امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
(4) نواں حصہ امام عالم ابو ابراہيم حضرت موسى بن جعفر امام كاظم صلوات اللَّه عليه

(4)

نواں حصہ

امام عالم ابو ابراہيم

 حضرت موسى بن جعفر امام كاظم صلوات اللَّه عليه

کے افتخارات و کمالات کے بحر بیکراں سے ایک ناچیز قطرہ


 416 / 1 - كلينى رحمه الله كتاب «كافى» میں يعقوب سرّاج سے کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا : میں حضرت امام صادق عليه السلام کی خدمت میں شرفياب ہو تو آنحضرت اپنے بیٹے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کے پاس کھڑے ہو تھے کہ جو گہوارہ میں تھے اور بڑی دیر تک آپ نے اپنے بیٹے سے راز و نیاز کی باتیں کیں۔ میں وہیں بیٹھا تھا کہ راز و نیاز پر مبنی یہ گفتگو تمام ہو گئی۔ پھر میں کھڑا ہوا تو امام صادق علیہ السلام نے مجھ سے فرمایا: اپنے مولا کے پاس جاؤ اور انہیں سلام کرو۔

 میں قریب گیا اور امام کی خدمت میں سلام عرض کیا۔ انہوں نے مجھے فصیح زبان کے ساتھ جوابِ سلام دیا اور فرمایا:

اذهب ، فغيّر اسم ابنتك الّتي سمّيتها ، فإنّه اسم يبغضه اللَّه .

جاؤ اور تم نے اپنی بیٹی کا جو نام رکھا ہے اسے تبدیل کر دو کیونکہ یہ نام خدا کو پسند نہیں ہے۔

راوی کا بیان ہے کہ میرے ہاں بیٹی پیدا ہوئی تھی کہ جس کا نام میں نے «حميراء» رکھا تھا۔

 امام صادق عليه السلام نے فرمایا: ان کے حکم کی اطاعت کرو تا کہ کامیاب ہو جاؤ اور پھر میں نے اس کا نام تبدیل کر دیا۔ (1)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

 417 / 2 - روايت ہوئی ہے کہ : امام صادق عليه السلام سے کچھ لوگوں نے عرض كیا: آپ کو اپنے بیٹے موسی عليه السلام سے کس قدر محبت ہے؟

 فرمایا : وددت أن ليس لي ولد غيره حتّى لايشركه في حبّي له أحد.

میں چاہتا ہوں کہ میرا اس کے علاوہ کوئی بیٹا نہ ہوتا تا کہ وہ اس کے ساتھ میری محبت میں شریک نہ ہوتا اور میری ساری محبت صرف اسی کے لئے ہوتی۔ (2)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

 418 / 3 - عيّاشى رحمه الله نے سليمان بن عبداللَّه سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا:میں حضرت موسى بن جعفر عليهما السلام کی خدمت میں موجود تھا کہ ایک عورت کو لایا گیا کہ جس کا سڑ پشت کی طرف مڑا ہوا تھا۔

    امام عليه السلام نے اپنا دایاں ہاتھ اس کی پیشانی اور بایاں ہاتھ اس کی پشت پر رکھ کر اس کی صورت کو دائیں طرف موڑا اور اس آیت کی تلاوت فرمائی۔

«إنَّ اللَّهَ لايُغَيِّر ما بِقَوْم حَتَّى يُغَيِّرُوا ما بِأنْفُسِهِم»(3) .

 «خدا اس وقت تک کسی قوم کی حالت کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے» .

پس جب آنحضرت کی عنایت اور کرم سے اس عورت کی صورت ٹھیک ہو گئی تو آپ نے اس سے فرمایا:

 احذري أن تفعلي كما فعلت. کہیں دوبارہ ایسا کام انجام نہ دینا کہ جو تم نے انجام دیا تھا۔

حاضرین نے عرض کیا: اس عورت نے کیا کیا تھا؟

 فرمایا :اس کا گناہ پوشیدہ ہے میں اس سے پردہ نہیں اٹھانا چاہتا مگر یہ کہ وہ خود بیان کرے۔ لوگوں نے خود اس عورت سے پوچھا:اس نے جواب دیا کہ میرے شوہر کی دوسری بیوی تھی اور ایک دفعہ میں نماز کے لئے اٹھی تو میں نے یہ سوچا کہ میرا شوہر میرے پاس نہیں ہے تو وہ دوسری بیوی کے پاس ہو گا اور یہ سوچ کر میں شوہر کو تلاش کرنے لگی لیکن میں نے دیکھا کہ اس کی دوسری بیوی بھی تنہا ہے اور میرا شوہر اس کے پاس بھی نہیں ہے۔ پس بیجا گھر سے نکلنے کی وجہ سے میری صورت بدل گئی.(4)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

 419 / 4 - ابن شهراشوب نے كتاب «مناقب» میں علىّ بن يقطين سے نقل كیا ہے کہ انہوں نے کہا:

ہارون نے ایک شخص کو بلایا تا کہ وہ حضرت موسى بن جعفر عليهما السلام کو باطل ثابت کر سکے اور انہیں خاموش کر دے اور محفل میں شرمندہ کر دے۔

    ہارون نے ایک محفل کا اہتمام کیا اور وہاں جادو گر بلایا گیا اور ایک دستر خوان لگایا گیا۔ جب سب لوگ دستر خوان پر بیٹھ گئے تو اس جادوگر نے ایسا جادو کیا کہ آنحضرت کا خادم جب بھی روٹی اٹھانے لگتا تو وہ روٹی ہوا میں اڑ جاتی۔  ہارون یہ دیکھ کر بہت خوش ہوا اور ہنسنے لگا۔

    امام كاظم عليه السلام نے یہ منظر دیکھا تو سر کو بلند کیا اور پردہ پر شیر کی بنی ہوئی تصویر کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا:

 يا أسد اللَّه خذ عدوّ اللَّه. اے شير خدا! خدا کے دشمن کو پکڑ لو۔

    جیسے ہی امام نے یہ حکم دیا تو پردہ پر بنی ہوئی شیر کی تصویر سے ایک قوی اور طاقتور شیر ظاہر ہوا کہ جس نے اس جادوگر کو کھا لیا۔ ہارون اور اس کے ساتھی بے ہوش کر منہ کے بل زمین پر گر گئے اور خوف کی وجہ سے وہ ہواس باختہ ہو گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد جب وہ ہوش میں آئے تو ہاروں نے حضرت موسى بن جعفر عليهما السلام سے عرض کیا: میں آپ کو اپنے حق کا واسطہ دے کر درخواست کرتا ہوں کہ اس شیر کو حکم دین کہ وہ جادوگر ہو واپس کر دے۔

    امام عليه السلام نے فرمایا: إن كانت عصا موسى ردّت ما ابتلعته من حبال  القوم وعصيّهم، فإنّ هذه الصورة تردّ ما ابتلعته من هذا الرجل .

