حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
(3 محرم الحرام) حضرت يونس علی نبينا وآله وعليه السلام کا شکم ماهی سے نجات پانا

جناب یونس علیہ السلام کی قوام کا عذاب سے نجات پانے کی کیفیت

**************************

3محرم الحرام : حضرت يونس علي نبينا وآله وعليه السلام کا شکم ماهي سے نجات پانا

**************************

حضرت یونس عليه السلام جس شہر میں لوگوں کی ہدایت پر مأمور تھے وہ موصل کی سرزمین پر شہر نینوا تھا ۔ روایات میں وارد ہوا ہے کہ جب حضرت یونس علیہ السلام رسالت کے لئے مبعوث ہوئے تو آپ کی عمر تقریباً تیس سال تھی اور ایک دوسری روایت کے مطابق آپ کی عمر اٹھائیس سال تھی۔ اور حدیث عیاشی کے مطابق آپ نے تینتیس سال تک لوگوں میں فرائض الٰہی اور تبلیغ انجام دی لیکن اس مدت کے دوران صرف دو افراد کے علاوہ آپ پر کوئی ایمان نہ لایا کہ جن کے نام «روبيل» و «تنوخا» ہیں۔«روبيل» کا تعلق علم و نبوت کے خاندان سے تھا اور وہ حضرت یونس علیہ السلام کی بعثت سے پہلے بھی ان سے مأنوس اور آشنا تھے۔«تنوخا» ایک عابد اور زاہد انسان تھے اور ان کا علم و حکمت سے کوئی تعلق نہیں تھا۔

جناب یونس علیہ السلام نے اتنی مدت تک وعظ و نصیحت کی لیکن جب آپ نے دیکھا کہ ان دو افراد کے علاوہ کوئی اور ان پر ایمان نہیں لا رہا بلکہ وہ لوگ  ہمیشہ انہیں جھٹلا رہے ہیں اور انہیں قتل کرنے کے درپے ہیں تو آپ نے خدا سے شکوہ و شکایت کی اور ان لوگوں کے لئے عذاب الٰہی نازل کرنے کی درخواست کی۔

   «روبيل» اپنے علم و حکمت اور ان لوگوں سے دلسوزی کی وجہ سے ایسی درخواست سے منع کرتے تھے ، بالأخره حضرت یونس علیہ السلام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا اور آپ نے خدا سے ددرخواست کی کہ اس قوم پر عذاب نازل فرمائے۔

   خدائے متعال نے حضرت يونس کو خبر دی کہ ہم فلاں دن ان پر عذاب نازل کریں گے۔ لوگوں کو اس بارے میں مطلع کر دو اور ان تک اس کی خبر پہنچا دو۔

حضرت يونس نے «روبيل» کو اس واقعہ کی اطّلاع دی اور «روبيل» نے بہت کوشش کی کہ آپ کو اس کام سے روک سکیں تا کہ ان لوگوں سے عذاب الٰہی ٹل جائے لیکن وہ حضرت یونس کو قانع نہ کر سکے اور حضرت یونس لوگوں کے پاس آئے اور انہیں خدا کی طرف سے عذاب الٰہی کے آنے کی خبر دی اور انہیں اس سے مطلع کر دیا۔

نینوا کے لوگوں نے اس مرتبہ بھی آپ کو جھٹلایا اور سختی سے انہیں اپنے پاس سے بھگا دیا۔حضرت يونس نے «تنوخا» کو اپنے ساتھ لیا اور شہر سے باہر نکل گئے اور شہر کے قریب ساکن ہو گئے اور عذاب الٰہی کا انتظار کرنے لگے۔

دوسری طرف«روبيل»  نینوا کے لوگوں کے پاس آئے اور اونچی جگہ پر کھڑے ہو کر بلند آواز سے لوگوں کو کو مخاطب قرار دیتے ہوئے کہا: اے لوگو!میں «روبيل» ہوں اور میں تمہارا مہربان ہوں۔ اب میں تم کو آگاہ کر رہا ہوں کہ یونس تمہارے پیغمبر تھے اور انہوں نے تمہیں خبر دی کہ خدا نے ان پر وحی کی ہے کہ فلاں دن تم لوگوں پر عذاب نازل ہو گا اور خدا اپنے پیغمبروں سے کئے گئے وعدوں کے خلاف عمل نہیں کرتا ۔ اب تم دیکھ لو کہ تم نے کہا کرنا ہے۔

لوگوں کے دلوں پر «روبيل»کی باتوں کا اثر ہوا اور وہ ندامت و پشیمانی کے عالم میں ان کے پاس آئے اور کہا:اے روبیل! آپ ایک حکیم اور دانشور ہیں۔ اب ہمیں بتائیں کہ ہم کیا کریں۔

«روبيل» نے ان سے کہا: جب عذاب کا دن ہو تو سورج نکلنے سے پہلے اپنی عورتوں اور بچوں کو لے کر صحرا کی طرف نکل جاؤ، ماؤں اور بچوں کو ایک دوسرے سے جدا کر دو اور جب یہ دیکھو کہ مشرق کی طرف سے زرد ہوا تمہاری طرف آ رہی ہے تو خدا کی بارگاہ میں گریہ و زاری کرو اور خدا کی بارگاہ میں توبہ و استغفار کرو۔ آسمان کی طرف سر اٹھا کر گریہ و زاری کرتے ہوئے کہو:

