امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
٣۔ اہلبیت علیھم السلام کے دشمنوں سے بیزاری

٣۔ اہلبیت علیھم السلام کے دشمنوں سے بیزاری

 اگر انسان کے دل میں ان ہستیوں(کائنات کا وجود جن کے مرہون منت ہے) کی محبت گھرکر جائے تو پھر یہ ممکن نہیں ہے انسان ان کے دشمنوں کی دوستی کو قبول کر لے۔کیونکہ اہلبیت علیھم السلام کی محبت ان کے دشمنوں سے سازگار نہیں ہے۔چونکہ ظاہری یا ذہنیشعور کے نزدیک دو مخالف چیزوں کی محبت جمع نہیں ہو سکتی۔

اس بنا ء پر ظاہری یا ذہنی شعور   میں  ممکن ہے کہ کوئی اہلبیت علیھم السلام سے بھی دوستی رکھتا ہو اور گمراہوں سے بھی لیکن قلبی اور باطنی لحاظ سے ایسا ممکن نہیں ہے۔

امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں: 

''لاٰ یَجْتَمِعُ حُبُّنٰا وَحُبُّ عَدُوِّنٰا فِی جَوْفِ اِنْسٰانٍ،اَللّٰہُ عَزَّوَجَلَّ یَقُوْلُ:

(مَا جَعَلَ اللَّہُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَیْنِ فِیْ جَوْفِہِ )([1]،[2]) 

ہماری محبت اور ہمارے دشمن کی محبت انسان  کے دل میں جمع نہیں ہو سکتی ۔  خداوند کریم نے فرمایا:''اور اللہ نے کسی مرد کے سینے میں دو دل نہیں قرار دیئے ہیں''۔

اس روایت کی مانند ابی جارود نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کی ہے:

''أَبِی الْجٰارُوْدِ عَنْ أَبِْ جَعْفَر علیہ السلام فِْ قَوْلِہِ:(مٰا جَعَلَ اللَّہُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَیْنِ فِیْ جَوْفِہِ )فَیُحِبُّ بِھٰذٰا وَ یُبْغِضُ بِھٰذٰا ،فَأَمّٰا مُحِبُّنٰا فَیُخْلِصُ الْحُبَّ لَنٰا کَمَا یُخْلِصُ الذَّھَبَ بِالنّٰارِ لاٰکَدِرَ فِیْہِ۔

مَنْ أَرٰادَ أَنْ یَعْلَمَ حُبِّنٰا،فَلْیَمْتَحِنْ قَلْبَہُ فَاِنْ شٰارَکَہُ فِی حُبِّنٰا حُبُّ عَدُوِّنٰا،فَلَیْسَ مِنّٰا وَ لَسْنٰا مِنْہُ وَاللّٰہُ عَدُوُّھُمْ وَ جِبْرَئِیْلُ وَ مِیْکٰائِیْلُ وَاللّٰہُ عَدُوّ لِلْکٰافِرِیْنَ''([3])

ابی جارود حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے خدا کے اس فرمان کے بارے میں فرمایا'' اللہ نے کسی مرد کے سینے میں دو دل نہیں قرار دیئے ہیں''

آپ نے فرمایا:انسان کے دو دل نہیں ہیں  کہ جو ایک سے محبت کرے اور دوسرے سے دشمنی۔ ہمارے محب ہمارے خاندان کی محبت کو ہمارے دشمنوں کی محبت سے پاک کرتے ہیں۔جس طرح آگ سونے کو خالص کر دیتی ہے کہ اس میں  کوئی ملاوٹ نہ ہو۔

جو کوئی بھی یہ جاننا چاہتا ہو کہ وہ ہمارے خاندان سے محبت کرتا ہے یا نہیں؟وہ اپنے دل کو آزمائے ۔پس اگر کوئی ہماری دوستی کے ساتھ ہمارے دشمنوں سے محبت کرے تو وہ ہم سے نہیں  ہے اور   ہم اس سے نہیں ہیں ۔خداوند ،جبرئیل اور میکائیل ایسے افراد کے دشمن ہیں  اور خداوند کافروں کے لئے دشمن ہے۔

اس بناء پر محبت کی نشانی( کہ جس کا لازمہ اہلبیت علیھم السلام کی اطاعت و پیروی ہے) انسان کا ان ہستیوں میں جذب ہو جانا اور ان کے دشمنوں سے بیزاری ہے۔انسان ایسی محبت کے وسیلے سے اہلبیت علیھم السلام میں کھو جاتا ہے ۔پھر وہ اپنے محبوب اور محبوب کی پسندیدہ چیزوں کے علاوہ کسی اور کے بارے میں نہیں سوچتا۔ایسے  حالات محب کے محبوب میں جذب ہونے کی وجہ سے ہوتے ہیں۔

جناب خدیجہ علیھا السلام پیغمبر اکرم ۖکے سفر پر جاتے وقت فرماتیں: 

قَلْبُ الْمُحِبِّ اِلَی الْأَحْبٰابِ مَجْذُوْب        وَ جِسْمُہُ بِیَدِ الْأَسْقٰامِ مَنْھُوْب([4]) 

محب کا دل احباب میں مجذوب ہو جاتا ہے حلانکہ اس کا جسم بیماریوں کے ہاتھوں گرفتار ہوتا ہے۔

جب آپ محبت میں پیشرفت اور اولیائے خدا کی دوستی کے نتیجہ میں ان ہستیوں میں گم ہو جاتے ہیں اور ان کے غیروں سے بیزار ہو جاتے ہیں ۔ اسی لئے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام فرماتے ہیں:

''....اِنَّ أَصْلَ الْحُبِّ ،اَلتَّبَرّ عَنْ سِوَی الْمَحْبُوْبِ''([5])

اصل محبت محبوب کے علاوہ دوسروں سے دوری اختیار کرنا ہے۔

جب آپ اپنے محبوب کے علاوہ دوسروں سے دوری اختیار کریںتو آپ اپنے محبوب کو دوسروں پر فوقیت دیتے ہیں:

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام اس بارے میں فرماتے ہیں:

''دَلِیْلُ الْحُبِّ اِیْثٰارُ الْمَحْبُوْبِ عَلٰی مٰا سَوٰاہُ''([6])

محبت کی دلیل محبوب کو دوسروں  پرترجیح دینا ہے۔

ایسی محبت آپ کو معنویت و نورانیت کی اوج پر پہنچا دیتی ہے۔جس کی وجہ سے آپ پر اہلبیت عصمت و طہارت  علیھم السلام کی عنایات ہوتی ہیں۔جو آپ کو معنوی و ملکوتی مخلوق بنا دیتی ہیں اورآپ کے دل میں  اہلبیت علیھم السلام کے دشمنوں سے نفرت اور برائت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔

 


[1]۔ سورۂ احزاب،آیت:٤

[2]۔ بحار الانوار:ج٢٤ص٣١٨،کنز الفوائد:٢٣

[3]۔ بحار الانوار:ج٢٧ص٥١

[4]۔ بحار الانوار:ج١٦ص٢٩

[5]. بحار الانوار:ج٢٩ص٢٥١،مصباح الشریعہ:٦٥

[6]۔ بحار الانوار:ج٧٠ص٢٢،مصباح الشریعہ:٢

 

 

    بازدید : 2510
    بازديد امروز : 0
    بازديد ديروز : 143999
    بازديد کل : 141934368
    بازديد کل : 97836708