حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
خدا ور اہلبیت علیھم السلام کی یاد

خدا ور اہلبیت علیھم السلام کی یاد

خدا کی یاد افسردہ  و غمگین اور پریشان دلوں کو آرام بخشتی ہے  اور انہیں مشکلات سے نجات دیتی ہے ۔ لیکن غفلت اور خدا و اہلبیت اطہار علیھم السلام کی یاد کو چھوڑ دینا قلب کی تاریکی کا باعث ہے جو دل کو ہمیشہ کے لئے پریشانی میں مبتلا کر دیتی ہے۔

خدا نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی نازل فرمائی:

''یٰا مُوْسیٰ لاٰ تَفْرَحْ بِکَثْرَةِ الْمٰالِ وَ لاٰ تَدَعْ ذِکْرِ عَلٰی کُلِّ حٰالٍ فَاِنَّ کَثْرَةَ الْمَالِ تُنْسِی الذُّنُوْبَ وَ اِنَّ تَرْکَ ذِکْرِیْ یُقْسِ الْقُلُوْبَ''([1])

اے موسی!مال کی کثرت کی وجہ سے خوش نہ ہو  اور کسی بھی حال میں میری یاد کو ترک نہ کرو کیونکہ مال کی کثرت گناہوں کوبھلا دیتی ہے اور بیشک میری یاد کو ترک کردینا قساوت قلب ایجاد کر تی ہے۔

کیونکہ خدا کی یاد کو ترک کرنے کی وجہ سے شیطان انسان پر مسلط ہو جاتا ہے اور اس سے آرام و سکون کو سلب کر لیتاہے۔

خداوند کریم قرآن مجید میں فرماتا ہے:

(وَمَن یَعْشُ عَن ذِکْرِ الرَّحْمَنِ نُقَیِّضْ لَہُ شَیْْطَاناً فَہُوَ لَہُ قَرِیْن )([2])

اور جو شخص بھی اللہ کے ذکر کی طرف سے اندھا ہوجائے گا ہم اس کے لئے ایک شیطان مقرر کردیں گے جو اس کا ساتھی اور ہم نشین ہوگا ۔

گناہوں کو فراموش کر دینا،قساوت قلب اور شیطان کامسلط ہو جانا  یاد خدا کو ترک کر دینے کے نتائج میں سے ہے۔خدا کی یاد انسان کو روحانی گرفتاریوں سے نجات دیتی ہے اور اسے اطمینان قلب اور روحانی سکون عطا کرتی ہے۔ہمیں اس نکتہ کی طرف بھی توجہ کرنا چاہئے کہ اہلبیت علیھم السلام کی یاد بھی یاد خدا ہے نیز ذکر خدا سے پیدا ہونے والے اثرات اہلبیت اطہار علیھم السلام کے ذکر بھی  ایجاد ہو جاتے ہیں۔

حضرت امام محمد باقر علیہ السلام فرماتے ہیں:

''اِنَّ ذِکْرَنٰا مِنْ ذِکْرِ اللّٰہِ''([3])

بیشک ہمارا ذکر ،خدا کا ہی ذکرہے۔

ہمیں صرف ان معصوم ہستیوں کا ذکر ہی نہیں کرنا چاہئے بلکہ مشکلات اور پریشانیوں میں ان سے متوسل بھی ہونا چاہئے ۔ کیونکہ خاندان نبوت و رسالت علیھم  السلام نجات کی کشتی ہیں اور بے سہارا لوگوں کے لئے پناہگاہ ہیں۔خاندان رسالت   علیھم  السلام پریشانیوں کے دریا میں گرفتار   بے چاروں کی فریاد سننے والے ہیں ۔وہ گمراہی کے وحشتناک گرداب میں پھنسے ہوئے افراد کے لئے نجات کا سامان فراہم کرتے ہیں ۔ ہمیں چاہئے کہ ہم  ان بزرگ اور معصوم ہستیوں کو پریشانیوں اور مشکلوں میں گرفتار امت کے منجی(نجات دینے والا)کے طور پر پہچانیں۔

امیر المؤمنین حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام فرماتے ہیں:

