حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
اسرار کی حفاظت میں، مخالفین کا کردار

اسرار کی حفاظت میں، مخالفین کا کردار

اب دنیاکی سامراجی طاقتیںاپنے سیاسی راز و اسرار نہ صرف یہ کہ دوسرے ملکوں بلکہ اپنی قوم اور اپنے ملک کی بہت سی سیاسی شخصیات سے بھی چھپاتی ہیںاور انہیں صرف چند مخصوص  افراد تک ہی محدود رکھتی ہیں۔

اسی طرح بڑے صنعتی دفاتر اور کمپنیاں اپنی کامیابی کا سبب رازداری کو قرار دیتے ہیں اور اپنے راز  فاش ہونے کو اپنی شکست اور رقیبوں کی فتح مانتے ہیں۔

لیکن مکتب اہلبیت علیھم السلام میں لوگوں کو رازداری کا حکم ایسے چھوٹے مقاصد کے لئے نہیں دیا  گیا کیونکہ ان ہستیوں کی نظر میں اگر راز بتانا مومن بھائیوں کی ترقی و پیشرفت کا باعث ہو  اور اس میں کسی طرح کے فساد کا کوی خوف نہ ہوتو اس میں کوی مضائقہ نہیں ہے۔اسی لئے حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام  نے حضرت کمیل سے فرمایا:

 ''یٰا کُمَیْلُ لاٰ بَأْسَ أَنْ تُعْلِمَ اَخٰاکَ سِرِّکَ''([1])

 اے کمیل!اپنا راز اپنے (دینی)بھائی کو بتانے میں کوئی حرج نہیں ہے۔

اس بناء پر انسان اسے اپنا راز بتا سکتا ہے جو ہمیشہ اس کے ساتھ بھائیوں کی طرح باقی رہے۔

 اب یہ سوال درپیش آتاہے:اگر نزدیکی دوستوں کو راز بتانے میں کوئی حرج نہیں ہے تو پھر روایات میں اپنا راز چھپانے کی اتنی تاکید کیوں کی گئی ہے؟([2])

  اس کے جواب میں یہ کہنا چاہئےکیونکہ:

  اولاً:تو لوگوں میں فطری طور پرپیدا ہونے والی فکری تبدیلیوں کی وجہ سے   ایسے بھائیوں اور ان کے آئندہ رویے کی پہچان  بہت مشکل ہے۔اس بناء پر دینی بھائیوں کو پہچان کر ہی ان سے راز بیان کرنا چاہئے۔

 ثانیاً: اہلبیت اطہار علیھم السلام کے فرامین میں راز کو چھپانے کا حکم مادّی اور شخصی اغراض و مقاصد کے لئے نہیں ہے جیسا کہ دنیا کے سیاستدان اور دولت مند حضرات اپنے راز چھپاتے ہیں۔بلکہ وہ لوگوں کی علمی وسعت کے کم ہونے اور ان کے نہ ماننے کی وجہ سے ہے۔جب غیبت کے تاریکی کے بادل چھٹ جائیں گے اور پوری کائنات پر ولایت کے تابناک انور چمک رہے ہوںگے تو حضرت بقیة اللہ الاعظم عجل اللہ فرجہ الشریف کے توسط سے  دنیاکے حیرت انگیز اسرار سب لوگوں کے لئے واضح و آشکار ہو   جائیں گے۔کیونکہ اس زمانے میں لوگ فکری تکامل کی وجہ سے ان اسرار کو سننے کے لئے تیار ہوں گے اور اس وقت دنیا میں ظالموں اور ستمگروں کا وجود نہیں ہو گا جو ان اسرار کو بیان کرنے سے روک سکیں۔

ہمیشہ ہر ظلم و ستم  کا سرچشمہ اور تمام  ملتوں کے لئے ناکامی کا باعث  اہلبیت اطہار علیھم السلام  کے حقوق کے غاصب اور ظالم  افراد ہیں۔وہ نہ صرف خاندان وحی علیھم السلام کی حکومت کے لئیرکاوٹ بنے بلکہ انہوں نے معاشرے کو اس طرح سے جہل  کے اندھیروں میں رکھاکہ اہلبیت عصمت  وطہارت علیھم السلام کو اسرار و رموذ بیان کرنے کی راہوں کو مسدود کر دیا۔

 امیر المؤمنین حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

 ''کٰانَ لِرَسُوْلِ اللّہِ سِرّ لاٰ یَعْلَمُہُ اِلاّٰ قَلِیْل''

 پیغمبرۖ کے لئے ایک  راز تھا جسے کوئی نہیں جانتا تھا مگر بہت کم لوگ۔

 پھر آپ پیغمبر اکرمۖ سے روایت کرتے ہیں کہ آپۖ نے فرمایا:

  ''لَوْلاٰ طُغٰاةُ ھٰذِہِ الْاُمَُّةِ لَبَثَثْتُ ھٰذَا السِّرِّ''([3])

 اگر اس امت کے باغی و سرکش افراد نہ ہوتے تومیں یہ راز لوگوں  کے درمیان بیان کرتا۔

 ایک دوسری روایت  میں فرماتے ہیں:

 ''لَوْلاٰ طُغٰاةُ ھٰذِہِ الْاُمَّةِ لَبَیِّنَتْ ھٰذَا السِّرِّ''([4])

 اگر اس امت کے باغی و سرکش افراد نہ ہوتے تومیں یہ رازبیان کر دیتا۔

اس بناء پر اہلبیت اطہار علیھم السلام کی راز داری  اور ان کا کائنات کے حقائق کو مخفی رکھنے کی وجہ معاشرے کے ظالم و جابر اور آل محمد علیھم السلام کے حقوق کے غاصب افراد تھے۔

 وہ لوگ اسلامی ممالک کے سر کودیکھنا تو دور کی بات بلکہ وہ حضرت  فاطمۂ زہراء علیھا السلام کی جاگیر ''فدک''بھی مولائے کائنات حضرت علی  علیہ السلام کے پاس نہیں دیکھ سکے!توپھر وہ لوگ کس طرح آرام سے بیٹھ کر دیکھ سکتے تھے کہ لوگ اہلبیت عصمت علیھم السلام کی طرف جا کر ان کے علوم سے آسمانوں،خلاؤں ،کہکشاؤں اور عالم  غیب کی اور نامرئی دنیا کی عظیم  قدرت سے آشناہوں؟!
 ان کی خیانت  کی وجہ سے نہ صرف اسی زمانے میں بلکہ اب تک انسانی معاشرہ ایسے بنیادی اور حیاتی مسائل سے آشنا نہیں ہوسکا۔

 


[1]۔ بحار الانوار:ج۷۷ص۴۱٦، تحف العقول:١٧١

[2] ۔ حضرت علی  علیہ  السلام  نے ایسے بھائیوں کے کچھ شرائط بیان فرمائے ہیں جنہیں جاننے کے لئے بحار الانوار: ج۷۷ص۴۱٦ کی طرف رجوع فرمائیں۔

[3]۔ بحار الانوار:ج۹۵ص۳۰٦

[4]۔ بحار الانوار: ج۹۱ص۲٦۷

 

 

    ملاحظہ کریں : 2266
    آج کے وزٹر : 5848
    کل کے وزٹر : 226086
    تمام وزٹر کی تعداد : 147128330
    تمام وزٹر کی تعداد : 100922359