حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
امام حسین علیہ السلام کے روضۂ اقدس کی تاریخ

امام حسین علیہ السلام کے روضۂ اقدس کی تاریخ  

سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت کی فضیلت اور آپ کی زیارات کو ذکر کرنے سے پہلے امام مظلوم علیہ السلام کے مزار کی تاریخ بیان کرتے ہیں۔ امام حسین علیہ السلام اور آپ کے بھائی قمر بنی ہاشم حضرت ابو الفضل العباس علیہ السلام کے مزار مطہر کی تاریخ کا آغاز سن اکسٹھ ہجری سے ہوتا ہے ۔ سب سے پہلے حضرت امام علی بن الحسین علیہما السلام نے ان دو مبارک قبروں کے ساتھ ساتھ شہداء اور اہل بیت علیہم السلام کی قبور تعمیر کیں ۔ امام سجاد علیہ السلام نے اپنے پدر گرامی کی قبر مطہر پر یوں نام لکھا :

’’هذا قبر الحسين عليه السلام الّذي ذبحوه عطشاناً‘‘

یہ حسین علیہ السلام کی قبر ہے جنہیں پیاسا ذبح کر دیا گیا ۔

بنی اسد نے حضرت امام حسین علیہ السلام کے علاوہ دیگر شہدائے کربلا کے اجساد طاہرہ کی تدفین میں حضرت امام سجاد علیہ السلام کی مدد کی ۔ سید الشہداءحضرت امام حسین علیہ السلام کی تدفین میں دست غیبی نے آپ کے جسد مطہر کو اٹھانے اور دفن کرنے میں حضرت امام زین العابدین علیہ السلام کی مدد کی ؛ کیونکہ امام کے بدن مطہر کو امام معصوم کے علاوہ کوئی اور دفن نہیں کر سکتا ۔ جب عمر بن سعد لعنۃ اللہ علیہ نے اہل حرم اور بچوں کو اسیر کرکے کوفہ منفقل کر دیا تو اس کے بعد یہ واقعہ پیش آیا ۔ تیرہ محرم الحرام کو حضرت امام زین العابدین علیہ السلام نے اپنے والد گرامی اور دیگر شہداء کے خون میں ڈوبے ہوئے اجساد طاہرہ کو دفن کیا۔

اس کے بعد حضرت امام سجاد علیہ السلام نے سجدہ کرنے  کے لئے اپنے پدر گرامی  کی قبر مطہر  کی کچھ خاک اٹھائی اور اپنے شیعوں اور محبّوں کو تعلیم دی اور انہیں امام حسین علیہ السلام کی تربت پر سجدہ کرنے اور اس کے ذریعہ شفاء طلب کرنے کی تشویق دلائی ۔ پس حضرت امام علی بن الحسین علیہما السلام نے سب سے پہلے تربت حسینی پر سجدہ کیا اور اسے اخذ کرنے اور  اس سے متبرک ہونے  کے آداب بیان کئے ۔

اس کے بعد حضرت مختار ثقفی نے سنہ ۶۵ ہجری میں اپنی حکومت کے دوران اسے کی  پختہ تعمیر کا اقدام کیا اور اسے اینٹوں اور گچ کی مدد سے پختہ طور سے تعمیر کیا ۔ پھر یہ لوگوں کے لئے زیارتگاہ بن گئی ؛ جہاں ہمیشہ زیارت کے لئے زائرین کی رفت و آمد رہتی تھی ۔ ہارون الرشید لعنۃ اللہ علیہ  کے زمانے تک یہ زیارتگاہ  اسی طرح آباد تھی لیکن ہارون الرشید لعنۃ اللہ علیہ نے قبر مطہر کو ویران کرنے کا حکم دیا اور یوں اس کے آثار کو ختم کر دیا گیا اور سدر (بیری) کا وہ درخت بھی کاٹ دیا جو قبر مطہر کی علامت تھی تا کہ لوگ قبر کے پاس توقف نہ کر سکیں ۔

