حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
بنی امیہ کی حکومت کے بارے میں رسول اکرمۖ کی پیشنگوئی

بنی امیہ کی حکومت کے بارے

میں رسول اکرمۖ کی پیشنگوئی

پیغمبر اکرمۖ نے بنی امیہ اور ان کے بعض افراد کے بارے میں کچھ پیشنگوئیاں کیں اور لوگوں کو اسلام کے ساتھ ان کی دشمنی اور نفاق سے آگاہ کیا۔جناب ابوذر نے آنحضرت سے معاویہ کے بارے میں جو پیشنگوئی نقل کی،ہم ابن ابی الحدید کے قول کے مطابق کچھ مطالب ذکر کریں گے ۔جب بھی ععاص کی اولاد کی تعداد تیس تک پہنچ جائے گی تو اس کے بارے میں رسول اکرمۖ نے کچھ مطالب بیان فرمائے ہیں۔اب ہم ان تیس افراد کے بارے میں یعقوبی(اہلسنت کے ایک مؤرخ) کی واضح عبارت سے آنحضرت کی پیشنگوئی بیان کرتے ہیں۔

     وہ کہتے ہیں: معاویہ نے عثمان کو لکھا کہ تم نے ابوذر کے ذریعے اپنے لئے شام کو تباہ کر لیا۔

     پس اس کے لئے لکھا کہ اسے بے کجاوہ سواری پر سوار کرو۔

     اس طرح انہیں مدینہ لایا گیا جب کہ ان کے دونوں زانوں کا گوشت الگ ہو چکا تھا۔پس جب وہ آئے تو اس کے پاس ایک گروہ موجود تھا،اس نے کہا:مجھ سے کہا گیا ہے کہ تم یہ کہتے ہو:میں نے پیغمبر سے سنا ہے کہ وہ کہتے تھے:

     اذا کملت بنو امیّة ثلاثین رجلاً اتّخذوا بلاد اللّٰہ دولاًوعباد اللّٰہ خولاً،و دین اللّٰہ دغلاً۔

     جب بھی بنی امیہ کی تعداد تیس افراد تک پہنچ گئی تووہ خدا کی زمین کو اپنی ملکیت سمجھیں گے۔ خدا کے بندوں کو اپنا نوکر  اور خدا کے دین کومکاری و فساد سمجھیں گے۔

کہا: ہاں؛ میں نے پیغمبرخداۖ سے سنا تھا کہ آپ نے ایسا ہی فرمایا۔

 پھر ان سے کہا:کیا تم لوگوں نے رسول خدا ۖ سے کچھ سنا ہے تو بیان کرو؟پھر حضرت علی بن ابی طالب علیہما السلام کے پاس بھیجا اور آنحضرت اس کے پاس آئے۔

 ان سے کہا:اے ابوالحسن! کیا آپ نے پیغمبر خداۖ سے یہ حدیث سنی ہے کہ جسے ابوذر بیان کر  رہے ہیں؟اور پھر حضرت علی علیہ السلام سے سارا واقعہ بیان کیاگیا۔

     حضرت علی علیہ السلام نے فرمایا:ہاں

     اس نے کہا:آپ کس طرح گواہی دے رہے ہیں؟فرمایا:

     رسول خداۖ کے اس فرمان کی روشنی میں:

     ''ما اظلّت الخضراء ولاأقلّت الغبراء ذا لھجة أصدق من ابی ذر''([1])

     آسمان نے سایہ نہیں کیا اور زمین نے کسی کو خود پر جگہ نہیں دی کہ جو ابوذر سے زیادہ سچا ہو۔

     پس ابوذر مدینہ میں کچھ دن تک ہی تھے کہ عثمان نے ان کے پاس کسی کو بھیجا اور کہا کہ خدا کی قسم تم مدینہ سے باہر چلے جاؤ۔

     ابوذر نے کہا:کیا تم مجھے حرم رسول خداۖ سے نکال رہے ہو؟

     کہا:ہاں؛جب کہ تم ذلیل وخوارہو!

     ابوذرنے کہا:میں مکہ چلا جاؤں ؟

     کہا :نہیں

     پھر کہا:کیا بصرہ چلا جاؤں؟

 کہا: نہیں

 ابوذر نے کہا:پس پھر کوفہ چلا جاؤں؟

 کہا: نہیں؛ لیکن ربذہ چلے جاؤ کہ جہاں سے آئے تھے تا کہ وہیں مر جاؤ۔اے مروان اسے باہر نکال دو اور کسی کو اس سے بات کرنے کی اجازت نہ دو یہاں تک کہ یہ یہاں سے باہر نکل جائے۔

 پس ابوذر کو ان کی زوجہ اور بیٹی کے ساتھ اونٹ پر سوار کر کے باہر نکال دیا گیا۔ حضرت علی علیہ السلام، امام حسن علیہ السلام،امام حسین علیہ السلام،عبداللہ بن جعفر اور عمار بن یاسر جناب ابوذر سے ملنے کے   لئے شہر سے باہرآئے اور جب ابوذر نے حضرت علی علیہ السلام کو دیکھا تو آگے بڑے اور آپ کی دست بوسی کی اور پھر رونا شروع کر دیا اور کہا:میں جب بھی آپ کو اور آپ کے بیٹوں کو دیکھتا ہوں تو مجھے پیغمبر اکرمۖ کا فرمان یاد آ جاتا ہے اور رونے کے علاوہ میرے پاس اور کوئی چارہ نہیں ہوتا۔

 حضرت علی علیہ السلام ان سے بات کرنے  کے لئے گئے لیکن مروان نے کہا:امیر المؤمنین !نے منع کیا ہے کہ کوئی بھی ان کے ساتھ بات نہ کرے۔

 حضرت علی علیہ السلام نے تازیانہ اٹھایا اور مروان کے اونٹ پر مارا اور کہا:دور ہو جاؤ؛ خدا تمہیں آگ میں جلائے۔ اور پھر آپ نے جناب ابوذر کو الوداع کیا اور ان کے ساتھ گفتگو کی کہ جن کی تفصیلات بہت طولانی ہیں۔([3]،[2])

 اس روایت میں پیغمبر اکرمۖ کے فرمان کی بناء پر جب بنی امیہ کے افراد کی تعداد تیس ہو جائے گی تو وہ نہ صرف ممالک کو اپنا مال ،خدا کے بندوں کو اپنا نوکر و فرمانبردارسمجھیں گے بلکہ اصل دین کو مکاری و فساد قراد دیں گے۔اور یہ خود اس چیز کی دلیل ہے کہ ان کے اسلام کی کوئی بنیاد نہیں تھی بلکہ وہ صرف ایک ظاہری پہلو تھا۔

سب لوگ جانتے ہیں کہ معاویہ نے خدا کے پاک بندے  اور رسول خداۖکے محبوب صحابی جناب ابوزر کے ساتھ کیسا سلوک کیا۔

 


[1]۔ نہج البلاغہ ابن ابی الحدید:٢٨٣

[2]۔ نہج البلاغہ

[3]۔ تاریخ یعقوبی:ج۲ص٦۷

 

 

    ملاحظہ کریں : 2244
    آج کے وزٹر : 68710
    کل کے وزٹر : 180834
    تمام وزٹر کی تعداد : 141783795
    تمام وزٹر کی تعداد : 97761418