   پروردگارا! ہم نے خود پر ستم کیا اور تیرے پیغمبر کی تکذیب کی اب ہم اپنے گناہوں سے توبہ کرتے ہیں اور اگر تو ہمیں نہیں بخشے گا تو ہم خسارہ والوں میں سے ہوں گے۔اے سب سے زیادہ مہربان! تو ہماری توبہ کو قبول فرما۔

جب تک خداوند کریم تم لوگوں سے اپنے عذاب کو برطرف نہ کر دے تم اسی طرح کسی خستگی کے بغیر گریہ و زاری کرتے رہو۔

لوگوں نے «روبيل» کے حکم پر عمل کرنے کا ارادہ کیا اور جب عذاب کا دن آیا تو وہ لوگ اپنی عورتوں اور بچوں کو لے کر صحرا کی طرف روانہ ہو گئے اور ان کو ایک دوسرے سے جدا کر دیا اور جب انہوں نے عذاب الٰہی  کے آثار دیکھے تو بلند آواز سے گریہ و زاری کرنے لگے اور خدا کی بارگاہ میں مغفرت و بخشش طلب کرنے لگے یہاں تک کہ عذاب کے آثار برطرف ہو گئے۔

طبرسى ‏رحمه الله نے سعيد بن جبير اور دوسروں سے نقل کیا ہے كه: يونس نے انہیں خبر دی کہ اگر توبہ نہیں کرو گے تو آئندہ تین دن تک تم پر خدا کا عذاب نازل ہو گا.

لوگوں نے ایک دوسرے سے کہا:ہم نے اب تک یونس کو جھوٹ بولتے نہیں سنا،اب دیکھ لو کہ اگر یونس آج رات تمہارے درمیان رہے تو کچھ نہیں ہو گا لیکن اگر تمہارے درمیان سے چلے گئے تو کل صبح تم پر عذاب نازل ہو گا۔

یونس آدھی رات کے وقت وہاں سے چلے گئے اور اگلی صبح ان پر عذاب نازل ہوا۔

بعض کہتے ہیں: آسمان پر بادل چھا گئے اور بادلوں سے گہرا دھواں نکلنے لگا جن سے سارے شہر کو تاریک کر دیا اور وہ اس قدر نیچے آ گیا کہ چھتوں کو بھی تاریک اور سیاہ کر دیا۔ ابن عباس کہتے ہیں:ایک میل کے تیسرے حصہ تک عذاب ان کے سروں تک پہنچ گیا تھا۔

جب لوگوں نے عذاب کو دیکھا تو انہیں اپنی ہلاکت کا یقین ہو گیا اور وہ جناب یونس علیہ السلام کو تلاش کرنے لگے لیکن جب انہیں جناب یونس نہ ملے تو وہ صحرا کی طرف نکل پڑے۔

ابن مسعود نے کہا ہےنینوا کے لوگوں کی توبہ اس طرح سے تھی کہ انہوں نے ایک دوسرے کا حق ادا کر دیا یہاں تک کہ اگر کسی کے گھر کی دیوار میں کسی دوسرے کے پتھر کا ٹکڑا بھی لگا تھا تو انہوں نے پتھر کا وہ ٹکڑا نکال کر اس کے مالک کو واپس لوٹا دیا۔

بحرحال خدا نے ان پر رحم کیا اور ان پر آئے ہوئے عذاب کو ان سے ٹال دیا۔(تاريخ انبياء، سيّد هاشم محلاّتى)

قوم يونس را چو پيدا شد بلا

ابر پر آتش جدا شد از سما

برق مى‏انداخت مى‏سوزيد سنگ

ابر مى‏ غرّيد و رخ مى‏ريخت رنگ

جملگان بر بام‏ها بودند شب

كه پديد آيد زبالا آن كرب

چون كه يونس از ميانشان رفته بود

از جحود و حقد آن قوم عنود

ليك چون ديدند آثار بلا

در تضرّع آمدند و لابه‏ها

جملگان از بام‏ها شب آمدند

سر برهنه جانب صحرا شدند

از نماز شام تا وقت سحر

خاك مى‏ كردند بر سر آن نفر

جملگى آوازها بگرفته شد

رحم آمد بر سر آن قوم لذ

بعد نوميدى و آه ناشگفت

اندك اندك ابر واگشتن گرفت

حضرت یونس علیہ السلام اور ملت نینوا کے واقعہ سے یہ پتا چلتا ہے کہ خداوند کس طرح اپنے خاص بندوں کو منتخب کرتا ہے اور انہیں ذمہ داری عطا کرتا ہے اور لوگوں کو ان کی اطاعت کا حکم دیتا ہے اور خدا کس طرح سے آسمان و زمین،دریا کی گہرائی اور شکم ماہی میں اپنے پیغمبروں کی حفاظت کرتا ہے اور  خلوص نیت سے توبہ کرنے کی صورت امت سے کس طرح سے عذاب کو ٹال دیتا ہے اور اپنے پیغمبروں کو بھی راضی و خوشنود قرار دیتا ہے اور انہیں اجر و ثواب عطا کرتا ہے۔یہ تعلیم و تربیت کے لئے بہترین نمونہ ہے۔(1484)


1484) نفائح العلاّم فى سوانح الأيّام: 208/2.

 

منبع: معاویه ج ... ص ...

 

 

ملاحظہ کریں : 9
آج کے وزٹر : 0
کل کے وزٹر : 155784
تمام وزٹر کی تعداد : 144914354
تمام وزٹر کی تعداد : 99813393