امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
امام حسین علیہ السلام اور آپ کی عزاداری کی توہین کرنا

امام حسین علیہ السلام اور آپ کی عزاداری کی توہین کرنا

یونیورسٹی کے استاد نے ان سے پوچھا تھا : انہوں نے ان سات اہل سنت خواتین کو ہی کیوں نشانہ بنایا اور دوسرے اہل سنت کو کیوں کوئی تکلیف نہیں پہنچائی ؟ اس  کے جواب میں یونیورسٹی کے استاد  کے موکلوں نے کہا : چونکہ جس رات یہ واقعہ پیش آیا اور اس سے ایک دن پہلےعاشورا کا دن تھا ، جس میں شیعہ عزادار تھے ، اور شیعہ جنّات نے اس جگہ مجلس منعقد کی تھی کہ جہاں وہ خواتین رہتی تھیں اور چونکہ وہ اس دن دوسرے لوگوں سے زیادہ خوش تھیں اور ہنس رہی تھیں ۔ اس لئے جنات میں سے تین جوانوں کو یہ کام سونپا گیا کہ وہ انہیں تنبیہ کریں ۔ یونیورسٹی کے استاد نے کہا تھا : میں نے ان سے کہا کہ اس میں ان کی کوئی غلطی نہیں تھی ، چونکہ اوّلا انہیں شیعہ جنّات کی عزاداری نظر نہیں آ رہی تھی ، اور ثانیاً انہیں عاشورا کے بارے میں کوئی خبر نہیں تھی،چونکہ اہل سنت اور بالخصوص مدینہ میں لوگ اس موضوع سے غافل ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے فقراء کی صورت میں کچھ لوگوں کو ان کے گھر بھیجا تھا ، لیکن خوشی ، ہنسی مذاق اور جشن کی محفل کو چھوڑنے کی بجائے ان میں سے کچھ نے باتوں سے اور کچھ نے عملی طور پر سید الشہداء حضرت امام حسین (علیہ السلام) کی توہین کی تھی ، اور جب تک وہ اپنے اس عمل سے توبہ نہ کر لیں ، ان کے چہرے کا رنگ مزید زرد ہوتا چلا جائے گا  اور اس سے  انہیں مزید تکلیف ہو گی ۔ اس لئے یونیورسٹی  کے استاد کا اس بات پر اصرار تھا کہ وہ جلد از جلد توبہ کریں تا کہ ان کی حالت بہتر ہو سکے ۔ ان میں سے کچھ خواتین کسی سے یہ واقعہ بیان کئے بغیر ہی محلہ نخاویہ میں شیعوں کے پاس گئیں اور انہوں نے امام حسین (علیہ السلام) کی عزاداری کے لئے کچھ پیسے دیئے تھے اور اپنے عمل سے توبہ کی تھی ۔ میں اب بھی اپنی بات پر ڈتا ہوا تھا ۔ ایک دن میں نے یونیورسٹی کے استاد سے کہا : ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ شیعہ ہیں اور آپ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اور ان لوگوں کو شیعوں سے جوڑنا چاہتے ہیں ؟!

انہوں نے مجھ سے کہا : خدا کی قسم ! میں شیعہ  نہیں ہوں ۔ میں نے وہی کچھ کہا ہے جو میں سمجھا ہوں ، اور اب تمہیں بھی سمجھ جانا چاہئے ۔ ایسا نہ ہو کہ تم پولیس کو بتا دو اور پھر تم اس نقصان کی تلافی نہیں کر سکو سے  اور ساتھ ہی ساتھ مجھے بھی پریشانی ہو سکتی ہے ، اگرچہ میں نے پورے خلوص اور محبت سے بلامعاوضہ تمہاری مدد کی ہے ۔ میں نے کہا: آپ کے پاس جن ہیں تو آپ ان سے مدد لے سکتے ہیں ۔ انہوں نے جتنی بھی التماس کی لیکن میں نے توجہ نہیں دی اور چونکہ میں نے اس دوران پولیس کے ساتھ تعاون کیا تھا اور انہیں مجھ پر اعتماد تھا، اس لئے میں نے انہیں اس سارے واقعہ سے مطلع کر دیا ۔