''أَیُّھَا النّٰاسُ شُقُّوْا أَمْوٰاجَ الْفِتَنِ بِسُفُنِ النَّجٰاةِ''([4])

اے لوگو!فتنے کی لہروں کو کشتی نجات  کی مدد سے چیر دو۔

مولائے کائنات حضرت علی علیہ السلام ایک دوسری روایت میں فرماتے ہیں:

''مَنْ رَکِبَ غَیْرَسَفِیْنَتِنٰا غَرِقَ''([5])

جو کوئی ہماری کشتی کے سوا کسی اور میں سوار ہو گیا وہ غرق ہو جائے گا۔

اس بناء پر انسان اپنی تمام مشکلات حتی کے اعتقادی مسائل و مشکلات میں بھی حقیقی ہادی و ورہنما  سے ہی ہدایت لینا چاہئے ورنہ وہ گمراہ ہو جائے گا۔

حضرت امام علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

''مَنْ یَطْلُبِ الھِدٰایَةَ مِنْ غَیْرِ أَھْلِھٰا یَضِلُّ''([6])

جو کوئی ہدایت کے اہل افراد کے علاوہ کسی اور سے ہدایت لے گا وہ گمراہ ہوجائے گا۔

اب ان لوگوں کا کیا حال ہو گا جنہوں نے معاشرے کے پست اور نا اہل افراد کی پیروی کو قبول کر لیا؟!

مشکلات، فتنہ،فساد اور تباہ و برباد کر دینے والے طوفان (جب طوفان کی خطرناک لہریں ہوشیار بھی کر رہی ہوں)میں خدا اور اولیائے خدا کے علاوہ کسی اور کا دامن تھامنے والے نیست و نابود ہو جاتے ہیں۔لیکن اہلبیت اطہار علیھم السلام سے متمسک ہونا اور ان معصوم  ہستوں سے مدد مانگنا آپ کو  گمراہی و ہلاکت سے نجات دلا کر ساحل تک پہنچا دے گا۔

اگرچہ سمندر میں   مدّوجذرتمام چھوٹی بڑی کشتیوں کو ایک ساتھ اوپرنیچے کر دیتاہے لیکن دریا کا طلاطم تمام کشتیوں کو غرق نہیں کر سکتا ۔مصیبتیں اور فتنہ و فساد بھی ایسے ہی ہیں یہ جتنے بھی خطرناک کیوں نہ ہوں لیکن پھر بھی یہ تمام انسانوں کو نابودنہیں کر سکتے بلکہ کچھ کو کشتی نجات ساحل تک پہنچا ہی دیتی ہے۔

رہ ملک سعادت را تواند بی  خطر  رفتن

بہ دست خود زآئین ادب ھرکس عصا دارد

انسانوں میں سے کچھ ایسے بھی افراد موجود ہیں جو نہ صرف آخری زمانے کے فتنوں کے سامنے سینہ سپر رہتےہیں بلکہ اپنی قدر و منزلت میں بھی اضافہ کرتے ہیں۔

اگر آپ ایسے افراد میں سے ہونا پسند کرتے ہیں تو مشکلات اور مصائبکے طوفان کی خطرناک لہروں میں اہلبیت اطہار علیھم السلام کی کشتی سے متمسک ہوجائیں اور ولایت الٰہیہ کا عظیم مقام رکھنے والی ہستیوں سے توسل کے ذریعے خود کو گمراہی اور حیرانگی سے نجات دیں۔

 


[1]۔ بحار الانوار:ج۷۲ ص٦۳۔علل الشرائع: ج۱ص۷۷

[2]۔ سورۂ زخرف،آیت:٣٦

[3]۔ بحار الانوار:ج۷۵ص۴٦۸

[4]۔ نہج البلاغہ، خطبہ:٥

[5]۔ شرح غرر الحکم:ج۵ص۱۸۴

[6]۔ شرح غرر الحکم:ج۵ص۳۰۸

 

 

 

    ملاحظہ کریں : 2153
    آج کے وزٹر : 32517
    کل کے وزٹر : 162937
    تمام وزٹر کی تعداد : 141349982
    تمام وزٹر کی تعداد : 97544392