام سے کرہات ہے اور میں چاہتا تھا کہ میں تم لوگوں میں ہوتا اور کوئی دوسرا میری جگہ لے لیتا۔ کیا تم لوگ یہ سوچ رہے ہو کہ میں رسول اللَّه‏ صلى الله عليه وآله وسلم کی سنت پر عمل کروں گا؟ میں اس پر عمل نہیں کروں گا کیونکہ رسول اللَّه‏ صلى الله عليه وآله وسلم وحی کی وجہ سے غلطی اور اشتباہ سے محفوظ تھے اور ان کے ساتھ فرشتہ و ملک ہوتے تھے لیکن میرے ساتھ شیطان ہےجو مجھے تکلیف دیتا ہے.(665)

عمر نے اين عبّاس سے کہا: اس منصب کے لئے لئے تم لوگوں  میں علی مجھ سے اور ابوبکر سے زیادہ  مستحق و سزاوار تھے.(666)

   38-  جس دن ابوبکر کی بیعت کی گئی تو اس کے باپ سے سارا ماجرا بیان کیا گیا۔ اس کے باپ نے پوچھا کہ اس میں آخر ایسی کون سے خصوصیت تھی کہ جس کی وجہ سے اسے خلافت کے لئے منتخب کر لیا گیا؟ کہا گیا: اس کی عمر کی وجہ سے۔ اس کے باپ نے کہا: پس میں عمر میں اس سے بڑا ہوں. (667)

   زهرى کہتے ہیں: على‏ عليه السلام ، بنی ہاشم اور زبير نے چھ ماہ تک ابوبکر کی بیعت نہیں کی اور فاطمہ علیہا السلام کی شہادت کے بعد اس کی بیعت کی.(668)


643) بحار الأنوار: 108/28.

644) بحار الأنوار: 178/28.

645) رك: بحار الأنوار: 180/28.

646) اہلسنت کے دانشوروں نے لکھا ہےند: معاويه نے مختلف شہروں میں خط بھیجے کہ جن میں لکھا تھا: مسلمانوں میں سے جو کوئی بھی ابو تراب کی فضیلت میں کوئی روایت نقل کر رہا ہے اگر وہ وہ اسے ترک نہ کرے تو اسی کی مانند روایت صحابہ کی فضیلت میں بھی لے کر آئے.

رجوع فرمائیں: الإستيعاب ابن عبد البرّ: 65/1، الإصابة ابن حجر: 154/1، الكامل في التاريخ: 163/3، تاريخ ابن عساكر:222/3، وفاء الوفاء: 31/1، النزاع والتخاصم: 13، تهذيب التهذيب: 435/1، الأغاني: 44/15، شرح نهج البلاغة: 116/1 ازنظريّات الخليفتين: 22/2.

647) سوره احزاب آيه 33.

648) راجع الإستيعاب ابن عبد البر: 65/1، الإصابة ابن حجر: 154/1، الكامل في التاريخ: 163/3، تاريخ ابن عساكر:222/3، وفاء الوفاء: 31/1، النزاع والتخاصم: 13، تهذيب التهذيب: 435/1، الأغاني: 44/15، شرح نهج البلاغة: 116/1.

649) نظريّات الخليفتين: ج 2 ص 22.

652) سوره مزّمّل، آيه 6.

653) سوره   ، آيه   .

654) سوره   ، آيه   .

655) سوره حمد، آيه ....

656) السقيفة انقلابٌ ابيض: 366 از منتخب كنز العمّال: 361/4.

657) السقيفة انقلابٌ أبيض: 367 از كنز العمّال: 365/6 ط حيدرآباد الهند، الفتوحات الإسلاميّة: 408/2 از يحى دحلان، حياة الصحابة: 99/2، حلية الأولياء أبي نعيم: 25/1.

658) السقيفة انقلاب أبيض: 366 بخارى كتاب فضائل الصحابة.

659) السقيفة ص 366 ، امالى الشيخ المفيد ص 50 حديث 10 بحارالانوار ج 30 ص 126.

660) اعترافات شرم‏آور آنان را در ص ... ذكر مى ‏كنيم.

661) كنز العمّال: 136/3، یہ بات تھوڑے سے فرق کے ساتھ  مجمع الهيثمى: 183/5، و الإمامة والسياسة: 6، و طبقات ابن سعد: ج3 پہلا حصہ ص 129، اور تاريخ ابن جرير: 440/2 میں بھی ذکر ہوئی ہے. السبعة من السلف سے منقول: 9.

662) سوره حجر، آيه 42.

663) اس بارے میں رجوع فرمائیں: الغدير: 118/7 ، طبقات أبي سعد: 151/3، تاريخ طبرى: 210/3، اور اسی طرح الغدير:80/7 از شرح ابن أبي الحديد: 134/1 و 20/2.

664) السقيفة جوهرى: 40.

665) طبقات ابن سعد: 151/3، تاريخ طبرى: 210/3 ، الغدير: 118/7.

666) شرح ابن ابى الحديد: 134/1 و 20/2 ، الغدير: 80/7.

329/28 (667 ، شرح نهج البلاغة ابن ابى الحديد: 74/1.

668) بحار الأنوار: 338/28، تاريخ كامل: 224/220/2.

 

منبع: غیر مطبوع ذاتی نوشتہ جات: ص 480 – 501

 

بازدید : 907
بازديد امروز : 85266
بازديد ديروز : 295444
بازديد کل : 157275429
بازديد کل : 115247453