حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
بنی امیہ کے انجام کے بارے میں حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

بنی امیہ کے انجام کے بارے میں

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی پیشنگوئی

حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام نے نہج البلاغہ کے خطبہ١٦٦ میںاپنے بعد اپنے انصار اور شیعوں کے حالات کے بارے میں بیان فرمایا ہے اور پھر بنی امیہ کے انجام کی طرف اشارہ کیا ہے اور چونکہ کہ بنی امیہ کے بارے میں تاریخی ابحاث کسی حد تک گذشتہ ابحاث میں ذکر ہوئیں۔یہاں ہم خطبہ کے ایک حصہ کے ترجمہ اور بنی امیہ کے انجام کے بارے میں کچھ حوادث بیان کرنے پرہی اکتفاء کریں گے۔مولائے سخن امیر المؤمنین علی علیہ السلام فرماتے ہیں:

 اِفترقوا بعد اُلفتِہِم، وتشتّتوا عن أصلِہِم، فمِنہم آخِذ بِغُصن أَینما مال،مال معہ۔علی أنّ اللّٰہ تعالی سیجمعہم لِشرِّ یوم لِبنِ أُمیَّة، کما تجتمِع قَزَع الخرِیفِ  یُؤلِّف اللّٰہ بینہم، ثم یجعلہم رُکاماً کرکامِ السّحابِ، ثم یفتح لہم ابواباً، یسِیلون مِن مستثارِہِم کسیلِ الجنّتینِ، حیث لم تسلم علیہِ قارة ولم تثبت علیہِ أَکمة، ولم یردّ سننہ رَصّ طَود، ولا حِداب أرض۔

 یُذعذِعہم اللّٰہ فِی بطونِ أودِیتِہِ ثمّ یسلکہم ینابِیع فِ الأرضِ، یَأخذ بِہِم مِن قوم حقوق قوم، ویمکّن لِقوم فِی دِیارِ قوم۔وایم اللّٰہ؛ لیذوبنّ ما فِی أیدِیہم بعد العلوِّ والتمکِینِ،کَما تذوب الألیة علی النّٰارِ....۔

 یہ لوگ (یعنی آنحضرت کے پیروکار اور شیعہ) باہمی محبت کے بعد الگ الگ ہو گئے اور اپنی اصل سے جدا ہو گئے۔ (شاید یہ شیعوں کے مختلف فرقوں کیسانیہ،علوی اور زیدی کی طرف اشارہ ہو) بعض لوگوں نے ایک شاخ کو پکڑ لیا اور اب اسی کے ساتھ جھکتے رہیں گے(شیعہ امامیہ)۔

 یہاں تک کہ خداوند متعال انہیں بنی امیہ کے بدترین دن کے لے جمع کر دے گا جس طرح خریف  میں بادل کے ٹکڑے جمع ہو جاتے ہیں۔پھر ان کے درمیان محبت پیداکرے گا پھر انہیں تہ بہ تہ ابر کے ٹکڑوں کی طرح ایک مضبوط گروہ بنا دے گا۔پھر ان کے لئے ایسے دروازوں کو کھول دے گاکہ یہ اپنے ابھرنے کی  جگہ سے شہر صبا کے دوباغوں کے اس سیلاب کی طرح بہ نکلیں گے۔([1])جن سے نہ کوئی چٹان محفوظ رہی ہے اور نہ کوئی ٹیلہ ٹھہر سکا ہے ۔نہ پہاڑ کی چوٹی اس کے دھارے کو موڑ سکی تھی اور نہ زمین کی اونچائی۔اللہ انہیں گھاٹیوں کے نشیبوں میں متفرق کر دے گااور پھر انہیں چشموں کے بہاؤ کی طرح زمین میں پھیلا دے گا۔ان کے ذریعہ ایک قوم کے حقوق د وسری قوم سے حاصل کرے گااور ایک جماعت کو دودسرے جماعت کے دیار میں اقتدار عطا کرے گا۔

خدا کی قسم !ان کے اقتدار و اختیار کے بعد جو کچھ بھی ان کے ہاتھوں میں ہو گاوہ اس طرح پگھل جائے گا جس طرح کہ آگ پر چربی پگھل جاتی ہے۔

 .... بنی امیہ کی حکومت کی تأسیس سے پہلے امام علیہ السلام نے حکومت بنی امیہ کے زوال اور انحطاط کے بارے میں پیشنگوئی فرمائی اور ویسے ہی ہوا جیسے امام علیہ السلام نے فرمایا تھا۔

 حجاز میں ابراہیم امام بن محمد بن علی بن عبداللہ بن عباس نام کا ایک شخص اپنے سجادہ پر بیٹھا عبادت   میں مشغول ہے اور خراسان میں کچھ لوگ اس کے نام پر کام کر یں گے اور اپنی جان خطرے میں ڈالیں گے۔

