امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
کون سا علم روحانی تکامل کا باعث ہے؟

کون سا علم روحانی تکامل کا باعث ہے؟

تحصیل علم کی شرائط کے بارے میں گذشتہ مطالب سے روشن ہوتا ہے کہ روایات کی رو سے حصول علم با ارزش اور اہم آثار علوم کی تمام انواع کو شامل نہیں کرتے۔اگرچہ بعض افرادلفظ علم سے عمومی معنی کو مراد لیتے ہیں یعنی  وہ علم کہ آج کی دنیا میں جس کا حصول رائج ہو۔لیکن روایات کی نظر میں علمی مسائل سے آگاہ بہت سے افراد کو صاحبان فضل (نہ کہ علم)شمار کیا گیا ہے۔لہٰذا مکتب عصمت و طہارت کی نظر میں ہر قسم کے مطالب کو علم کے عنوان سے سیکھنا واجب نہیں ہے۔

ایک مشہور روایت میں پیغمبر اسلام حضرت محمد ۖ سے نقل ہوا ہے کہ آپ نے کہا:

'' طَلَبُ العِلم فَرِیضَة عَلیٰ کُلِّ مُسلَمٍ وَ مُسلِمَةٍ ''

علم کاحصول ہر مسلمان مرد اور عورت پر واجب ہے۔

اس روایت کی تفسیر میں امام صادق (ع) فرماتے ہیں:

'' اَیُّ عِلمُ التَّقویٰ وَالیَقِینِ'' (١[1])

یعنی پیغمبر ۖ کے نزدیک جس علم کو حاصل کرنا ہو مرد اور عورت پر واجب ہے وہ ایسا علم ہے کہ جس سے انسان کے تقویٰ و یقین میں اضافہ ہو۔

اس بناء پر علم و دانش کی مدح میں وارد ہونے والی روایت کا مقصود ایسے علوم ہیں کہ جو انسان کو تکامل تک پہنچائیں نہ کہ ہر قسم کا علم،بعض ایسے علوم بھی ہیں کہ جو ظاہراً علم کی صورت میں جلوہ گر ہیں۔لیکن در حقیقت وہ خیالی مسائل سے زیادہ نہیں ہیں۔

پیغمبر اکرم ۖ فرماتے ہیں:

اِنَّ مِن البَیَانِ سِحراً وَ مِن العِلمِ جَھلاً وَ مِن القَولِ عَیّاً

بعض خطبات و بیانات سحر ،بعض علوم جھل اور بعض اقوال میں درماندگی ہوتی ہے۔

کچھ لوگ خطاب کرنے سے عاجزہوتے ہیں اور بعض خطاب کرنے میں اس حد تک مہارت رکھتے ہیں کہ اگرچہ ان کی باتیں باطل ہی کیوں نہ ہوں ،لیکن اندازِ خطابت سے لوگوں پر سحر طاری ہوجاتا ہے۔

اگر ایسے افراد دنیا کی علمی محافل میں بعض خرافات علمی تھیوری کے نام پر پھیلائیں تو کیا انہیں حاصل کرنا واجب ہے؟

بطلمیوس نے ہیئت کے بارے میں ایک غلط عقیدہ پھیلاکر دنیا کے تین ہزار سال تک کے دانشمندوں حتیٰ کہ ابوعلی سینا جیسے شخص کو اشتباہ میں ڈال دیا اور انہیں اپنا ہم عقیدہ اور ہم رائے بنالیا۔یہاں تک کہ بطلمیوس کے باطل مفروضہ پر علمی پیشرفت ہونے لگی۔

ایک زمانے میں ڈارون نے تنازع ِبقاء کے مسئلہ کو مطرح کیا۔اور اس نے اس خرافی فرضیہ کو اس طرح سے علمی رنگ دیا کہ کچھ دانشمندوں نے اس نظریہ کو قبول کیا ۔کچھ عرصہ کے بعدمعلوم ہوا کہ ان کایہ غلط مفروضہ فریب سے قائم کیاگیا تاکہ بعض دوسرے لوگوں کو دھوکہ دے سکے۔ لیکن ان دانشمندوں کی خیانت سے پردہ اٹھ گیا،اور ان کا فریب آشکار ہوگیا۔اب ہم یہاں چند سطور کے ذکر  کرنے سے ان کے فریب سے پردہ اٹھانے کی کوشش کرتے ہیں۔