 اگر عصائے موسیٰ نے جادوگروں کی نگلی ہوئی رسیاں واپس پلٹائی ہوتیں تو یہ شیر بھی جادوگر کو واپس کر دیتا(5)

    اور یہ واقعہ ہارون کے ہوش میں آنے کے لئے سب سے مؤثر تھا۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

 420 / 5 - ابن شهراشوب رحمه الله نے كتاب «المناقب» اور شیخ مفيد قدس سره نے كتاب «إرشاد» میں  علىّ بن ابى حمزه بطائنى سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا:ایک روز حضرت موسى بن جعفر عليه السلام شہر مدینہ سے باہر اپنے کھیتوں کو دیکھنے کے لئے گئے، جب کہ میں آنحضرت کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا۔ امام علیہ السلام خچر پر اور میں گدھے پر سوار تھا۔ ہم  نے راستہ میں اچانک ایک شیر کو دیکھا۔ میں ڈر کے مارے ایک طرف ہو گیا لیکن حضرت موسى بن جعفر عليهما السلام بے خوف آگے بڑھتے چلے گئے۔ میں نے دیکھا کہ وہ شیر آپ نے سامنے عاجزی و انکساری دکھانے لگا۔

    امام عليه السلام شیر کی آواز سن کر رک گئے اور شیر نے خچر کے پیچھے سرین پر اپنا ہاتھ رکھ دیا، میں بہت خوفزدہ تھا۔ کچھ دیر کے بعد میں نے دیکھا کہ وہ شیر ایک طرف چلا گیا اور حضرت موسى بن جعفر عليهما السلام قبلہ رخ ہو کر دعا کرنے لگے۔ آپ نے اپنے مبارک لبوں کو جنبش دی اور کچھ کلمات کہے کہ جنہیں میں سن نہ سکا۔ اور اس کے بعد آپ نے ہاتھ کے اشارہ سے شیر کو جانے کے لئے کہا۔ شیر نے ایک آواز بلند کی کہ جو میں نے سنی اور امام عليه السلام نے آمين کہا۔

    شیر جس طرف سے آیا تھا اسی طرف واپس چلا گیا اور ہماری نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ امام عليه السلام نے اپنے سفر کو اجری رکھا اور میں بھی آنحضرت کے پیچھے پیچھے چلتا رہا۔ جب ہم اس مقام سے تھوڑا آگے بڑے تو میں امام علیہ السلام کے پاس پہنچا اور عرض کیا: میں آپ پر قربان جاؤں! اس شیر کا کیا قصہ ہے؟ خدا کی قسم! مجھے ااپ کے متعلق برا خوف تھا۔ شیر جیسے آپ کے ساتھ پیش آیا مجھے اس پر بڑا تعجب ہوا۔

    حضرت موسى بن جعفر عليهما السلام نے فرمایا: اس نے اپنی مادہ شیرنی کے بچہ جننے کی تکلیف اور سختی کی مجھ سے شکایت کی اور مجھ سے درخواست کی کہ میں دعا کروں تا کہ خدا اس کی شمکل کو آسان کر دے۔ میں نے اس کے لئے دعا کی اور میرے دل میں آیا کہ شیر کا جو بچہ دنیا میں آئے گا وہ نر ہو گا۔ میں نے اسے یہ بتایا تو شیر نے میرے لئے دعا کی کہ خدا آپ کی حفاظت کرے اور کسی درندے کو آپ اور آپ کی اولاد اور آپ کے شیعوں پر ہرگز مسلط نہ کرے۔ اور میں نے اس کی دعا پر آمین کہا۔ (6)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

 421 / 6 - ابن شهراشوب رحمه الله نے كتاب «مناقب» میں خالد سمّان سے نقل كیا ہے کہ انہوں نے کہا:ایک دن ہارون علىّ بن صالح طالقانى نامی شخص کو طلب کیا اور اس ست پوچھا: تمہارا یہ کہنا ہے کہ بادلوں نے تمہیں اٹھایا اور چین سے طالقان پہنچا دیا؟

    اس نے کہا: ہاں!

   ہارون نے کہا: اپنا قصہ بیان کرو اور مجھے اس کی تفصیلات سے آگاہ کرو۔

    علىّ بن صالح نے کہا: میری کشتی سمندر کی گہرائی میں ٹوٹ گئی اور میں تین دن تک ایک تختہ پر ہی رہا اور سمندر کی موجین کبھی مجھے اس طرٖ تو کبھی اس طرف لے جاتی تھیں، یہاں تک کہ میں خشکی تک پہنچ گیا۔ وہاں میں جاری نہریں اور سرسبز درخت دیکھے اور میں ایک درخت کے سایہ میں سو گیا۔ اچانک میں نے ایک خوفناک آواز سنی اور ڈر کر نیند سے بیدار ہو گیا۔

اس نے کہا: میں نے دو گھوڑوں کی شکل کے حیوانوں کو دیکھا۔ میں ان کی اوصاف مکمل طور پر بیان نہیں کر سکتا، اور وہ دونوں آپس میں لڑ رہے تھے۔ جب انہوں نے مجھے دیکھا تو وہ دونوں سمندر میں چلے گئے ۔ اور اسی دوران میں نے ایک بہت بڑا پرندہ دیکھا جو میرے نزدیک پہاڑوں کے درمیان ایک غار کے پاس زمین پر بیٹھا ہوا تھا۔ میں اٹھا اور درختوں میں چھپتے چھپتے اس پرندہ کے پاس پہنچ گیا تا کہ اس دیکھ سکوں۔ جیسے ہی اس پرندہ نے مجھے دیکھا تو اڑ گیا۔ میں اس کے پیچھے گیا اور جب میں غار کے قریب پہنچا تو میرے کانوں میں تسبیح و تحلیل، تکبیر اور قرآن پڑھنے کی آواز سنائی دی۔

    جب میں غار میں پہنچا تو اندر سے مجھے کسی نے آواز دی کہ اے علىّ بن صالح طالقانى! اندر آ جاؤ۔ خدا تجھ پر رحمت کرے۔

    میں اندر چلا گیا، سلام کیا اور میں نے وہاں ایک بزرگ شخص کو دیکھا جو بڑے مضبوط جسم کے مالک تھے اور جن کی آنکھیں سیاہ اور خوبصورت تھیں۔ انہوں نے میرے سلام کا جواب دیا اور فرمایا: اے علىّ بن صالح! تم نعمت اور خزانہ کی کان اور ایک قیمتی ذخرہ کا مجموعہ ہو (7)، بھوک اور پیاس کے ذریعہ تمہارا امتحان لیا گیا ہے۔ آج خدا نے تم پر رحم کیا اور تمہیں ان سب سے نجات دی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ تم کس وقت اپنی کشتی پر سوار ہوئے تھے، کشتی ٹوٹ جانے کے بعد تم سمندر میں رہے اور سمندر کی موجیں تمہیں کبھی ادھر اور کبھی ادھر لے جاتی تھیں، اور میں جانتا ہوں کہ جب تم نے ڈر کے مارے سمندر میں کود کر خود کشی کرنے کا ارادہ کیا تھا، اور جب تم نے نجات پائی اور ان دو خوبصورت حیوانوں کو دیکھا اور جب تم اس پرندہ کے پیچھے گئے کہ جو نیچے آیا تھا اور جب اس نے تمہیں دیکھا تو آسمان کی طرف پرواز کر گیا۔ میں یہ سب جانتا ہوں۔ اب آٔ اور بیٹھ جاؤ، خدا تم پر رحمت کرے۔

 جب میں نے اس بزرگ کی یہ گفتگو سنی تو عرض کیا:آپ کو خدا کی قسم! آپ کو کس نے میرے حالات کی خبر دی ہے؟ فرمایا: اس نے کہ جومخفی اور آشکار سے آگاہ ہے اور جو تمہیں دیکھتا ہے کہ جب تو کھڑا ہوات ہے اور سجدہ کرنے والوں کے درمیان تمہارے گھومنے پھرنے سے آگاہ ہے۔ پھر فرمایا! تم بھوکے ہو۔ اور پھر انہوں نے کچھ کلمات کہے، میں نے صرف ان کے لبوں کی جنبش کو دیکھا اور اچانک ایک دسترخوان حاضر ہو گیا کہ جس پر کپڑا پڑا ہوا تھا۔

انہوں نے اوپر والے کپڑے کو ایک طرف کیا اور فرمایا: آؤ اور خدا نے جو تمہارے نصیب میں کیا ہے ، اس سے کھاؤ۔

میں نے ایسا کھانا کھایا کہ اس سے پہلے میں نے کبھی ایسا لذید، خوش  ذائقہ اور پاکیزہ کھانا نہیں کھایا تھا۔ اور پھر مجھے ایسا پانی پلا کہ اس سے پہلے میں نے کبھی  ایسا لذیذ پانی نہیں پیا تھا۔ پھر دو رکعت نماز  پڑھی اور مجھ  سے فرمایا:اے على! کیا تم واپس اپنے شہر جانا چاہتے ہو؟

 میں نے عرض كیا: کون مجھے واپس لے جائے گا۔

 فرمایا : اپنے دوستوں کے احترام میں ان کے لئے یہ کام ہم انجام دیں گے۔

اس کے بعد انہوں نے دعا کی اور اپنے دونوں ہاتھ بلند کئے اور کچھ فرمایا: فوراً فوراً

اچانے غار کے دروازہ پر مختلف قسم کے بادلوں نے سایہ کر دیا، جو بادل بھی نزدیک ہوتا تو عرض کرتا:

السّلام عليك يا وليّ اللَّه وحجّته . آپ پر سلام ہو اے ولی خدا اور حجت خدا!