ابراہیم بن محمد(جو ابراہیم امام کے نام سے مشہور ہیں)کا نام ایک ہی دفعہ زبانوں پر آئے گا اور لوگ اس کی طرف متوجہ ہوں گے۔مروان حمار اسے گرفتار کرے گا اور اسے ''حرّان''لے جائے گااور اسے زندان میں مار دے گا ۔اس کے بھائی منصور اور سفّاح مدینہ سے ''حیرہ''کی طرف کوچ کریں گے۔

 ابو سلمہ انہیں کے گھر میں خلال  چھپائے گا۔ابو مسلم خراسانیوں کے بہت بڑے لشکر کے ساتھ عراق کی طرف روانہ ہو گا اور خود کو کوفہ پہنچائے گا۔جب وہ ان دو بھائیوں یعنی منصور اور سفّاح کودیکھے گا تو ان سے پوچھے گا :تم میں سے کون ابن حارثیّہ ہے ؟سفّاح کے بارے میں بتایا جائے گا اور ابو مسلم خلافت کے عنوان سے اسے سلام کرے گا۔پھر سفّاح ،منصور ،کوفہ کے کچھ رہائشی اور خاندان بنی ہاشم میں سے کچھ لوگ کوفہ کی طرف روانہ ہوں گے اور مسجدمیں جائیں گے جب کہ ابو مسلم خراسانی ان کے پیش پیش ہو گادوسری طرف ''حرّان''میں مروان بطورخلیفۂ  اموی  حکومت کرے گا جب کہ کوفہ میں لوگ سفّاح کی عباسی خلیفہ کے عنوان سے بیعت کریں گے۔

١٣٢ھ میں تمام مختلف گروہ بنی امیہ کے خلاف متحدہو جائیں گے ۔مروان حمار جنگ زاب میں شکست کے بعد ایک شہر سے دوسرے شہر بھاگے گا یہاں تک کہ بصرہ میں مارا جائے گا اور اس کا خاندان قیدی و در بہ درہو جائے گا۔

مؤرخین کہتے ہیں:بنی امیہ کی مشکلات کے انہیںایّام میں ایک دن مروان اپنے گدھے سے پیشاب کرنے کے لئے اترا اور جب واپس آیا اور اس نے گدھے پر سوار ہونا چاہا تو گدھا اس کے قابومیں نہ آیا اور اس سے بھاگ گیا جب کہ اس کے لشکر والے یہ صورت حال دیکھ رہے تھے۔اسی وجہ سے مروان بن محمد کو''مروان حمار''کا  لقب دیا گیا ۔لوگ کہتے تھے:''ذھبت الدولة ببولة'' یعنی بنی  امیہ کی حکومت پیشاب کے ساتھ بہہ گئی۔چونکہ حقیقت میں اسی دن مروان کی حکومت ختم ہوئی  اور سمجھ گیا کہ اب زمین و زمان دونوں اس کے ساتھ سازگار نہیں ہیں۔

جنگ زاب (عراق میں موصل کے نزدیک ایک مقام) میں جب بھی مروان اپنی فوج کے کسی دستہ کو لڑنے کا حکم دیتا تھا وہ جواب میں کہتے تھے:کسی دوسرے دستہ کو حکم دو۔اس طرح سے وہ اس کا حکم ماننے سے انکار کرتے رہے ۔ بالآخر اس نے اپنے سپہ سالار سے کہا: اٹھو اور جنگ کے لئے جاؤ۔ اس نے جواب میں کہا:میں ہر گز اپنی زندگی ہلاکت میں نہیں ڈالوں گا۔

مروان نے کہا:میں تمہیں یہ کردوں گا وہ کر ددوںگا اور اس طرح اسے دھمکیاں دی۔

 سپہ سالار نے مروان سے کہا:مجھے اچھا لگتا اگر تم میں ایسا کرنے کی طاقت ہوتی ۔جب مروان نے جنگ میں اپنے لشکر والوں کی سستی دیکھی تو اس نے لشکر گاہ کے درمیان بہت زیادہ سکہ رکھ دیئے اور کہا:اے لوگو!جنگ کرو اور ان سکّوں میں سے اٹھا لو۔

 سپاہی جنگ کئے بغیر ہی سکّوں کی طرف بڑھے اور انہوں نے ان میں سے سکہ اٹھالئے ۔کسی شخص نے مروان کو بتایا کہ لوگ سکہ اٹھا کر جا رہے ہیں۔مروان نے اپنے بیٹے کو حکم دیا کہ فوج کے پیچھے کھڑے ہو جاؤ اور جو بھی ان سکّوں میں سے اٹھا کر جانے لگے اسے قتل کر دو۔

 جب مروان کا بیٹا اپنے پرچم کے ساتھ لشکر کے پیچھے روانہ ہوا تو لوگوں نے چلانا شروع کر دیا :شکست!شکست! اور سب کے سب بھاگ گئے اور دجلہ سے بھی گذر گئے۔کہتے ہیں کہ دجلہ میں غرق ہونے والوں کی تعداد قتل ہونے والوں سے زیادہ تھی۔