پولیس اسٹیشن کے اعلیٰ افسر نے مجھے تنہائی میں بلایا اور کہا : تم نے دوسرے افسروں اور بالخصوص نگہبان افسر کے سامنے یہ سارا واقعہ بیان کر کے اچھا نہیں کیا ، کیونکہ وہ بہت ہی متعصب ہے ۔ اب میں مجبور ہوں کہ یونیورسٹی کے استاد کو گرفتار کروں ۔ اگر تم صبر کر لیتے اور یہ دیکھتے کہ اگر ان سب خواتین کی حالت ٹھیک ہو جاتی اور صرف تمہاری بیوی ہی بیمار رہتی تو اس سے یہ معلوم ہو جاتا کہ یہ واقعہ صحیح  ہے ، اور اس میں کیا حرج تھا کہ تم اپنی بیوی کی بیماری کو دور کرنے کے لئے شیعوں کو حضرت حسین بن علی (علیہما السلام) کی عزداری کے لئے کچھ پیسے دے دو !!

میں نے غصے کے عالم میں کہا : گویا آپ بھی ان بدعات کو ناپسند نہیں کرتے، یہ عقائد سعودی حکومت کے عقائد سے متصادم ہیں، جس کا سرکاری مذہب وہابیت ہے !!

پولیس اسٹیشن کے اعلیٰ افسر نے فون کیا تو پولیس کا ایک اہلکار آیا ، جسے اس نے حکم دیا کہ یونیورسٹی کے فلاں استاد کو بلا کر لاؤ۔ پھر کہا : اس جوان کا اسلحہ بھی قبضے میں لے لو اور اب اسے بغیر اجازت کے یہاں مت آنے دو ۔ بالآخر اس دن انہوں نے مجھ سے اسلحہ لے لیا اور مجھے پولیس اسٹیشن سے نکال دیا ۔ میں گھر چلا گیا اور پوری رات یونیورسٹی کے استاد ، پولیس اسٹیشن کے افسر اور شیعوں کو پیسے دینے والوں کے لئے مصیبت کھڑی کرنے کا مختلف منصوبے  بناتا رہا ۔ آخر کار میں نے یہ سوچا کہ میں قاضی القضات (ابن باز) کے پاس جا کر ان سب کی شکایت کروں اور  شروع سے آخر تک سارا واقعہ ان سے بیان کرو ۔  ان کے پاس اتنی طاقت تھی کہ وہ پولیس کے سربراہ کو بھی گرفتار کروا سکتے تھے  اور بالخصوص جب میں نے یہ  سنا کہ یونیورسٹی کا استاد کہیں سفر پر گیا ہے اور پولیس کےسربراہ نے اسے مقدمے سے بچانے کے لئے یہ اقدام کیا ہے  تو مجھے اور غصہ آ گیا اور میں سیدھا ابن باز کے گھر چلا گیا ، اتفاقاً وہ گھر میں نہیں تھا ، میں  نے اس کے خادموں سے کہا : کل میں ان کی خدمت میں حاضر ہوں گا ۔ میں دوبارہ اپنے گھر چلا گیا اور اپنے کمرے میں سونے کے لئے چلا گیا ۔ میرے سر پر ان لوگوں کو نقصان پہنچانے کا بھوت سوار تھا  ،اچانک  میں نے دیکھا  کہ  میرے کمرے میں کوئی شخص داخل ہوا ہے ۔ پہلے میں نے سوچا کہ شاید میری بیوی کمرے سے باہر گئی ہو گی جو اب واپس آ گئی ہے ، لیکن جب میں نے اسے دیکھا تو وہ ایک قوی الجثہ شخص تھا  جو اپنے ہاتھ میں مخصوص ہتھیار سے مجھے مارنا چاہتا تھا ۔ میں نے سوچا کہ یہ ان میں سے ایک ہے جنہوں نے ان خواتین کو زخمی کیا تھا ۔ میں اپنی جگہ سے چیختا ہوا اٹھا اور اس سے کہا : بدبخت ! آج میرے پاس اسلحہ نہیں ہے تو تم  ڈرتے ہوئے میرے پاس آئے ہو ، مجھے پتا ہے کہ تمہارے ساتھ کیا کرنا ہے ، لیکن اس نے صرف اپنا ایک ہاتھ ہی آگے پڑھایا اور  جب اس کا ہاتھ میرے پاس آیا تو وہ بڑا ہوا گیا اور اس نے میرے دونوں پاؤں اپنے ایک ہاتھ سے ہی پکڑ لئے اور انہیں اتنی زود سے دبایا کہ میں بیہوش ہو گیا ۔ جب میں ہوش میں آیا تو صبح ہو چکی تھی ، میرے دونوں پاؤں میں شدید درد تھا ۔ میری بیوی نے مجھ سے کہا : کیا ہوا ہے ؟ میں نے اس سے یہ واقعہ بیان کیا ۔ اس نے کہا : تم نے کوئی برا خواب دیکھا ہے ۔ اب اٹھو تا کہ میں تمہیں ایک خوشخبری دوں ۔ میری تمام تر کوشش کے باوجود میں کھڑا نہ ہوسکا ۔

