حضرت امام صادق علیہ السلام نے فرمایا : اگر میں ان(امام زمانہ علیہ السلام) کے زمانے کو درک کر لیتا تو اپنی حیات کے تمام ایّام ان کی خدمت میں بسر کرتا۔
زمانۂ ظہور میں برکت

زمانۂ ظہور میں برکت

٢۔ ظہور  کے زمانے میں ایمان و تقویٰ کی وجہ سے ان پر زمین و آسمان سے خدا کی برکات برسیں گی۔خدا کسی بھی درخت سے جس پھل کا بھی ارادہ کرے وہ اسی درخت سے پیدا ہوگا۔اسی طرح کوئی بھی پھل کسی خاص موسم سے مختص نہیں ہوگا۔گرمیوں میں درخت سردیوں کے پھلوں اور سردیوں میں گرمیوں کے پھلوں سے لدے ہوں گے۔

برکت کا مسئلہ ایک ایسی بڑی حقیقت ہے کہ جس کی وجہ سے ظہور کے بابرکت زمانے میں دنیا کا چہرہ ہی بدل جائے گا اور زمانِ ظہور میں برکتوں کے نزول کی وجہ سے لوگ غیبت کے زمانے کے سخت مصائب بھول جائیں گے۔

جیساکہ ہم نے کہا کہ اس وقت دنیا کا نیا روپ سامنے آئے گا۔پوری روئے زمین قدرت،طاقت،ثروت اور نعمتوں سے بھری ہوگی۔فقر و تنگدستی کا نام و نشان باقی نہیں رہے گا۔

اس منوّر زمانے میں ضعف،ناتوانی اور شکستگی کو شکست ہوجائے گی ان کی جگہ قدرت،توانائی اور خوشیاں آجائیں گی۔

اس پُر مسرّت زمانے میں لبوں پر مسکراہٹیں اور دل شادی اور شادمانی سے  لبریز ہوں گے۔

ملائکہ کے توسط سے برکت وجود میں آئے گی ۔مادّی لحاط سے گندم کی پیداوار کے لئے اسے زمین میں بونے اور پھر اسے ہوا و پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔لیکن جو غیر محسوس امور سے آشنائی رکھتے  ہوں،ان کے لئے اشیاء کو ایجاد کرنا فقط عادی و طبیعی وسائل میں منحصر نہیں ہے۔بلکہ وہ غیر طبیعی طریقوں سے بھی طبیعی محصول کو ایجاد کر سکتے ہیں۔

یہ درست ہے کہ خدا وند متعال نے مختلف کاموں کو وسائل و اسباب کی بنا پر قرار دیا ہے ۔لیکن اس وجہ سے ہمیں وسائل و اسباب میں اتنا مشغول نہیں ہونا چاہیئے کہ ہم مسبب الاسباب کو ہی فراموش کردیںاور یہ گمان کریں کہ خدا وند کریم نے ایجاد  امورکے لئے جو اسباب قرار دیئے ہیں،وہ صرف مادّی یا ایسے امور میں منحصر ہیں کہ جن سے ہم آگاہ ہیں۔

٣۔ ظہور کے زمانہ میں لوگ گمراہی و ضلالت سے نکل کر ہدایت پالیں گے۔یہ حضرت بقیة اللہ الاعظم (عج)کی عالمی حکومت اور اسلام کے عالمی دین ہونے کی دلیل ہے۔

دورِ حاضر کے برخلاف عصرِ ظہور میں دنیا کے سب لوگ رسولِ اکرم ۖ کے دستورات اور اسلام کے آئین پر ایمان لائیں گے اور تقویٰ اختیار کریں گے۔

یہ بدیہی و واضح ہے کہ رسول اکرمۖ کے دستورات،مکتبِ اہلبیت علیہم السلام اور قرآن کی پیروی کے علاوہ کوئی دوسری چیز نہیں ہے اور آنحضرت ۖ کا اجرِ رسالت فقط مودّت ذوی القربیٰ ہے۔

قرآن مجید میں ارشاد خداوندی ہے۔ 

'' قُلْ لَّا اَسْئَلُکُمْ عَلَیْہِ اَجْراً اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبیٰ'' ([1])

آپ کہہ دیجیئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کوئی اجر نہیں چاہتا ،علاوہ اس کے کہ میرے اقربا سے محبت کرو۔

 

دنیا کے تمام لوگوں کے عقلی تکامل کی وجہ سے زمانِ نجات میں سب لوگ رسولِ اکرمۖکے فرامین کو قبول کریں گے اور خاندانِ وحی علیھم السلام     کی مودّت کو ادا کریں گے۔ مودّت اہلبیت علیہم السلام  سے ایسی محبت مراد ہے کہ جو ان کے نزدیک انسان کے تقرّب کا باعث بنے۔

''المودة ، قرابة مستفادة ''  ([2])

مودّت سے قرب و نزدیکی حاصل ہوتی ہے۔

اس روایت کی بناء پر معاشرے میں ایمان و تقویٰ آسمانی دروازوں کے کھلنے اور برکاتِ الہٰی کے نزول کا سبب ہے۔پس اگر آغاز بعثت سے لوگ پیغمبراکرم ۖکے احکامات کو قبول کرے اور خاندانِ عصمت و طہارت  علیھم السلام کی ولایت سے ہاتھ نہ اٹھاتے تو آج دنیا گرانی و ضلالت اور تباہی و بربادی کا منظر پیش نہ کررہی ہوتی اور خداوند کریم آسمانی برکات اور عطائے نعمت سے دریغ نہ کرتا۔

لیکن افسوس کہ جہالت و گمراہی کی آستین سے ستمگروں کے ہاتھ باہر نکلے اور سقیفہ میں خلافت کا ایسا بیج بویا کہ جو بعد میں تن آور درخت کی صورت اختیار کرگیا۔جس کے نتیجہ میں ظلم و ستم اور اختلافات کی آگ بھڑک اٹھی کہ جس کے شعلے آج بھی بلند ہورہے ہیںاور جب تک آستینِ عدالت سے امام عصر کا ظہور نہ ہوجائے،تب تک یہ آگ روشن رہے گی۔اماممہدی علیہ السلام اپنے عدل اور رحمت سے اس آگ کو بجھائیں گے۔

 


[1]۔ سورہ شوریٰ،آیت: ٢٣

[2] ۔ بحارالانوار :ج٧٤ص١٦٥

 

 

    ملاحظہ کریں : 7219
    آج کے وزٹر : 55357
    کل کے وزٹر : 103128
    تمام وزٹر کی تعداد : 132373542
    تمام وزٹر کی تعداد : 91794543