گذشتہ صدی کے اوائل میں  ماہرین کو کھوپڑی اور نچلے جبڑے کے کچھ نمونے ملے۔ان ماہرین میں انگلینڈ کے مشہور ماہرِ آثار قدیمہ'' چالز ڈیوس ِ''بھی شامل تھے۔ان نمونوں سے ایسا لگتا تھا کہ یہ ڈارون کے نظریہ کے مطابق بندر اور انسان کے درمیان مفقود حلقہ سے متعلق ہے۔نومبر ١٩١٢ کو منچسٹر گارڈن میں اس کی خبر شائع ہوئی۔یہ نمونے ''ساسکن '' میں واقع'' پیلٹ ڈاون کمن '' کے مقام پر

ایک نشیبی علاقے میں دریافت ہوئے اور اسے پیلٹ ڈاون کا نام دیا گیا۔بعض ماہرین کا شک تھا کہ کھوپڑی اور جبڑے کے ٹکڑے ایک ہی چیز کے ہیں۔جب ١٩١٧ ء میں یہ اعلان ہوا کہ دو سال پہلے بھی ایسا ہی ایک نمونہ دریافت ہوا ہے  تو اکثر شکّاک خاموش ہو گئے۔

١٩٥٣ء میں آکسفورڈ  یونیورسٹی کے پروفیسر ''وائنز ''نے اس قضیہ کے بارے میں تحقیق شروع کی تو وہ اس وقت شک میں مبتلا ہو گیا کہ جب اس کو یہ پتہ چلا کہ ابھی تک یہ معلوم نہیں ہے کہ  پیلٹ ڈاون کا دوسرا نمونہ کس مقام سے دریافت ہوا تھا ۔اس نے  آکسفورڈ  یونیورسٹی کے پروفیسر ''سر ویلفوڈڈیگراس کلار ''اور برطانیہ  کے عجائب گھر میں آثار قدیمہ کے ماہر ''کنٹ آکلی ''سے مدد کا تقاضا کیا۔کچھ مدت کے بعدان کی کوششوں کے نتائج انگلینڈ کے میوزیم کی گزارشات میں شائع ہوئے۔اب اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ انہوں نے جبڑے کے دانتوں کی اصلاح تھی ،تاکہ یہ انسان کی شبیہ لگے۔

مختلف تجربات سے پتہ چلا کہ کھوپڑی اور جبڑے کے نمونے بھی مختلف ہیں ۔اس سے ثابت ہوا کہ پیلٹ ڈاون کا دوسرا نمونہ خود ساختہ اور مصنوعی تھا۔وہاں سے ملنے والی حیوانات کی ہڈیوں کو جمع کرکے پیلٹ ڈاون کی شکل دی گئی۔لیکن ابھی تک یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ یہ کس کی سازش تھی؟

پس معلوم ہوا کہ علم میں بھی دوسری چیزوں کی طرح تقلّب ممکن ہے۔نیز یہ بھی مشخص نہیں کہ عمل میں کس ھد تک تقلّب انجام پاتا ہے۔

ایسی سازشوں اور تقلّبات سے بچنے کا واحد راستہ خاندانِ عصمت وطہارت علیھم السلام کی تعلیمات ہیں۔ہم  خاندانِ وحی و عصمت وطہارت علیھم السلام کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر اپنی روح کو تکامل حاصل سکتے ہیں ۔

حضرت امیرالمومنین علی (ع)، پیغمبر اکرم  ۖ سے نقل کرتے ہیں کہ آنحضرت نے فرمایا :

'' وَلٰکِنیّ اَخَافُ عَلَیکُم کُلُّ مُنَافِقِ الجَنَانِ عَالِمِ الِّلسانِ یَقُولُ مَا تَعرِفُونَ وَیَفعَلُ مَا تَنکِرُون'' ([2])

