حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
٣- ابوہریرہ

٣- ابوہریرہ

صحیح بخاری میں ایک طولانی حدیث کے ضمن میں ذکر ہوا  ہے:ابوہریرہ نے اپنا پیٹ بھرنے کے لئے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی ملازمت کی۔[1]

اسی جگہ ابن مسبب اور ابو مسلمہ کے سلسلہ سے ابوہریرہ سے نقل ہوا ہے کہ اس نے کہا:میں اپنا پیٹ بھرنے کے لئے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ہمراہ تھا!‘‘ [2]

اسی طرح بخاری نے ابوہریرہ تک اپنی سند سے خود اسی سے نقل کیا ہے:لوگ کہتے ہیں کہ ابوہریرہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی طرف بہت زیادہ حدیثوں کی نسبت دیتا ہے حلانکہ میں ہمیشہ آنحضرت کے ساتھ ہوتا تھا کہ شاید میرا پیٹ بھر جائے۔[3]

یا خود ابوہریرہ سے نقل ہوا ہے :میں نے خود کو دیکھا کہ میں بھوک کے مارے  رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے منبر اور عائشہ کے حجرے کے درمیان نڈھال گرا پڑا تھا ،جو کوئی بھی آتا میری گردن پہ پاؤں رکھتا اور سوچتا  کہ میں پاگل ہوں جب کہ میں پاگل نہیں تھا بلکہ سخت بھوک کی وجہ سے میری  ایسی حالت تھی۔[4]

گویا اس نے  پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ اپنی ساری زندگی راستہ میں بیٹھ کر اپنی بھوک کا اظہارکرتے ہوئے اور تھوڑے سے کھانے کی درخواست کرتے ہوئے گزار دی جب کہ اس کا کوئی اور کام نہیں تھا۔اس کا  نام نہ تو کسی جنگ میں ملتا ہے اور نہ ہی صلح میں۔البتہ کہتے ہیں کہ وہ جنگ موتہ میں دشمن کے لشکر سے ڈر کر بھاگ گیا تھا[5]،اس کے علاوہ اس کی  بہادی کا کوئی اور واقعہ ذکر نہیں ہوا ہے!

جب معاویہ تخت خلافت پر بیٹھا اور ناجائز اموی حکومت نے اسلامی معاشرے کی ذمہ داری سنبھالی تو ابوہریرہ کو دوبارہ  نئی زندگی ملی اور اس کی معمولی زندگی ایک شاہانہ زندگی میں بدل گئی۔

ابوریّہ لکھتے ہیں:جب حضرت علی علیہ السلام اور معاویہ کے درمیان یا دوسرے لفظوں میں بنی امیہ اور بنی ہاشم کے درمیان جنگ کی آگ بھڑکی اور مسلمان مختلف فرقوں میں بٹ گئے تو ابوہریرہ بھی اپنے نفس اور اپنی ہواو ہوس کے پیروی کرتے ہوئے معاویہ کے ساتھ مل گیا؛کیونکہ معاویہ کی طرف اسے طاقت،دنیا کا مال،عیش و عشرت اور دنیاوی زندگی کی تمام تر سہولتیں مہیا تھیں ، لیکن حضرت علی علیہ السلام کی طرف تقوی و پرہیزگاری کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔

یہ واضح سی بات ہے کہ ابوہریرہ ایسے امور سے بیزار تھا ۔اس بناء پر ابوہریرہ نے معاویہ کے دربار کی طرف جانے والا راستہ اختیار کیا تا کہ وہ اس کے رنگ برنگے دسترخوان،تحائف اور قیمتی انعامات سے مستفید ہو سکے اور اپنی نفسانی خواہشات کو پورا کر سکے۔

وہ ابوہریرہ جو کبھی بھوک کی وجہ سے غش کھا کر دروازے پہ گر جاتا تھا-جیسا کہ اس نے خود کہا ہے-وہ کس طرح بنی امیہ کی دولت،طاقت اور خوش ذائقہ و  لذیذ کھانوں کو ہاتھ سے جانے دیتا اور کس طرح حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ جو کی روٹی پرگزارا کر سکتا تھا؟یہ ایک  ایسی چیز ہے جو انسانی طبیعت اور نفسانی غرائز کے ساتھ سازگار نہیں ہے ، مگر چند گنے چنے افراد کہ جنہیں خدا نے لغزشوں سے محفوظ رکھا ہو۔[6]