میں نے اس سے کہا : وہ خوشخبری کیا ہے ؟ اس نے کہا : مجھے میری بیماری کی وجہ معلوم ہو گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ اس رات کے واقعہ سے پہلے دن کے وقت ایک فقیر سید ہمارے دروازے پر آیا تھا اور اس نے مجھ سے کوئی چیز مانگی تھی اور میں ریڈیو پرموسیقی سن رہی تھی ، اور بے حد خوش تھی ، یہاں تک کہ کبھی رقص کر رہی تھی ، اس لئے میں نے اس شخص کی پرواہ نہیں کی ۔ اس فقیر سید نے مجھ سے کہا : آج عاشورا کا دن ہے اور آج کے دن شیعہ حضرت حسین (علیہ السلام)  کے لئے عزاداری  کرتے ہیں ، لیکن تم اتنی خوشی کیوں منا رہی ہو ؟ میں  نے اس سے کہا  : دفعہ ہو جاؤ اور میں نے حسین بن علی (علیہما السلام ) اور شیعوں کی توہین میں  کچھ جملے بھی  کہے ۔ وہ مجھ پر نفرین کرتا ہوا چلا گیا ،  اور پھر رات کو یہ واقعہ رونما ہو ، لیکن کل غروب کے وقت میں نے اسی فقیر سید کو دیکھا اور اس سے معذرت طلب کی ۔ اس نے مجھ سے کہا : اگر تم نخاولہ کے شیعوں کو سید الشہداء امام حسین (علیہ السلام) کی عزداری  کے لئے کچھ پیسے دو تو تم شفا یاب ہو جاؤ گی ۔