 آنحضرت نے اس کا جواب دیا : تم پر سلام، اور اس کی رحمت و برکات ہوں۔ اے بادل! جو سننے والا اور فرمانبردار ہے۔

پھر آپ بادل سے سوال کرتے کہ تم کہاں جانا چاہتے ہو؟ وہ کہتا: میں فلاں سرزمین پر جا رہا ہوں۔ پھر آپ نے اس سے پوچھا: کیا تم ابر رحمت ہو یا خشم و غضب ؟ وہ جواب دیتا اور چلا جاتا، یہاں تک کہ ایک خوبصورت اور چمکدار بادل آیا اور اس نے بھی باقی سب بادلوں کو طرح آپ کو سلام کیا۔ آپ نے اس بادل سے فرمایا:اے تابع اور فرمانبردار بادل! تجھ پر سلام ہو۔ تم کس سرزمین کی طرف جانے کا ارادہ رکھتے ہو؟ عرض کیا: طالقان۔ پھر آپ نے فرمایا! کیا نزول رحمت کے لئے جا رہے ہو یا غضب کے لئے؟ اس نے عرض کیا: رحمت کے لئے۔ فرمایا! میں یہ شخص بطور امانت تمہارے سپرد کر رہا ہوں، اسے اٹھا کر اپنے ساتھ لے جاؤ۔

 اس نے عرض كیا: میں نے سنا اور اطاعت کروں گا۔

 فرمایا:

زمین پر آ جاؤ۔ وہ فوراً زمین پر اتر آیا۔ پھر انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اس پر بٹھا دیا۔

اس وقت میں نے عرخ کیا: میں آپ کے خاتم الانبیاء حضرت محمّد صلى الله عليه وآله وسلم ، سرور اوصياء حضرت على عليه السلام ائمہ معصومین عليہم السلام کی قسم دیتا ہوں کہ آپ مجھے بتائیں کہ آپ کون ہیں؟ خدا کی قسم! آپ کو بہت بلند مقام عطا کیا گیا ہے۔

 فرمایا:ويحك يا عليّ بن صالح ؛ إنّ اللَّه لايخلي أرضه من حجّة طرفة عين، إمّا باطن و إمّا ظاهر،أنا حجّة اللَّه الظاهرة وحجّته الباطنة،أنا حجّة اللَّه يوم الوقت المعلوم،و أنا المؤدّي الناطق عن الرسول، أنا في وقتي هذا موسى بن جعفرعليهما السلام .

 اے على ّ بن صالح ! افسو ہے تجھ پر۔ خدا اپنی زمین کو کسی وقت حتہ ایک لمحہ کے لئے بھی حجت سے خالی نہیں رکھتا۔ اس کی حجت یا پوشیدہ ہوتی ہے یا ظاہر و آشکار۔ میں خدا کی پوشیدہ اور ظاہر حجت ہوں۔ میں خدا کی حجت ہوں اس روز معلوم و معین تک۔ میں رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کی طرف سے کلام کرنے والا اور پیغام پہنچانے والا ہوں۔ میں اس زمانے میں موسى بن جعفر ہوں۔

    پس میں نے اس کی امامت ان کے آباء و اجدا کی امامت کا اقرار کیا۔ آنحضرت نے بادل کو حکم دیا کہ اوپر چلا جا۔ بادل نے اڑنا شروع کیا۔ خدا کی قسم! میں کسی طرح کی کوئی مشکل یا تکلیف محسوس نہیں کی اور نہ ہی کس طرح کا کوئی خوف میرے دل میں آیا۔ پلک جھپکنے کی مدت میں مجھے طالقان کے اسی گلی کوچہ میں پہنچا دیا کہ جہاں اہل و عیال رہتے تھے۔ اور مجھے صحیح و سالم زمین پر اتار دیا۔

 ہاروں رشید نے جب اس شخص کی بات سنی تو اس ک ے قتل کا حکم صادر کیا اور کہا: کوئی شخص بھی موسى بن جعفر عليہما السلام کی اس فضیلت کو سننے نہ پائے۔(8)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

 422 / 7 - سيّد ہاشم بحرانى رحمه الله كتاب «مدينة المعاجز» میں كتاب «عيون المعجزات» سے محمّد بن علىّ صوفى سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں:

    ابراہيم شتربان نے علىّ بن يقطين سے ملاقات کی اجازت طلب کی کہ جو دربار  کے وزیر تھے لیکن انہوں نے اجازت نہ دی۔ اسی سال جب حج کے لئے سفر پر گئے اور مدینہ میں حضرت موسى بن جعفر عليہما السلام سے ملاقات کی اجازت طلب کی تو امام عليه السلام نے اجازت نہ دی۔ دوسرے دن جب علىّ بن يقطين نے آنحضرت کو دیکھا تو عرض کیا:

    اے میرے آقا!مجھ سے کون سا گناہ سرزد ہو گیا کہ آپ نے مجھے اپنے دیدار سے محروم کیا ہے؟

 فرمایا: حجبتك لأنّك حجبت أخاك إبراهيم الجمّال، وقد أبى اللَّه أن يشكر سعيك حتّى يغفر لك إبراهيم الجمّال .

 میں نے تمہیں اس لئے ملاقات کی اجازت نہیں دی کیونکہ تم نے اپنے بھائی اہراہیم جمال کو ملاقات کی اجازت نہیں دی تھی اور خدا اس وقت تک تیرا حج قبول نہیں کرے گا جب تک وہ تجھے معاف نہ کر دے۔

 میں نے عرض كیا: اے میرے آقا و مولا! ، ابراہيم جمّال تو كوفہ میں ہیں اور میں مدینہ میں ہوں اور اب اس وقت میری ان تک پہنچ نہیں ہے۔

 فرمایا: جب رات چھا جائے تو تمہارے اطراف میں رہنے والوں اور تمہارے غلاموں کو اس بات کی خبر نہ ہو اور تم بقيع چلے جانا، وہاں ایک گھوڑا ہو گا کہ جس پر زین بھی لگی ہو گی، اس گھوڑے پر سوار ہو جانا ،وہ تمہیں مقصد تک پہنچا دے گا۔

    وہ کہتے ہیں: میں امام عليه السلام کے حکم کے مطابق رات میں تاریکی میں بقيع کی طرف گیا اور وہاں ایک گھوڑا تیار کھڑا تھا، میں اس پر سوار ہوا اور تھوڑی ہی دیر میں اس نے مجھے ابراہيم جمّال کے گھر کے پاس زمین پر اتار دیا۔ انہوںنے دروازہ پر دستک دی اور کہا: میں علىّ بن يقطين ہوں۔

    ابراہيم نے گھر کے اندر سے جواب دیا: علىّ بن يقطين میرے گھر کے دروازہ پر کیا کر رہے ہو؟

    علی بن یقطین نے کہا: فلاں کام مجھے اس جگہ لے آیا ہے، مجھے اجازت دو کہ میں اندر آ جاؤں اور جب وہ گھر میں گئے تو ان سے کہا:اے ابراہيم! میرے مولا نے مجھے اس وقت تک ملنے سے انکار کر دیا ہے کہ جب تک تم مجھے معاف نہیں کر دیتے۔

    ابراہيم نے کہا: خداوند تمہیں بخش دے۔

    علىّ بن يقطين نے انہیں قسم دی کہ اس کے چہرے پر اپنے پاؤں رکھے۔ ابراہیم نے  شرم و وحیاء کرتے ہوئے یہ کام کرنے سے انکار کر دیا۔ لیکن انہیں دوبارہ قسم دی اور اصرار کیا۔

