امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
کس کے ساتھ مشورہ کریں ؟

کس کے ساتھ مشورہ کریں ؟

امام صادق (ع)  مشاور کی شرئط کے بارے میں فرماتے ہیں:

 ''استشیر العاقل من الرجال الورع ، فانّہ لا یأمر االاَّ بخیرٍ ...'' ۔

عاقل مر دوں کے ساتھ مشورہ کرو کہ جو پر ہیز گار ہو ں ۔ کیونکہ وہ تمہاری راہنما ئی نہیں کریں گے مگر خیر و اچھا ئی کی طرف ۔

اس امر سے بھی متوجہ رہیں کہ کبھی مشورہ ، مشورہ کرنے والے کے لئے بہت نقصان کا سبب بنتا ہے کہ جب بعض موارد میں یہ اسے گمراہی و ضلالت کے تاریک کنویں میں دھکیل دیتا ہے اسی وجہ سے خاندان وحی (ٕع) نے مشورہ کے بارے میں کچھ شرائط ذکر فر مائی ہیں تا کہ ایسی غلطیوں اور اشتبا ہات سے محفوظ رہ سکیں

آپ جس شخص سے مشورہ کرنا چا ہتے ہوں اس میں مشاور کی صلاحیت ہونی چاہئے اور اس سے جس موضوع کے بارے میں سوال کیا جائے وہ اس کے جواب کے لئے مکمل آ مادگی رکھتا ہو ۔ لہذا روایات اہل بیت علیہم السلام کی نظر میں ایسے شخص سے مشورہ کیا جائے کہ جو اس کی تمام خصوصیات کامالک ہو ۔

امام صادق  (ع) فرماتے ہیں :

'' شاور فی امور ک ممّا یقتضی الدین من فیہ خمس خصالٍ عقل ،و حلم ، و تجربة ، ونصح ، و تقویٰ ... '' (١)

اپنے امور میں کہ دین جن کا اقتضا ء کر تا ہے کسی ایسے سے مشورہ کرو کہ جس میں پانچ  خصوصیات موجود ہوں :

١ ۔ عقل    ٢ ۔ حلم   ٣ ۔ تجر بہ   ٤ ۔ نصحیت کرنے والا    ٥ ۔ تقویٰ

مشکل مسا ئل میں فقط ایسے شخص سے مشورہ کیا جائے کہ جو فہمیدہ ، تجر بہ کار ، تقویٰ دار ، بردبار ، وحلیم اور اہل نصیحت ہو اور جن افراد میں یہ خصو صیات نہ ہو ان سے پر ہیز کیاجائے ور نہ ممکن ہے کہ انسان ہدایت کی بجائے ضلا لت و گمراہی میں مبتلا ہو جائے ۔ لہذا ایسے شخص سے مشورہ کیا جائے کہ جو اس کے لئے آما دگی رکھتا ہو ۔

بہ ہر کار با کاروان راز گوی     در چارہ از رأیی او باز جوی

زدن با خداوند فر ھنگ رأیی    بہ فر ھنگ باشد تو ر اہنما ئی

امام صادق  (ع) ایک اور روایت میں ایسے شخص کو بیشتر شرائط بیان فرما تے ہیں کہ جس سے مشورہ کیاجائے:

'' انّ المشورة لاتکون الاَّ بحدودھا، فمن عرفھا والاَّ کانت مضرّ تھا علی المستشیر اکثر من منفعتھالہ ، فأ وّلھا ان یکون الذی یشاورہ عاقلاً ، والثانیة ان یکون حُرّاً متدیناً ، والثالثة ان یکون صدیقاً مواخیاً، والرابعة ان تطلعہ علی السرّک فیکون علمہ بہ کعلمک بنفسک ، ثمّ یستشر ذالک و یکتمہ فانّہ اذا کان عاقلاً انتفعک بمشورتہ، واذا کان حراً متدیّناً جھد نفسہ فی النصیحة لک ، و اذا کان صدیقاً مواخیاً کنتم شرک اذا طلعتہ علیہ ، و اذا اطلعتہ علی سرک فکان علمہ بہ کعلمک تمت المشورة وکملت النصیحة '' ([2])

مشورہ کی کچھ شرائط ہیں اگر کوئی اسے جان لے تو اچھا ہے ور نہ مشورہ کرنے والے کو فائدے سے زیادہ نقصان کا سامنا ہو گا ۔

١ ۔ مشاور عاقل و فہمیدہ ہو ۔

٢ ۔ وہ آز اد اور متدین ہو ۔

٣ ۔ آپ سے برادرا نہ صدا قت رکھتا ہو ۔

٤ ۔ آپ اسے اپنے  راز سے آگاہ کریں تا کہ وہ  آپ کی طرح مورد مشورہ کیتمامپہلوؤں سے آگاہ ہو جائے  اور پھر اسے مخفی و پوشیدہ رکھے ۔

اگر وہ عاقل و فہمیدہ ہو تو اس سے مشورہ کرنا مفید ثا بت ہو گا اگر وہ آزاد و متدین ہو تو آ پ کو نصیحت کی سعی و کوشش کرے گا اور جب وہ برا درا نہ صداقت رکھتا ہو تو وہ آپ کے رازو ں کو پوشیدہ رکھے گا ۔ اور جب آپ اس کو اپنے راز بتا دیں کہ جس طرح آپ اس مسئلہ سے آ گاہ ہیں تو وہ آ پ کو کامل اور صحیح مشورہ دے گا ۔ پس نصیحت کامل ہو جائے گی ۔

   گویند کہ بی مشاورت کار مکن                                                الحق سخنی خوشست انکار مکن

لیکن بہ کسی کہ از غمت غم نخورد                                         گر دُر ز ذہن بریذد اظہار مکن

کہتے ہیں کہ مشور ہ کے بغیر کوئی کام نہ کرو اور حق یہ ہے کہ کسی اچھی بات کا انکار نہ کرو ، لیکن جو تمہارے غم میں غم خوار نہ ہو اگر وہ اپنے منہ سے موتی بھی نچھاور کرے  تو اس کا اظہار نہ کرو ۔

اس بناء پر بے  خبراور  نادان افراد سے مشورہ کرنا بہت خطر ناک ہو سکتا ہے کہ جن میں مشاور کی شرا ئط نہ ہو ۔ کیو نکہ وہ انسان کو گمراہی و تبا ہی میں مبتلا کردے گا ۔

امیر المو منین(ع)  فرما تے ہیں :

'' لا تشاور من لا یصدّقہ عقلک '' ([3])

جسے عقل قبول نہ کرے اس سے مشورہ نہ کرو  ۔

طبیبی کہ باشد و زرد رو ی     ازاو داوری سرخ روئی مجوی

جو طبیب خود ہی بیمار ہو اس سے صحت یابی کی امید رکھنا عقل مندی نہیں ہے۔

 


[1] ۔ بحار الانوار:ج ٧٥ص  ١٠٤

[2] ۔ بحار الانوار:ج ٧٥ص  ١٠٣

[3] ۔ بحار الا نوار:ج ٧٥ص  ٣ ٠ ١       

 

    بازدید : 7407
    بازديد امروز : 5015
    بازديد ديروز : 85752
    بازديد کل : 133025175
    بازديد کل : 92120763