میں یہ سوچ رہا تھا کہ میرے دوستوں نے میری بیوی کو دھوکہ دیا ہے اور اس نے یہ جھوٹ گھڑا ہے  تا کہ میں بھی یونیورسٹی کے استاد کی باتوں کا معتقد ہو جاؤں ۔ میں نے اپنی بیوی کے منہ پر زور دار طمانچہ مارا اور اس سے کہا : پھر کبھی مجھ سے یہ جھوٹی باتیں مت کہنا ۔ لیکن بعد میں اس بات پر بہت پشیمان ہوا ، اور بالخصوص مجھے اس بات کا پچھتاوا تھا کہ میں نے اس سے یونیورسٹی کے استاد کی بتائی ہوئی باتوں کو چھپایا تھا ۔ غصہ کرنے کی وجہ سے میرے پاؤں میں اور زیادہ درد ہو رہا تھا ، میں درد کے مارے چیخ رہا تھا اور دوسری طرف میری بیوی مجھ سے طمانچہ کھانے کی وجہ سے رو رہی تھی ، آخر کار میں درد کی شدت برداشت نہ کر سکا اور میں نے اس سے کہا : مجھے جلد از جلد ہسپتال پہنچا دو ، وہ مجھے ہسپتال لے گئی ۔ ڈاکٹر نے کہا : ایسا لگتا ہے جیسے آپ کے پاؤں پر بہت شدید چوٹ لگی ہے ، جس سے پاؤں میں خون جاری نہیں ہے ، اگر ہم مساج کے ذریعہ خون جاری کرنے میں کامیاب ہو گئے  تو آپ کے پاؤں کا درد ختم ہو جائے گا ۔ انہوں نے رات تک میرے پاؤں کو مساج دی  لیکن نہ تو خون جاری ہوا اور نہ ہی  درد  ختم ہوا ۔ معالج نے کہا : اگر آپ یہ بتائیں کہ آپ کو یہ چوٹ کیسے لگی  تو ممکن ہے کہ اس کا بہتر علاج کیا جا سکے  ۔ میں نے اسے یہ واقعہ بتایا تو اس نے کہا : آپ ڈر گئے ہیں ، کوئی بات نہیں ، اب آپ نے میری پریشانی دور کر دی ہے ، لیکن میرے پاؤں کے درد نے مجھے بے حال کر دیا تھا ۔ درد کی شدت کو کم کرنے کے لئے مسکن ادوایات  بھی مؤثر  ثابت نہیں ہو رہیں تھیں ۔ مجھے نہیں معلوم کہ رات کے آخری پہر  میں سو رہا تھا یا یہ کہ بیدار تھا  ، لیکن میرے کمرے کا دروازہ کھلا اور اس مرتبہ تین نقاب پوش جوان میرے کمرے میں داخل ہوئے ، کمرے میں نرس بھی کھڑی ہوئی تھی !!! لیکن مجھے ایسے لگا جیسے وہ ان کی نہیں دیکھ رہی تھی ۔ان  میں سے ایک نے اپنے چہرے سے نقاب ہٹایا تو میں  نے دیکھا کہ یہ وہی شخص تھا جس نے گذشتہ رات میرے پاؤں کو دبایا تھا ۔ اس نے مجھ سے کہا : اب تک میں نے تم سے کوئی بات نہیں کی ، چونکہ جو شخص اس قدر بیوقوف ہو اس سے بات نہیں کرنی چاہئے ، لیکن اب میں مجبور ہوں کہ تمہیں کچھ باتیں بتاؤں : اوّلاً ہم وہی تین افراد ہیں جنہوں  نے امام حسین بن علی (علیہما السلام) اور عاشورا  کی توہین کرنے کی وجہ سے ان سات خواتین کو تنبیہ کی تھی ۔ ثانیاً یہ جان لو کہ تم چاہے توبہ  کرو لیکن پھر بھی تمہارا پاؤں ٹھیک نہیں ہو گا ، اور اگر یہ تمہارا پاؤں نہیں کاٹیں گے تو تم مر جاؤ گے ۔ اسی دوران دوسرے افراد نے بھی اپنے چہرے سے نقاب ہٹا دیا  اور جو شخص مجھ سے باتیں کر رہا تھا ، اس نے ان سے کہا : اب چونکہ اس نے اپنی بیوی کو طمانچہ مارا ہے اور وہ اس واقعہ کا یقین نہیں کر رہا ، اس لئے اب تم اس کے ایک ہاتھ کو دباؤ ، اور تم اس کے دوسرے ہاتھ کو دباؤ  تا کہ یہ پاؤں کے ساتھ ساتھ ہاتھوں سے بھی محروم ہو جائے ، اور اگر اس کے ہاتھ نہیں ہوں گے تو یہ اپنی بیوی کے منہ پر طمانچہ بھی نہیں مار سکے گا ، انہوں نے میرے ہاتھوں کو زور سے دبایا ، میں چیخ رہا تھا ۔اس دوران اگرچہ وہ   نرس میرے پاس کھڑی ہوئی تھی لیکن مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے وہ ابھی اچانک نیند سے بیدار ہوئی ہو ۔ اس نے کہا : کیا ہوا ہے  اور جیسے ہی  میرے بستر کے قریب آئی تو میں بیہوش ہو گیا ۔ جب میں ہوش میں آیا تو ڈاکٹر میرے پاس کھڑا ہوا تھا اور میرے کندھوں کو مساج دے رہا تھا اور اب پاؤں کی طرح میرے ہاتھوں میں بھی شدید درد تھا ۔ جب میں نے ڈاکٹر کو یہ واقعہ بتایا  تو نرس نے کہا : اگر ایسا ہے تو پھر میں نے کیوں کسی کو نہیں دیکھا ؟ میں ڈاکٹر سے اصرار کر رہاتھا کہ میرے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیں تا کہ مجھے درد کی شدت سے چھٹکارا مل سکے ۔ ڈاکٹر نے کہا : ہم ضروری علاج کر رہے ہیں ، اگر اس سے کوئی فائدہ نہ ہوا تو پھر ہم یہ کام کریں گے ۔ بہر حال ڈاکٹروں نے تقریباً بیس دن تک میرا علاج کرنے کی کوشش کی اور اس دوران نہ صرف یہ کہ مجھے اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا تھا بلکہ میرے ہاتھوں  اور پاؤں کی حالت بد سے بدتر ہوتی جا رہی تھی ۔ آہستہ آہستہ میرے ہاتھوں اور پاؤں کی رگیں کالی ہو گئیں تھیں اور بالآخر ڈاکٹروں نے یہ تجویز کیا کہ وہ ایک ایک کر کے انہیں کاٹ دیں اور پھر میری ایسی حالت ہو گئی  ۔