    ابراہيم نے اپنے پاؤں علىّ بن يقطين کے چہرے پر رکھے اور وہ کہہ رہے تھے: خدایا! تو گواہ رہنا۔ پھر وہ ان  کے گھر سے چلے گئے اور گھوڑے پر سوار ہو کر واپس لوٹ گئے اور اسی رات مدینہ میں حضرت موسى بن جعفرعليہما السلام کے گھر پہنچ گئے۔ اور جب انہوں نے گھر میں داخل ہونے کی اجازت طلب کی تو امام عليه السلام نے انہیں فوراً اجازت دے دی اور اپنی خدمت میں قبول کر لیا۔(9)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

 423 / 8 - كراجكى قدس سره نے جميل بن درّاج سے نقل كیا ہے کہ انہوں نے کہا:

    میں نے حضرت موسى بن جعفر عليہما السلام سے عرض كیا: کیا میں لوگوں کے لئے جابر کی تفسیر بیان کروں؟

 فرمایا: پس اور کمینہ لوگوں سے بیان نہ کرو کہ کہیں وہ مشہور نہ کر دے۔ اور کیا تم نے یہ آیت نہیں پڑھی؟«إنَّ إلَيْنا إيابَهُم × ثُمَّ إنَّ عَلَيْنا حِسابَهُم»(10) .

 میں نے عرض کیا: جی ہاں!

فرمایا:

 إذا كان يوم القيامة وجمع اللَّه الأوّلين والآخرين ولّانا حساب شيعتنا فما كان بينهم وبين اللَّه حكمنا على اللَّه فيه فأجاز حكومتنا، وما كان بينهم وبين الناس استوهبناه منهم فوهبوه لنا، وما كان بيننا وبينهم فنحن أحقّ من عفى وصفح.

جب قیامت کا دن ہو گا تو خدا تمام مخلوق کو جمع کرے گا اور ہمارے شیعوں کا حساب ہمارے سپرد کرے گا(11) اس وقت ہم خدا اور ان کے درمیان اختلاف دور کرنے کے لئے خدا سے التجا کریں گے اور خدا کو راضی کریں گے۔ اور جو اختلاف ہمارے شیعوں اور لوگوں کے درمیان ہوں گے اس کی ہم لوگوں سے معافی طلب کریں گے۔ اور وہ ہماری وجہ سے ہمارے شیعوں کو معاف کر دیں گے اور وہ اختلافات جو ہمارے اور ہمارے شیعوں کے درمیان ہوں گے تو ہم اس کے زیادہ لائق ہیں کہ انہیں معاف کر دیں اور اپنے حق سے صرف نظر کریں۔(12)

    اس روایت کی مثل ایک دوسری روایت مرحوم كلينى رحمه الله نے كتاب كافى میں بھی ذکر کی ہے۔(13)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

 424 / 9 - شيخ مفيد قدس سره نے كتاب «إختصاص» میں حمزة بن عبداللَّه جعفرى سے نقل كیا ہے کہ انہوں نے کہا:میں نے ایک کاغذ پر لکھا: «بیشک امام عليه السلام کے نزدیک دنیا کی مثال اخروٹ کے ایک ٹکڑے کی مانند ہے » ، اور اس کاغذ کو حضرت موسى بن جعفر عليہما السلام کی خدمت میں پیش کیا اور عرض کیامیں آپ پر قربان جاؤں۔ ہمارے دوستوں نے ایک حدیث روایت کی ہے اور میں نے اس کا انکار کیا ہے لیکن میں یہ چاہتا ہوں کہ اس بارے میں آپ سے سنوں۔

    امام عليه السلام نے کاغذ پر لکھی اس تحریر کو دیکھا اور اسے بند کر دیا۔ میں یہ سوچا کہ شیاد امام علیہ السلام کو یہ بات پسند نہیں آئی۔ پھر امام علیہ السلام نے فرمایا:

 هو حقّ فحوّله في أديم .

یہ لکھا ہوا حق ہے اسے چمڑے پر منتقل کر لو(14) . (15)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

 425 / 10 - محمّد بن جرير طبرى رحمه الله نے ابراہيم بن اسود سے نقل كیا ہے کہ انہوں نے کہا:

حضرت موسى بن جعفر عليہما السلام کو دیکھا کہ وہ آسمان کے اوپر چلے گئے ہیں اور جب آپ واپس آئے تو آپ کے ساتھ ایک نورانی ہتھیار بھی تھا اور پھر فرمایا:

 أتُخوّفونني بهذا؟! - يعني الرشيد - لو شئت لطعنته بهذه الحربة.

کیا مجھے اس شخص - يعنى رشيد –سے ڈراتے ہو، اگر میں چاہوں تو اسی ہتھیار سے اس کو زخمی کر دوں۔

    اور جب ہارون رشید کو اس کی خبر ہوئی تو وہ تین مرتبہ بے ہوش ہو گیا اور آنحضرت کو آزاد کر دیا۔(16)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

 426 / 11 -  نيز احمد تبّان سے نقل كرتے ہیں کہ انہوں نے کہا:

میں اپنے بستر پر سویا ہوا تھا کہ اچانک میں نے محسوس کیا کہ کوئی اپنے پاؤں سے مجھے مار رہا ہے اور کہہ رہا ہے۔ اے فلان! آل محمّد عليہم السلام کے شیعہ اور پیروکار اس طرح نہیں سوتے۔

میں ڈر کر اٹھ گیا تو انہوں نے مجھے اپنی باہوں میں لے لیا اور جب میں نے غور کیا تو وہ حضرت موسى بن جعفر عليہما السلام تھے اور آپ نے مجھے سے فرمایا:

 اے احمد! نماز کے لئے وضو کرو۔

    جب میں نے وضو کیا تو آپ میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے گھر سے باہر لے گئے جب کہ دروازہ بند تھا۔ مجھے نہیں معلوم کہ وہ مجھے کیسے باہر لے گئے؟ میں نے دیکھا کہ گھر کے باہر ایک اونٹ بندھا ہوا ہے، آںحضرت نے اس کی رسی کھولی اور اس پر سوار ہو گئے اور مجھے بھی اپنے پیچھے سوار کر لیا ، تحوری دیر  کے بعد مجھے ایک مقام پر اتار دیا اور فرمایا:

اس جگہ چوبیس ركعت نماز پڑھو اور پھر فرمای:اے احمد! کيا تم جانتے ہو کہ یہ کون سی جگہ ہے؟ میں نے عرض کیا: خدا و رسول اور فرزند رسول خدا بہتر جانتے ہیں۔

 آپ نے فرمایا: یہ میرے جد حسين بن على عليہما السلام کی قبر ہے۔

 پھر آپ سواری پر سوار ہوئے اور مجھے بھی اپنے پیچھے سورا کرلیا اور تھوڑی دیر کے بعد کوفہ میں داخل ہوئے ۔ میں نے دیکھا کہ کتے اور محافظ سب کھڑے ہیں لیکن ان کی ایسی حالت ہے کہ جیسے وہ کوئی چیز نہ دیکھ رہے ہوں۔ آنحضرت مجھے مسجد کوفہ میں لے گئے اور فرمایا: یہاں سترہ رکعت نماز پڑھو۔ اور اس کے بعد مجھے سے پوچھا: کیا تم جانتے ہو کہ یہ کون سا مقام ہے؟

 میں نے عرض كیا: نہیں۔

فرمایا: یہ مسجد کوفہ ہے اور یہ بيت‏ الطشت ہے۔

 آپ پھر سواری پر سوار ہوئے اور مجھے بھی اپنے ساتھ سوار کر لیا اور تھوڑی دیر چلنے کے بعد مجھے اتار دیا اور فرمایا: یہاں بھی چوبیس رکعت نماز پڑھو۔ اور پھر مجھ سے پوچھا: کیا تم جانتے ہو کہ یہ کون سی جگہ ہے؟