پھر  مأمون اور دوسروں کے زمانے میں قبر مطہر کو دوبارہ سے آباد کر دیا گیا ، یہاں تک کہ متوکل عباسی کا زمانہ آیا تو  اس ملعون کے حکم پر امام حسین علیہ السلام کی قبر مطہر اور اصحاب کی قبور کو تخریب کرنے اور نام و نشان مٹانے کے بعد ان پر پانی جاری کر دیا ۔

متوکل عباسی کے واصل جہنم ہونے کے بعد اس کا بیٹا منتصر عباسی برسراقتدار آیا ، وہ امیر المؤمنین علی بن ابیطالب علیہما السلام کی اولاد سے اظہارمحبت کرتا تھا اور ان میں مال و ثروت تقسیم کرتا تھا  ۔ اس کے زمانے میں قبور مطہرہ  دوبارہ سابقہ حالت میں آ گئیں  ۔ نیز اس نے حکم دیا کہ کسی کو بھی سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کی زیارت سے نہ روکا جائے اور اسی نے کربلا کو آباد کرنے اور قبور و مزار اور حائر و حرم کی تعمیر کا اقدام کیا ۔

منتصر عباسی  نے کربلا کی آباد کاری اور تعمیر کا جو کام کیا  وہ سنہ ۲۷۳ ہجری تک جاری رہا  اور پھر سنہ ۲۷۳ ہجری میں منتصر کی تعمیر کردہ عمارت زمین بوس ہو گئی جس کی وجہ سے تقریباً دس سال تک قبر مطہر پر چھت نہیں تھی ۔ سنہ ۲۸۳ ہجری میں  طبرستان کے والی  محمد بن زید نے حرم کی تعمیر نو کے کام کا آغاز کیا ۔  دس سال تک حرم کی ویرانی کے بعد انہوں نے  معتضد عباسی کے دور میں دوبارہ سے  امیر المؤمنین حضرت امام علی علیہ السلام اور سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام کا حرم تعمیر کیا  اور سید الشہداء علیہ السلام کے حرم کے استحکام کے لئے خاص اہتمام کیا اور امام حسین علیہ السلام کی قبر مطہر پر قبہ بھی تعمیر کیا اور قبہ کے بیرونی حصہ  میں دو ایوان تعمیر  کئے ۔ معتضد کی حکومت کا آغاز سنہ ۲۷۹ ہجری اور اختتام سنہ ۲۸۹ ہجری میں ہوا ۔ پس محمد بن زید کے حکم پر حرم کی تعمیر اسی دوران ہوئی ۔

حرم کی تخریب و تعمیر کا یہ سلسلہ اسی طرح جاری رہا ؛ کبھی طاغوت اور ظالم عناصر نے ان بیوت الٰہی کو تخریب کیا  کہ جس طرح ابرہہ نے ہاتھیوں کے لشکر کے ساتھ بیت اللہ کو تباہ و برباد کرنے کا ارادہ کیا تو خداوند متعال نے (ابابیل کے ذریعہ) سنگریزے پھینک کر اس کی سازشوں پر پانی پھیر دیا اور ان سب کا نام و نشان متا دیا ۔ جی ہاں ! خدا کی لعنت ہوان  ظالم گروہوں پر ، جو  اپنے اسی اصل کی فرع ہیں لیکن خدا  نے یہ ارادہ فرمایا ہے کہ اپنے نور کو کامل کرے ، اگرچہ یہ بات مشرکوں کو ناگوار ہی کیوں نہ گزرے ۔ باطل ہمیشہ پانی پر لکھی ہوئی تحریر کی مانند ہے جسے ایک نہ ایک دن نیست و نابود ہونا ہی ہے لیکن حق پانی کی مانند ہے   جس سے لوگ مستفید ہوتے رہے ہیں ، اور ہوتے رہیں گے اور وہ زمین پر باقی رہتا ہے ۔

    ملاحظہ کریں : 733
    آج کے وزٹر : 127040
    کل کے وزٹر : 167544
    تمام وزٹر کی تعداد : 143865056
    تمام وزٹر کی تعداد : 99288638