حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
38) جنگ صفین کے بارے میں حضرت عیسی علیہ السلام کی پیشنگوئی

جنگ صفین کے بارے میں

حضرت عیسی علیہ السلام کی پیشنگوئی

     ایک ووسرا اہم ترین واقعہ کہ جو معاویہ اور اس کیگماشتوں کی راہ کے باطل ہونے کو واضح کر دیتا ہے ،وہ جنگ صفین کے بارے میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیشنگوئی ہے۔ فریقین کے بزرگوں نے یہ پیشنگوئی اپنی کتابوں میں نقل کی ہے اور راہب کی شہادت کا واقعہ بھی بیان کیا ہے۔

     ''تاریخ روضة الصفا'' میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیشنگوئی کو یوں ذکر کیاگیا ہے:

     امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نُخَیلہ سے لشکر کے ساتھ روانہ ہوئے اور جب نماز کا وقت قریب ہوا تو آپ راستہ میں موجود مسجد میں تشریف لے گئے،  آپ نے قصر نماز ادا کی اور وہاں سیتیزی سے گذر گئے اور دیر ابوموسی میں قیام فرمایا اور اس جگہ عصر کی نماز ادا کی اور وہاں سے روانہ ہو گئے ،فرات کے کنارے آپ نے مغرب کی نماز پڑھنے کے لئے قیام کیا ، مدائن کے خیمہ لشکر ظفر کی خیمہ گاہ سے نزدیک ہو گئے ،وہاں کے کسانوں نے مکان کی پیشکش کی لیکن قبول نہیں کی اور رات وہیں گذاری۔ پھر وہاں سے روانہ ہوئے یہاں تک کہ انوشیروان کے دارالملک تک پہنچ گئے اور اسی طرح وہاں سے بھی روانہ ہو گئے اور منزلیں اور مراحل طے کرتے ہوئے جزیرة العرب کی حدود میں دیر راہبی تک پہنچ گئے کہ جس پر انہوں نے مینار بنائے ہوئے تھے۔آنحضرت نے وہاں کھوڑے کی لگام کھینچی اور راہب کو آواز دی ،جب راہب نے رعبدارآواز سنی تو کمزور بدن ،رد رنگ اور سیاہ لباس کے ساتھ خانقاہ کی چھت پر آیا۔

      امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے اس سے پوچھا:میرے ساتھی پیاسے ہیں کیاتمہارے پاس تھوڑا پانی ہے ؟

     راہب نے کہا:کچھ دیر ٹھہریں ،میں خوش ذائقہ پانی کی ایک بالٹی لے کر آتا ہوں۔

      امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا: اتنا پانی کافی نہیں ہے۔

     راہب نے کہا: اتنا پانی لاؤں کہ جو بیس افراد کے لئے کافی ہو۔

     امام المسلمین علیہ السلام نے فرمایا: میرے ساتھ بہت سے لوگ ہیں۔

     راہب نے جواب دیا: میرے پاس پانی کے تین برتن بھرے ہوئے ہیں ، میں سارا پانی آپ پر قربان کر تا ہوںاور جو کچھ میرے پاس ہے میں آپ کے قدموں پر نچھاور کرتا ہوں۔

      امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

     اے راہب! اس مینار کے نزدیک ایکچشمہ ہے کہ جس سے بنی اسرائیل کے چھ انبیاء سیراب ہوئے اور اب وہ چشمہ دیکھنے والوں کی نظروں سے پوشیدہ ہے۔

     جب راہب نے یہ بات سنی تو چھت سے نیچے آیا اور اس نے عرض کیا: میرے والد نے اپنے والد سے روایت کی ہے کہ اس جگہ پانی کا ایک چشمہ ہے کہ جو بند ہو گیا ہے ،اوراسے پیغمبر یا ان کے وصی کے علاوہ کوئی بھی نہیں کھول سکتا۔

     حضرت امیر کائنات علیہ السلام نے فرمایا: میں انشاء اللہ اس بند چشمہ کو ڈھونڈ لوں گا۔

راہب نے پوچھا:آپ کا نام کیا ہے؟

     آپ نے فرمایا:علی بن ابیطالب (علیہما السلام)