میں نے عرض کیا: خدا و رسول اور فرزند رسول خدا بہتر جانتے ہیں۔

 فرمایا: یہ میرے جد علىّ بن ابى طالب عليه السلام کی قبر ہے۔

آپ ایک مرتبہ پھر سواری پر سوار ہوئے اور مجھے بھی سوار کر لیا اور توڑی دیر چلنے کے بعد مجھے اتار دیا اور فرمایا: اب تم کہاں ہو؟

میں نے عرض کیا: خدا و رسول اور فرزند رسول خدا بہتر جانتے ہیں۔

 فرمایا : یہ ابراہيم خليل عليه السلام کی قبر ہے۔

 آپ پھر سوار ہوئے اور مجھے بھی اپنے ساتھ سوار کیا اور تھوڑی دیر کے بعد ہم مکہ میں داخل ہوئے ۔ میں اس سے پہلے ‏الحرام، مكّه، زمزم کے کنویں اور بيت الشراب کو جانتا تھا۔ آپ نے مجھ سے فرمایا:

 اے احمد ! کيا تم جانتے ہو کہ اب تم کہاں ہو؟ میں نے عرض کیا: خدا و رسول اور فرزند رسول کدا بہتر جانتے ہیں۔

 فرمایا : یہ مكّه اور یہ كعبه ،یہ زمزم  اور یہ بيت الشراب ہے۔

ایک بار پھر کچھ دیر چلنے کے بعد آپ مسجد النبىّ اور قبر پيغمبر صلى الله عليه وآله وسلم کے پاس لئے گے اور ہم نے اس مقام پر بھی چوبیس رکعت نماز پڑھی اور جب آپ نے مجھ سے سواچھا کہ کیا تم جانتے ہو کہ یہ کون سا مقام ہے؟تو میں نے عرض کیا: خدا و رسول اور فرزند رسول خدا بہتر جانتے ہیں۔

 فرمایا: یہ میرے جد رسول خدا صلى الله عليه وآله وسلم کی مسجد اور آنحضرت کی قبر مطہر ہے۔

 پھر کچھ اور راستہ طے کرنے کے بعد شعب ابى حبير میں داخل ہوئے اور اس وقت آپ نے مجھ سے فرمایا:

 يا أحمد ؛ تريد أن اُريك من دلالات الإمام؟ قلت: نعم.

 قال: يا ليل ؛ أدبر، فأدبر الليل عنّا، ثمّ قال: يا نهار ؛ أقبل، فأقبل النهار إلينا بالنور العظيم، وبالشمس حتّى رجعت هي بيضاء نقيّة فصلّينا الزوال.

اے احمد! کیا تم چاہتے ہو کہ تمہیں امام کی نشانیاں اور علامات دکھاؤں؟

میں نے عرض کیا: جی ہاں!

آپ نے فرمایا: اے رات واپس چلی جا اور رات فوراً واپس چلی گئی اور ختم ہو گئی۔ پھر فرمایا:اے دن سامنے آ جا۔ پس دن زیادہ روشنی، نورانی سورج اور اپنی چمک کے ساتھ واپس آ گیا اور ہم نے ظہر کی نماز ادا کی۔

 پھر فرمایا:اے دن واپس چلے اور اے رات لوٹ آؤ۔ فوراً رات نے اپنا چہرہ دکھایا اور ہم نے مغرب کی نماز ادا کی۔ پھر آنحضرت نے مجھ سے فرمایا:خود دیکھا؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں! یا بن رسول اللہ۔ میرے لئے اسی قدر کافی ہے۔

پھر انہوں نے  مزید تھوڑا سا سفر کرایا اور اس پہاڑ کے پاس لے گئے جس نے پوری دنیا کا حاطپ کیا ہوا ہے اور اس کے مقابلہ میں دنیا ایک چھوٹے سے ظرف کی طرح ہے۔

پھر آپ نے مجھ سے فرمایا: اے احمد! کيا تم جانتے ہو کہ تم کہاں ہو؟

 میں نے عرض كیا: خدا و رسول اور فرزند رسول بہتر جانتے ہیں۔

آپ نے فرمایا: یہ وہ پہاڑ ہے جس نے دنیا کا حاطہ کیا ہوا ہے۔

 میں نے وہاں ایک گروہ کو دیکھا کہ جس کے تمام افراد نے سفید لباس پہنا ہوا تھا۔ آنحضرت نے فرمایا: یہ موسى عليه السلام کی قوم ہے۔ امام عليه السلام نے ان کو سلام کیا، میں نے بھی سلام کیا۔ انہوں نے سلام کا جواب دیا۔اس کے بعد میں نے عرض کیا: میں تھک چکا ہوں۔ حضرت نے فرمایا: کیا تم اپنے بستر پر آرام کرنا چاہتے؟ میں نے عرض کیا: جی ہاں! فوراً آپ نے ایک قدم اٹھایا اور فرمایا: سو جاؤ۔ اچانک میں نے خود کو اپنے بستر پر نیند کی حالت میں دیکھا۔ تھوڑی دیر کے بعد میں اٹھا اور صبح کی نماز اپنے گھر میں پڑھی۔ (17)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

 427 / 12 - ابن شہر آشوب كتاب «مناقب» میں کہتے ہیں: شطيطه ایک مؤمنہ خاتون تھی کہ جو نیشاپور میں رہتی تھی۔ جب نیشاپور کے شیعوں نے اپنے اموال حضرت موسى بن جعفر عليہما السلام کی خدمت میں بھیجنا چاہے تو اس خاتون نے بھی ایک درہم اور اپنے ہاتھ سے بنا ہوا ایک کپڑا بھیجا کہ جس کی قیمت چار درہم تھی۔ امام عليه السلام نے اس مؤمنی عورت کی بھیجی ہوئی چیزیں قبول کر لیں اور لانے والے سے فرمایا:

 أبلغ شطيطة سلامي وأعطها هذه الصرّة .

 شطيطه کو میرا سلام کہنا اور اسے پیسوں کی یہ تھیلی دے دینا۔

اور اس تھیلی میں چالیس درہم تھے۔

 پھر امام علیہ السلام نے فرمایا: میں اپنے کفن کا ٹکڑا اس کے لئے بھیجوں گا۔ یہ کفن ہمارے اپنے دیہات کی روئی کا بنا ہوا ہے کہ جس کا نام قریہ صیدا ہے اور جو فاطمۂ زہراء عليہا السلام کا قریہ ہے اور میری بہن حليمہ بنت امام صادق عليه السلام نے اسے اپنے ہاتھوں سے بنایا ہے۔ جب وہ عورت اس دنیا سے گئی تو امام علیہ السلام اپنے اونٹ کے ساتھ اس کی میت کے پاس گئے اور اس کے لئے دفن کے امور انجام دیئے اور پھر اونٹ پر سوار ہو کر صحراء کی طرف چلے گئے اور آپ نے جاتے ہوئے فرمایا:

 إنّي ومن يجري مجراي من الأئمّة عليهم السلام لابدّ لنا من حضور جنائزكم في أيّ بلد كنتم ، فاتّقوا اللَّه في أنفسكم .