 جب مروان کو ''زاب''میں شکست ہوئی تو وہ موصل کی طرف روانہ ہوا گیا ۔موصل کے لوگوں نے نہر کا پل اٹھایالیا اور اسے وہاں سے گذرنے نہ دیا۔مروان کے ساتھیوں نے چلا کر کہا:اے موصل کے لوگو!یہ امیرالمؤمنین !ہے کہ جو پل سے گذرنا چاہتا ہے۔

 انہوں نے کہا:جھوٹ بولتے ہو،امیرالمؤمنین فرارنہیں ہے اور انہوں نے مروان کو گالیاں دیں  اور کہا:اس خدا کی حمد و ثنا کہ جس نے تم سے طاقت چھین لی اور تمہاری حکومت کو ختم کر دیا اور اہلبیت پیغمبر علیہم السلام کو ہم تک پہنچا دیا۔

 جب مروان نے یہ باتیں سنیں تو ''بلد''([2])کی طرف چل پڑا اور وہاں سے

حرّان اور حرّان سے دمشق اور دمشق سے مصر میں داخل ہوا جب کہ عبداللہ بن علی بھی اس کا پیچھا کر رہا تھا۔([3])

آخر کار مروان مصر میں مارا گیا اور اس کا سر کوفہ میں ابوالعباس سفّاح کے پاس بھیج دیا گیا۔لیکن اس کی عورتیں، بچے اور خاندان والے بنی العباس کے کارندوں سے بچنے کے لئے شہر شہر در بہ در ہو رہے تھے اور انہوں نے جنوب افریقہ کا راستہ اختیار کر لیا۔

 یہ بیچارے تو اپنوں کی لگائی ہوئی آگ میں جل رہے تھے یہ جہاں کہیں بھی جس کسی کے پاس پناہ لیتے تھے وہ لوگ بنی العباس کے خوف سے انہیں خود سے دور کر دیتے تھے۔سر زمین نوبہ (یعنی سوڈان) میںان لوگوں پر وحشی اقوام نے حملہ کر دیا اور ان کے پاس جو کچھ تھا وہ انہوں نے لوٹ لیا۔ خاندان مروان میں سے کچھ مارے گئے اور کچھ لوگ بھوک پیاس کی وجہ سے جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔

 یعقوبی کے مطابق ان کی حالت اتنی  خراب ہو چکی تھی کہ اپنا پیشاب پیتے تھے تا کہ پیاس کی وجہ سے ہلاک نہ ہو جائیں۔آل مروان سے کچھ زندہ بچ جانے والے ''باب المندب''پہنچ گئے (جب کہ وہ ننگے،بھوکے اور پیاسے تھے۔وہ کشتی میں کام کرنے والوں کی صورت میں چھپ کر حجاز میں داخل ہوئے اور اسی طرح مخفیانہ طور زندگی گذارتے رہے۔

 یہ ہے امیر المؤمنین علی علیہ السلام کے کلام کا معنی کہ جو آپ نے فرمایا:

 خدا کی قسم !ان کے اقتدار و اختیار کے بعد جو کچھ بھی ان کے ہاتھوں میں ہو گاوہ

اس طرح پگھل جائے گا جس طرح کہ آگ پر چربی پگھل جاتی ہے۔([4])

 


[1] ۔ امام علی علیہ السلام اس خطبہ میں فرماتے ہیں: '' یسِیلون مِن مستثارِہِم کسیلِ الجنّتینِ''شاید یہ اس طرف اشارہ ہو کہ بنی امیہ پر دو طرف سے حملہ کیا جائے گا۔ایک ایرانیوں کی طرف سے یعنی ابومسلم خراسانی  اور دوسرا حجاز کوفہ وغیرہ کے لوگوں کی طرف سے۔

مؤلف:ممکن ہے کہ حضرت امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کی مراد بنی امیہ کی آخری حکومت ہے کہ جو سفیانی کے توسط سے تشکیل پائے گی اور اس پر جناب یمانی اور سید حسنی کی طرف سے حملہ ہو گا۔

[2] ۔ بلد، دجلہ کے کنارے موصل سے سات فرسنگ (ایک فرسنگ ساڑھے تین میل کے برابر ہوتا ہے ایک قدیم شہر ہے ۔ (معجم البلدان)

[3]۔ تاریخ فخری:١٩٨-١٩٥

[4]۔ پیشگوئی ھای امیر المؤمنین علیہ السلام :٣٠٥

 

 

    ملاحظہ کریں : 2248
    آج کے وزٹر : 69127
    کل کے وزٹر : 180834
    تمام وزٹر کی تعداد : 141784628
    تمام وزٹر کی تعداد : 97761838