     راہب نے کہا:مجھے میرے والد سے ایک کتاب ملی ہے کہ جس میں آخر الزمان کے پیغمبرۖ اور اس چشمہ کو ظاہر کرنے والے کا نام لکھا ہے اور اگر یہ اہم کام آپ کی کوششوں سے انجام پا گیا تو میں آپ کے دست مبارک پر اسلام قبول کروں  گا۔

      امیر المؤمنین علی علیہ السلام خانقاہ کے مشرق کی طرف آگے بڑھے اور تقریباً بیس گز کا دائرہ کھینچا اور اس حصہ کو کھودنے کا حکم دیا ،جب وہاں کچھ مقدار میں کھوددائی کی گئی تو بہت بڑا پتھر نمودار ہوا جسے طاقتورلوگوں کے ایک گروہ کے مل کر ہٹانے کی کوشش کی لیکن اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود بھی اسیس ہلا نہ سکے۔

      امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا: اگر خداوند عزّوجل نے چاہا تو میں اس چشمہ سے یہ پتھر ہٹا دوں گا۔

     راہب نے کہا: آپ تنہا یہ کام کیسے انجام دے سکتے ہیں؟ کیونکہ کئی طاقتور پہلوان مل کر بھی اس کو ہٹانے سے عاجز رہے۔

      امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے فرمایا:

     اے راہب؛ ایک دن میں رسول خداۖکے ساتھ سیر کر رہا تھا کہ اچانک آپ نے قریش کے کچھ سربراہوں کو دیکھا کہ جو  ایک پتھرکو اٹھا کی کوشش کر رہے تھے۔

     رسول خداۖ نے ان سے مخاطب ہو کر فرمایا: تم لوگ سوچتے ہو کہ طاقت یہ ہے؟ نہیں؛ بلکہ طاقت یہ ہے کہ جب غصہ آئے تو اس پر قابورکھو۔

     اس کے بعدٔ جبل ابوقُبیس پر آئے تووہاں ایک بہت بڑا پتھر لڑھک کر زمین پر آیا، آپ نے زبان معجز سے بیان فرمایا:کوی ہے جو اس پتھر کو اٹھا سکے؟

     انہوں  نے کہا:کسی میں بھی اس پتھر کو اٹھانے کی طاقت نہیں ہے۔

     رسول خداۖ نے فرمایا:میرے چچا حمزہ،عباس اور میرے چچا کے بیٹے علی (علیہم السلام) کے علاوہ سب لوگ مل کر اٹھا لیں۔

     ابوجہل ملعون اس بات پر ہنسا اور اس نے کہا:یہ بچہ کون ہے کہ جسے تم اپنے چچا کی لڑی میں پرو رہے ہو؟

      پیغمبر اکرمۖ نے ابوجہل کے مذاق اور مسخرہ کو دیکھا تو فرمایا:میں جو جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔

     پھر فرمایا:اے علی؛کلمہ''لاٰ حولَ ولا قوّة الاّٰ باللّٰہ''کہو اور اس پتھر کو اٹھاؤ۔

     میں  نے یہ کلمہ کہا اور اس پتھر کو آسانی سے اٹھا لیا۔

     اے راہب !ہم گنج الٰہی کے خزینہ د ار اور وحی آسمانی کے وارث ہیں۔جذبۂ رحمانی ضرور مدد کرے گا اور یہ ہی کافی ہو گا۔

     جب  امیر المؤمنین علی علیہ السلام کاکلام تمام ہوا تو آپ نے اپناپاک و پاکیزہ  سینہ پتھر پر رکھا اور زور لگایا اور اس عظیم پتھر کو چشمہ سے اٹھا کر دور پھینک دیا اور اس پتھر کے نیچے سے صاف،خوش ذائقہ اور ٹھنڈا پانی نکلاجس سے لشکر کے افراد اور جانور سیراب ہوئے اور لوگوں کا آنحضرت کی ولایت و کرامت پر اعتقاد مزید مستحکم ہو گیا۔

     راہب نے یہ صورت حال دیکھ کر اسلام کا لباس زیب تن کر لیا اور اجازت چاہی کہ اسے اس کے آباء و اجداد سے وراثت میں ملنے والا صحیفہ  کیمیا اثر امام علیہ السلام کی خدمت میں پیش کرے۔وہ کتاب سریانی زبان میں لکھی ہوئی تھی اس کے خلاصہ کا ترجمہ یہ ہے:

     شمعون نے مسیح علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ انہوں نے فرمایا:

میرے  بعد باری تعالی ایسا پیغمبرۖ مبعوث کرے گا کہ جو خاتم الانبیاء اور خاتم الرسل ہو گا۔

     خوش اخلاق ہو گا،تند کلامی نہیں کرے گا،بازاروں میں آواز اونچی نہیںکرے گا،برائی کا جواب برائی سے نہیں دے گا بلکہ عفو و مہربانی فرمائے گااوراپنے کرم سے درگذر کرے گا ،ان کی  امت مخفی و اعلانیہ جہر سے خدا کی حمد و ثناء میں مشغول رہے گی۔

     جب وہ اس دار فانی سے جائیں گے تو ان کے تابعین اختلاف کے بعد اتفاق کرے  اور کچھ عرصہ کے بعد پھر ان کے درمیان اختلاف پیدا ہو گا اور ان کی امت میں سے ایک شخص اہل مشرق کو ساتھ لے کر اہل مغرب سے جنگ کے لئے اس دریا کے کنارے سے گذرے گا کہ جو صورت اور سیرت کے لحاظ سے دوسروں سے زیادہ پیغمبر اکرمۖ سے نزدیک ہو گا اور اس شخص کا حکم انصاف اور سچائی پر مبنی ہو گا۔وہ مہم امور میں سستی نہیں کرے گا ،رشوت نہیں لے گا،دنیا کے زرق برق اس کی نظر میں راکھ سے بھی زیادہ بے قیمت ہوں گے اور اس کی طینت میں موت پیاسے کے حلق میں پانی جانے سے بھی زیادہ آسان ہے اور تنہائی میں خداوند سے ڈرتا ہو گااور علانیہ طور پر سچائی اور عدالت سے کام لے گا۔جو بھی ان کے زمانے  کو درک کرے گا ا،وہ ان کی اطاعت و پیروی کرے کیونکہ ان کی خوشنودی خدا وند متعال کی رضائیت کا باعث ہے۔

     جب  امیر المؤمنین علی علیہ السلام کو اس صحیفہ کے مضمون کے بارے میں علم ہواتو آپ نے  خدائے واجب الوجود کی حمد و ثنا کے لے اپنے لب کھولے اور کہا:

     میں کس طرح اس نعمت کو شکر ادا کروں کہ جس نے ہمارے تذکرة کو باقی رکھا اور ہمیں محروم نہیں چھوڑا۔راہب نے کہا:یا  امیر المؤمنین !میں آپ کی خدمت سے ہر گز جدا نہیں ہوں گا اور نعمت و نقمت ہر حال میں پوری زندگی آپ کی خدمت میں رہوں گا اور دنیامیں مجھے جو بھی زحمت اور مصیبت ملے اسے دل و جان سے قبول کروں گا۔حبیبة الغربی کہتے ہیں:وہ جوان  امیر المؤمنین علی علیہ السلام کا مصاحب تھا یہاں تک کہ وہ جنگ صفین میں شہید ہو گیا اور  امیر المؤمنین علی علیہ السلام نے ان پر نماز ادا کی اور فرمایا: یہ ہم اہلبیت میں سے ہیں۔([1])

     اس پیشنگوئی میں جو اہم ترین نکتہ موجود ہے ، وہ یہ ہے کہ معاویہ کے لشکر کو اہل مغرب سے تعبیر کیا گیا ہے ، ممکن ہے کہ یہ صفین کی جنگ میں معاویہ کے روم کے بادشاہ کے ساتھ تعلقات کے لئے قرینہ ہو۔انشاء اللہ اس بارے میں مناسب موقع پر بحث کریں گے۔

 


[1] - تاریخ روضة الصفا: ج۴ ص۱۹۴٦، نصر بن مزاحم منقری نے اس کا کچھ حصہ ''وقعة صفین'' میں ذکر کیا ہے۔

 

 

    ملاحظہ کریں : 1960
    آج کے وزٹر : 114033
    کل کے وزٹر : 165136
    تمام وزٹر کی تعداد : 141188051
    تمام وزٹر کی تعداد : 97462971