 میں اور اپنے زمانے کے دوسرے امام تمہارے جنازوں میں ضرور حاضر ہوتے ہیں چاہے تم کس شہر میں ہی کیوں نہ ہو۔ پس تم اپنے امور میں تقویٰ الٰہی اختیار کرو۔(18)

    اس روايت کو محمّد بن على طوسى نے كتاب «ثاقب المناقب» میں ذكر كیا ہے اور اس کے ذیل میں یوں نقل کیا ہے:

    جب «شطيطه» اس دنیا سے رخصت ہوئی تو بڑی تعداد میں شیعہ ان کے جنازہ  میں شریک ہوئے۔ حضرت موسى بن جعفر عليہما السلام اونٹ پر سوار ہو کر وہاں تشریف لائے، سواری سے اترے اور لوگوں کے ساتھ اس مؤمنی کی نماز پڑھی۔ جب اس عورت کو قبر میں اتار رہے تھے تو آپ دیکھ رہے تھے اور آپ نے امام حسین علیہ السلام کی قبر کی پاکیزہ مٹی اس مؤمنہ عورت کی قبر میں رکھی۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

 428 / 13 - اربلى رحمه الله نے كتاب «كشف الغمّة» میں شقيق بلخى سے نقل كیا ہے کہ وہ کہتے ہیں:

میں سنہ 149 ہجری میں حجّ کے سفر پر گیا اور جب میں قادسیہ کے مقام پر پہنچا تو وہاں قیام کیا۔ وہاں میں نے بہت سے لوگوں کو دیکھا جو بن سنور کر حج کے لئے جا رہے تھے۔ ان کے درمیان میری نگاہ ایک ایسے کمزور جوان پر پڑی جس کا چہرہ خوبصورت اور گندم گوں تھا۔ جس نے اپنے کپڑوں کے اوپر ریشم کا لباس پہنا ہوا تھا اور اس نے اپنے اوپر ایک چادر اوڑھی ہوئی تھی۔ پاؤں میں جوتا تھا اور باقی سب لوگوں سے الگ بیٹھا ہوا تھا۔ میں نے اپنے آپ سے کہا:یہ جوان صوفیہ گروہ سے ہے۔اور چاہتا ہے کہ راستہ  میں لوگوں کے سروں پر سوار رہے اور اپنا بوجھ دوسروں کے کندھے پر ڈالے۔ خدا کی قسم! میں اس کے پاس جاؤں گا اور اس کی سرزنش کروں گا۔ پس میں اس جوان کے پاس گیا اور جیسے ہی اس جوان نے مجھے دیکھا تو فرمایا:

 اے شقيق ! «اجْتَنِبُوا كَثيراً مِنَ الظنِّ إنَّ بَعْضَ الظنِّ إثْمٌ»(20) 

«اکثر ظن و گمان سے اجتناب کرو، بیشک بعض ظن گناہ ہوتے ہیں »۔

    یہ کہنے کے بعد وہ مجھے چھوڑ کر چلے گئے۔ میں نے اپنے آپ سے کہا: عجیب بات ہے کہ اس نے میرا نام بھی لیا اور میرے دل کی بات بھی بتائی۔ یقیناً یہ خدا کے نیک بندوں میں سے ہیں۔ مجھے اس جوان تک پہنچ کر اس سے عرض کرنا چاہئے کہ مجھے معاف کر دیں۔ میں تیزی سے ان کے پیچھے گیا لیکن ان تک نہ پہنچ سکا اور وہ میری نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ جب ہم سفر طے کرتے ہوئے واقصه نامی مقام پر پہنچے تو میں نے اس جوان کو دیکھا کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جسم کے تمام اعضاء لرز رہے تھے اور آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ میں نے کہا: یہ تو وہی جوان ہے کہ جنہیں میں ڈھونڈ رہا تھا۔ اب مجھے فائدہ اٹھانا چاہئے اور ان کے پاس جا کر معافی مانگ لینی چاہئے۔

    میں نے تھوڑا صبر کیا یہاں تک کہ وہ جوان نماز سے فارغ ہو کر بیٹھ گیا ، میں ان کے پاس گیا اور جیسے ہی میں نے انہیں دیکھا تو انہوں نے فرمایا: اے شفیق! اس آیت شریفہ کی تلاوت کرو۔

«وَإنّي لَغَفّارٌ لِمَنْ تابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صالِحاً ثُمَّ اهْتَدى»(21) 

«میں ہر اس شخص کو معاف کرنے والا ہوں جو توبہ کرے، ایمان لائے اور نیک عمل کرے اور پھر ہدایت کے راستہ پر چلے».

    جب میں نے اس آیت کی تلاوت کی تو وہ مجھے چھوڑ کر چلے گئے۔ میں نے کہا: یہ جوان یقیناً ابدال میں سے ہیں۔ یہ دوسری بار ہے کہ انہوں نے میرے باطن اور راز کی خبر دی ہے۔ اور پھر ہم زبالہ کے مقام پر پہنچے تو میں نے دیکھا کہ وہ جوان ایک کنوے کے کنارے کھڑا ہے اور ہاتھ میں پیالہ اور کنویں سے پانی لینا چاہتا ہے۔ اچانک ان کے ہاتھ سے پیالہ کنویں میں گر گیا۔ پس انہوں نے آسمان کی طرف دیکھا اور میں نے سنا کہ وہ جوان کہہ رہا تھا:

 أنت ريّي إذا ظمئت إلى الماء

 وقوتي إذا أردت الطعاما

 جب میں پیاسا ہوتا ہوں تو مجھے سیراب کرنے والا تو ہے اور جب میں کھانے کا ارادہ کروں تو میری قوت اور غذا تو ہے۔

 خداوندا! اے میرے مولا!اس پیالے کے علاوہ میرے پاس کوئی پیالہ نہیں ہے ، اسے مجھ سے نہ لے۔

    شقيق کہتا ہے: خدا کی قسم! میں نے دیکھا کہ کنویں کا پانی اوپر آ گیا اور اس جوان نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور پانی سے بھر لیا، وضو کیا اور چار رکعت نماز پڑھی اور پھر وہ ریت کے ٹیلہ کی طرف چلے گئے۔ اس ٹیلہ سے ریت اٹھائی ، پیالہ میں ڈالی اور ہلا کر پی گئے۔ میں ان کی طرف گیا، انہیں سلام کیا، جب انہوں نے میرے سلام کا جواب دیا تو میں نے عرض کیا: آپ کو خدا نے جو کچھ عطا کی اہے وہ مجھے بھی عطا فرمائیں۔ اس جوان نے فرمایا:

 يا شقيق، لم تزل نعمة اللَّه علينا ظاهرة وباطنة فأحسن ظنّك بربّك.

 اے شقيق! خدا کی طاہری اور باطنی نعمتیں ہر حال میں ہمارے شامل حال رہتی ہیں، خدا سے حسن ظن رکھو۔

    پس اس جوان نے وہ پیالہ مجھے عنایت کر دیا۔ جب میں نے اس پیالہ سے پیا تو ہو شکر کا شربت ہے۔ خدا کی قسم! میں نے اس سے زیادہ لذیذ اور خوشبودار کبھی نہیں پیا تھا۔جب میں نے وہ پیا تو میری بھوک اور پیاس ختم ہو گئی اور کافی عرصہ مجھے کھانے پینے کی ضرورت محسوس نہ ہوئی۔اس کے بعد میں نے اس جوان کو نہ دیکھا یہاں تک کہ ہم مکہ پہنچ گئے، آدھی رات گذر چکی تھی ، میں نے انہیں قبۃ الشراب کے پاس دیکھا وہ مکمل خشوع کے ساتھ نماز میں کھڑے تھے اور گریہ و نالہ کر رہے تھے، یہاں تک ہ رات تمام ہو گئی۔ جب صبح کی سفیدی ظاہر ہوئی تو اپنی جائے نماز پر بیٹھ کر کافی دیر تک خدا کی سبیح کرتے رہے۔ پھر وہ اٹھے اور صبح کی نماز ادا کی، اس کے بعد ساتھ مرتبہ کعبہ کا طواف کیا اوع باہر چلے گئے۔میں نے سفر میں جو کچھ دیکھا تھا کہ وہ تنہا سفر کر رہے تھے لیکن اب اس کے برعکس اس کے ساتھی اور غلام پروانوں کی طرح چکر کاٹ رہے تھے۔ لوگ انہیں سلام کر رہے تھے اور عزت و احترام سے پیش آ رہے تھے۔ میں وہاں موجود لوگوں میں سے ایک سے سوال کیا کہ جوان کون ہے؟ اس نے کہا: یہ حضرت موسی بن جعفر علیہما السلام ہیں۔

میں نے کہا: اگر اس طرح کی عجیب و غریب چیزیں اور کرامات کسی اور سے دیکھی ہوتیں تو حیران کن تھا لیکن اس طرح کی ہستی سے یہ کوئی عجیب چیز نہیں ہے۔

