حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
معاویہ بروز غدیر

معاویہ بروز غدیر

غدیر کے دن ایک لاکھ بیس ہزار مسلمانوں نے حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی بیعت کی اور خداوند متعال کے حکم کی اطاعت کی حتی کہ امیر المؤمنین حضرت امام علی علیہ السلام کے دشمنوں میں سب سے بڑے دشمن ابوبکر اور عمر نے بھی آپ کے ہاتھ پر بیعت کی اور اگرچہ انہوں نے ظاہری طورپر آنحضرت کی ولایت کو قبول کر لیا اور جیسا کہ اہلسنت علماء نے لکھا ہے کہ عمر نے کہا:’’بخّ بخّ لک یا علی‘‘۔عورتوں نے بھی بیعت کی اس تقریب میں شرکت کی اور پانی کے ایک  ایسے برتن میں اپنا ہاتھ رکھ کر امیر کائنات امام علی علیہ السلام  کی بیعت کی جس میں آپ نے اپنا دست مبارک رکھا تھا اور یوں انہوں نے آپ کی ولایت کو قبول کیا۔

اپنے وطن لوٹنے کے بعد مسلمانوں نے اپنی اقوام اور دوستوں سے غدیر کے دن کی بیعت کا واقعہ بیان کیا اور سب نے امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی ولایت کو قبول کیا، حتی جو لوگ باطنی طور پرآپ کے مخالف تھے انہوں نے ظاہری طور پر رضا مندی کا اظہار کیا اور پوری امت نے حضرت امیر المؤمنین علی علیہ السلام کی ولایت کو قبول کرنے(اگرچہ ظاہری طور پر ہی سہی) کے لئے بیعت کی اس تقریب میں شرکت کی۔

اس بناء پر غدیر کی جاودانہ عید کے دن تمام مسلمانوں اور حتی کے تمام منافقوں نے بھی رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بعد امت کی سرپرستی کے لئے امیر المؤمنین علی علیہ السلام کو ضروری سمجھا اور آپ کی ولایت کو تسلیم کیا۔

اس دوران صرف ایک شخص آپ کی مخالفت میں اٹھا اور اس نے اسی دن اپنی مخالفت کا اظہار کرتے ہوئے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جھٹلانا شروع کر دیا اور پوری امت کے سامنے اپنے کفر و نفاق کو واضح و ثابت کر دیا اور وہ شخص معاویہ کے علاوہ کوئی اور نہیں تھا۔

اہلسنت علماء نے لکھا ہے کہ غدیر خم میں معاویہ تنہا ہی خدا ،رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم،ولی خدا   ،حکم خدا  اور پوری امت کے مقابلہ میں کھڑا ہوا اور اس نے  رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فرمان کو-نعوذ باللہ-جھٹلایا اور اسے ردّ کیا۔

اس حقیقت کو اہلسنت کے چند علماء نے لکھا ہے اور یوں اس کے کفر کو ثابت کیا ہے۔

اگرسقیفہ میں بیٹھنے والوں نے غدیر خم میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے خطبے کے ستر دن کے بعد واضح طور پر خدا کے حکم اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی وصیت کی مخالفت کی لیکن معاویہ نے پہلے دن ہی سے غدیر خم میں خدا،رسول خدا  صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ،ولی خدا اور حکم خدا کا صاف صاف انکار کیا۔

معاویہ نے اس پر اتنا زور دیا کہ اہلسنت مفسّرین کے مطابق اس کے اس برے اور قبیح فعل اور ناقابل  معافی گناہ کے بارے میں کئی آیات نازل ہوئیں ہیں ۔

اے کاش! دنیا کے مسلمان ابتدائے اسلام سے اب تک ان حقائق سے آشنا ہوتے کہ جن کے نتیجہ میں انہیں معاویہ کی صحیح اور مکمل شناخت ہوتی۔لیکن افسوس ! علم کی کمی اور اسلامی حقائق سےنا آشنا ہونے کی وجہ سے بہت سے مسلمان گمراہی میں مبتلا رہے اور  انہیں ضروری اور واضح حقائق کی بھی خبر نہ ہوئی ،جس کی وجہ سے وہ آب اور سراب میں تشخیص نہ دے سکے۔

شیعہ اور اہلسنت مفسرین نے کہا ہے کہ سورۂ القیامة کی کچھ آیات معاویہ کے برے اور قبیح اعمال کے بارے میں نازل ہوئی ہیں جو اس کے کفر کی واضح دلیل ہے۔

