امام صادق علیه السلام : اگر من زمان او (حضرت مهدی علیه السلام ) را درک کنم ، در تمام زندگی و حیاتم به او خدمت می کنم.
مرحوم علی کَنی اور ان کے صبر کا نتیجہ

مرحوم علی کَنی اور ان کے صبر کا نتیجہ

جنہوں نے مشکلات کے مقابلہ میں صبر سے کام لیا اور اپنے راسخ عزم اور ایمان کو ثابت کیا ان میں سے ایک ملّا علی کَنی ہے ۔ وہ نجف اشرف میں انتہائی فقر و احتیاج کے عالم میں زندگی بسر کررہے تھے وہ ہر ہفتہ میں ایک رات مسجد سہلہ میںجاتے اور دوسروں کو متوجہ کئے بغیر مسجد کے اردگرد کناروں میں ڈالے گئے روٹی کے ٹکڑوں کو جمع کرتے اور مدرسہ لے جاتے اور ایک ہفتہ اسی پر گزر بسر کرتے وہ مدتوں اسی طرح کرتے رہے اور صبر استقامت کو اپنی عادت بنا لیا پھر وہ نجف اشرف سے عازم کربلا ہوئے انہوں نے وہاں بھی انتہائی سختی اور تنگدستی میں زندگی گزاری لیکن کبھی صبر کا دامن نہ چھوڑا، اور   استقامت سے کام لیتے رہے پھر وہ اپنی مشکلات سے نجات پانے کے لئے حضرت حر سے متوسل ہوئے یہ رسم تھی کہ تنگدست افراد چہار شنبہ کے چندہفتے حضرت حر کی زیارت کو جاتے اور ان سے متوسل ہوتے۔ جناب حر سے متوسل ہونے سے ان کی مادی مشکلات حل ہوجاتیں مرحوم علی کَنی چہار شنبہ کی رات حضرت حر کی زیارت کو جاتے اور ایک رات حضرت حر نے خواب میں ان سے فرمایا میرے آقا نے تمہیں تہران کا آقا قرار دیا ہے ۔

اگلے روز ایک مومن ملا اور اسے پانی کا مشکیزہ عطا کیا دوسرے شخص نے اس سے وہ مشکیزہ ایک سال کے لئے ٢٥ تومان پر اجارہ پہ لے لیا  ۔ مرحوم علی ان پیسوں کے ذریعہ تہران پہنچ گئے دوسرے سال وہ مشکیزہ چار سوتومان پر اجارہ دیا آہستہ آہستہ ان کا حکم مانا جانے لگا ۔ یہاں تک کے ناصر الدین شاہ ان سے خائف ہونے لگا ۔

کہتے ہیں کہ شاہ کے حکم پہ تہران میں ایک خیابان بنا ئی گئی کہ جس کی وجہ سے ایک چھوٹی سی مسجد کو خراب کیا گیا چونکہ یہ شاہ کا حکم تھا لہٰذا تہران کے علماء اس کی مخالفت نہ کرسکے۔ انہوں نے ارادہ کیا کہ اس مسجد کے عوض دوسری جگہ ایک بڑی مسجد بنائی جائے مرحوم کو اس واقعہ کی خبر ہوئی تو انہوں نے شاہ کو ایک خط لکھا جس کی ابتداء میں لکھا تھا۔

'' بِسمِ اللّٰہ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ اَ لَم تَرَ کَیفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِاَصحَابِ الفِیلِ''

شاہ مسجد کو توڑنے سے باز رہا اور خیابان کا راستہ تبدیل کردیا ایک دن ناصر الدین شاہ اپنے خدام کے ہمراہ شکار کے قصد سے شہر کے دروازے سے باہر گیا شہر سے نکلنے کے بعد تہران کا نظارہ کیا اور کچھ دیر فکر کرنے کے بعد اپنے ارادہ پر پشیمان ہوا اور واپس شہر چلا گیا اس کے بعض قرابت داروں نے اس کی وجہ پوچھی تو شاہ نے یہ جواب دیا جب شہر سے باہر نکلا تو میری نظر شہر کے دروازوں پر پڑی تھی تو مجھے خیال آیا کہ اگر حاجی علی نے حکم کیا کہ شہر کے دروازوں کو بند کردو اور پھر نہ کھولیں تو میں کیا کروں گا؟ اس خوف و وحشت سے میں نے سوچا بہتر یہ ہی ہے کہ واپس شہر چلا جائوں مرحوم علی کنی کہ تجملات ایسے تھے کہ جو شہزادوں کے لئے بھی مورد توجہ تھے۔ کہتے ہیں کہ ناصرالدین شاہ کی بیٹی عراق  گئی اور نجف اشرف میں مرحوم شیخ انصاری کی زیارت سے شرفیاب ہوئی اس نے زہد عیسوی اور ورع یحیوی کی علائم شیخ میں پائے  ۔ شیخ کے کمرے  کے آدھے فرش پر ایک بوریا بچھا ہوا تھا حصیر کا ایک دستر خوان دیار پر آویزان تھا اور ایک چراغ تھا کہ جس سے نصف کمرے میں روشنی تھی جب اس نے کمرے کی یہ حالت دیکھی تو اس سے رہا نہ گیا اور کہا کہ اگر مجتہد وملّا ایسے ہیں تو پھر ملّا علی کیا کہتا ہے ؟

ابھی اس کی بات مکمل نہ ہوئی تھی کہ مرحوم شیخ انصاری اس حد تک غضبناک ہوئے کہ وہ رونے لگی اور کہا آقا میں تو بہ کرتی ہوں مجھے علم نہیں تھا ۔ مجھے معاف فرمائیں  ۔ شیخ نے اس کی غلطی سے در گذر فرمایا اور کہا جناب علی کنی کو حق ہے کہ وہ ویسی زندگی گذاریں ۔ کیونکہ وہ تمہارے باپ کے سامنے ویسی ہی زندگی گزارے لیکن میں طلّاب کے درمیان رہتا ہوں لہٰذامیری زندگی بھی طلّاب کے مانند ہونی چاہئے اگر مرحوم علی مشکلات کے مقابل میں صبر و استقامت کا مظاہرہ نہ کرتے تو انہیں یہ تمام محبوبیت ، قدرت وعظمت کیسے حاصل ہوتی۔

 

    بازدید : 7377
    بازديد امروز : 38522
    بازديد ديروز : 85752
    بازديد کل : 133092175
    بازديد کل : 92154270