ہسپتال سے ڈسچارج ہونے سے کچھ دن پہلے میرے زخم ٹھیک ہو گئے تھے ، میں اپنی اس حالت سے بہت پریشان تھا کہ ہسپتال سے باہر جا کر کیا کروں گا ۔ میری بیوی نے مجھ سے کہا : میں تمہیں اس حد تک ضدی نہیں سمجھتی تھی ۔ اب تو یہ بات مان لو کہ حسین بن علی علیہما السلام کی عزاداری میں کچھ پیسے نذر کرو  اور شیعوں کو وہ پیسے دو تا کہ تمہاری حالت بہتر ہو سکے ۔ میں نے کہا : اس میں کوئی حرج نہیں ہے ، میں نے ان کے لئے کچھ پیسے بھیجے اور انہیں پیغام دیا کہ وہ حضرت حسین بن علی علیہما السلام کی مجلس عزا کا انعقاد کریں اور میرے لئے  بیماری سے شفاءیاب ہونے کی دعا کریں ۔ انہوں نے بھی ظاہراً مجلس برپا کی تھی  اور وہ حضرت ابا الفضل العباس (علیہ السلام) سے متوسل ہوئے تھے ، مجھے اس توسل کی کوئی خبر نہیں تھی ۔ میں نے عالم خواب میں حضرت ابا الفضل العباس (علیہ السلام) کو دیکھا جو میرے سرہانے آئے ہیں  اور چونکہ انہوں نے میرے لئے ان سے توسل کیا تھا ، اس لئے انہوں نے مجھے درد سے نجات دی ۔ الحمد للہ اس دن سے آج تک مجھے درد نہیں ہے اور جو تم دیکھ رہے ہو ، میں یہ اچھی زندگی گزار رہا ہوں ۔

یہ میرے ساتھ پیش آنے والا واقعہ تھا ۔ میں نے اس سے کہا : آپ نے سید الشہداء امام حسین (علیہ السلام) کی عزاداری کے بارے میں یہ کرامت دیکھی ہے تو پھر آپ شیعہ کیوں نہیں ہو جاتے ؟ اس نے کہا : اب تک مذہب شیعہ کی حقانیت مجھ پر ثابت نہیں ہوئی  لیکن میں سید الشہداء  حضرت امام حسین (علیہ السلام) کی عزاداری کا بہت زیادہ معتقد ہوں  اور عاشورا کے ایّام میں خود بھی مجلس عزا منعقد کرتا ہوں ، جس میں شیعوں کو دعوت دیتا ہوں تا کہ وہ مجلس میں آئیں ۔ میں امید کرتا ہوں کہ اگر حق شیعوں  کے ساتھ ہے تو میں انہیں مجالس  کے ذریعہ شیعہ ہو جاؤں ۔ میں نے آپ کو یہ واقعہ اس لئے بتایا ہے کہ میں شیعوں سے محبت کرتا ہوں ۔ [1]

یہ مذکورہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ امام حسین علیہ السلام کی عزاداری صرف انسانوں سے ہی مخصوص نہیں ہے بلکہ جنات بھی امام حسین علیہ السلام کی شہادت اور مظلومیت پر گریہ اور عزاداری کرتے ہیں ۔علاوہ ازیں سید الشہداء حضرت امام حسین علیہ السلام پر صرف انسان اور جنات ہی عزاداری نہیں کرتے بلکہ کائنات کی  تمام موجودات اور مخلوقات امام حسین علیہ السلام کے غم میں عزادار ہیں ۔

 


[1]  ۔ ویب سائٹ عاشورا.

بازدید : 170
بازديد امروز : 95570
بازديد ديروز : 84782
بازديد کل : 134603642
بازديد کل : 93058103