    اس حکایت کو کچھ شعراء نے اپنے اشعار میں بیان کیا ہ۔ اور علّامه مجلسى رحمه الله نے ان میں سے کچھ اشعار اپنی کتاب شريف «بحار الأنوار» میں ذکر کئے ہیں کہ جنہیں ہم یہاں نقل کرتے تھے:

 سل شقيق البلخيّ عنه بما شاهد

 منه وما الّذي كان أبصر

 قال لمّا حججت عاينت شخصاً

 شاحب اللون ناحل الجسم أسمر

 سائراً وحده وليس له زاد

 فما زلت دائماً أتفكّر

 وتوهّمت أنّه يسأل الناس

 ولم أدر أنّه الحجُّ الأكبر

 ثمّ عاينته ونحن نزول

 دون فيد على الكثيب الأحمر

 يضع الرمل في الإناء ويشربه

 فناديته وعقلي محيّر

 اسقني شربة فناولني منه

 فعاينته سويقاً وسكّر

 فسألت الحجيج من يك هذا؟

 قيل هذا الإمام موسى بن جعفر عليهما السلام

 شقيق بلخى سے پوچھو کہ انہوں نے جو کچھ حضرت كاظم عليه السلام سے مشاہدہ کیا اور جو کچھ دیکھا اور سمجھا۔

 وہ کہتے ہیں: جب میں حج پر گیا اور کوئی غذا اور کھانے پینے کا سامان اس کے ساتھ نہ تھا۔ میں مسلسل اس کے بارے میں فکر کرتا رہا۔

 میں نے اپنے آپ سے کہا کہ اسے جس چیز کی ضرورت ہو گی وہ لوگوں سے مانگ لے گا۔

میں نہیں جانتا تھا کہ وہ حض اکبر اور حج کی حقیقت اور روح ہے.

پھر میں نے انہیں فید کے مقام پر ایک سرخ ٹیلہ پر دیکھا۔ جو اس ٹیلے کی ریت کو اپنے کاسہ  میں ڈال کر پی رہے تھے۔ میں نے انہیں آواز دی جب کہ میری عقل سرگرداں ہو چکی تھی۔

مجھے بھی شربت پلاؤ، پس انہوں نے مجھے بھی عطا کیا۔ میں نے دیکھا کہ شکر سے بنا ہوا شربت ہے۔

میں نے حاجیوں سے سوال کیا: یہ شخص کون ہے؟ انہوں نے کہا: یہ امام موسی بن جعفر عليہما السلام ہیں۔(22)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

 429 / 14 - شيخ طوسى قدس سره كتاب «متهجّد» میں نقل کرتے ہیں:حضرت موسى بن جعفر  عليہما السلام نے اپنے چہرے کو زمین پر رکھے ہوئے عرض کر رہے تھے:

 اللّهمّ لاتسلبني ما أنعمت به عليّ من ولايتك وولاية محمّد وآل محمّد عليهم السلام .(23)

 پروردگارا! تو نے مجھے اپنی اور محمد و آل محمد علیہم السلام کی ولایت کی جو نعمت عطا کی ہے وہ مجھ سے سلب نہ کرنا۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

 430 / 15 - سيّد بن طاووس اور علّامه مجلسى قدّس سرّهما لکھتے ہیں:

  كان سلام اللَّه عليه حليف السجدة الطويلة ، والدموع الغزيرة ، والمناجاة الكثيرة والضراعات المتصلّة .

«حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام طویل سجدہ کرتے تھے ، آنسو بہاتے رہتے تھے، اکثر مناجات کرتے تھے اور لگاتار گریہ و نالہ کرتے رہتے تھے»۔ (24)

    حضرت کا ایک سیاہ غلام تھا جو ہاتھ میں قیننچی لے کر حضرت کی پیشانی اور ناک پر کثرت سجدہ کی وجہ سے سخت ہو جانے والے چمڑے کو کاٹا کرتا تھا۔(25)

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

 431 / 16 - شيخ صدوق قدس سره نے احمد بن عبداللَّه قروى اور انہوں نے ان کے باپ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا:

    میں فضل بن ربيع کے پاس گیا۔ اور اس وقت گھر کی چھت پر تھے۔ انہوں نے مجھ سے کہا: میرے پاس آؤ۔ جب میں ان کے پاس گیا تو مجھ سے کہا: یہاں اوپر سے نیچے کمرے میں دیکھو۔ میں نے دکھا تو پوچھا: کیا نظر آیا: میں نے کہا: ایک چادر دیکھ رہا ہوں جو زمین پر پڑی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا: دوبارہ اچھی طرح دیکھو۔ جب میں نے غور سے دیکھا تو ایک شخص کو سجدہ میں پایا۔ انہوں نے چند سوال پوچھنے کے بعد مجھ سے کہا: یہ ابو الحسن موسى بن جعفر عليہما السلام ہیں۔ میں دن رات ان کا خیال رکھتا ہوں۔ کبھی بھی میں نے انہیں اس حال کے علاوہ نہیں دیکھا کہ جو آپ ابھی دیکھ رہے ہیں۔ جب وہ صبح کی نماز سے فارغ ہوتے ہیں تو سورج طلوع ہونے تک نماز کی تعقیبات میں مشغول رہتے ہیں، پھر سجدہ میں چلے جاتے ہیں اور ظہر تک سجدہ میں رہتے ہیں۔ اور کسی کے ذمہ لگا رکھا ہے کہ جب اذان کے وقت کا علم ہو تو انہیں اس سے باخبر کیا جائے۔ پھر وہ اٹھتے ہیں اور تجدید وضو کے بغیر نماز ادا کرتے ہیں جس سے میں یہ سمجھ جاتا ہوں کہ وہ اپنے طولانی سجدہ میں سوئے نہیں تھے اور پھر جب وہ نماز طہر و عصر، نوافل اور تعقیبات سے فارغ ہو جاتے ہیں تو غروب تک سجدہ میں رہتے ہیں، پھر اٹھتے ہیں اور اسی وضو سے مغرب کی نماز ادا کرتے ہیں۔

    اور جب وہ مغرب و عشاء ی نماز، نوافل اور تعقیبات بجالاتے ہیں تو ان کے لئے جو غذا لائی جاتی ہے وہ اس مختصر سی غذا سے روزہ افطار کرتے ہیں۔ پھر جدید وضو کرتے ہیں اور اس کے بعد سجدہ کرتے اور سجدہ سے سر اٹھاتے ہیں تو تھورا سا آرام اور کچھ دیر کے لئے سوتے ہیں۔ پھر اٹھتے ہیں اور وضو کرکے نماز کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ طلوع فجر تھ نماز کے لئے کھڑے رہتے ہیں اور جب آپ کا غلام صبح کی نماز کے وقت کے بارے میں بتاتا ہے تو صبح کی نماز بجا لاتے ہیں۔ ایک سال ہو چکا ہے اور آپ کا یہی طریقۂ کار ہے...۔(26)

    مؤلّف رحمه الله کہتے ہیں : یہ روایت ان روایات میں سے ہے جو خبر واحد کی حجیت پر دلالت کرتی ہے اور ایک عادل شخص بلکہ ایک مورد اعتماد شخص کے کافی ہونے پر دلالت کرتی ہے (يعنى اگر ایک مورد اطمینان شخص خبر دے تو اس کا قول حجت ہے اور شرعی دليل)  اور یہ روایت دلالت کرتی ہے کہ بینہ یعنی شہادت و گواہی ایک شرعی راستہ  ہے کہ جس کے ذریعہ ایک خارجی موضوعات کو حاصل کیا جا سکتا ہے اور دوسرے تمام موارد میں بھی اسی طرح ہے، ان موارد کے سوا کہ جہاں نزاع یعنی جھگڑا اور ادعا یعنی دعوی ہو کہ ایسے مقامات میں ایک شخص کی بات قابل قبول نہیں ہوتی بلکہ ایک سے زیادہ کا ہونا ضروری ہے۔ اس روایت میں محل بحث یہ ہے کہ امام علیہ السلام نے ایک شخص کی گواہی     کے ذریعہ ایک موضوع خارجی یعنی زوال کے وقت یا طلوع فجر کو معلوم کیا اور ایک شخص کے کہنے سے نماز کے وقت کے داخل ہونے کے بارے میں علم حاصل کیا ہے۔ اگر کوئی احتمال دے کہ اس مورد میں امام قید میں ہونے کی وجہ سے علم حاصل نہیں کر سکتے تھے اس لئے آپ نے اسی مقدار پر اکتفاء کیا تو یہ احتمام بعید ہے اور قابل قبول نہیں ہے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