لیکن سارا خطرہ ان لوگوں سے ہے جو زبان کے عالم ہوں اور دل کے منافق ،کہتے وہی ہیں  جو تم سب پہچانتے ہو اور کرتے وہی ہیں جسے تم برا سمجھتے ہو۔

بعض دانشمند یہ سوچتے ہیں کہ وہ معاشرے کی خدمت کے لئے جستجو کررہے ہیں ،لیکن در حقیقت وہ نادانی کی وجہ سے استعمار کے ہاتھوں استعمال ہورہے ہوتے ہیں ۔استعماری طاقتیں ان کے علم ودانش کو اپنے مفاد کے لئے استعمال کرتی ہیں۔'' آئن سٹائن '' بھی ایسے افراد میں سے ایک ہے۔

اس کا روحانی افسوس و افسردگی اور اس کے ساتھ کام کرنے والے '' رابرٹ '' کی پشیمانی اس حقیقت و واقعیت کی گواہ ہے۔ ان دونوں کو روحانی افسوس و پشیمانی اس وقت ہوئی کہ جب انہیں معلوم ہوا کہ ایٹم کی عظیم قوت کو انسانیت کی فلاح و فائدہ میں استعمال کرنے کی بجائے بعض ممالک کی سیاسی شخصیات اسے بعض اقوام و ملل اور انسانوں کو نابود کرنے کے لئے استعمال کررہے ہیں۔

یونیسکوکے توسط سے منعقد کی جانے والی آئن سٹائن کی دسویں برسی سے خطاب کرتے ہوئے ''آئن سٹائن '' کے قریبی دوست نے کہا:

'' آئن سٹائن '' نے اپنی زندگی کے آخری ایام میں تسلیحاتی مسابقات اور جنگوں سے مایوس ہوکر کہا تھا کہ اگر میں زندگی کو دوبارہ سے شروع کر سکتا تو میں ایک الیکٹریشن بننے کو ترجیح دیتا۔

آئن سٹائن اس تمام علمی شہرت کے باوجود اپنی زندگی کی آخری ایام میں اپنے ماضی پر پشیمان تھا ۔جب اس نے اپنے علم و دانش کو استعماری اور دنیا کو برباد کرنے والی طاقتوں کے ہاتھوں استعمال ہوتے دیکھا،نہ کہ لوگوں کی خدمت میں ،تو اسے پشیمانی ہوئی۔

اب یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا استعمار اور دنیا کی ظالم اور ستمگر قوتوں کی خدمت میں استعمال ہونے والا علم روح کی بلندی اور معنوی درجات کے عروج کا سبب بن سکتا ہے؟

جو دانشمند نادانی کے باعث غیروں کی خدمت اور اپنوں سے خیانت کرے کس طرح ممکن ہے کہ وہ اہلبیت  کی مدح و ستایش کا مستحق ہو۔

ہماری روایات میں ایسا عالم مدح و ستائش کا مستحق ہے کہ جو صرف گفتار کی حد تک نہیں بلکہ مقامِ عمل میں بھی دین کا خدمتگذار ہو۔

اسی وجہ سے امام صادق (ع) فرماتے ہیں:

''یعنِی بالعُلماءِ مَن صَدَّقَ قَولَہ فِعلُہ وَمَن لَم یُصَدِّق قَولَہ فِعلُہ فَلَیسَ بِعَالِمٍ ''([3])

عالم سے مراد وہ شخص ہے کہ جس کا کردار اس کی گفتار کی تصدیق کرے اور جس کا کردار ، اس کی گفتار کی تصدیق  نہ کرے وہ عالم نہیں ہے۔

 


[1] ۔ بحارالانوار:ج۲ص۳۲

[2]۔ نہج البلاغہ مکتوب:٢٧

[3]۔ بحاراالانوار:ج ٧٠ص ٣٤٤

 

    بازدید : 7599
    بازديد امروز : 4928
    بازديد ديروز : 85752
    بازديد کل : 133025000
    بازديد کل : 92120675