بنی امیہ کے برسرکار آنے سے ابوہریرہ بھی  ان کے دوستوں اور مبلّغوں کے دائرے میں آگیا، جس نے   اپنی زبان اور روایات سے ان کی مدد کی اور اس طرح اسے ان کا لطف،عنایات،تحائف اورلذیذ غذائیں میسر آئیں ۔[7]بالخصوص ’’مضیرة‘‘[8] جو معاویہ کی بہترین غذا شمار کی جاتی تھی اور ابوہریرہ کووہ غذا اتنی پسند تھی کہ اسے اسی کے  نام کا لقب دے دیا گیا اور یہ لقب اس کا لازمہ بن گیا اور وہ ہر زمانے میں اسے ’’شیخ المضیرة‘‘کے نام سے پہچانا جانے لگا۔

محمد عبدہ کہتے ہیں:جب لوگوں نے حضرت علی بن ابی طالب علیہما السلام کی بیعت کی تو اس کے بعد معاویہ نے خلافت کا دعوی کیا لیکن حضرت علی علیہ السلام کی حیات میں لذت و شہوت کے پیروکاروں اور مضیرة (جو معاویہ کے کھانوں میں سے ایک تھا)میں دلچسپی رکھنے والوں کے علاوہ کسی نے معاویہ کی طرفداری نہیں کی۔اور اس میں کوئی شک و شبہ  نہیں ہے کہاسی وجہ سے  مضیرة کھانے والے معاویہ کی خلافت کی گواہی دی تھی۔[9]

کہتے ہیں:ابوہریرہ مضیرة کو بہت پسند کرتا تھا اور وہ  معاویہ کے دسترخوان پر یہ غذا کھاتا تھا اور جب نماز کا وقت ہوتا تھا تو حضرت علی علیہ السلام کے پیچھے نماز پڑھتا تھا اور جب بھی اس سے اس بارے میں بات کی جاتی تو اس کے جواب میں کہتا:

’’معاویہ کا مضیرة  زیادہ لذیذہے اورحضرت علی علیہ السلام کے پیچھےنماز  افضل ہے‘‘۔[10]

 


[1]۔ صحیح بخاری:ج١ص٢٤،کتاب العلم،باب حفظ علم .

[2]۔ صحیح بخاری:ج٣ص١،کتاب البیوع.

[3]۔ صحیح بخاری:ج٢ص١٩٧،باب مناقب جعفر بن ابی طالب .

[4]۔ صحیح بخاری:ج٤ص١٧٥،کتاب اعتصام بہ کتاب و سنت،نیز ملاحظہ کریں:تذکرة الحفّاظ:ج١ص٣٥اور الاصابة:ج٤ص٢٠٢.

[5]۔ المستدرک:٤٢٣ .

[6]۔  شیخ المضیرة:٢٠٧ اور ٢٠٨،و أضواء علی السنّة المحمدیّة:٢١٣ .

[7]۔  سید شرف الدین عاملی لکھتے ہیں:امویوں کے خلافت پر آنے کے بعد انہوں نے ابوہریرہ کو زمین سے اٹھا کر اس سے غربت وتنگدستی اور بیچارگی کی خاک جھاڑ دی اور اسے ریشم کا بہترین لباس پہنا دیا۔ انہوں نے اسے ریشم اور لیلن کے کپڑے پہنائے اور محلہ عقیق میں اس کے لئے محل بنوایا  اور اس طرح انہوں نے اس کے گلے میں نوکری کا طوق ڈال دیااور اس کے نام کو بلند کیا اور اسے مدینہ کی حکومت دے دی۔(ابوہریرہ اور جعلی حدیثیں:٥٠) .

[8] ۔  مضیرة گوشت کی ایک قسم ہے جسے کبھی لسّی اور کبھی تازہ دودھ کے ساتھ ملا کر پکاتے ہیں اور پھر اس میں مصالحہ اور دوسری چیزیں ڈالتے ہیں جس سے وہ مزید لذیذ ہو جاتی ہے۔(شیخ المضیرة:٥٥).

۱۔ شیخ المضیرة:٥٧ .

۲۔  اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:١٢٧ .

    ملاحظہ کریں : 2559
    آج کے وزٹر : 65725
    کل کے وزٹر : 180834
    تمام وزٹر کی تعداد : 141777828
    تمام وزٹر کی تعداد : 97758433