 432 / 17 - كلينى رحمه الله نے كتاب «كافى» میں حضرت موسى بن جعفر عليہما السلام سے نقل كیا ہے کہ آپ نے فرمایا:

 إنّ اللَّه غضب على الشيعة فخيّرني نفسي أو هم ، فوقيتهم واللَّه بنفسي .(27)

 بیشک خدا شیعوں کے گناہوں کی وجہ سے ان پر غضبناک ہو گیا اور مجھے اختیار دیا کہ میں ان کے بدلے میں عقوبت تحمل کروں یا وہ خود عقوبت برداشت کریں۔ خدا کی قسم! میں نے عقوبت اور سزا کو اپنی جان پر برداشت کیا اور شیعوں کو بچا لیا۔

    مؤلّف کہتے ہیں: حضرت موسى بن جعفر عليہما السلام کے اس فرمان کی تائید اس آیت کی تفسیر کرتی ہے کہ جس میں خدا نے فرمایا ہے: «لِيَغْفِرَ لَكَ اللَّهُ ما تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِك»(28) «تا کہ خدا تیرے ان گناہوں کو معاف کر دے جو تجھ سے سرزد ہوئے ہیں» 

فرمایا گیا ہے:

    تم سے سرزد ہونے والے گناہوں سے مراد امت کے گناہ ہیں۔(29)

    ائمّه طاہرين عليہم السلام نے کچھ اعمال اپنے شیعوں کی طرف کوتاہیوں اور خامیوں کے بدلے انجام دیئے ہیں۔

خدا اس شاعر کو خیر عطا فرمائے کہ جس نے کہا ہے:

 إذا ذرّ إكسير المحبّة فوق ما

 جناه استحال الذنب أيّ استحالة

جب محبت کی کیمیا کا غبار گناہوں پر بیٹھ گیا تو گناہوں کی حالت تبدیل ہو جائے گی اور وہ مکمل طور پر محو ہو جائیں گے۔

 


1) الكافى : 310/1 ح 11، مناقب ابن شهر اشوب: 287/4 سطر آخر، بحار الأنوار : 73/48 ح 99 کا ذیل، كشف الغمّة: 221/2.

2) كشف الغمّة: 207/2، بحار الأنوار : 209/78 ح 78.

3) سوره رعد ، آيه 11 .

4) تفسير عيّاشى : 205/2 ح 18، بحار الأنوار : 56/6 ح3، تفسير برهان : 284/2 ح3، المستدرك: 408/5 ح2 .

5) مناقب ابن شهراشوب: 299/4، بحار الأنوار : 41/48 ح 17، عيون اخبار الرضا عليه السلام: 78/1 ح1، امالى صدوق : 212 ح 20 مجلس 29 .

6) مناقب ابن شهراشوب: 298/4، الإرشاد: 315، الخرائج: 649/2 ح 1، بحار الأنوار: 57/48 ح 67.

7) روایات میں طالقان کے خزانوں کو بہت زیادہ ذکر ہوا ہے اور ان کی خصوصیات اور اوصاف بیان ہوئی ہیں۔

8) مناقب ابن شهراشوب: 301/4، بحار الأنوار : 39/48 ح 16، مدينة المعاجز: 427/6 ح 150.

9) عيون المعجزات: 100، بحار الأنوار : 85/48 ح 105.

10) سوره غاشية ، آيه 26 25 .

11) جس طرح زيارت جامعه میں ان بزرگ ہستیوں کو مخاطب قرار دیتے ہوئے عرض کرتے ہیں: «وإياب الخلق إليكم وحسابهم عليكم» «مخلوق کی بازگشت آپ کی طرف ہی ہے اور ان کا حساب و کتاب بھی آپ پر ہے » ،کیونکہ یہ ہستیاں دنیا و آخرت میں خدا کے امر و نہی کے ذمہ دار ہیں، حالانکہ تمام امور کا ختیار ان کے خدا کے ہاتھ میں اور وہ اپنے بندوں میں سے جسے چاہے یہ اختیار عطا فرماتا ہے۔

12) تأويل الآيات: 788/2 ح 7 ، بحار الأنوار: 50/8 ح 57، و 267/24 ح 34 ، تفسير برهان : 456/4 ح 6 .

13) الكافى : 159/8 ح 154، بحار الأنوار : 337/7 ح 24.

14) علاّمه مجلسى رحمه الله اس جملہ کے بیان میں لکھتے ہیں :بیشک امام عليه السلام نے اس سے فرمایا: یہ نوشتہ کھال منتقل کرو یعنی اسے کھال پر لکھو تا کہ یہ زیادہ مدت تک باقی ہے۔

15) الإختصاص: 217، بصائر الدرجات: 408 ح4، بحار الأنوار : 145/2 ح 12 ، و 368/25 ح 12 .

16) نوادر المعجزات: 163 ح4، دلائل الإمامة: 322 ح 15 ، مدينة المعاجز: 201/6 ح 15.

17) نوادر المعجزات: 160 ح3، دلائل الإمامة: 343 ح 45، مدينة المعاجز: 276/6 ح 74.

18) مناقب ابن‏ شهراشوب: 291/4، بحار الأنوار : 73/48 ح 100. یہ ایک طولانی حدیث ہے ؛ مؤلّف ‏رحمه الله نے اسے مختصر ذکر کیا ہے.

19) الثاقب في المناقب : 439 ح5 ، الخرائج: 720/2 ح 24 ، مدينة المعاجز: 411/6 ح 144.

20) سوره حجرات ، آيه 12 .

21) سوره طه ، آيه  82 .

22) كشف الغمّة: 213/2، مطالب السؤول: 62/2، بحار الأنوار : 80/48 ح 102، مدينة المعاجز: 194/6 ح7، دلائل الإمامة: 317 ح6، ينابيع المودّة: 362، تذكرة الخواصّ: 348، الفصول المہمّة: 215.

23) مصباح المتہجّد : 41 چاپ بيروت ، بحار الأنوار : 214/86 ح 27 از فلاح السائل (تھوڑے سے فرق کے ساتھ) .

24) یہ جملے آنحضرت کی زیارت کے ضمن میں ذکر ہوئے ہیں۔اس کے لئے «بحار الأنوار : 17/102» کی طرف رجوع کریں کہ جسے «مصباح الزائر : 382» سے نقل کرتے ہوئے ذکر کیا گیا ہے۔

25) شيخ صدوق رحمه الله نے كتاب «عيون اخبار الرضا عليه السلام: 77/1» میں ایک طولانی حديث کے ضمن میں اسے ذکر کیا ہے ، بحار الأنوار : 216/48 سطر 166/85  1 ح 16 و 213/95 ضمن ح 5 .

26) امالى صدوق : 210 ح 19 مجلس 29 ، مناقب ابن شهراشوب: 318/4، بحار الأنوار : 107/48 ح9.

27) الكافى : 260/1 ح5، مدينة المعاجز: 379/6 ح 124.

28) سوره فتح ، آيه 2 .

29) اس بارے میں مزید جاننے کے لئے تفسير برهان: 195/4 کی طرف رجوع فرمائیں۔

 

 

منبع: قطره ای از دریای فضائل اهل بیت علیهم السلام ج 1 ص 583

 

بازدید : 962
بازديد امروز : 0
بازديد ديروز : 245244
بازديد کل : 164682514
بازديد کل : 121834294