حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
٤- عبداللہ بن عمرو عاص

٤-عبداللہ بن عمرو عاص

اسے مصر میں اپنے باپ عمروعاص سے ارث میں سونے کے خزانے ملے تھے اسی  لئے اسے پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اصحاب میں سے بادشاہوں میں شمار کیا جاتاہے۔[1]

بعض آثار اور تاریخی روایات اس کی حکایت کرتی ہیں کہ وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی احادیث بھی لکھتا  تھاحتی کہ ’’صادقہ‘‘کے نام سے ایک صحیفہ کو بھی اس سے نسبت دی جاتی ہے کہ جس میں اس نے پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حدیثوں کو جمع کیا گیا ہے  ۔[2]

بخاری نے بھی کتاب علم میں ابوہریرہ سے نقل کیا ہے کہ وہ کہتا تھا: عبداللہ بن عمرو کے علاوہ کسی نے بھی مجھ سے زیادہ پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے حدیثیں نقل نہیں کی ہیں ، وہ جو کچھ بھی سنتا اسے لکھ لیتا لیکن میں لکھتا نہیں تھا۔

اسی طرح کہتے ہیں:اس نے سریانی زبان بھی سیکھی تھی جو تورات کی اصل زبان ہے

طبقات ابن سعد میں شریک بن خلیفہ سے نقل ہوا ہے کہ وہ کہتا ہے:میں نے عبداللہ کو سریانی زبان کی کتابوں کا مطالعہ کر تے ہوئے دیکھا۔[3]

عبداللہ اور اسرائیلی ثقافت

مؤرخین نے نقل کیا ہے کہ سن تیرہ ہجری میں ابوبکر نے شام کو فتح کرنے کے لئے ایک لشکر کو اس کی طرف بھیجا اور فوج کے ایک گروہ کی کمانڈ عمرو بن عاص کو دی۔

کہتے ہیں:عمرو کا بیٹا یعنی عبداللہ بھی اس جنگ میں شامل تھا اور ’’یرموک‘‘کی سرزمین پر مسلمانوں اور رومیوں کے درمیان جو شدید جنگ ہوئی اس میں عبدااللہ اسی لشکر کا علمدار تھا جس کی کمانڈ اس کے باپ کے پاس تھی۔[4]

عبداللہ  کے لئے جنگ ’’یرموک‘‘کے دوران  پیش آنے والے واقعات میں ایک اسے دوبار اہل کتاب کی کتابوں سے لدے اونٹوں کا ملنا تھا۔(جو اہل کتاب کے معارف سے اس کی آشنائی پر بہت اہم اثر رکھتا ہے)وہ ان غنائم کا بہت خیال رکھتا تھا اور مسلمان کے لئے اہل کتاب کے انہی معارف سے بہت زیادہ مطالب نقل کرتا تھا ، جس کی وجہ سے تابعین سے پہلے کے افراد عبداللہ سے احادیث نقل کرنے سے پرہیز کرتے تھے۔[5]

وہ مسلمانوں کے لئے ان کتابوں کے مطالب بیان کرنے میں اتناافراط کرتا تھا کہ بعض اسے واضح الفاظ میں کہتے تھے کہ ان دوکتابوں کے مطالب بیان کرنے سے پرہیز کرے۔

احمد بن حنبل کا اپنا قول اس کی اپنی مسند میں اس مدّعا پر بہترین شاہد ہے:اس نے نقل کیا ہے کہ ایک دن کوئی شخص عبداللہ کے پاس آیا اور اس سے کہا:تم  نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے جو کچھ سنا ہے ،اس میں سے کچھ میرے لئے بھی نقل کرو ،نہ کہ اونٹوں کے اس وزن سے کہ جوفتح ’’یرموک‘‘ میں تمہارے ہاتھ لگا۔[6]

ابی سعد سے ایک دوسری روایت میں نقل ہوا ہے کہ میں عبداللہ عمرو کے پاس گیا اور اس سے کہا: تم نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی احادیث سے جو کچھ سنا ہے، اس میں سے نقل کرو نہ کہ تورورات و انجیل سے۔[7]،[8]۔

 


[1]۔ تذکرة الحفّاظ:ج١ص٤۲.

۴۔  طبقات ابن سعد:ج٤ص٢٦١ اورج ٥ص١٨٩، ’’اسرائیلیات و أثرھا فی کتب التفسیر‘‘سے اقتباس:١٤٥ .

۱ ۔  طبقات ابن سعد:ج٤ص٢٦١،’’اسرائیلیات و أثرھا فی کتب التفسیر‘‘سے اقتباس:١٤٦ .

۲۔  اسد الغابة:ج٣ص٢٤٣.

۳۔ فتح الباری:ج١ص١٦٧’’ أضواء علی السنّة المحمدیّة‘‘سے اقتباس:١٦٤،نیز مملاحظہ فرمائیں:تذکرة الحطّاظ:ج١ص٤٢.

۴۔  مسند احمد بن حنبل:ج٢ص١٩٥،٢٠٢،٢٠٣،٢٠٩.نیز ملاحظہ کریں:تفسیر ابن کثیر:ج٣ص١٠٢.

۵۔  مسند احمد بن حنبل:ج١١ص٧٨،٧٩،١٧٣.

[8]۔  اسرائیلیات وتأثیر آن بر داستان ہای انبیاء در تفاسیر قرآن:١٣٨ .

    ملاحظہ کریں : 2132
    آج کے وزٹر : 4003
    کل کے وزٹر : 165904
    تمام وزٹر کی تعداد : 143284573
    تمام وزٹر کی تعداد : 98834516