خداوند کریم نے سورۂ القیامة میں ارشاد فرمایا ہے:

’’فَلاَ صَدَّقَ وَلَا صَلّٰی.وَلَکِنْ کَذَّبَ وَتَوَلّٰی.ثُمَّ ذَھَبَ اِلَی أَھْلِہِ یَتَمَطَّی ‘‘[1]،[2]

اس نے نہ کلام خدا کی تصدیق کی اور نہ نماز پڑھی،بلکہ تکذیب کی اور منہ پھیر لیا،پھر اپنے اہل کی طرف اکڑتا ہوا گیا۔

اس اہم نکتہ پر توجہ کریں:تصدیق نہ کرنا،نماز نہ پڑھنا،جھٹلانا اور روگردانی کرنا یہ سب کفار کے کام ہیں۔لیکن ان سب کے باوجود معاویہ اپنی ان کفر آمیز کرتوتوں پر نہ ہی توپشیمان ہوا ، اور نہ ہی اسے اس پر کوئی شرمندگی تھی بلکہ وہ یہ کفر آمیز باتیں کہنے کےعلاوہ  ان پر فخر بھی کیا کرتا ۔اگرغدیر کے دن عمر،ابوبکر،مغیرہ وغیرہ میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی مخالفت کرنے اور آپ کی شان میں گستاخی کرنے  کی طاقت نہیں تھی لیکن معاویہ نے نہ صرف آنحضرت کی مخالفت کی بلکہ اس کے علاوہ تکبرانہ انداز میں فخر کرتے ہوئے انتہائی نازیبا کلمات کہے اور اسے رسول  اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اورمسلمانوں کے سامنےکسی قسم کی شرم و حیاء نہ آئی!!!

جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ انسان کے اعمال اور اس کا رویہ اس کی ذات اور باطن کی عکاسی کرتے ہیں ۔جس انسان کی ذات اور باطن پاک ہو گا وہ برے اور ناپسندیدہ کام انجام نہیں دے گا اور جس کی ذات اور باطن میں برائی اور گندگی بھری ہو،وہ برے اعمال و گفتار کا مرتکب ہو گا۔معاویہ کی بھی ذات اور باطن بھی ناپاک تھا کیونکہ وہ جگر خور ہند کا بیٹا تھا اور اس کی ماں فاحشہ کے طور رپر مشہور تھی۔

معاویہ نے برے اور نازیبا کلمات بھی کہے اور بڑے افتخارانہ انداز سے خدا اور خدا کے رسول صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو جھٹلایا۔

یہ واضح سی بات ہے کہ ایسی گستاخ شخصیت کے مالک انسان-حتی کہ جو خدا اور رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کےسامنےبھی گستاخی کرے- کے چہرے کو چند صفحات پر مشتمل ابحاث سے بے نقاب نہیں کیا جا سکتا۔بلکہ ایسے شخص کے کارناموں سے مکمل آگاہی کے لئے اس کے اجداد اور حسب و نسب سے بھی آگاہ ہونا ضروری ہے۔

اسی لئے ہم نے اس کتاب میں خاندان بنی امیہ کے حسب و نسب کے بارے میں بھی بحث کی ہے تا کہ معاویہ کے ماضی اور اس کی  بدکردار ہونے کے رازوں سے پردہ اٹھایا جا سکے۔

ہم امید کرتے ہیں کہ قارئین کرام کسی بھی طرح کے تعصب کے بغیر اس کتاب کو پوری توجہ اور غور و فکر کے ساتھ پڑھیں گے تا کہ  ان کے لئے بہت سے حقائق کو جاننے کا راستہ کھلے اور وہ اہم اور مؤثر  نکات سے آشنا ہو سکیں۔

 وما توفیق الّا باللّٰہ

سید مرتضیٰ مجتہدی سیتانی

 


۔ سورۂ القیامۃ،آیت:٣٣-٣١[1]

[2]۔ شواہد التنزیل:٣٩٠٢ اور ٣٩١ روایت ١٠٤٠ اور ١٠٤١۔قرآن کریم میں معاویہ کے بارے میں نازل ہونے والی متعدد آیات ہیں جنہیں شیعہ و سنی مفسرین نے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے ۔ہم معاویہ کے بارے میں آیات کو''معاویہ، قرآن کی نظر میں''کی بحث میں بیان کریں گے۔

 

    ملاحظہ کریں : 2056
    آج کے وزٹر : 115049
    کل کے وزٹر : 165136
    تمام وزٹر کی تعداد : 141190083
    تمام وزٹر کی تعداد : 97463986